یوروپ کے متمدن بنجارے (پہلی قسط)
(دوسری قسط)
سفر یورپ کا اگلا پڑاؤ تھا بیلجیئم اور فرانس
برسیلز Brussels
بیلجیئم کا دارالحکومت برسیلز نہایت خوبصورت شہر ہے۔ اسے یوروپین یونین (EU) اور ناٹو (NATO) جیسی عالمی تنظیموں کا دائمی مركز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہاں کی آبادی 1.2 ملین کے قریب ہے۔ ان دنوں جب میں بیلجیئم کی سیاحت پہ تھا وہاں کے راجہ البرٹ دوم تھے جو 1993 سے ہی گدی نشین تھے ابھی چند سالوں پہلے خبر آئی تھی کہ 2013 میں شاہ صاحب اپنے بیٹے شہزادہ فیلیپ کے حق میں برطرف ہوگئے ہیں۔ یوروپ کے اور بہت سارے ممالک کی مانند بیلجیئم کا نظام بھی جمہوریت پر مبنی دستوری بادشاہت ہے۔ یہاں ملک کا سربراہ تخت نشین شاہ ہوگا جبکہ حکومت کا سربراہ وزیراعظم ہوگا جو پارلیمانی انتخابات کے ذریعہ چنا جائے گا۔ حکومتی کاروبار میں فیصلہ لینے کا اختیار وزیراعظم کو ہے راجہ کو نہیں۔ برسیلز واقعی خوبصورت ہے، یہ شہر بساتے وقت حسن و جمال کا خاص خیال رکھا گیا ہے جو وہاں کی اونچی نیچی کشادہ سڑکوں اور خوبصورت عمارتوں سے ہویدا ہے۔ اس شہر کی فضا پرسکون ہے، جا بجا لینڈ اسکیپنگ کے مناظر دلفریب اور نشیب وفراز سے آشنا صاف ستھری سڑکیں اتنی پرکشش ہیں کہ دل موہ لیتی ہیں۔
لسانی اعتبار سے بیلجیئم میں ڈچ، فرینچ اور جرمن تینوں زبانوں کو سرکاری درجہ حاصل ہے لیکن یہاں زیادہ تر ڈچ زبان بولی جاتی ہے البتہ فرینچ دوسرے نمبر پر ہے اور جرمن برائے نام ہے۔ تاہم جرمنی اور نیدرلینڈز کے برعکس یہاں کے لوگ انگریزی بھی بولتے ہیں جس کی وجہ سے سیاحوں کو کافی آسانی ہوتی ہے۔ یہاں سکونت کے لئے میں نے اپنے ایک دوست کے فلیٹ کا انتخاب کیا جو ایک پرسکون رہائشی علاقہ نیویورکر سوسائٹی میں واقع تھا۔ اتفاق سے صاحب مکان کسی ضروری کام سے دو دنوں کے لئے جرمنی جارہے تھے اس لئے گھر میرے حوالے کرگئے۔ گھر تو مختصر تھا لیکن ضرورت کی تمام چیزیں مہیا تھیں اور وہاں کی ہاوسنگ سوسائٹی کافی منظم دکھ رہی تھی۔
یوروپ میں اس سال سرمائی موسم کی شروعات ہی کپکپا دینے والی تھی چنانچہ رات میں سرد ہوائیں جسم میں سوئی چبھو رہی تھیں۔ برسیلز کی راتیں یوں بھی کافی سرد ہوتی ہیں اور اسی لئے ٹھنڈ سے بچنے کے لئے وہاں کے رہائشی مکانوں میں مکمل انتظام بھی ہوتا ہے۔ اس طرح مجھے سردی سے نمٹنے میں کوئی دشواری لاحق نہ ہوئی گرچہ وہ رات کافی سرد تھی۔ بستر پہ دراز ہوتے ہی نیند آ گئی اور رات تھی کہ اپنے آنچل میں صبح نو کی امید لئے چند ساعتوں میں کٹ گئی! اگلے روز شہر دیکھنے کے لئے فلیٹ سے باہر نکلا تو اکتوبر کی ٹھنڈی ہواؤں نے آ دبوچا تاہم میرے پاس کنورس کا گرم جیکٹ تھا جو موسم کی افتاد سے نپٹنے کے لئے کافی تھا۔ فلیٹ سے نیچے اترا اور بنا کسی منزل کا تعین کئے برسیلز کی گلیوں میں یونہی اک آوارہ گرد کی طرح گھومنے لگا۔ وہاں کے عام رہن سہن کا جائزہ لیتا ہوا کچھ ہی دور گیا تھا کہ بھوک ستانے لگی۔ ایک نکڑ پہ بہت ہی خوبصورت کیفے دکھائی دیا میں سیدھا وہیں چلا گیا۔ یہ کیفے جتنا خوبصورت باہر سے لگ رہا تھا اس سے کہیں زیادہ خوبصورت وہ اندر سے تھا۔ انٹیرئیر ڈیکوریشن کسی صاحب ذوق کی مہارت کا غماز تھا۔ کیفے میں مہمانوں کی ضیافت کے لئے مرد وزن دونوں قسم کے ویٹر مامور تھے جو بہت ہی نفاست سے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ میں نے بھی ایک ٹیبل سنبھال لی اور ناشتہ بس اسی مقدار میں طلب کیا جو جسم کو توانائی تو دے سکے لیکن ثقیل نہ بنائے تاکہ سیر وتفریح آسان رہے آفٹر آل مجھے مایلز اَوِے (miles away) جانا تھا!
گرانڈ پلیس (Grand Place)
وہیں ٹیکسی لیا اور سب سے پہلے گرانڈ پلیس یا گرانڈ اسکوائر گیا۔ یہ میدان کافی بڑا اور شہر کا مرکزی اسکوائر ہے اسی لئے اسے گرانڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اسی میدان میں شہر کا ٹاون ہال اور میوزیم بھی آباد ہے۔ وہیں کئی ایکڑ وسیع اراضی میں شاہی محل (Royal Palace) بھی ہے جو کافی پرانا ہونے کے باوجود آج بھی پرکشش ہے اور اسے قدیم طرز تعمیر کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ یہ محل شاہِ بیلجیئم کی رہائش نہیں ہے یہاں صرف دفاتر ہیں۔ اس میدان کی یہ سب عمارتیں یہاں صدیوں سے موجود ہیں لیکن گردش زمانہ انہیں بناتا بگاڑتا رہا ہے۔ فی الحال جو عمارت ہماری نگاہوں کے سامنے تھی وہ تقریبا اٹھارہویں صدی کے آس پاس کی ہے۔ یہ میدان سچ مچ قابل دید ہے وہاں کھڑے ہوکر ان عمارتوں کو دیکھنے سے کچھ الگ ہی احساس ہوتا ہے۔ وہیں ایک برونزی مجسمہ ہے جسے مانیکین پِس (Manneken Pis) کہتے ہیں۔ یہ مجسمہ ایک چھوٹے برہنہ بچے سے عبارت ہے جو کسی اونچے مقام پر کھڑا ہو کر پیشاب کر رہا ہے اور لوگ بیتاب رہتے ہیں کہ اس کی ایک جھلک ہی میسر آجائے! حقیقت میں دیکھا جائے تو اس مجسمے میں دیکھنے کو کچھ بھی نہیں مگر حیرت ہے کہ یوروپین اسے بڑی اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنی ثقافت کا دھروہر سمجھ کر دل وجان سے عزیز رکھتے ہیں۔ یوروپ میں ترقی لاکھ سہی لیکن عریانیت اور فحاشی ان کی تہذیب کا ایسا جزو لاینفک ہے جس کی گرفت میں وہ بری طرح مقید ہیں۔ پورے یوروپ میں کہیں بھی چلے جائیں آپ کو صاف نظر آئے گا وہ ایسی تمام چیزیں اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں جس میں کھلے عام انسانی جسم کی نمائش ہو، ایسی تمام چیزوں کو وہ آرٹ اور روشن خیالی سے تعبیر کرتے ہیں۔
خیر وہاں سے آگے بڑھا اور ٹہلتا ہوا ایک اور اسکوائر پر آگیا جس کا نام تو مجھے یاد نہیں رہا لیکن وہیں برسیلز کا عالیشان کورٹ ہے اور وہاں سے دوسری سمت شہر کا نشیبی علاقہ شروع ہوتا ہے جو کافی گہرا ہے۔ کورٹ کی عمارت بڑی پرشکوہ ہے اور مقدمات کی کارروائی کے دوران ہر ایک کو اندر جانے کی اجازت ہے۔ میں بھی اندر چلا گیا، دیکھا اکا دکا لوگ آ جا رہے تھے کسی کسی ہال میں کچھ وکیلوں کے مابین بحث وجرح بھی چل رہی تھی، ایسا محسوس ہوا کہ یہ لوگ واقعی کچھ نزاعاتی مسائل کا حل تلاش کر رہے ہوں، ڈسکشن جاری تھا مگر ماحول پرسکون رہا۔ ہمارے ملک کے عدالتوں جیسی ہنگامہ آرائی بالکل نہ تھی!! وہاں سے نکلتے نکلتے شام ڈھلنے لگی اور میں پرندوں کی مانند گھر کو لوٹ گیا لیکن پرندے اپنے پروں پر اڑ کر جاتے ہیں اور میں میٹرو پر سوار ہو کر گیا۔ گھر جا کر ہلکا پھلکا کچھ کھایا اور تھوڑی دیر بعد سو گیا!
اٹومیم (Atomium)
اگلی صبح اٹھا اور اس بار ناشتے کا انتظام فلیٹ پر ہی کر لیا تھا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر میٹرو اسٹیشن گیا۔ میٹرو ٹرین پر سوار ہوا اور اٹومیم (Atomium) دیکھنے کے لئے نکل گیا۔ ہیزل میٹرو اسٹیشن پہ اتر گیا جہاں سے اپنی منزل صرف پانچ منٹ کی دوری پر تھی۔
اٹومیم برسیلز شہر کا ایک اہم لینڈ مارک ہے، اس کی بلندی سے شہر کا ویو کافی اچھا ہوتا ہے۔ یہ Atomium سائینسی ترقی بلکہ جوہری ترقی پر ایمان کی علامت سمجھا جاتا ہے اسی لئے یہ اسٹرکچر جوہر (Atom) کو مجسم شکل میں پیش کرتا ہے۔ یہ اٹومیم سن 1958 میں برسیلز عالمی میلے کے موقعے پر تعمیر کیا گیا تھا جسے انجینیئر انڈرے واٹرکیئن (André Waterkeyn) نے ڈیزائن کیا تھا۔ اسکی لمبائی انٹینا کے طول کے ساتھ کل 102 میٹر بتائی جاتی ہے۔ اس اسٹرکچر میں اسٹینلیس اسٹیل سے ملمع کرکے 60 فٹ ڈائمیٹر کے کل نو کُرے یعنی گیند ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ ان سبھی نو کروں یعنی گیندوں کو لوہے کے بنے ہوئے ٹیوب سے جوڑ کر رکھا گیا ہے۔ بیچ والے ٹیوب میں لفٹ لگی ہے اور سائڈ کی عمودی ٹیوب میں سیڑھیاں اور اسکیلیٹر ہے جو پانچ کروں سے ہو کر جاتا ہے۔ ان میں نمائشی ہال اور کچھ پبلک ہال ہیں جبکہ بالکل اوپر والے کرہ پر ایک ریستوران بھی ہے جہاں سے برسیلز شہر کا پانورامک منظر بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔
مینی یوروپ (Mini Europe)
اٹومیم سے بالکل متصل مینی یوروپ (Mini Europe) ہے جو ایک تھیم پارک ہے۔ مینی یوروپ میں بڑی خوبصورتی سے اٹلی کے وینس سے لے کر لندن کے بگ بین اور جرمنی کے دیوار برلن کے انہدام اور دیگر یوروپی مونومینٹس کو ایک جگہ نئی تخلیقی شبیہ کے بطور دکھایا ہے۔ تفریح طبع کے لئے اچھا ہے کہ اس کا مشاہدہ کیا جائے اور یوروپ کے اہم مقامات کا سرسری نظارہ ہوجائے۔ ویسے مجھے تو یہ مقام بازیچۂ اطفال کے سوا کچھ نہ نظر آیا۔ خیر دن تمام ہوا اور میٹرو ٹرین پکڑ کر سیدھا اپنی رہائش نیویورکر پہونچ گیا۔ کچھ دیر آرام کیا لیکن جلد ہی بیدار ہوگیا کیونکہ آج ہی برسیلز میں موجود اپنے ایک دوست کے ساتھ ڈنر پہ جانا تھا۔ وہاں سے نکل کر ہم ایک ایسی اسٹریٹ پر پہونچے جہاں کئی عالیشان اور بارونق ریستوران قطار اندر قطار نظر آ رہے تھے۔
برسیلز میں ترکی، الجزائر اور تیونس کے کافی لوگ رہتے ہیں اور ان کا ہر طرح کا اپنا بزنس بھی ہے چنانچہ کچھ شاندار قسم کے ریستوران ان لوگوں کے بھی ہیں جہاں یہ اپنا ٹریڈیشنل فوڈ پیش کرتے ہیں۔ ہمارے دوست نے ایک ٹرکش ریستوران کا انتخاب کیا کہ وہاں حلال کھانے میسر ہوں گے۔ ایک ٹیبل پر ہم نے اپنی نشست لی اور کھانے کا آرڈر کردیا۔ مینو کا مطالعہ کرتے کرتے ہم نے دیکھا کہ یہاں آتشِ سیال بھی نامۂ طعام میں ہے اور لوگ کاسۂ حرام بے تکلف انڈیلے جا رہے ہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ بلا یوروپ میں عام ہے، اسے صرف ناگوار ہی سمجھا جاتا ہے۔ تب تک ٹیبل پر ہرے اور کالے زیتون کی رکابیوں کے ساتھ فریش گرین سلاد بھی آ چکا تھا، بھوک تو پہلے سے شدید تھی، بلا تضییع وقت شروع ہوگئے۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ یہاں کے ریستوران میں اپیٹائزر میں عموماً ایسی غذائیں پیش کی جاتی ہیں جو معدے کو بہلا پھسلا کر کچھ بھاری بھرکم قسم کی چیزیں قبول کرنے پر راضی کرلیں جیسے کئی قسم کے سبز اور فریش سلاد، سوپ اور کچھ دیگر ہلکی پھلکی چیزیں، سو وہ ہم کھاتے رہے پھر تھوڑی دیر بعد اصلی کھانا بھی آگیا جو خوشنما بھی تھا اور خوش ذائقہ بھی۔ ہم نے بغیر کسی تکلف پورا کھانا کھایا اور ریستوران کی پرکیف فضا سے لطف اندوز بھی ہوئے۔ ریستوران سے نکلتے نکلتے آدھی رات گزر چکی تھی اور باقی رات میں وہاں کے چکا چوند رتجگے میں گنوانا نہیں چاہتا تھا اس لئے اپنے ٹھکانے پہ جا کر سوگیا۔ نیند بڑی اچھی آئی اور صبح بالکل تازہ دم ہو کر اٹھا۔ آج ہی پیرس کا عزم سفر تھا۔ نہا دھو کر فارغ ہوا، اپنا سامان پیک کیا اور بس اڈے پہونچ گیا جہاں سے پیرس کے لئے ٹکٹ خریدا اور ایک بس میں سوار ہو گیا۔ برسیلز سے پیرس کی مسافت 264 کیلومیٹر ہے جو تقریبا ساڑھے چار گھنٹے میں طے ہوئی.
پیرس
اب آیا روشنیوں کا شہر، فرانس کا ناز پیرس! جی پیرس فرانس کا دارالحکومت ہے جو دریائے سین (Seine) کے کنارے واقع ہے۔ اس کا شمار یوروپ کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے اور اس کی کل آبادی 2.2 ملین کے قریب ہے۔
پیرس دنیا کا ایک اہم سیاحتی شہر ہے اور سیاحت اس کی کل شرح آمدنی کا بڑا حصہ بھی ہے۔ یہ شہر آرٹ، فیشن، انواع واقسام کھانوں کے ساتھ تہذیب وثقافت کا عالمی مرکز بھی ہے۔ اس شہر کا ایک لقب ہے ‘روشنیوں کا شہر’ (City of Lights) جسے فرینچ میں (La Ville Lumière) کہتے ہیں۔ یہ لقب مرور ایام کے ساتھ آج بھی زبان زد ہے۔ اس کی ایک وجہ تو وہ ہے جو اس کے لفظ سے ظاہر ہے؛ کہا جاتا ہے پیرس یوروپ کا پہلا شہر تھا جہاں کی سڑکوں اور تاریخی عمارتوں کو بڑے پیمانے پر گیس کی روشنی سے جگمگایا گیا۔ بعد ازاں اسے برقی روشنیوں سے منور کیا گیا اور آج تک یہ شہر اپنی اس روشنی کو ماند نہیں ہونے دیتا۔ دوسری وجہ جو زیادہ اہم اور قرین قیاس ہے وہ یہ کہ روشنی اس شہر کی تاریخی میراث ہے۔ دیگر شہروں کے مقابل پیرس نے فرانس ہی نہیں پورے یوروپ کو عہد ظلمات سے نکال کر روشن خیالی کے نئے اور درخشاں عہد میں لانے کا قائدانہ رول ادا کیا ہے۔ اس طرح پورے یوروپ میں پیرس شہر کو تعلیم اور جدید افکار کا مرکز سمجھا جانے لگا۔ اس شہر نے شاعروں، مفکروں، دانشوروں اور سائنسدانوں کو حوصلہ عطا کیا اور انہوں نے جادۂ ترقی پہ چل کر فرانس کو یوروپ کی تعمیر نو میں سر فہرست رکھا ہے۔ اسی روشن خیالی اور فکرِ نو نے انقلاب فرانس کی زمین ہموار کی اور اس طرح اس ملک کو شہنشاہیت سے نجات ملی۔ اس کے باوجود وہاں بعد کے ادوار میں کچھ لوگوں نے شہنشاہ اعظم کا رول تو ادا کیا لیکن شہنشاہیت کو فروغ دینے میں وہ نامراد رہے اور اس وقت سے لے کر اب تک وہاں جمہوریت کا بول بالا ہے۔ اس وقت جب میں پیرس میں وارد ہوا فرانس کے صدر جاک شیراک (Jacques Chirac) تھے جو 1995 سے 2007 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس سے پہلے بھی وہ حکومت کے مختلف عہدوں پر رہ کر فرانس کی قیادت کو سنبھالا دیتے رہے تھے تاہم اپنی صدارت کے آخری سالوں میں بڑے جھمیلوں سے بھی دوچار ہوئے اور نیقولا سرکوزی نے انہیں شکست فاش دی۔
رات کے تقریبا گیارہ بج رہے تھے جب ہماری بس پیرس کے یورولائنز بس ٹرمینل پہونچی۔ ڈپو کے ساتھ ہی میٹرو اسٹیشن بھی تھا بس سے اتر کر میں سیدھا وہیں گیا اور اسی وقت دو دنوں کا ایک پاس خرید لیا تاکہ بار بار ٹکٹ لینے سے نجات مل جائے۔ وہ پاس میٹرو، ٹرام اور بس تینوں ٹرانسپورٹ کے لئے ویلڈ (valid) تھا۔ یوروپ میں ٹرانسپورٹ کا یہ نظام کافی اچھا ہے کہ ایک ہی پاس تمام پبلک ٹرسپورٹ پر نافذ العمل ہوتا ہے۔ رہائش کے لئے مجھے یوتھ ہوسٹل جانا تھا جو وہاں سے دور نہ تھا اس لئے چند منٹوں میں پہونچ گیا۔ ہوسٹل میں ایک برتھ بک کیا اور لاکر کی چابی لے کر اپنے بیڈ پہ چلا گیا۔ پیرس کا یہ پوسٹل فرینکفرٹ کے مقابل ہر لحاظ سے دو ستارہ کمتر تھا پھر بھی اچھا تھا۔ مجھے ہوٹل کی کوالٹی سے کوئی غرض نہ تھا صرف شب گزاری مقصود تھی سو وہ پوری ہو رہی تھی۔ صبح اٹھا، ضروری حاجات سے فارغ ہوکر ڈائننگ ہال میں گیا تو وہاں ہر طرف ایک ہی آواز سنائی دے رہی تھی bonjour (بونجوخ) یعنی گُڈ مورننگ! Comment allez vous (کوما تلے فوو) مطلب کیا حال ہے؟ bien (بِیَاں) یعنی اچھا ہے۔ Merci beaucoup (میخسی بوکوں) بمعنی بہت بہت شکریہ۔ فرینچ نطق میں (R) کا تلفظ (خ+غ) سے ادا ہوتا ہے وہ بھی آدھا کھایا ہوا مطلب نہ خاء مکمل نہ غاء مکمل بلکہ بین بین ہوتا ہے۔ اگر سامنے آدم زاد کی شکل نہ ہو تو ایسا لگے گا جیسے کچھ کبوتر غوں غوں کر گے اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہوں! (N) اور (P) اکثر محذوف ہوتے ہیں۔
چونکہ ناشتہ ہوسٹل کے ریٹ میں شامل تھا اس لئے وہاں موجود ہر فرد کی یہی کوشش تھی کہ ناشتہ وقت پر اور تہ بہ تہ کر سکے تاکہ پھر یہ موسم یہ بہار آئے نہ آئے۔۔ لہذا یہ مہم سر کرنے کو میں بھی جائے واردات پہ پہونچ چکا تھا۔ ناشتے کے لئے کافی چیزیں بوفے میزوں پر سجی ہوئی تھیں؛ فرینچ ٹوسٹ، فرینچ baguette، فرینچ cracker، فرینچ croissant، فرینچ جام strawberry اور red berries، فرینچ جوس، گرما گرم کافی اور چائے وغیرہ۔ میں نے ہر ایٹم کے آگے فرینچ اس لئے لگایا تاکہ پڑھنے والا یہ سمجھ سکے کہ فرانس کے لوگ اپنا تمام پروڈکٹ عمدہ بناتے ہیں، خود کھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی کھانے کے لئے آمادہ کرتے ہیں اس کے بعد جو افراط ہوتا ہے اسے ایکسپورٹ بھی کرتے ہیں تاکہ دوسری جگہوں کے لوگ بھی اس ذائقے سے آشنا ہو سکیں۔ اس کے بالکل برعکس ہمارے ملک انڈیا میں اگر کسی ہائی فائی پانچ ستارہ ہوٹل میں بھی چلے جائیں اور ناشتہ یا کوئی کھانا طلب کریں تو ہوٹل والا کچھ ایکسپورٹیڈ ایٹم ضرور پیش کرے گا اور اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتا پھرے گا تاکہ آپ پر اس پروڈکٹ کی اہمیت اور اس کی عمدگی پوری طرح واضح ہوجائے؛ بر سبیل تذکرہ یہ یہ ۔۔۔۔۔ فرانس سے امپورٹ ہو کر ہمارے ہوٹل میں اتری ہے اور یہ یہ ۔۔۔۔۔ ہمارے ہوٹل میں موجود فلاں چیف نے بڑی محنت سے تیار کیا ہے جس نے فرینچ cuisine میں مہارت کا ڈپلوما کر رکھا ہے اور پیرس کے کسی ہوٹل میں خانساماں تو نہیں لیکن ویٹر یا ہیلپر کا کام کر چکا ہے۔ یہاں سب مانگے کا اجالا ہے!! ہندوستانی غذاؤں کا بکھان تو وہ کر نہیں سکتا کیونکہ اسکی کوالٹی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ رسمی الفاظ ساتھ نہیں دیتے بلکہ نئے الفاظ تراشنے پڑتے ہیں۔ الغرض ناشتے سے فارغ ہو کر میٹرو اسٹیشن گیا وہاں سے ٹرین پر سوار ہو کر نوٹرے ڈیم (Notre-Dame) پہونچا۔
نوٹرے ڈیم (Notre-Dame)
ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی لیکن پیرس والوں کی آمد ورفت میں کسی طرح کی کوئی کمی آتی نظر نہیں آئی، لوگ معمول کے مطابق اپنی ایکٹیویٹیز میں مصروف رہے۔ نوٹرے ڈیم تیرہویں صدی عیسوی کے گوتھک طرز تعمیر کا ایک کیتھیڈرل چرچ ہے جو وقت اور حالات کے تھپیڑوں سے لڑتا ہوا انیسویں صدی کے اوائل میں کچھ ترمیم واضافہ سے دو چار ہوا اور دریائے سین کے ڈیلٹا میں آج بھی پیرس کا ایک انمول رتن ہی نہیں بلکہ پیرس کے عہد رفتہ کی علامت بنا ہوا ہے۔ نوٹرے ڈیم فرانسیسی زبان میں “ہماری خاتون” کا مترادف ہے، اس خاتون سے ان کی مراد کوئی اور نہیں وہی پاکدامن مریم علیہا السلام ہیں۔ نوٹرے ڈیم ایک کیتھیڈرل ہے جو حجم اور اختیارات دونوں میں چرچ سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اس کا نظام کسی بڑے پادری کے زیر نگیں ہوتا ہے اور وہاں عبادت کے علاوہ دیگر تربیتی امور بھی انجام دئے جاتے ہیں۔
نوٹرے ڈیم گوتھک اسٹائل کی ایک خوبصورت عمارت ہے۔ اس کی چھت کافی اونچی اور ستون منقش وطویل ہونے کے ساتھ بہت دلآویز بھی ہیں۔ ہال میں عیسی ومریم علیہما السلام کی فرضی اور بے تکی تصویروں کے علاوہ کئی قدیم پادریوں کی بھی تصویریں اور مجسمے آویزاں ہیں۔ یوں تو نبی عیسی علیہ السلام کے پیروکار مسیحی لوگ موحد ہیں لیکن ان کی عبادت گاہیں صنم خانوں سے مختلف نہیں۔ صنم خانوں میں دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں ہوتی ہیں اور ان کے گرجا گھروں میں اب تک میں نے جو دیکھا وہاں نبی عیسی، ان کی والدہ محترمہ مریم اور دیگر پادریوں کی تصاویر اور بت بھرے پڑے ہیں۔ جو بھی ہو فنی اعتبار سے یہ کیتھیڈرل عہد وسطی کے نقش کُہن کا ایک شاہکار ہے اور لوگوں کی سیاحت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ نوٹرے ڈیم سے فارغ ہوکر میں نے ایک ٹیکسی لی اور لووَر جا پہونچا۔
لووَر (Louvre) میوزیم
لوور پیرس کا مشہور میوزیم ہے اسے فرینچ میں Musée du Louvre (میوزے دو لووفخ) کہتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا آرٹ میوزیم اور پیرس کی ایک تاریخی عمارت ہونے کے علاوہ شہر کا مرکزی سنگ میل بھی ہے۔ اس کا کل رقبہ 72 ہزار اسکوائر میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس لووَر میوزیم کی کہانی بھی عجیب ہے!
لووَر پہلے فرانسیسی راجاؤں کا محل ہوا کرتا تھا، گردش ایام کے ساتھ جب عمارت مہاراج شری کی سکونت کے قابل نہ رہی، اس پر مستزاد یہ کہ انقلاب فرانس نے راجاؤں کو کھدیڑ دیا تو اسے 1973 میں راجاؤں کے جمع کردہ پسندیدہ فنون لطیفہ کا بَھوَن بنا کر میوزیم کا درجہ دے دیا گیا۔ نیپولین بوناپارٹ نے اپنے عہد میں اسے Musée Napoléon نیپولین میوزیم نام دیا اور اس میں گرانقدر آثار کا اضافہ بھی کیا۔ نیپولین کی برطرفی کے بعد اٹھارہویں لوئس اور دسویں چارلس نے اس میوزیم میں فن پاروں کی تعداد مزید بڑھائی اور عمارت میں بھی کافی سدھار کیا۔ یہاں روزانہ لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں اور یہاں کے متعدد بے مثال آرٹس کا دیدار کرتے ہیں۔ کہنے کو تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ جس میوزیم کو دیکھنے کے لئے لوگ آتے ہیں وہ لووَر ہے۔ لووَر کافی بڑے رقبے میں ہے یہاں بڑے بڑے ناموروں کے آرٹس کے بے شمار پینٹنگ، مجسمے اور عہد ماضی کی صنعت گری کے آثار موجود ہیں۔ ویسے تو اس میوزیم میں فنون لطیفہ کے ماسٹر پیس ان گنت ہیں لیکن ان میں crème de la crème یعنی عمدہ ترین جسے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہیں:
Leonardo Da Vinci کی عالمی شہرت یافتہ پینٹنگ مونالیزا (Mona Lisa) ہے جسکے رخ تاباں کا ساحرانہ تبسم اور ٹکٹکی باندھے ہوئے ہر کسی کو تکتی نگاہ ہر سال لاکھوں کو پیرس کھینچ لاتی ہے۔
Alexandros of Antioch کا تراشا ہوا مجسمہ Venus De Milo ہے جس کے بارے میں وہاں یہ کتبہ لگا ہوا ہے کہ سنگ مرمر کا یہ مجسمہ قدیم یونانی حسن ومحبت کی دیوی سے عبارت ہے جو تقریبا سو سال قبل مسیح تراشا گیا تھا مگر اس کی دمک آج بھی باقی ہے۔
لووَر اہرام: اس میوزیم کے وسط میں ایک کشادہ صحن بھی ہے۔ جہاں گلاس، اسٹیل اور الومیونیم سے مصری اہرامات کی شکل میں ایک بڑا ہرم اور اسکے اطراف میں تین چھوٹے اہرام ڈیزائن کئے گئے ہیں۔ لووَر کے ان اہرام کے معمار چینی نسل کے امریکن Ieoh Ming Pei تھے۔ لووَر کا یہ بڑا پیرامڈ 1989 میں بن کر تیار ہوا اور اسی کو میوزیم کا مدخل قرار دیا گیا۔ اس ہرم سے داخل ہو کر نیچے گیا۔ وہاں ایک شاپنگ ہال کے علاوہ کچھ ریستوران، کیفے اور دیگر سہولیات نظر آئیں پھر وہیں سے میوزیم کی گیلریوں کو اوپر کی طرف راستہ جاتا ہے سو ہم نے اسی جادے پر چلنا بہتر جانا۔
لووَر میوزیم کے بالائی حصے میں مصری آثار قدیمہ کا سیکشن ہے جہاں عہد فراعنہ سے لے کر چوتھی صدی عیسوی تک کے تقریبا 50 ہزار مصری آثار کے باقیات رکھے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک مجسمہ ہے “بیٹھا ہوا منشی” جو لووَر کے آثار میں کافی شہرت یافتہ ہے۔ اسے قاہرہ کے قریب سقارہ کے مقام پر کھدائی کے دوران حاصل کیا گیا تھا۔ ایک مجسمہ کنگ (فرعون) اخناتون اور اسکی رانی نفرتیتی کا بھی ہے جو رنگا رنگ چونا پتھر سے تراش کر بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں قدیم مصر کے مومیاء، فراعنہ کے آثار اور قبطی دستاویز موجود ہیں۔
یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ انقلاب فرانس کے بعد جسے یوروپ میں عہد روشن خیالی کا درخشاں ملک سمجھا گیا اس نے اپنے میوزیم کو تابناک اور عجائبات دنیا سے مالامال بنانے کے لئے مصر، عراق اور سامراء کے آثار کی چوری کی۔ فرانس اس قبیح فعل میں اپنے پڑوس جرمنی، بریطانیہ اور امریکہ کا ہمنوا رہا ہے! یہ ترقی یافتہ ممالک اپنے دامن میں غلاظتیں اٹھائے ہمیں تہذیب وثقافت کا درس دینے چلے ہیں! تفو بر تو اے چرخ گردوں تفو!!!
اس میوزیم کو گھومنے میں کافی وقت صرف ہوا۔ ایک گیلری دیکھ کر دوسری گیلری کے لیے آگے بڑھتا تو سوچتا شاید اس جگہ کچھ بہتر اور دلچسپ چیزیں دیکھنے کو ملیں لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! لووَر میوزیم میں زیادہ تر برہنہ یا نیم برہنہ تصویروں کی پینٹنگز یا مجسمے ہی دکھائی دئے جنہیں دنیا عجائب روزگار اور فائن آرٹ کا شاہکار سمجھتی ہے! یہاں آنے والے اکثر زائرین کو دیکھا کہ حیرت واستعجاب میں ان کے منہ کھلے رہتے ہیں اور ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں مگر ایسے تمام عجائب خانوں سے مجھے تو گھِن آتی ہے!! کاش ان مایہ ناز فنکاروں نے اپنی صلاحیتوں کو کسی با مقصد اور کارآمد کاز کے لئے صرف کیا ہوتا تو آج یہاں ان بے حیائی کے نمونوں کی جگہ کچھ بامقصد اور تعمیری فن پارے ہوتے! بہر کیف لووَر سے نکلتے نکلتے شام ہوچکی تھی اور میری اگلی منزل تھی فتح کا مینار دیکھنے کی۔
Arc de Triomphe یعنی فتح کی کمان یا نشان
اس کا فرینچ تلفظ بہت مشکل ہے۔۔ بڑی محنت کے بعد تو سمجھ میں آیا کہ لاطینی حروف کو فرانس والے ادا کیسے کرتے ہیں۔ میں یہاں لکھ دیتا ہوں (آخک دوتخیومف) آپ بھی پڑھ کر مشق کر لیجئے۔
یہ عمارت چارلس دیغول میدان کے بالکل وسط میں بنائی گئی ہے اور پیرس کے اہم تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ وہی میدان ہے جہاں سے بارہ اہم شاہراہوں کے چشمے پھوٹے ہیں۔ اپنے فوج کی عظمت اور جاہ جلال کی یادگار کے طور پر نیپولین نے 1806 میں قوس نما اس عمارت کی تعمیر شروع کی لیکن وقت نے ساتھ نہ دیا اور 1836 میں جب یہ عمارت بن کر تیار ہوئی تو نیپولین دنیا سے کوچ کر چکا تھا۔ نیپولین نے یہ عمارت ان جرنیلوں اور سپاہیوں کی یاد میں بنائی تھی جو انقلاب فرانس اور نیپولین کی جنگوں میں کام آئے تھے۔ اس مقام نے جہاں فرانسیسیوں کی فتح کے شادیانے اور نغمے گنگنائے وہیں 1940 میں سقوط پیرس کا کرب بھی جھیلا اور یہی مقام جو فرانسیسی فوج کے غرور کا نشان تھا ہٹلر کی نازی فوج کے سامنے لاچار ہوکر اپنے فوجیوں کی بزدلی کا ماتم کر رہا تھا اور نازی فوج اس یادگار نشان کو تنکے سے بھی کمتر جان کر روند رہی تھی۔ اسی میدان کے بارہ اوینیوز میں ایک اوینیو شانزلیزیہ کا ہے میں اس کی سیر کو نکل گیا۔
Avenue des Champs-Élysées شانزلیزیہ اوینیو
شانزلیزیہ اوینیو دنیا کی سب سے زیادہ شہرت یافتہ شاہراہوں میں سے ایک ہے۔ یہ شاہراہ ڈی لاکونکورڈ میدان سے چارلس ڈیغول میدان کے بیچ 1.9 کلومیٹر لمبی اور 230 فٹ چوڑی ہے۔ سڑک کے دونوں جانب پیرس کے مشہور تھیٹرز، عالیشان کیفے، مشہور اور پوش ریسٹورانٹ، پرفیوم اور فیشن وغیرہ کی لکزری دوکانوں کے ساتھ ساتھ عالمی برانڈز کے تجارتی مراکز اسی شاہراہ پر ہیں۔ اس کے علاوہ اور بہت ساری آفسوں کا مرکز بھی یہی اسٹریٹ ہے۔ ہر سال 14 جولائی کو اسی شاہراہ پر ملٹری پریڈ بھی ہوتا ہے۔
شانزلیزیہ اوینیو کی بات چلے اور وہاں کے لذیذ ڈِشوں کا ذکر نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں۔ سڑک کے کنارے آباد ریستوران سیاحوں کو اپنی طرف خوب متوجہ کرتے ہیں اور لوگ کھنچے چلے آتے ہیں۔ تمام ریستورانوں پہ لوگوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ ریستورانوں کے باہر سلیقے سے بچھی کرسیاں، قرینے سے لگے ہوئے میز اور نفاست سے سَرو کرتے ہوئے فرینچ ویٹرز اپنے زائرین کو مسحور کردیتے ہیں۔ ڈنر کا وقت ہو رہا تھا اور بھوک بھی خوب لگی تھی، میں بھی ایک عالیشان ریسٹورانٹ میں گھس گیا، گراونڈ فلور کھچاکھچ بھرا ہوا تھا مجھے اوپری منزل تک جانا پڑا۔ ایک ویٹر آیا اور ادب سے میرے سامنے مینو رکھ کر چلا گیا۔ مینو میں انواع واقسام کھانے تھے پر مصیبت یہ تھی کہ وہاں محرّمات کا چلن بھی خوب تھا اور فرینچ مجھے صرف اتنی معلوم ہے کہ اب تک آداب وتسلیمات اور کلمات تشکر سے آگے نہ بڑھ سکا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا طلب کروں! جیسے تیسے میں نے ویٹر سے پوچھا کیا اس ریسٹورانٹ میں حلال فوڈ مل سکتا ہے؟ اس نے جوابا کیا کہا مجھے اچھی طرح یاد نہیں لیکن میرا دل مطمئن نہیں تھا اس لئے میں نے اس سے دوبارہ پوچھا بتاؤ ویج کھانا ملے گا؟ جواب اثبات میں تھا اور میں نے مجبوراً وہی طلب کرلیا۔ زیتون کی پلیٹ اور سلاد پہلے آیا پھر کچھ دیر بعد طلب کیا ہوا ویج کھانا بھی آگیا۔ کھانا خوش منظر بھی تھا اور خوش ذائقہ بھی۔ کھا کر فارغ ہوا اور بل ادا کرکے دوبارہ شانزلیزیہ اسٹریٹ پر گھومنے لگا۔ کچھ عالیشان دکانوں میں گیا اور سوچا پیرس سے یادگار کے طور پر کچھ شاپنگ ہی کرلوں لیکن بیشتر چیزوں کی قیمتیں دیکھ کر ٹھٹھک جاتا اور دکانوں سے باہر آ جاتا۔ خریداری تو نہ کرسکا مگر آوارہ گردی کرتا رہا۔ پیرس کی وہ رات کافی سرد تھی، جوں جوں تاخیر ہورہی تھی مجھے اپنی صحت کی فکر دامن گیر ہورہی تھی چنانچہ وہاں مزید رکنا مناسب نہیں سمجھا اور ہوٹل لوٹ آیا۔ دن بھر کی تھکان سے پورا بدن چور چور تھا بستر پہ لیٹتے ہی نیند آگئی اور پوری رات کیسے بسر ہوئی کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔
اگلی صبح ایفل ٹاور دیکھنے کا پلان تھا میں ناشتے سے فارغ ہوکر سیدھا میٹرو اسٹیشن گیا اور وہاں سے ایفل ٹاور کیلئے روانہ ہوگیا۔
ایفل ٹاور (Eiffel Tower)
ایفل ٹاور دیکھ کر اوّل وہلہ میں یوں لگا کہ یہ بھی کوئی دیکھنے کی چیز ہے۔ خالص لوہے کے اس ڈھانچے کو دیکھنے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہر سال پیرس کا دورہ کرتے ہیں۔ آخر اس ٹاور میں ایسی کیا چیز ہے جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے؟ اسی سوال میں غلطاں و پیچاں وہاں کے سرسبز و شاداب پارکوں سے ہوتا ہوا دریائے سین کے پل پر جا پہنچا۔ تھوڑی دیر ندی کا منظر دیکھتا رہا اور وہاں کے حیات بخش ماحول سے لطف اندوز ہوتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔ خراماں خراماں ٹاور کی طرف جا رہا تھا کہ راستے میں ایک عجیب منظر دکھائی دیا۔ ایفل ٹاور سے ذرا سا پہلے رہگزر کے کنارے کنارے کچھ خوبرو نوجوان زرق برق لباس میں سج دھج کر اپنے کاندھوں سے گٹار حمائل کیے فرانسیسی زبان میں کوئی نغمہ گارہے تھے۔ میں نے سمجھا شاید یہ لوگ اپنے وطن کی محبت میں سرشار ہوکر دیس بھکتی کے ترانے گا رہے ہیں۔ قریب آیا تو ٹھیک ان کے سامنے سطحِ ارض پر کپڑے کا ایک ٹکڑا پھیلا ہوا دکھائی دیا جس پر چند ریزگاریاں اور کچھ نقدی فرینک نوٹ پڑے ہوئے تھے۔ اب میری سمجھ میں آیا کہ یہ بیچارے دیس بھکتی کا نغمہ نہیں الاپ رہے ہیں بلکہ یہ بے روزگار ہیں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے گلوکار بن کر لوگوں سے امداد کے سوالی ہیں۔ ہم انھیں بھکاری تو نہیں کہہ سکتے اس لیے کہ یہ مہذب قوم کے افراد ہیں، بھیک مانگنا تو میلے کچیلے، آفت رسیدہ، لٹے ہوئے اور غیر مہذب قوموں کی وراثت ہے۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو اس تاریخی عمارت کے سامنے یہ منظر دیکھ کر میرے ذہن میں طرح طرح کے خیالات آتے رہے یہاں تک کہ میں ایفل ٹاور کے نیچے پہنچ گیا۔ وہاں کاؤنٹر سے ٹاور کے بالائی منزل تک جانے کا ٹکٹ خریدا اور ایفل ٹاور پہ چڑھنے لگا۔ پہلی منزل تک سیڑھیوں سے چڑھ کر گیا وہاں ایک بہترین ریسٹورنٹ اور کچھ دکانیں تھیں۔ میں نے ریسٹورنٹ سے کچھ اسنیکس اور کافی لی اور وہاں سے نیچے اور اطراف کا منظر دیکھنے لگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کی تہذیب میں عمارتیں بہت اہم ہوا کرتی ہیں اور آگے چل کر یہی ان کی تاریخ کا حصہ بھی بنتی ہیں۔ انہی عمارتوں سے ان کی ثقافت و تمدن کا پتہ چلتا ہے اسی لیے مختلف ادوار میں بنائی گئی یادگار عمارتیں اپنے قوموں کی اور اپنے ملکوں کی پہچان بنی رہی ہیں۔ میری نگاہوں کے سامنے ایستادہ پیرس کا یہ ایفل ٹاور بھی ایسی ہی ایک عمارت ہے جو پوری دنیا میں فرانس کی پہچان اور پیرس سٹی کا آیکان بن گیا ہے۔
ایفل ٹاور خالص لوہے سے بنے ایک اسٹرکچر کا نام ہے جو پیرس میں دریائے سین کے کنارے واقع ہے۔ یہ ایک بلند و بالا اور پرشکوہ مینار ہے۔ 1889 میں انقلاب فرانس کا صد سالہ جشن منانے کے لیے ایک عالمی نمائش کا انعقاد طے پایا، اس مناسبت سے وہاں کئی دلکش عمارتیں بنائی گئیں اور یہ ٹاور اس نمائش کے دروازے کے طور پر بنایا گیا۔ ایفل ٹاور کا اسٹرکچر 300 میٹر یعنی 984 فٹ بلند اور 7300 ٹن وزنی ہے۔ لیکن ایریئل انٹینا کے ساتھ اس کی بلندی 324 میٹر یعنی 1063 فٹ پہنچ جاتی ہے اور اس پر موجود کیفے، دکان، لفٹ اور دیگر اضافی چیزوں کو شامل کر لیا جائے تو اس کا وزن 10,100 ٹن تک پہنچ جاتا ہے۔ بتاتے ہیں اس کی بنیاد میں 40 فٹ تک پتھر اور لوہا بھرا گیا۔ ایفل ٹاور چار شہتیروں (rafters) پر کھڑا ہے، جن میں سے ہر ایک 279 اسکوائر فٹ ایریے پر محیط ہے۔ ٹاور کے چاروں جانب ستونوں کے درمیان ایک ایک محراب بنی ہوئی ہے جو ٹاور کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہے۔ پورا مینار تین منزلوں پر مشتمل ہے؛ پہلی منزل کا پلیٹ فارم 187 فٹ، دوسری منزل کا 377 اور تیسری منزل کا پلیٹ فارم زمین سے 906 فٹ بلند ہے۔ اس ٹاور کی تعمیر 28 جنوری 1887 کو شروع ہوئی اور 31 مارچ 1889 میں پورے دو سال دو ماہ اور پانچ دنوں میں مکمل ہوگئی۔ ماہرین کہتے ہیں شدید ہواؤں میں یہ ٹاور تین انچ کے قریب ہوا کے رُخ میں مائل ہوجاتا ہے۔ اس ٹاور کا آرکیٹیکٹ اسٹیفن ساویسٹر Stephen Sauvestre، اس کے اسٹرکچر انجینئر دو اشخاص موریس کوشلین Maurice Koechlin اور اِمائل نوویر Emile Nouguier تھے۔ کانٹریکٹر کمپنی کا نام تھا Compagnie des Etablissements Eiffel اور اس کمپنی کا مالک تھا گستاف ایفل Gustave Eiffel جس کے نام پر اس اسٹرکچر کا نام ایفل ٹاور رکھا گیا۔
اس ٹاور کے افتتاح کے 20 سال بعد اسے منہدم کیا جانا تھا لیکن اس مینار پر لوگوں کا اقبال دیکھ کر یہ ارادہ منسوخ کر دیا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب ایفل ٹاور تعمیر کیا جا رہا تھا اس وقت پیرس کے بہت سارے انجینیئروں اور دانشوروں نے اس کے خلاف حکومت سے احتجاج کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بلند و بالا مینار کی تعمیر غیر ضروری ہے۔ لیکن حکومت نے ان کے احتجاج کو مسترد کردیا تھا۔ آج وہی مینار پوری دنیا میں فرانس کے پہچان کی علامت بنا ہوا ہے اور دنیا کے مشہور ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ایفل ٹاور کو تقریبا چالیس سالوں تک دنیا کی سب سے اونچی عمارت کا اعزاز بھی حاصل رہا۔
ایفل ٹاور پہ چڑھنے کے لیے کئی لفٹ نصب ہیں۔ پہلی منزل تک جانے کے لیے الگ الگ جہتوں سے متعدد لفٹ لگے ہیں اور وہاں سے آخری منزل تک کے لیے ایک علیحدہ لفٹ ہے۔ منزلوں کی طرح ٹکٹ بھی الگ الگ ہے۔ میں نے ٹکٹ چونکہ آخری منزل تک کا لے رکھا تھا اور پہلی منزل تک سیڑھیوں سے چڑھ کر آیا تھا لیکن وہاں سے اوپر سیڑھیوں سے جانا آسان نہ تھا اس لیے سیکنڈ لفٹ پر چڑھ کر ٹاپ فلور تک گیا۔ وہاں سے پورا پیرس شہر دکھائی دیتا ہے۔ وہاں کئی ایک دوربین بھی نصب کیے گئے تھے جن کی مدد سے شہر کے مناظر صاف دکھائی دے رہے تھے۔ میں جس وقت وہاں پہنچا ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اس لیے فضا ابر آلود تھی اور پورا منظر دھندلا دھندلا دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن جب بارش تھم جاتی تب وہی مناظر بہت خوبصورت لگتے تھے۔ بارش کا ایک فائدہ ضرور تھا کہ ہم وہاں کافی دیر تک رکے رہے اور اپنی مرضی کے مطابق کھلی آنکھوں اور دوربین کے سہارے اس بلندی سے شہر کے خوشنما مناظر کا لطف لیتے رہے ورنہ پیرس جانے والے دنیا بھر کے سیاحوں کا ہجوم ایفل ٹاور پہ اتنی فرصت کسی کو کب دیتا ہے۔ لفٹ پر آنے جانے والوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ کچھ جیالے ایسے بھی ہیں جو 665 سیڑھیاں چڑھ کر اس ٹاور کی آخری منزل تک جانے کا جوکھم بھی لیتے ہیں اور اس کے لیے اب ہر سال ’ورٹیکل ریس‘ کا باقاعدہ انعقاد ہوتا ہے، جس میں بہت سارے ایتھلیٹس حصہ لیتے ہیں اور تیز طرار ایتھلیٹ اپنا ریکارڈ بناتا ہے۔
دریائے سین Seine
ایفل ٹاور کی مہم سر کرنے کے بعد میں نے سوچا دریائے سین جو پیرس شہر کے بالکل بیچ میں بہتا ہے اس کی سیر کی جائے۔ میں نے دیکھا اس ندی کا پانی بالکل صاف شفاف ہے، اس میں گندگی نام کی چیز دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ پیرس شہر کا حسن اور گلیمر اسی ندی سے ہے۔ جبھی تو سارے بڑے ہوٹل، عالیشان ریسٹورنٹ اور یادگار عمارتیں اسی ندی کے کنارے آباد ہیں گویا سین ندی پیرس کے لیے رشک جناں ہے۔ اس ندی کی مختصر تفصیل یوں ہے کہ یہ ندی 777 کلومیٹر لمبی ہے اور فرانس کی ایک اہم تجارتی آبی گزرگاہ بھی ہے۔ دریائے سین فرانس کے شمال مشرقی علاقے میں آباد دیجون Dijon شہر سے شروع ہو کر پیرس سے گزرتا ہوا لی ہافخے Le Havre (فرینچ تلفظ کی رعایت کرتے ہوئے میں نے ایسا لکھا ہے آپ چاہیں تو “لی ہاورے” بھی پڑھ سکتے ہیں) شہر کے پاس انگلش چینل میں اپنا سارا پانی انڈیل دیتا ہے۔ پیرس میں اس ندی کے پانی میں سیاحتی کشتیاں بھی خوب تیرتی ہیں اور پورے شہر کے اندر اس ندی پر 37 پل بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے کسی ایک جگہ پر ازدحام نہیں ہوتا ٹریفک ہر وقت رواں دواں رہتا ہے۔
ہندوستان کو قدرت نے بے پناہ آبی وسائل سے مالامال کیا ہے۔ شمال سے جنوب اور مغرب سے مشرق تک اس ملک میں کئی ندیاں بہتی ہیں۔ ہندوستان کے بیشتر شہر انہی ندیوں پر آباد ہیں لیکن ان کا مقصد صرف اتنا ہے کہ انھیں شہر کی تمام غلاظتوں اور آلائشوں سے پاٹ کر متعفن کردیا جائے۔ نجانے کیا وجہ ہے بھارت واسیوں کو صفائی سے جنم کا بیر ہے شاید قدرت نے انھیں ذوق جمال سے ہی محروم رکھا ہے۔ اس کے برعکس دنیا کے دوسرے ممالک ایسی ندیوں کو نعمت سمجھ کر ان کی صفائی ستھرائی پر بہت دھیان دیتے ہیں، ندیوں کے دونوں جانب خوبصورت وسیع سڑکیں بناتے ہیں اور جا بجا تفریح کے پوائنٹس بنا کر شہر کو رونق بخشتے ہیں۔ ان ندیوں کے کنارے آباد ہوٹلوں اور مکانوں کی اہمیت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کے ارباب حل وعقد ان ملکوں کا دورہ کرتے ہیں اور اس قسم کے خوشنما مناظر بھی دیکھ کر آتے ہیں لیکن عبرت نہیں لیتے۔
پیرس شہر میں ایک جاذبیت ہے جو اپنی طرف ہر کسی کو متوجہ کرتا ہے۔ میں پچھلے دو دنوں سے یہ شہر گھومتا رہا اور جب اس شہر سے کسی قدر مانوس ہونے لگا تو دفعتا وقت رحیل آگیا۔ اگلے ہی روز روشنیوں کے شہر، محبتوں کے شہر اور خوشبوؤں کے شہر کو الوداع کہنا تھا اس لیے اپنا سامان اٹھایا اور بذریعے میٹرو ریلوے اسٹیشن پہنچا۔
Gare du Nord (گیخ دونوخ)
مجھے پیرس سے برسیلز واپس جانا تھا اس لیے Gare du Nord (گیخ دونوخ) (فرینچ تلفظ کے ساتھ) یعنی پیرس نارتھ اسٹیشن جانا ہوا۔
وہاں سے برسیلز کے لیے مختلف کرایوں والی ٹرینیں تھیں لیکن مجھے تھالیز (Thalys) ٹرین سے جانا تھا جو پیرس سے برسیلز کے لیے نان اسٹاپ اور تیز رفتار ٹرین تھی۔ اس ٹرین کا کرایہ دوسری ٹرینوں کے بہ نسبت کئی گنا زیادہ تھا لیکن مجھے اس بلیٹ ٹرین کا تجربہ کرنا تھا اس لیے اسی ٹرین کا ٹکٹ خریدا۔ کوئی دوپہر کا وقت رہا ہوگا جب میں اس تھالیز ٹرین میں سوار ہوا۔ ٹرین کی خوبصورتی اور چمک دمک دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ ٹرین کا رنگ بالکل سرخ تھا اور اندر باہر ہر طرف نہایت صاف شفاف تھی۔ پیرس سے اپنے مقررہ وقت پر شروع ہوئی، پورے سفر میں کہیں کوئی ہچکولے نہیں اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی افتاد پیش آئی بس اپنی تیز رفتار کے ساتھ ہوا کے دوش پہ بھاگتی رہی۔ پینٹری بھی زبردست تھی، تمام خوردنی اشیاء ہائجن اور خوش ذائقہ دکھ رہی تھیں۔ ٹرین میں موومنٹ کرتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم مستقر کسی ہموار زمین پر چل رہے ہوں۔ ٹرین سے باہر کا سین بھی بہت خوبصورت تھا۔ چلتی ٹرین سے وہاں کے گاؤں دیہاتوں کا منظر بھی بڑا حسین اور دلکش لگ رہا تھا۔ ٹرین 300 کیلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی تھی اور کل ایک گھنٹہ پچیس منٹ میں برسیلز پہنچ گئی۔ اس ٹرین کا سفر بہت دلچسپ اور یادگار رہا۔
قصہ مختصر یہ کہ پیرس نہ صرف فرانس بلکہ یوروپ کا ایک دمکتا ہوا خوبصورت شہر ہے۔ اس شہر میں دیدہ وروں کے لیے بہت کچھ ہے۔ تاریخی حیثیت اپنی جگہ یہ شہر دنیائے عیش و طرب کا مرکز بھی ہے بس نظر کو ذوق تماشا چاہیے!
شام کے وقت برسیلز پہنچا، دوستوں کے ساتھ ایک ریستوران میں ڈنر کیا اور رات بھر آرام کی نیند سو کر علی الصبح ایمسٹرڈیم کے لیے بذریعے ٹرین روانہ ہوگیا۔ ایمسٹرڈیم سے دبئی کے لیے میری فلائٹ Royal Dutch Airlines KLM سے تھی۔ KLM نیدرلینڈز کی انٹرنیشنل کیریر ہے اور اس کی سروس ورلڈ کلاس ہوتی ہے۔ KLM کی سبھی اڑانیں Schiphol Amsterdam Airport سے ہوتی ہیں۔ یہ ایئرپورٹ ایمسٹرڈیم شہر سے 9 کیلومیٹر دوری پر واقع ہے۔ ائیرپورٹ بہت بڑا اور کافی خوبصورت ہے۔ اب تک میں نے جتنے ایئرپورٹ کا دیدار کیا شیفول ایئرپورٹ سب سے عمدہ اور ایڈوانس تھا۔ دبئی ائیرپورٹ کا ٹرمینل 3 جو امارات ائیرلائنز کی سرویسیز کے لیے خاص ہے بلکل اسی طرز کا ہے۔ ائیرپورٹ کے اندر ڈیوٹی فری ایریا کافی وسیع ہے۔ دکانوں کی تعداد بھی خاطرخواہ ہے اور بیشتر سامان مناسب داموں میں دستیاب ہیں۔ فلائٹ فل تھی اور لگ رہا تھا کہ اس روز میں سفر نہ کرسکوں گا لیکن KLM ائیرلائنز والوں سے میں نے بہت ریکویسٹ کی تو انھوں نے مہربانی کی اور مجھے ایڈجسٹ کرلیا۔ سات گھنٹے کی نان اسٹاپ ڈائریکٹ فلائٹ بالآخر اپنے متعین وقت پر دبئی پہنچ گئی اور اس طرح ایک ہفتے کا یہ سفر مکمل ہوگیا۔
وہ کیا منزل جہاں سے راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر اک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا
ماشاءاللہ، بہت ہی بہترین اور معلوماتی سفر نامہ ہے۔
انداز بیاں زبردست۔ جو لوگ یورپ گھومنا چاہتے ہوں ان کیلئے آپ نے اس سفر نامہ سے کافی آسان بنادیا ہے
قابل رشک اسلوب
سفرنامہ ہو تو ایسے
ادب کے ساتھ معلومات اور تاریخی باتوں سے مملو۔
ماشاء اللہ
یورپ کی سیر کرادی آپ نے
بہت عمدہ ریاض بھائی!
آپ نے عرصہ پہلے ان مقامات کا سفر کیا ہوگا لیکن جس تفصیل و باریکی سے آپ نے انہیں آج بیان کیا ہے اس پر آپ کی یادداشت کی داد دینی پڑے گی الحمداللہ آپ کی یادداشت کافی تیز ہے۔
اللہ یحفظک من کل شر۔ آمین۔
عیسائیت میں بت پرستی سے متعلق:
عیسائیت کے دو مشہور فرقے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ہیں
تو جسچرچ یا باہر لگے ہوئے کراس میں آپ کو تصویر یا مجسمہ دکھے تو وہ (عموماً) کیتھولک فرقے کا ہوتا ہے
اس کے برعکس جس چرچ یا باہر لگے ہوئے کراس میں تصویر یا مجسمے نہیں ہوتے وہ (عموماً) پروٹسٹنٹ فرقے کے ہوتے ہیں
ماشاءالله
کتنی نفاست سے لکھی ہے آپ نے!
پڑھتےوقت ایسامحسوس ہورہاتھا جیسے ہم یورپ کی سیر کرہے ہیں۔