وہ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں!

وہ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں!

ابوالمرجان فیضی

روح :

ويَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (الاسراٗ : 85)

اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کا (خاص) امر ہے اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے۔
اہل سنت کے نزدیک روح کی تعریف:
روح کسے کہتے ہیں؟ علما نے فرمایا ہم اس کی حقیقت نہیں جانتے۔ یہ ایسی چیز ہے کہ مخلوق اس کی حقیقت نہیں جانتی۔ حالانکہ سبھی کو اس کے وجود پر یقین ہے۔ اور ہر آسمانی دین میں یہ ایک متفق علیہ حقیقت ہے۔ اسی لیے یہود نے قریش سے کہا تھا کہ محمد ﷺ سے تین سوال کرو اور اس میں ایک سوال روح کے متعلق بھی تھا۔
اہل سنت کے یہاں روح ایک ایسی ذات ہے جو بذات خود قائم ہے۔ جو چڑھتی ہے۔ اترتی ہے۔ ملتی ہے۔ الگ ہوتی ہے۔ نکلتی ہے۔ اور جاتی ہے۔ آتی ہے اور حرکت کرتی ہے۔ بسیرا کرتی ہے اور یہ بات مختلف آیات سے ثابت ہے۔
روح اور جسم کا ایک دوسرے سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اور دونوں ایک دوسرے کا اثر قبول کرتے ہیں۔ اسی لیے روح نکالتے وقت اس کو نفس طیبہ یا نفس خبیثہ کہا جاتا ہے۔ (ابن ماجہ: رقم الحدیث 4262 و صححہ الالبانی)
اور عوام میں یہ مثل بھی مشہور ہے، جیسی روح ویسے فرشتے۔
(هيئة التحرير)

امر:
تفسیر ابن کثیر میں امر کے معنی تصرف کے بیان کیے گئے ہیں۔ بے شک اللہ رب العالمین سب کا خالق بھی ہے اور مالک بھی۔اور ہر قسم کا امر اور تصرف اسی کے لیے ہے۔ قرآن میں امر کا لفظ خلق کے ساتھ بھی وارد ہوا ہے، ارشاد ہے:

إنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ (اعراف :54)

کچھ شک نہیں کہ تمھارا پروردگار اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے۔ اور اسی نے سورج اور چاند ستاروں کو پیدا کیا سب اس کے حکم کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھو سب تخلیق بھی اسی کی ہے اور امر بھی (اسی کا ہے)۔ یہ اللہ رب العالمین بڑی برکت والا ہے۔

خلق اور امر کی مثال:
خلق کا مطلب ہے کسی چیز کے اجزا اور اعضا، ڈھانچہ، جسم مع شکل و صورت کی تشکیل، جیسے پنکھے، اے سی، کولر، بلب، ٹیوب لائٹ اور دیگر آلات کی ایجاد اور تخلیق کی گئی اور ان کو ان کی جگہ پر نصب کیا گیا۔ پھر ایک الیکٹریشین نے ان کو تاروں کے ذریعے جوڑا۔ جب یہ کام مکمل ہوگیا جسے خلق اور تدبیر کہہ سکتے ہیں تو امر کی باری آتی ہے۔ امر کا مطلب ہے اس کو چلادینا۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب اس میں بجلی دوڑا دی جائے۔ بجلی کا بٹن دبانا ’امر‘ ہے۔ اللہ کا امر ہمارے لیے وہی کام کرتا ہے جو الیکٹرونک آلات کے لیے بجلی کرتی ہے۔ اور اسی امر کے نتیجے کو ہی روح کہتے ہیں۔ حالانکہ ہم کو رب العالمین کے امر کی کیفیت نہیں معلوم۔ یہ ویسے ہی ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔
ہم بجلی کو جانتے ہیں۔ بجلی پیدا بھی کرتے ہیں۔ اور اس کو استعمال بھی کرتے ہیں۔ لیکن روح کو نہیں جانتے اور نہ ہی ہم کو اتنا علم دیا گیا ہے۔
پھر بھی لوگ برابر اس کے بارے میں تجسس میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور جستجو اور سوال کرتے رہتے ہیں۔

روح اور ریح:
عربی زبان میں روح کا لفظ ریح کے قریب ہے۔ جو ہوا کے معنی میں ہے، گویا یہ ایک ایسی لطیف ذات ہے جو ہوا کی طرح ہے۔اور جسم میں ایسے چلتی ہے جیسے پانی درختوں کی رگوں میں چلتا ہے۔ مزید یہ کہ روح کے ساتھ پھونکنے کا لفظ بھی جڑا ہوا ہے جو کہ ہوا کے لوازمات میں سے ہے۔

اللہ سبحانہ تعالی کا ارشاد ہے:

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (الحجر : 29)

جب اس کو (صورت انسانیہ میں) درست کرلوں اور اس میں اپنی (بےبہا چیز یعنی) روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔
حالانکہ ہم کو نفخ اور روح کی کیفیت نہیں معلوم۔ لیکن پھر بھی اس کی ضد منتفی ہوجاتی ہے۔ یعنی نفخ کا معنی تھوکنا نہیں ہے۔ اور نہ ہی روح کا معنی پانی ہوتا ہے۔
اسی طرح سے حدیث میں بھی روح کے پھونکے جانے کا ذکر ہے:

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ المَصْدُوقُ، قَالَ: ” إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ ”
(صحيح البخاري (4/ 111) صحيح مسلم 1/ 363 )

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ہم سے حدیث بیان کی۔ اور آپ صادق و مصدوق ہیں۔فرمایا: تم میں سے ہر ایک کی تخلیق ماں کے پیٹ میں جمع کی جاتی ہے۔ پھر اتنے ہی دن وہ جونک کی شکل میں رہتا ہے۔پھر اتنے ہی دن وہ بوٹی کی شکل میں ہوتا ہے۔ پھر اللہ ایک فرشتے کو بھیجتا ہے جسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے اس کا عمل، رزق اور عمر لکھ دو۔ اور یہ بھی کہ نیک بخت ہوگا یا بد بخت۔ پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ چنانچہ تم میں سے ایک آدمی بظاہر جنتیوں کا عمل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر نوشتہ تقدیر اس پر غالب آجاتا ہے اور وہ جہنمیوں کا سا عمل کرنے لگتا ہے۔ ایک دوسرا آدمی بظاہر جہنمیوں کا عمل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر نوشتہ تقدیر اس پر غالب آجاتا ہے اور وہ جنتیوں کا عمل کرنے لگتا ہے۔
واضح رہے کہ روح پھونکے جانے سے پہلے بھی بچہ بڑھتا ہے۔لیکن یہ نباتات کی طرح بڑھتا ہے۔ اس کی اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ جب کہ روح پھونکے جانے کے بعد خود سے حرکت کرنے لگتا ہے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حجۃ اللہ البالغہ میں حقیقہ الروح کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں:
حجة الله البالغة (1/ 52)
جان لو کہ روح زندگی کی شروعات ہے۔ روح پھونکنے سے ہم زندہ ہوجاتے ہیں اور اس کے جدا ہونے سے مرجاتے ہیں۔ جب آپ زیادہ غور کریں گے تو پتہ چلے گا کہ دل میں اخلاط کے خلاصے سے ایک لطیف بخار پیدا ہوتا ہے۔ یہ بخار حس و حرکت و غذا کی تدبیر کی قوتوں کا حامل ہوتا ہے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس بخار کی باریکی، کثافت، شفافیت، کدورت کا ان قوت و افعال پر زبردست اثر ہوتا ہے جو اس سے نکلتے ہیں۔اور کسی بھی عضو پر طاری کوئی آفت و بیماری اس بخار کی پیدائش کو فاسد کردیتی ہے۔ افعال کو بھی بیمار کردیتی ہے۔لطیف بخار کی پیدائش سے زندگی لازم ہے۔ اور اس کی تحلیل سے موت ضروری ہے۔ پہلی نظر میں یہ روح ہے۔ غور کرنے کے بعد یہ روح کا نچلا طبقہ ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے گلاب میں پانی، کوئلے میں آگ۔
جب آپ غور کریں گے تو پتہ چلےگا یہ لطیف بخار روح حقیقی (روح الہی) کی سواری ہے۔ اور اس سے تعلق رکھنے کا ایک مادہ ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ جوان ہوتا ہے اور بوڑھا ہوجاتا ہے۔ اس کے بدن کے اخلاط اور اس سے پیدا شدہ روح ہزار بار تبدیل ہوتی ہے۔ کبھی یہ چھوٹا تھا، اب بڑا ہوگیا۔ کبھی سیاہ تھا، کبھی سفید ہوجاتا ہے۔ کبھی جاہل تھا، اب عالم ہوگیا۔ اس کے علاوہ اور بھی دیگر اوصاف ہیں جو بدلتے رہتے ہیں۔حالانکہ یہ وہی شخص ہوتا ہے۔ مطلب ہمیں اوصاف کے باقی رہنے کا یقین نہیں۔ لیکن ہم مانتے ہیں کہ شخصیت وہی ہے۔ تو جو باقی ہے وہ یہ بدن نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ روح ہے۔ کیونکہ دونوں بدلتے رہتے ہیں۔ بلکہ اصل روح ایک الگ حقیقت ہے اور وہ ایک نورانی نقطہ ہے۔ اور یہ روح ہوائی یا بخار لطیف اس روح نورانی یا روح الہی کی سواری ہے۔ جب سواری سوار کے قابل نہیں رہ جاتی ہے تو سوار اپنی سواری سے جدا ہوجاتا ہے۔ اور موت واقع ہوجاتی ہے۔ (ترجمہ باختصار)
گویا روح کے دو حصے ہیں۔ ایک روح ہوائی یا بخار لطیف جو اخلاط کے خلاصے سے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اور پورے بدن میں پھیل جاتی ہے۔ لیکن یہ اصل روح نہیں ہے۔ یہ اصل روح (روح نورانی یا روح الہی) کا نچلا طبقہ ہے۔ اس کی سواری ہے۔ جب بیماری اور اعضا کے فاسد ہونے سے روح ہوائی بننا بند ہوجاتی ہے تو روح الہی اپنی سواری کھو دیتی ہے۔ اور جدا ہوجاتی ہے۔ اسی کو موت کہتے ہیں۔ ہم اسی نچلے طبقے یا روح ہوائی کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ روح الہی کے بارے میں نہیں۔
ابن خلدون اپنے مقدمہ میں فرماتے ہیں:

أن الروح القلبي و هو البخار اللطيف المنبعث من تجويف القلب اللحمي ينتشر في الشريانات و مع الدم في سائر البدن و به تكمل أفعال القوى الحيوانية و إحساسها. (مقدمة ابن خلدون: الفصل الثامن في علم نعبير الرويا)

حقیقتا دل کی روح وہ گرم ہوا ہےجو دل کی دیواروں کے بیچ موجود خالی جگہ سے اٹھتی ہے، اور شریانوں، اور خون کے ساتھ پورے جسم میں پھیلتی ہے۔ اور اسی سے جانداروں کی قوت اور ان کے احساس کی تکمیل ہوتی ہے۔
مزید فرماتے ہیں:

ثمّ إنّ هذا الرّوح القلبيّ هو مطيّة للرّوح العاقل من الإنسان والرّوح العاقل مدرك لجميع ما في عالم الأمر بذاته إذ حقيقته وذاته عين الإدراك. وإنّما يمنع من تعلّقه [1] للمدارك الغيبيّة ما هو فيه من حجاب الاشتغال بالبدن وقواه وحواسّه. فلو قد خلا من هذا الحجاب وتجرّد عنه لرجع إلى حقيقته وهو عين الإدراك فيعقل كلّ مدرك.

پھر یہ قلبی روح، انسان کے روح عاقل کی سواری ہے۔ اور روح عاقل عالم امر میں جو کچھ ہورہا ہے اسے بذات خود جانتی ہے۔ کیونکہ اس کی حقیقت اور ذات عین ادراک ہے۔ غیبی امور کی جانکاری کے تعلق سے جو چیز اس کو روکے رکھتی ہے، وہ بدن اوراس کے قوی و حواس میں مشغولیت کا حجاب ہے۔اگراس حجاب سے خالی اور الگ ہوجائے تو اپنی حقیقت کو لوٹ جائے۔ اور یہ حقیقت عین ادراک ہے۔ چنانچہ اسے ہر قابل ادراک شے کی سمجھ حاصل ہوجائے گی۔
یعنی یہ بھی دو طرح کی روح مانتے ہیں۔ ایک روح ہوائی۔ یہ روح الہی کی سواری ہے۔ اور دوسری خود روح الہی۔

روح کے بارے میں کچھ اقوال اور تجربات:
چنانچہ بعض لوگوں کے مطابق روح اس بجلی کو کہتے ہیں جو چار ماہ بعد جنین کے جسم میں اللہ کے حکم سے پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض کے مطابق روح اور جسم کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ہارڈویر اور سافٹ ویر۔ مثال کے طورپر کمپوٹر نامی آلہ جسم ہے۔ اور اس میں موجود سافٹ ویر جس سے وہ چلتا ہے وہ روح ہے۔ جیسے ونڈوز (Windos)، میک(Mac)، لینکس (Linux) وغیرہ۔ یا موبایل فون میں اینڈرائد (Andriod) اور (IOS) وغیرہ۔
اگر آپ کمپوٹر کو ونڈوز وغیرہ ڈالے بنا وزن کریں تو اس کا جو وزن ہوگا وہی وزن اس کو ڈالنے کے بعد بھی ہوگا۔
ویسے بھی اجسام کا وزن زمین کی کشش ثقل کی وجہ سے ہے۔ اور میرے خیال سے روح اتنی کثیف نہیں ہوسکتی کہ کشش اس پر اثر انداز ہوسکے۔

ڈاکٹر ڈنکن ماکڈوگال:
لیکن بعض لوگوں نے روح کو بھی وزن کرنے کی ٹھانی۔ مثال کے طور پر ایک امریکی سرجن ڈاکٹر ڈنکن ماکڈوگال، اس کا خیال تھا کہ روح ایک جسم ہے جو جگہ گھیرتی ہے۔ لیکن بہت ہلکی ہوتی ہے۔ اور موت کے بعد تیرنے لگتی ہے۔ چنانچہ1907 عیسوی میں اس نے ٹی بی میں مبتلا چھ لوگوں پر تجربہ کیا اور جانکنی کے عالم میں ان کی چارپائیاں ترازو پر رکھ کر وزن کیں۔ اچانک اس نے دیکھا کہ جو لوگ مرگئے ہیں ان کا وزن حیر ت انگیز طور پر اکیس گرام کم ہو گیا ہے۔ چنانچہ اس نے فرض کر لیا کہ روح کا وزن اکیس گرام ہوتا ہے۔ یہیں سے مغرب نے یہ فرض کرلیا کہ روح کا وزن اکیس گرام ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ 2003 میں ہالی ووڈ میں ایک فلم بھی بنی جس کا نام ہے 21 گرام۔
لیکن سائنسدانوں نے میکڈوگال کے نظریے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ انھوں نے اسے جلد کے نیچے موجود بخارات اور سانس لینے کے لیے جسم میں موجود ہوا کا وزن قرار دیا۔
1920 میں ڈاکٹر ڈنکن ماکڈوگال کی وفات ہو گئی۔ تجربے سے تو نہیں لیکن موت سے تو اسے ضرور معلوم ہوگیا ہوگا کہ روح کیا ہوتی ہے۔

ماسکو یونیورسٹی:
جریدہ الریاض 2 رجب 1427ھ کو ایک خبر شائع ہوئی۔ وہ یہ کہ ان دنوں ماسکو یونیورسٹی میں روح کو وزن کرنے والے تجربے کو دہر ایا گیا ہے۔ اور کچھ اضافی التزامات بھی کیے گئے ہیں۔ یعنی جسم کو وفات سے پہلے اور بعد میں تولا بھی گیا لیکن ساتھ ہی ساتھ جانکنی کے وقت اجسام کو شیشے کے کیبن میں بند کرکے رکھا گیا۔ اور اس کمرے میں ایسے حساس آلات لگے تھے جو کسی بھی طرح کی فیزیکل تبدیلی کو بھانپ لیتے۔ حالانکہ آخری رپورٹ نے وزن میں کسی بھی تبدیلی کی نفی کردی۔ پھر بھی نزع کے وقت اہم فیزیکل تبدیلیاں نوٹ کی گئیں۔ ڈاکٹر بویرس اسکاکوف کا خیال تھا کہ روح ایسے ذرات پر مشتمل ہے جو ایٹم سے بھی چھوٹے ہیں اور یہ باہم معادل چارا جزا (نیوٹرون۔الیکٹرون۔پروٹون کی طرح کسی جز) سے بھرے ہوئے ہیں۔ اور یہ بجلی کی رفتار سے سفر کرتے ہیں۔ ان کا کوئی ٹھوس جسم نہیں ہے۔ یہ پہاڑوں اور پتھر کی دیوار سے گذر سکتے ہیں، ان کو مشاہدے کے دائرے میں لانا تبھی ممکن ہے، جب انتہائی ترقی یافتہ ایٹمک کیمرہ ایجاد کر لیا جائے۔
اس تجربے میں سائنسدانوں کو اچانک میت کی وفات کے وقت اس کے جسم کے اوپر گویا ذراتی اجسام کی بدلی نظر آئی تھی۔ ان کا دیکھنا اگر چہ ممکن نہیں تھا، لیکن ان کے آثار روشن دائروں کی شکل میں خاص طور پر نظر آئے ۔
علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں: لوگ روح کی حقیقت کے بارے میں اضطراب کے شکار ہیں۔ بعض اہل کلام اسے بدن کا جز مانتے ہیں۔ یعنی ذات کا حصہ۔ اور دوسرے لوگ اسے ایک صفت مانتے ہیں یعنی عرض۔ جو بدن میں ہوا کی طرح گردش کرتی ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ زندگی ہے۔ بعض کے مطابق مزاج۔بعض کہتے ہیں یہ جسم اور بعض کہتے ہیں کہ عرض۔ لیکن اسے جسم نہ کہنا بھی غلط ہے۔ کیونکہ جب روح لے جائی جاتی ہے تو آنکھیں اس کا پیچھا کرتی ہیں۔ یعنی وہ جسم ہے۔ لیکن یہ کہنا ممکن نہیں کہ وہ ہمارے اسی جسم کی طرح ہے ( التدمرية: تحقيق الإثبات للأسماء والصفات وحقيقة الجمع بين القدر والشرع (ص: 50)
ابن ابی العز حنفی شرح عقیدہ طحاویہ (ص -564-561) میں فرماتے ہیں: کتاب و سنت اور اجماع صحابہ نیز عقلی دلائل جس پر دلالت کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ روح جسم ہے۔ حادث ہے۔مخلوق ہے۔ لیکن اس کی حقیقت اس جسم محسوس کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ وہ کسی اور طرح کا جسم ہے۔ جو ہمیں نہیں معلوم وہ ایسا نورانی اور علوی جسم ہے جو زندہ ہے۔ متحرک ہے۔ جسم اور اعضا کے جوہر میں نافذ ہے۔ اس میں ایسے چلتی ہے جیسے پانی گلاب میں، تیل زیتون میں، آگ کوئلے میں۔ جب تک یہ ہمارا جسم اس نورانی لطیف جسم کو قبول کرنے کے لائق رہتا ہے، یہ روح اس کے اندر رہتی ہے۔ اعضا میں چلتی ہے۔حس و حرکت اور ارادہ وغیرہ کا فائدہ دیتی ہے۔ اور جب یہ جسم فاسد ہوجاتا ہے۔ اور روح کو قبول کے کے لائق نہیں رہتا، اس کے اثرات کو قبول نہیں کرسکتا تو روح جسم سے الگ ہوجاتی ہے۔ اور عالم ارواح کو چلی جاتی ہے۔ (ترجمہ باختصار )
اہم بات یہ ہے کہ قیامت کے دن ہم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے دنیا میں روح کی حقیقت کیوں نہیں معلوم کی؟ بلکہ ہم سے روح کو ترقی دینے والی عبادتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ان اعمال کے بارے میں سوال ہوگا جو ہماری روح کو اعلی علیین میں پہنچنے کا باعث بنتے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالی ہم کو ظاہر و باطن ہر لحاظ سے نیک اور صالح بنائے۔ اور قیامت کے دن صالحین کے ساتھ اٹھائے۔ (آمین)

2
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
سعد احمد

بہت اچھا مضمون. اس نہج پہ مزید معلومات کی درخواست ہے… ہندوستانی علماء نے روح کو کس طرح دیکھا؟ کیا شاہ صاحب کے علاوہ کسی اور کی ذاتی آراء روح کے تعلق سے وارد ہوئیں ہیں؟

ابوالمرجان

بہت بہت شکریہ جناب. کوشش کروں گا کہ آپ کے مطالبے کی جلد از تعمیل ہو.