قرض

شمس الرب خان ادبیات

عورتیں تو ہوتی ہیں ہی باتونی، ایسا لوگوں کا کہنا ہے۔ پھر اگر وہ گائناکالوجسٹ ہوں تو مزید باتونی ہو جاتی ہیں، ایسا مجھے محسوس ہو رہا تھا۔ میں اپنی بیوی کو مشہور گائناکالوجسٹ ہما شیخ کی کلینک میں معائنہ کے لیے لایا تھا۔ میری بیوی کو ڈاکٹر ہما کے کیبن میں گئے ہوئے پندرہ منٹ ہوگئے تھے، لیکن وہ ابھی تک باہر نہیں نکلی تھی۔ پندرہ منٹ کا وقفہ عام حالات میں کچھ زیادہ نہیں ہوتا لیکن انتظار کرتے ہوئے پندرہ منٹ بھی پندرہ دن لگتا ہے۔ مجھے بڑی اکتاہٹ ہو رہی تھی۔ میں نے نگاہ ادھر ادھر دوڑائی، تھوڑی ہی دور پر واقع ایک بینچ پر ایک بوڑھی عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ ساٹھ کے پیٹے میں تھی، سادہ سی ساڑی میں ملبوس۔ مجھے اپنی طرف دیکھتا پا کر شفقت سے مسکرائی اور بولی: ‘بیٹا، بیوی کو لائے ہو؟!’
‘ہاں، آنٹی، لیکن بہت دیر ہوگئی میری بیوی کو اندر گئے ہوئے۔ مجھے اکتاہٹ ہو رہی ہے۔ اور کتنا وقت لگے گا؟’
بوڑھی عورت اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے پاس والی بینچ پر آکر بیٹھ گئی اور مسکرا کر بولی: ‘بیٹے، وقت لگتا ہے۔ یہ ڈاکٹر بہت اچھے سے چیک کرتی ہیں۔ وقت تو لگے گا نا!’
مجھے بھی وقت گزاری کا بہانہ مل گیا اور شاید وہ بھی بات چیت کرنا چاہتی تھی۔ باتوں کا سلسلہ آگے بڑھا تو پتہ چلا کہ یہ بوڑھی عورت اسی اسپتال میں ‘ماسی’ ہے۔ وہ روز شام سات بجے اسپتال آتی ہے اور دوسرے دن کی صبح سات بجے اسپتال سے جاتی ہے۔ زچہ بچہ کی دیکھ بھال اور ان کی صفائی ستھرائی اس کا کام ہے اور پوری رات جاگتے ہوئے وہ یہ کام کرتی ہے۔ اسپتال سے اسے ماہانہ چھ ہزار روپیہ تنخواہ ملتی ہے۔ صبح سات بجے اسپتال سے فارغ ہونے کے بعد سنجے نگر میں پہاڑی پر واقع اور ماہانہ سات سو روپیہ کے کرائے پر حاصل کردہ گھر جاتی ہے۔ اکیلے رہتی ہے۔ شوہر کو مرے ہوئے پانچ سال ہوگئے۔ دو بیٹے تھے۔ دونوں کی شادی ہوگئی۔ دونوں الگ رہتے ہیں۔ چھوٹے بیٹے کی شادی ایک سال پہلے ہی ہوئی ہے۔
گھر پہونچ کر تقریبا ایک گھنٹے کے وقفہ میں ناشتہ کرتی ہے اور تھوڑا بہت آرام کرتی ہے۔ اس کے بعد گھر سے نکل پڑتی ہے اور اس گھر سے اس گھر زچہ بچہ کو مالش کرتی ہے۔ ہر روز دو گھر کم از کم مل جاتے ہیں۔ ہر گھر سے روزانہ کے حساب سے ڈھائی سو روپیہ لیتی ہے۔ میں نے دل ہی دل میں اندازہ لگایا۔ چھ ہزار اسپتال سے، گھروں سے ہر روز اوسطا پانچ سو روپیہ، کل ملاکر اکیس ہزار۔ اگر مہینہ میں کچھ دن گھروں میں کام نہ بھی ملتا ہو تب بھی پندرہ ہزار روپئے تو ضرور بچتے ہوں گے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا:
‘ کیا بات ہے، آنٹی! تم تو مالدار ہو۔ خرچ کچھ نہیں اور آمدنی زوردار۔ کہاں رکھتی ہو اتنا پیسہ؟!’
میری بات پر پہلے تو وہ مسکرائی، پھر اس کی مسکراہٹ پھیکی ہوتی چلی گئی. وہ بولی:
‘ بیٹا، آمدنی تو ہے ہی، لیکن خرچ زیادہ ہے۔’
میں نے حیرانی سے کہا:
‘ آنٹی، مجھ سے مذاق نہیں، ہاں! کہاں زیادہ ہے؟ سات سو روپیہ گھر کا کرایہ اور تمہارے کھانے پہننے کا ماہانہ خرچ دو ہزار سے زیادہ نہیں ہوگا۔’
‘ ہاں، ایسا ہی ہے، لیکن ہر مہینہ سونار کو بارہ ہزار روپیہ قرض کی قسط چکانی پڑتی ہے۔’
‘ کیسا قرض؟’
‘چھوٹے بیٹے کی شادی کے لیے میں نے سونار سے ڈھائی لاکھ روپیہ بطور قرض لیا تھا۔ اس قرض کی قسطیں میں آج تک چکا رہی ہوں۔۔۔ سونار کہہ رہا تھا کہ پورا قرض چکانے کے لیے مجھے پانچ سالوں تک اسی طرح ہر مہینہ بارہ ہزار روپیہ ادا کرتے رہنا ہوگا.’ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔۔۔

ماسی نے پلو سے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا: ‘سونار حساب کتاب بہت جانتا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ یہ ایسا قرض ہے جس کی قسطیں میں پانچ سال نہیں بلکہ زندگی بھر چکاتی رہوں گی۔۔۔’

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
ھلال ھدایت

آخر تک آتے آتے آپ نے ہماری آنکھیں ڈبڈبا دیں
بہت تاثیر ہے قلم میں واللہ
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
🌹🌹🌹🌹🌹

تبارك على السلفي

واقعی میں اولاد اپنے والدین کے حقوق کو ادا نہیں اور اوپر سے مقروض بھی کردیتے ہیں اور خود اپنی جوانی کے نشے میں چور کسی کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اور بیوی کے سامنے دم ہلاتے ہیں