اہل علم کا مقام ومرتبہ

رفیق احمد رئیس سلفی


عربی تحریر: ڈاکٹر عبدالرزاق البدر
ترجمہ: رفیق احمد رئیس سلفی


کسی مسلمان سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام میں علمائے کرام کو بڑی قدر ومنزلت کی نظرسے دیکھا جاتا ہے اور ان کا مقام ومرتبہ بھی کافی بلند ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نیکی اور بھلائی کے قائد اور پیشوا ہیں،عوام ان کے نقش قدم کی پیروی کرتی ہے،ان کے افعال کو اپنے لیے نمونہ تصور کرتی ہے اور ان کی آراء وتائیدات کو سند کا درجہ دیتی ہے۔فرشتے ان کے کاموں سے خوش ہوکر ان کے قدموں کے نیچے اپنا پر بچھاتے ہیں،دنیا کی ہر خشک وتر چیز حتٰی کہ پانی کے اندر موجود مچھلیاں بھی ان کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہیں ۔ان کا علم انھیں اکابرین امت کی صف میں جگہ دلاتا ہے اور صالح متقیوں کے مقام تک پہنچاتا ہے ۔اپنے اسی علم کی وجہ سے ان کا مقام ومرتبہ کافی بلند ہے اور ان کی قدر ومنزلت عظیم الشان ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ(1)
“اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیے گئے ہیں،درجے بلند کردے گا اور اللہ تعالیٰ ہر اس کام سے جو تم کررہے ہو،اچھی طرح باخبر ہے۔”
ایک دوسری جگہ اللہ کا ارشاد ہے:
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ(2)
“بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟”
امام ابوبکر آجری رحمہ اللہ علمائے کرام اور ان کے مقام ومرتبے پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“اللہ تعالیٰ نے انھیں ہر دور میں اور دنیا کے ہر خطے میں تمام اہل ایمان پر فضیلت بخشی ہے،علم کے ذریعے ان کا مرتبہ بلند کیا ہے اور متانت وبرد باری سے انھیں مزین کیا ہے ،انھیں کے ذریعے حلال وحرام،حق وباطل،مفید ومضر اور اچھے برے کی پہچان ہوتی ہے ،انھیں بڑی فضیلت حاصل ہے اور وہ اجر جزیل کے مستحق ہیں،وہ انبیائے کرام کے وارث اور اولیائے امت کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں،پانی کے اندر مچھلیاں ان کے حق میں دعائے مغفرت کرتی ہیں ،فرشتے ان کے پیروں کے نیچے اپنے پر بچھاتے ہیں،قیامت کے دن انبیائے کرام کے بعد علماء ہی کو اللہ سے سفارش کرنے کا حق حاصل ہوگا ،ان کی مجلسیں حکمت کے موتی لٹاتی ہیں،ان کے اعمال کو دیکھ کر غفلت میں ڈوبے لوگ ہوشیار ہوجاتے ہیں،وہ عابدوں سے افضل اور زاہدوں سے اعلیٰ مقام رکھتے ہیں،ان کی زندگی دوسروں کے لیے بسا غنیمت ہوتی ہے جب کہ ان کی وفات سے مصیبتوں میں اضافہ ہوتا ہے،وہ غافلوں کی تذکیر کرتے ہیں اور جاہلوں کو تعلیم دیتے ہیں،ان سے کسی مصیبت کا اندیشہ نہیں ہوتا اور نہ کسی فتنے کا خوف ہوتا ہے۔”
علامہ آجری آگے لکھتے ہیں:
“علمائے کرام بندوں کے لیے چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں،وہ شہروں کے لیے منارۂ رشد وہدایت ہوتے ہیں،وہ امت کی بقا واستحکام کی ضمانت ہیں اور علم وحکمت کا سرچشمہ ہیں۔شیطان کے غیض وغضب کا نشانہ بھی وہی بنتے ہیں،اہل حق کے دلوں کو حیات تازہ انھیں سے ملتی ہے جب کہ کج روی اور فکری ضلالت میں مبتلا حضرات کے لیے وہ موت کا حکم رکھتے ہیں،زمین میں ان کی مثال آسمان میں ستاروں جیسی ہے جن سے بحر وبر میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔جب ستارے غائب ہوجاتے ہیں تو مسافرحیران وششدر رہ جاتے ہیں اور جب وہ روشن ہوتے ہیں تو انھیں سب کچھ نظر آتا ہے۔”(3)
علامہ آجری جیسے اقوال وارشادات کئی ایک اسلاف کرام کے ہمیں ملتے ہیں۔
جب اہل علم کی اسلام کی نظر میں یہ قدر ومنزلت اور مقام ومرتبہ ہے تو دوسروں پر واجب ہے کہ وہ ان کی اس عظمت کا پاس ولحاظ رکھیں ،ان کا مقام ومرتبہ پہچانیں اور انھیں وہ عزت دیں جس کے وہ بجاطور پر مستحق ہیں۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّهُ(4)
” وہ شخص میری امت کا فرد نہیں جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے،ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالموں کا حق نہ پہچانے۔”
تمام مسلمانوں پر واجب ہےکہ وہ اہل علم کے حقوق کا خیال رکھیں،خواہ وہ زندہ ہوں یا وفات پاچکے ہوں ،اسی طرح وہ سامنے موجود ہوں یا نہ ہوں ،ہر حال میں ضروری ہے کہ دل سے ان کا احترام کیا جائے اور ان کی عزت کی جائے ،زبان سے ان کی تعریف کی جائے اور ان کی خوبیوں اور کمالات کا ذکر کیا جائے۔دل میں اس بات کی شدید خواہش رکھی جائے کہ ہمیں ان کے علوم سے استفادہ کرنا ہے،ان کی دینی بصیرت سے فیض اٹھانا ہے اور ان کے اخلاق وآداب سے خود کو مزین کرنا ہے۔علمائے کرام کی عزت وناموس کو تار تار کرنا،ان پر طعنہ زنی کرنا اور ان پر الزامات عائد کرنا بدترین گناہ اور حددرجہ قابل ملامت طرز عمل ہے ،اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ امت کی کشتی کو چلانے والے،اسے ساحل مراد پر پہنچانے والے اور شب دیجور میں اسے روشنی دکھانے والے علمائے کرام ہی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ(5)
“اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔”
علمائے اسلام زمین پر اللہ کی حجت ہیں،اللہ تعالیٰ نے جو علم انھیں عطا فرمایا ہے اور جس تفقہ فی الدین اور فہم وبصیرت سے ان کا سینہ معمور ہے،اس کے ذریعے وہ ان باتوں کو زیادہ سمجھتے ہیں جن سے مسلمانوں کی دنیا وآخرت دونوں سنور سکتی ہے۔وہ بڑی باریکی سے فتوے دیتے ہیں،گہری بصیرت سے کسی چیز کی تائید وتوثیق کرتے ہیں،ان کے فیصلے مضبوط ومستحکم ہوتے ہیں،احکام اسلام بیان کرنے میں وہ عجلت سے کام نہیں لیتے،مسلمانوں کی صفوں میں اپنی باتوں سے انتشار نہیں پیدا کرتے ،بغیر کسی تحقیق کے دینی مسائل میں ان کو کم اہمیت کا حامل سمجھ کر فتوے نہیں صادر کرتے اور نہ کسی بھی صورت میں لوگوں سے حق بات چھپاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی ایک مقامات پر صرف انھیں کی طرف رجوع کرنے اور دینی مسائل میں انھیں سے معلومات حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے:
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ(6)
“اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو۔”
ایک دوسری جگہ اللہ نے فرمایا ہے:
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ(7)
“جہاں انھیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انھوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیاحالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول اللہ ﷺ کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کردیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کرلیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔”
اس آیت میں مومنوں کو ادب یہ سکھایا گیا ہے کہ جب بھی ان کے سامنے کوئی اہم معاملہ آئے اور کوئی اہم واقعہ ظہور پذیر ہو جس کاتعلق امن وامان سے ہو اور مسلمانوں کی عام خوشی یا مصیبت کا سبب بننے والےخوف سے اس کا تعلق ہو تو ان کے لیے مناسب یہ ہوگا کہ وہ صبر وثبات کا مظاہرہ کریں اور کسی ردعمل کے لیے عجلت نہ کریں بلکہ وہ اسے رسول اللہ ﷺ یعنی آپ کی سنت کی طرف لوٹادیں یا اپنے میں سے ان اولواالامر کے پاس اسے لے جائیں جو صاحب علم ہیں،امت کے خیرخواہ ہیں،سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور ذہانت وفطانت میں اس قدر ممتاز ہیں کہ معاملات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں،عام افراد امت کے مصالح اور ان کے حق میں کسی بات کےمفید یا مضر ہونے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔جو کچھ فیصلہ ان اولواالامر کے یہاں سے ہوگا ،اس میں سب کی سلامتی ہوگی لیکن اگر ان کو نظر انداز کرکے کوئی قدم اٹھایا گیا تو وہ امت کے حق میں نقصان دہ ثابت ہوگا اور یہ فعل معصیت قرار پائے گا۔سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إنَّهَا سَتَكُوۡنُ أمورٌ مُشۡتَبِهَاتٌ فَعَلَيۡكُمۡ بِالتَّؤَدةِ ؛ فَإنَّكَ أنۡ تَكُوۡنَ تَابِعاً فِي الۡخَيۡرِ خَيۡرٌ مِنۡ أنۡ تَكُوۡنَ رَأساً فِي الشَّرِّ ۔(8)
” جلد ہی وہ زمانہ آنے والا ہےجب تمھارے سامنے بہت سے مشتبہ معاملات آئیں گے ۔اس وقت تمھارے لیے لازم ہوگا کہ صبر وتحمل سے کام لو کیوں کہ کار خیر میں تمھارا پیچھے رہنا برائی کا سرغنہ بننے سے بہتر ہے۔”
امت کے ضیاع اور اس کی بربادی کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ پختہ علم والوں سے دوری اختیار کرلی جائے،محقق ائمہ کے فتاوی پر عمل کرنا چھوڑ دیا جائے اور باریک نظر رکھنے والے فقہائے اسلام پر عدم اعتماد کا اظہار ہونے لگے۔جب ایسا وقت آجائے گا کہ امت اپنے علماء سے استفادہ کرنا چھوڑ دے گی تو اس کی حالت ان لوگوں کی طرح ہوجائے گی جو کسی بے آب وگیاہ صحراء اور بنجر زمین میں پھنس گئے ہوں جن کا کوئی ایسا خیرخواہ قائد نہ ہو جو ان کو راستہ دکھاسکے اور نہ ایسا زیرک رہنما ہو جو ان کی رہنمائی کرسکے جس کی وجہ سے ان کی مصیبتیں دوچند ہوجائیں اور ان کا انجام خسارہ ہی خسارہ ہو۔
امت کو دین کی طرف بلانے،اس کی رہنمائی کرنے اور اسے خواب غفلت سے بیدار کرنے کی تمام تر ذمہ داری علمائے اسلام ہی پر عائد ہوتی ہے ۔اگر ان کے اس منصب جلیل کا پاس ولحاظ نہ رکھا گیا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے ،وہ جاہل پیشوا بغیر کسی علم کے انھیں فتوی دیں گے اور بغیر سمجھے بوجھے ان کی قیادت کریں گے۔نتیجہ یہ ہوگا کہ امت میں کمزوری اور بزدلی پیدا ہوجائے گی ،اس کی صفوں میں دراڑ آجائے گی اور اس کی کشتی منجدھار میں ڈوب جائے گی۔سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
عَلَيكُم بِالعِلمِ قَبلَ أن يُقبَضَ وَقَبضُهٗ بِذهَابِ أهلِهٖ ، عَلَيكُم بِالعِلمِ فَإنَّ أحَدَكُم لَا يَدرِي مَتٰى يُفتَقَرُ إلٰى مَا عِندَهٗ ، وَسَتَجِدُونَ أقوَاماً يَزعَمُونَ أنَّهُم يَدعُونَ إلٰى كِتَابِ اللّٰه ِوَقَد نَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِم ، وَإيَّاكُم وَالتَّبَدُّع وَالتَّنَطُّع وَالتَّعَمَّق وَعَلَيكُم بِالعَتِيقِ ” .(9)
“علم کو لازم پکڑو،اس سے پہلے کہ وہ اٹھا لیا جائے اور علم کا اٹھایا جانا علماء کے اٹھالیے جانے سے ہوگا ۔علم سے چمٹے رہوکیوں کہ کوئی نہیں جانتا کہ کب اسے اس کی ضرورت پڑجائے۔تم بعض ایسی قوموں کو دیکھو گے کہ جن کا خیال یہ ہوگا کہ وہ اللہ کی کتاب کی طرف دعوت دے رہی ہیں جب کہ وہ کتاب الٰہی کو پس پشت ڈال چکی ہوں گی۔دین میں نئی نئی بدعات ایجاد کرنے،سختی کرنے اور بال کی کھال نکالنے سے پرہیز کرو اور اسی پرانی روش پر قائم رہو جو تمھارے اسلاف کی تھی۔”
ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات علیا کے واسطے سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے علماء کے علم وعمل میں برکت دے،ہمیں ان سے حسن استفادہ کی اور ان کی راہ پر چلنے کی توفیق عطافرمائے اور ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن رکھے۔آمین۔

حواشی:
1۔( المجادلة:11 /58)
2۔( الزمر:9/39)
3۔(أخلاق العلماء،أبوبکرمحمد بن حسین بن عبداللہ الآجری،ص:15-17)تحقیق:اسماعیل بن محمد انصاری،رئا سۃ ادارات البحوث العلمیۃ والافتاء والدعوۃ الارشادبالمملکۃ السعودیۃ العربیۃ، 1978)
4۔)صحیح الجامع الصغیر،رقم الحدیث : 5443، امام البانی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔).
5۔(السجدة:24/32 )
6۔( النحل:43/16)
7۔ ( النساء:83/4)
8۔(الابانۃ لابن بطۃ،رقم الحدیث:176،تحقیق ودراسۃ:رضا بن نعسان معطی ، دار الرایۃ ، الریاض ،1988)
9۔ (الابانۃ لابن بطۃ،رقم الحدیث:189،تحقیق ودراسۃ:رضا بن نعسان معطی ، دار الرایۃ ، الریاض ،1988)

آپ کے تبصرے

3000