نخوت قلم

نخوت قلم

رشید سمیع سلفی

زبان و قلم کی طاقت و تأثیر کا قائل کون نہیں؟ انقلابات زمانہ کی ہزاروں داستانیں جولانئ قلم کی پیداوار ہیں، فکر و نظر کے سانچوں کو توڑنے، حقائق و مسلمات کی دیواروں میں سیندھ لگانے، بساط سلطنت کو الٹنے، جذبات کی خاموش سطح کو تلاطم خیز لہروں سے دوچار کرنے، تقدسات کی دھجیاں بکھیرنے، عزت و ناموس کی قبا کو تار تار کرنے میں قلم کا رول بہت فیصلہ کن ہوتا ہے۔ دن کی روشنی میں رات کو برآمد کرنے اور رات کی تاریکی میں آفتاب اگانے کا فن قلم کو آتا ہے۔ قلم کی طاقت کا اعتراف اکبر الہ آبادی نے اس طرح کیاہے:
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
امانت داری اور راست بازی، انصاف پروری اور عدل گستری قلم کی اعلی قدریں ہیں، حق گوئی و صدق شعاری قلم کی ترجیح ہونی چاہیے، دیانت و امانت سے اگر قلمکار کی رسم و راہ ہو تو خیر و نیکی کے پھول کھلتے ہیں۔ اعلی قدریں پروان چڑھتی ہیں، اخلاقی روایات کے قمقمے روشن ہوتے ہیں۔ اخوت و بھائی چارگی کی خوشبو پھیلتی ہے، لیکن اگر قلم شر کا خوگر ہوجائے تو تخریب و فساد کا دھواں ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، قلم کی سیاہی بھی تخم نفرت کو بار آور کرتی ہے، حرمتیں پامال ہوتی ہیں، عظمتیں سرنگوں ہوتی ہیں، حق و انصاف کا خون ہوتا ہے، ضمیر مفاد و مصلحت کا غلام ہوجاتا ہے۔ اور خرابات کی اس دنیا میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جسے دیکھ کر انسانیت کی پیشانی شرم سے جھک جائے۔
آج الیکٹرانک میڈیا کے دور میں قلم کی مٹی جس طرح پلید ہوئی ہے، قلم کا وقار جو مجروح ہوا ہے وہ ایک افسوسناک کہانی ہے۔ وہ لوگ جن کے ذہنوں میں علم و مطالعے کی کرنیں نہیں پہنچیں اور جو قلم و تحریر کے سلیقے و اخلاقیات سے یکسر نابلد ہوتے ہیں، ان کا قلم بھی اس میدان میں دن رات فراٹے بھرتا رہتا ہے اور ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کا مشاہدہ ہوتے رہتا ہے۔ اگر کچھ نہیں کرسکتے ہیں تو دوسروں کی تحریروں کو اپنے نام سے اتنا زیادہ شیئر کرتے ہیں کہ تحریر گھومتے پھرتے صاحب مضمون تک آجاتی ہے۔ البتہ جو قلم کے کھلاڑی ہیں، لکھنے اور قلم کی بجلی گرانے کے فن سے واقف ہیں، ان میں بھی بعض اہل قلم بڑے سرپھرے اور نخوتوں سے چور ہوتے ہیں، قلم ان کے گھر کی لونڈی اور صفحہ قرطاس ان کی بے چین طبعیت کا مشق ستم ہوتا ہے۔اور بے چارے سہمے ہوئے الفاظ ان کے متلون طبیعت کے رحم‌وکرم پر ہوتے ہیں۔ پھر وہ جسے چاہتا ہے قلم کی نوک سے چھلنی کردیتا ہے، اورجب چاہتا ہے، جس پر چاہتا ہے نزلہ گراتا ہے، غرور نفس شرافت و انسانیت کی تمام قدروں کو پامال کرواتا ہے، بسا اوقات اپنے موقر اساتذہ کی گردن پر بھی چھری چلانے سے نہیں چوکتا، ان کے قلمی آتنک اور لٹھ مار لہجہ سے اچھے بھلے لوگ لرزہ براندام رہتے ہیں۔ وہ جب بھی کسی بڑی شخصیت پر عازم تنقید ہوتا ہے تو شروعات بڑے معذرت خواہانہ اور مصنوعی تواضع سے کرتا ہے کہ میری مجال کیا ہے جو اتنی بڑی شخصیت پر قلم اٹھاؤں، یا آپ پر حرف تنقید وارد کروں۔ اس معصومانہ اداکاری کے بعد الفاظ اور جملوں کی لاٹھی اس طرح بھانجتا ہے کہ اس کی بے رحم ضربوں سے نازک آبگینے کیا؟ اچھے اچھوں کی عزت نفس کی کرچیاں بکھر جائیں۔
اس قسم کی مثالیں آئے دن نظر نواز ہوتی رہتی ہیں، تنقید کرنے والے اگر حق و انصاف کو معیار بنائیں یا اصولوں کی روشنی میں تنقید کا نشتر چلائیں، آداب و اخلاقیات کا پاس و لحاظ کریں تو بالیقین وہ عزت و پذیرائی کے مستحق ہیں، اور ان کا قلم چوم لینے کو دل کرتا ہے، لیکن‌ کبھی علمی انا محرک بنتی ہے اور کبھی ذاتی رنجش سر ابھارتی ہے اور کبھی پرانی کوئی علمی یا قلمی نوک جھونک دل میں رکھ کر بھڑاس نکالی جاتی ہے۔ اگر کبھی کسی سے کوئی تصادم ہوا ہے تو فتنہ اٹھانے کے لیے اور کسی بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
نفرت و دشمنی جب قلم کی سیاہی میں شامل ہوتی ہے تو قلم زہر اُگلتا ہے، چنگاریاں پھینکتا ہے، ایک دوسرے کی ذاتیات کے پرخچے اڑائے جاتے ہیں، صیغہ راز کی پرت در پرت باتوں کو بھی کھوج کر باہر لایا جاتا ہے، نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں، ماضی میں ادارے اور جمعیات کے بعض ذمے داروں کے تعلق سے جو ایک سلسلہ جنبانی دیکھنے کو ملا ہے وہ بہت ہی تلخ اور روح فرسا تھا۔ کتنی حرمتیں پامال ہوئی ہیں، کتنی ہی پگڑیاں خاک آلود ہوئی ہیں، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ بس راکھ میں دبی ہوئی چنگاری کو شعلہ جوالہ بنانے کے لیے کوئی ایک معمولی بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ نخوت قلم کے بے شمار نظارے ہیں۔
بعض رستم‌ زمانہ ایسے بھی پائے گئے ہیں کہ فیس بک یا واٹس ایپ گروپ پر کوئی بحث چھڑتی ہے تو پہلے خوب پڑھ لیتے ہیں پھر نادر معلومات کی جھڑی لگاتے چلے جاتے ہیں اور اخیر میں کہتے ہیں کہ ذرا آف لائن تھا اچانک کھولا تو موسم کے درجہ حرارت کا پتہ چلا بس یہ چند باتیں قلم برداشتہ لکھ مارا ہے، تفصیل پھر کبھی۔۔۔ لیکن کبھی دنگل میں گھر گئے اور کوئی پیش جانے والی نہیں ہے تو عدیم الفرصتی کے بہانے کلٹی مار لیتے ہیں۔
دل حزیں تری سب زہد کوشیاں معلوم
جو کوئی بس نہ چلا صبر اختیار کیا
قلم میں دم خم ہے تو اکیلے پوری بھیڑ کا مقابلہ کرتے ہیں، موقف اور نقطہ نظر سے ذرا بھی سرکنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، دلیل کے نام پر معقولیت سے عاری ہوکر صرف الفاظ سے کھیلنا اور منطقیانہ موشگافیاں چھیڑنا ہی ان کی شاہ دلیل ہوتی ہے، بھئی قلم چل گیا ہے اور الفاظ کے دھنی ہیں، بحث کے گھوڑے کو من موافق دوڑالیتے ہیں، ناقابل تسخیر ہیں۔ کوئی کیا کرسکتا ہے؟ یہ توپتہ ہے کہ کسی کی عزت و ناموس کی دھجیاں اڑانے میں وقت کہاں لگتا ہے اس لیے خیر اسی میں ہے خون کا گھونٹ پی کے رہو، کچھ مت بولو لیکن آج ہم نے اپنی ذات کو نشانے پر رکھ کر یہ سطور قلم بند کیا ہے اور روز بروز کڑھنے سے اچھا ہے کہ بھڑ کے چھتے میں پتھر مار دو۔
کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف
ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے
بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر رگ غضب جب پھڑکتی ہے تو دریدہ دہنی اور مغلظات پر بھی اتر آتے ہیں، پھر ادب و بلاغت کا پورا سرمایہ ایسے بدبو دار الفاظ اور سڑاند پھیلاتے القاب و آداب پر مشتمل معلوم ہوتا ہے کہ نفیس الطبع انسان متلی اور قے سے گذرنے لگے۔
قلم چل رہا ہے اس لیے وہ کہیں بھی خود کو عاجز نہیں پاتے بلکہ ہر میدان میں ڈنکے کی چوٹ پر رائے دینے کے مجاز ہوتے ہیں۔ علم و فن کی ہر جولانگاہ میں اپنی ترکتازیوں کا شور بپا کیے رکھتے ہیں۔
مولویوں پر تو چراغ پا ہیں کہ ان کی فیلڈ دین ہے مسائل ہیں فتویٰ ہے یہ دیگر معاملات میں دخل در معقولات کیوں کرتے ہیں؟ مگر یاران تیز گام پر راہیں کشادہ ہیں، دینی مسائل میں فتوے کی زحمت بھی گورا کرلیتے ہیں۔ خطیبو‌ں کی گوشمالی بھی کرتے رہتے ہیں، ہر مسئلے پر ریڈی میڈ گرم گرم فتوی تیار رکھتے ہیں، تحقیق انیق کے نام پر چھوٹے اور معمولی مسائل میں ہی نہیں بلکہ پیچیدہ اور دقیق مسائل میں اکابرین علماء سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا موقف سوشل میڈیا پر پورے دھڑلے سے رکھتے ہیں، مجال کیا ہےجو کوئی اختلاف کرے اگر کسی کو بہت زیادہ حق گوئی کا نشہ ہے تو اس کی ایسی تیسی کرکے رکھ دیتے ہیں۔
تحریروں کے بین السطور میں نخوت ساتھ ساتھ چلتی ہے، کبھی کبھار الفاظ و جملوں پر سوار ہوکر بیداری کا ثبوت دیتی ہے۔ کسی بھی تحریر پر تنقید کرتے ہوئے صاحب تحریر کی منشا و ترجیحات سے آنکھیں میچ کر متروکہ پہلوؤں پر پوری دعویٰ ہمہ دانی کے ساتھ استدراک کرتے ہیں اور خود کی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں۔ مداح اور ثناخواں کس کے نہیں ہیں؟دریادل اور پرجوش قارئین مدح و توصیف کے پھول اور تحسین و آفرین کے ڈونگرے برساتے ہیں، ستائش کا یہ نشہ نفس کو کسی بڑی مہم جوئی پر آمادہ کرتا ہے، اگر دشمن نہ ملا تو اپنوں کی کھال ادھیڑنے لگتے ہیں۔
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
وہ چیزیں جو دینی حوالوں سے جانی جاتی ہیں وہ ان کے پسندیدہ موضوعات ہوتے ہیں۔ مدارس، علماء، خطباء، جلسہ اور چندہ پر دن رات نزلہ گرایا جاتا ہے، مدرسے اذکار رفتہ ہیں، امت پر بوجھ ہیں، دقیانوس اور نہ جانے کیا کیا ہیں، علماء و خطباء بھی تاریک خیال ہیں، تنگ نظر اور منافق ہیں، ملت فروش ہیں، یہ جبہ و دستار کی کمین گاہوں میں چھپے دین و ایمان کے قزاق ہیں جو عوام کو فضائل کا جام پلاکر ان کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، قوم کے پیسوں پر اپنا شبستان عیش رنگین بنائے رکھتے ہیں، ان کے حوض کوثر سے مغنیہ کے لبوں کی شراب اچھی ہے، اور جلسے کار عبث اور سرتاپا شر ہیں، یہ میلے اور عرس ہیں وغیرہ وغیرہ۔ عقیدہ و منہج کا تھرمامیٹر بھی ان کے ہاتھوں میں دیا ہوا ہے، چشم زدن میں جسے چاہا منہج صحیح کی ضمانت دے دی اور جسے چاہا باہر کی راہ دکھادی، سلفی علماء بھی اپنے منہج کی بقا کے لیے ان کی سندوتوثیق کے محتاج ٹھہرتے ہیں۔ پھر کوئی نیم اخوانی ہے اور کوئی نیم سلفی۔
چند وجوہات کے سبب ان کا سو خون‌ معاف سمجھا جاتا ہے، ان کی ناز برداری کی جاتی ہے، حالانکہ اچھائیوں کی آڑ میں سادہ لوح عوام کے ذہن کو زہر آلود کرکے ان کو اپنا ہم خیال بنا لیا جاتا ہے، ہم نے کتنوں کو دیکھا ہے جن کی سادگی پر مبنی دینداری لبرل دینداری اور ماڈرن پرہیزگاری میں تبدیل ہوچکی ہے، ایسے بہت سے قبائح ہیں جن سے اجتناب برتنے والے اب اس میں ملوث نظر آتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ منفی لٹریچر دانستہ نا دانستہ طور پر ذہن و فکر پر اپنےاثرات مرتب کرتا ہے، دہریوں، ملحدوں اور دین بیزار، اباحیت زدہ لکھاریوں کو پڑھنے والے ان کے قلم کے جراثیم سے اپنی فکری صحت کو بچا نہیں پاتے۔ ظاہر سی بات ہے جس قسم کا مواد ذہن میں اتارا جائے گا وہی زبان و قلم کی راہ سے باہر آئے گا۔
ضروری ہے کہ ہمارے اکابرین اس مسئلے پر توجہ مبذول فرمائیں اور ان کی اصلاح و تزکیے کی سمت میں قدم بڑھائیں، ابھی ماضی قریب میں ایک موقر سلفی عالم دین نے سلفی قلمکاروں کی ذہنی و فکری تربیت اور رہنمائی کے لیے بہت ہی عمدہ مضمون تحریر فرمایا تھا، ہمارے دیگر علماء کو بھی ایسی بامقصد پیش رفت کرنی چاہیے، اگر ان کے قلم کو رام کرلیا گیا اور انھیں منظم کرلیا گیا تو یہی ارباب قلم قوم و ملت کے لیے عظیم سرمایہ ثابت ہوں گے، ان کے ذریعے دعوت و ارشاد کا عظیم الشان فریضہ انجام پائےگا۔ جماعت کا صحافتی محاذ طاقتور ہوگا، مستقبل میں پیش آنے والے کسی بھی قلمی پیکار میں یہی ٹولہ دفاع کا مورچہ سنبھالے گا۔

7
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
3 Thread replies
2 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
6 Comment authors
newest oldest most voted
M.A.Farooqi

شاد باش رشید صاحب
یقینا انکساری، وضع داری اور تحمل اہل علم کا خاصہ ہے، نخوت خواہ قلم میں ہو یا زبان میں یا رویے میں وہ اچھی بھلی شخصیت کو تباہ کردیتی ہے

Kashif Shakeel

استادِ محترم
یہ رشید ودود نہیں ہیں یہ رشید سلفی صاحب ہیں

M.A.Farooqi

معذرت خواہ ہوں کہ سلفی کے بجائے ودود ٹائپ ہوگیا،
اسے سبقت ٹائپو سمجھیں

رفیق احمد رئیس سلفی

رشید سلفی صاحب کی اس جرات مندانہ تحریر پر دلی مبارک باد ۔ نخوت قلم کو آئینہ دکھانے کے لیے اس طرح کی تحریریں ہماری ضرورت بن گئی ہیں ۔ سلفی قلم کار نہ صرف ملت کا بلکہ انسانیت کا سرمایہ ہیں۔ اگر انھوں نے اپنی قیمت نہ پہچانی تو تاریکیوں کے سایے دراز ہوتے جائیں گے۔ تحریر میں سطحیت اس بات کی دلیل ہے کہ صاحب تحریر اندر سے کھوکھلا ہے ، لکھنا اس کی ایک بیماری ہے حس کا دنیا میں کوئی علاج نہیں۔ حقیقی سلفی قلم کار اس بیماری سے خود کو دور رکھتا ہے۔

رشیدسلفی

جزاکم الله خیرا

ابوالقاسم رامپوری

تحریر لاجواب ہے اور “نخوت قلم” کی خامہ سرایت شاندار

خبیب حسن

خوب❤️❤️
سلامت رہیں بھائ