منہج سلف صحیح اسلامی تعلیمات کو پرکھنے کی کسوٹی اور معیار ہے۔ کتاب و سنت کو سمجھنے کا وہ آئینہ ہے جس کی روشنی میں خیر القرون کے اسلامی طرزِ زندگی کا بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس سے مراد وہ طریقہ اور راستہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے عبارت ہے جسے صحابۂ کرام نے حرزِ جان بنایا، تابعین عظام نے جس کی روشنی میں دین اسلام کو سمجھا اور سمجھایا اور تبع تابعین نے جس کی نشرواشاعت کرکے دنیائے انسانیت کے لیے عام کیا۔ ایک ایسا منہج جو غلو و تقلید کے مرض سے پاک، افراط و تفریط کے شر سے محفوظ اور رافضیت و خارجیت کے طوق سے آزاد ہے۔ فہم دین کے لیے یہ وہی مطلوب و مقصود منہج ہے جس میں دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔ جس کے بغیر دینِ خالص کی تشریح و تفہیم ممکن نہیں۔ اسی لیے سلفیت کے جیالوں نے نبوی دعوت کو عام کرنے کے لیے منہج سلف کو اپنایا تاکہ اسلام کی صحیح تعبیر اور سچے عقائد کو سلفِ صالحین کے منہج کی روشنی میں عام کیا جائے۔ اس کے لیے سلفیت نے خیر القرون کے اسلامی تراث کو مطمحِ نظر رکھا اور اس کے سایے میں الحمدللہ راہِ حق پر جاری و ساری ہے۔ سلفیت بالفاظ دیگر وسطیت اور راہ اعتدال کا نام ہے جہاں غلو و خروج کے لیے کوئی جگہ نہیں اور نہ ہی افراط و تفریط کے پنپنے کا ساز گار ماحول۔ رسول اللہ ﷺ ، صحابۂ کرام اور تابعین عظام نے دین اسلام کو جس طرح بغیر کسی آمیزش کے پیش کیا اس کو اپنانا اور لائق اتباع سمجھنا ہی سلفیت کا طرّۂ امتیاز ہے۔ سلفیت تقلید و جمود کی قائل نہیں، ائمہ کرام کا احترام ہمیشہ سے اس کا شیوہ رہا ہے۔ اختلاف بھی کیا تو عزت و احترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا، دلائل کی روشنی میں اتمام حجت کیا، فقہی مذاہب و مسالک سے اس کا اختلاف دلیل و برہان کی بنیاد پر رہا۔ جہاں جہاں مسلکیت و مذہبیت نے کتاب وسنت کو واضح دلیل پر ائمہ کے اقوال اور علماء کے فتاوے کو ترجیح دیا وہاں سلفیت نے کتاب و سنت کی علمبرداری کی اور نصوص کی روشنی میں منہج سلف پر گامزن رہی۔ ائمہ کرام نے اپنی فہم و فراست سے جو حق سمجھا اسے واضح کیا، فقہ و فتاوی کے لیے اجتہاد بھی کیا مگر ساتھ ہی یہ واضح بھی کردیا کہ اگر یہ اقوال و فتاوے کتاب و سنت کے دلائل سے متصادم ہوں تو ہمارے اقوال و فتاوے کو ترک کردینا اور صحیح دلائل کی اتباع کرنا۔ اور یہ وہی حقیقت ہے جس کو سلفیت کے علمبرداروں نے ہمیشہ سے اپنایا اور کبھی ان کی تنقیص کو اپنا وطیرہ نہ بنایا۔ لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ جب لوگ علماء پرستی اور شخصیت پرستی کے شکار ہونے لگے، تقلید شخصی کا چلن عام ہوا اور فرقہ پرستی و مسلکیت کا تعصب سرچڑھ کر بولنے لگا تو لوگ کتاب و سنت کی تعلیمات کو سمجھنے کے لیے چند مخصوص فقہی مسالک و مذاہب کو اپنا آئیڈیل بنالیا۔ اور انہی عقائد و احکام کی پابندی کرنے لگے جو ان کے مخصوص فقہی مسالک سے ہم آہنگ ہوں، جس کی وجہ سے فقہی موشگافوں کا سیلاب امڈ آیا جس نے ہرکس و ناکس کو تقلید جامد کے پھندے میں پھانس دیا۔ اور جب منہج سلف کے حاملین نے ان کے حقائق سے پردہ اٹھایا اور لوگوں کو اندھی تقلید کے بھنور سے نکال کر راہِ نجات پر لگایا تو تقلید کے ایوانوں میں ہلچل مچ گیا، اور پھر سب و شتم، طعن و تشنیع، اتہام و دشنام طرازی کا ایسا سلسلہ چلا کہ العیاذ باللہ۔ اور یہیں سے منہج سلف اور سلفیت اور اہل حدیثیت کے خلاف ہر وہ فرد سر اٹھانے لگا جس کی آنکھوں پر تقلید جامد کا دبیز پردہ پڑا ہوا تھا۔ مذہب اسلام کی صحیح اور سچی تعبیر پیش کرنے کے بجائے لوگ فقہی مذاہب اور تقلید کی دفاع میں لگ گئے، ان کے لیے مذہبیت اور مسلکیت کا دفاع دینِ خالص کے دفاع سے اہم ٹھہرا۔ اور جب ایک ایک کرکے ان کے خود ساختہ مسائل، ضعیف و موضوع روایات پر مبنی احکام و فضائل اور غیر محکم عقائد کی قلعی کھلنے لگی تو سلفیت کو مطعون کرنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا جو اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
منہج سلف سے دوری اور اس سے بغاوت کا انجام کئی شکلوں میں نمودار ہوا، کبھی خارجیت کے روپ میں جس نے صحابۂ کرام جیسی پاکباز شخصیات کو بھی واجب القتل گردانا، کبھی رافضیت کی شکل میں جس نے صحابۂ کرام کی عزت و ناموس کو پامال کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ کبھی یہ چیز اندھی تقلید اور جمود کی شکل میں نمودار ہوئی جو دین کے اصل مصادر سے استفادہ و فہم کے بجائے فقہی دائرے میں اسے محصور کردیا اور اسی کو دین گردانا جو ان کی فقہی کتابوں میں موجود ہے اور اس سے اختلاف کو ناقابل برداشت تصور کیا گیا، تو کبھی اخوانیت کا لبادہ اوڑھا اور دین کی جدید تشریح کرکے اسلام کو حاکمیت کے قلعے میں محصور کردیا، امراء و حکام کے خلاف خروج کا اعلان کیا گیا اور یہ سلسلہ اس قدر آگے بڑھا کہ داعش جیسی بدترین تنظیم اپنے خونخوار روپ میں ظاہر ہوئی جو آج اسلام اور اہل اسلام کے نام پر کلنک ہے۔ عصرحاضر میں ایسی کئی تنظیمیں اور تحریکیں مل جائیں گی جو اسلام و مسلمانوں کے نام سے سرگرم ہیں مگر اسلام کے صحیح عقائد و تعلیمات سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اب تو ایسے مسلم قائدین کا بھی ظہور ہوچکا ہے جنھوں نے سلفیت کو پارلیمنٹ کے ایوانوں میں مطعون کیا، ان پر دہشت گردی اور حکومت مخالف سرگرمیوں کا اتہام لگایا، اپنے خاص مسلکی فکر کو دین اسلام کا اصلی ترجمان ثابت کرنے کی نامسعود کوشش کی اور ایک مجلس میں تین طلاق اور حلالہ کی لعنت پر پردہ داری کی بھر پور کوشش کی۔ مگر ایسے زعماء و قائدین اور فقہی جمود کے قائلین کو یہ جاننا ہوگا کہ ایسا کرکے نہ آپ اپنا بھلا کررہے ہیں اور نہ ہی امت مسلمہ کا بلکہ اس کے ذریعہ اتحاد کی دیوار میں ایسا شغاف پڑے گا جس کی اصلاح آسان نہ ہوگی اور یہ جان لیں کہ حکومتیں کسی کے مسلک اور مکتبِ فکر کو نہیں بلکہ مسلم ٹائٹل کو دیکھ کر ان کے خلاف کاروائیاں کرتی ہیں۔ تاریخ اس بات پر شاہد عدل ہے۔
آئیے حقیقت پر مبنی ایک چشم کشا تحریر سلفیت کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں: برطانوی ریسرچ اسکالر Anabel Ingeنے اپنی کتاب The Making of a Salafi Muslim Women: Paths to Conversion میں رقمطراز ہیں کہ ’’اگرچہ سلفیت کا تعلق جہادی تنظیموں سے جوڑا جاتا ہے مگر یورپ میں موجود ان کی اکثریت مکمل طور پر دہشت گردی مخالف ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سلفیت تو دہشت گردی کو کسی بھی شکل میں بڑھاوا دینے والی تمام سرگرمیوں اور کوششوں کی مذمت اور مخالفت کرنے والی ایک امن پسند جماعت ہے۔ سلفیت کا ماننا ہے کہ اسلامی شریعت سب سے بہتر نظام حیات ہے اس کے باوجود سلفی جماعت غیر مسلم ممالک میں جبرا اس کے نفاذ کی قطعی حمایت نہیں کرتی ہے‘‘۔ غیر سلفیوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بے حد مفید ہوگا۔ ہم یہ بھی جانتے چلیں کہ منہج سلف سے بغاوت کی جتنی کوششیں کی گئیں سب ناکام ہوئیں، مسلکیت کا تعصب سکڑتا گیا، اور آراء و اقوال و حکایات پر مبنی فضائل اور کتاب و سنت سے متصادم فتووں کی حقیقت سب کے سامنے آگئی۔ ذرائع ابلاغ شوشل میڈیا، علمی انفجار کے اس دور میں اب ہر کسی کو بآسانی کتابوں اور فقہ و فتاوی تک رسائی ہوچکی ہے۔ نوجوان نسل اب اس بات کو سمجھ چکی ہے کہ دین وہی ہے جو کتاب اللہ اور سنتِ صحیحہ سے ثابت ہو اور اطمینان و سکون بھی کتاب و سنت اور منہج سلف ہی میں ہے۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ پوری دنیا میں سلفیت کی دعوت عام ہورہی ہے اور منہج سلف کی روشنی میں اسلام کو سمجھنے کا جذبہ عروج پر ہے۔ آج نوجوان نسل مسلکی تعصب اور جامد فقہی موشگافیوں سے نکل کر منہج سلف کو اپنا رہی ہے اور بڑی تیزی کے ساتھ سلفیت اور سلفی دعوت دنیا کے چپے چپے میں پھیل رہی ہے۔ اس راہ میں رکاوٹیں تو بہت ہیں مگر اللہ کے فضل و کرم سے کوئی نہ کوئی آسانی کا راستہ نکل آتا ہے۔ تعصب، مذہبیت، خارجیت اور رافضیت کے اس پر آشوب دور میں منہج سلف ہی وہ واحد قندیل اور کرن ہے جس کو اپنا کر ان شاء اللہ ساحل نجات تک بآسانی پہنچ سکتے ہیں.
اللہ تعالیٰ ہم سب کو منہج سلف کو سمجھنے اور اس کو اپنانے کی توفیق دے۔
آپ کے تبصرے