بات کہاں سے شروع کی جائے؟؟ 1707 میں اورنگ زیب کی وفات سے؟؟ کہ اس شب کی سنگین سیاہی سے جنم لینے والی صبح نے مسلمانان ہند کو حسرت و نا امیدی کے ایسے لامتناہی سلسلوں سے ملایا کہ ہر ہر حقیقت خواب وخیال لگنے لگی۔ یہ کیسے اور کیونکر ہوا وہ واضح ہے البتہ 1797 تک ہندوستان کی تاریخ سلاطین مغلیہ کی غفلت شعاری اور باہمی رقابت کی مسلسل داستان ہے۔ جس کے اثرات بنگال سے بکسر اور اودھ سے میسور تک کی مہمات پر پڑے۔
150 سالوں کے اندرونی خلفشار اور بیرونی یلغار کے نتیجہ میں 1857 کو رہی سہی عزت و قوت اور شان و شوکت بھی ہمایوں کے مقبرے سے ہوتی ہوئی رنگوں کے کوچوں میں ذلیل وخوار ہونے کے لیے بھیج دی گئی۔
حیف ہے وہ بھی نہ چھوڑی تو نے او باد صبا
یادگارِ رونقِ محفل تھی پروانے کی خاک
لال قلعہ کی تباہی دراصل مسلمانوں کی 800 سالہ سنہری تاریخ کا آخری کرب ناک اور تکلیف دہ باب تھا جس کی خونچکاں داستانیں پڑھ کر پورا وجود ہل جاتا ہے کہ عشرت کدوں میں جاگنے والے شہزادے اور پھولوں کی سیجوں پر انگڑائیاں لینے والی شہزادیاں کس کس طرح ذلیل و خوار ہوئیں۔ آہ! وہ بہادر شادہ ظفر کی قلعہ سے رخصتی کے اندوہناک مناظر، اور اس رات قلعہ معلی کی افراتفری، شہزادوں کے قتل اور شہزادیوں کی نیلام ہوتی عزتیں….. کتنے خوفناک مناظر ہیں۔ دلیّ کی پراسرار گلیوں میں مغلوں پر جو ظلم و جور ہویے ان سب کے دلخراش افسانے سر راس مسعود کی ایما پر خواجہ حسن نظامی کے ذریعے لکھی گئی تفصیلی دستاویز میں موجود ہیں جنھوں نے اپنے زمانے میں بچے کھچے مغلوں کے پاس جاکر اور ان کے أحوال و کوائف سے آگہی کے بعد کئی قسطوں میں لکھا ہے اور بڑے ہی لاجواب انداز میں۔ بندہ پڑھے اور پڑھتا ہی چلا جاوے۔ اس کتاب میں نہایت خوبصورتی کے ساتھ اجمالی تذکرہ کیا گیا ہے۔ اور اس سے آگے بھی بہت ___
1857 کے بعد ہندوستانی افق پر گہری خاموشی چھائی رہی اور اس طویل خاموشی کے بعد انیسویں صدی کے اخیر اور 20 ویں صدی کے ابتدا میں مشترکہ جد وجہد اور الہلال کی بازگشت نے آزادی کی منزل کو قریب تر کردیا۔ صرف الہلال کی بات کی کریں تو بقول مولانا محمود حسن مدنی کہ “الہلال نے ہمیں بھولا سبق یا دلایا” بالآخر سب کچھ لٹا دینے اور طویل ترین انتظار کے بعد خون میں ڈوبی میں ہوئی آزادی کا سورج طلوع ہوا جس کے ہمرکاب تقسیم کا المیہ تھا۔
لٹنے کا افسوس بجا ہے لیکن اے لٹنے والو
کس کو خبر تھی قافلہ آکر منزل پہ لٹ جایے گا
فسادات کا سلسلہ شروع ہوا اور بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی۔ اس سے صرف نظر کہ اور کیا کیا ہویے؟؟ حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شیے تھی۔ لیکن بڑا خسارہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا جاہ و جلال اور ان کی شاہانہ فکر شاید ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئی جس نے صدیوں تلک لال قلعہ اور تاج محل کے سایہ میں پرورش پائی تھی۔
آزادی مل گئی، قانون ساز اسمبلی اور ترقیاتی پروجیکٹوں میں مسلمانوں نے بھر پور نمائندگی کی، ہر ہر شعبے میں حسب استطاعت حصے لیے لیکن سیاسی بد عنوانیوں نے خوف کے سیاہ گھنے بادلوں اور ناکامیوں کی پے درپے آندھیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی خوبیوں کو خس و خاشاک میں ملا دیا اور آزادی کے پہلے ہی عشرے یعنی 1958 میں امیدوں اور تمناؤں کا رہا سہا چراغ بھی گل ہوگیا۔ جس سے دوسرے چراغ جلا اور تقویت پاتے تھے۔
نہ جانے کتنے چراغوں کومل گئی شہرت
اک آفتاب کے بے وقت ڈوب جانے سے
ابتداء عشق میں آگے رہنے والوں کی انتہا خاک ہوگئی پھر “اندھوں میں کانا راجہ” کا دور شروع ہوا۔ اپنے بھی مفاد پرستی کی آگ میں اس قدر جھلسے کہ چہرے مسخ ہوکر رہ گیے اور اپنوں اور غیروں کے درمیان کوئی فرق ہی نہ بچا کہ کسے قابل اعتبار سمجھا جایے، رہزنی کا گلہ اور رہبری کا سوال دونوں بیک وقت تھے۔ نتیجتا تعلیمی پسماندگی، بے روزگاری اور جانے کن کن بلاؤں نے ایسا گھیرا کہ رہی سہی قوت مدافعت بھی جواب دینے لگی۔ پھر وہی کچھ ہوا کہ جس کے لکھنے کے لیے قلم توڑ دیے گیے اور زبانیں کاٹ لی گئیں۔
نیند کی وجہ سے آنکھیں بوجھل ہونے لگیں جب کہ کتاب میں موجود اہم اہم چیزیں رہ گئیں جو تعارف میں لکھنی تھیں۔
بہرحال یہ کتاب آپ کو آپ کے حسین اور کچھ تلخ ماضی کی یاد دلایے گی، حال کا جائزہ لینے پر مجبور کرے گی اور مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے پر ابھارے گی کہ وقت قریب آچکا اور معاملے کو فیصلہ کن مرحلے میں پہنچ جانا چاہیے۔
اک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی
جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمھارے خون کی
اور ہاں اس کتاب کے مصنف نے جہاں ایک طرف نہایت ہی سلاست و روانی کے ساتھ آزادی کے بعد کے چھوٹے بڑے سلگتے مسائل کو بہترین انداز میں تجزیاتی طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہیں مزید جامع و مانع بنانے کے لیے کہیں کہیں اس قدر اختصار سے کام لیا کہ منجملہ تمام مسالک و مکاتب فکر کی خدمات پر سہی طور سے روشنی نہ پڑ سکی بلکہ کہیں کہیں مسلک پرستی کا وہم ہونے بھی لگتا ہے۔ البتہ کتاب کے اخیر میں جو مختلف تنظیموں کے تعلق سے بات لکھی گئی وہ کافی معلوماتی چیز ہے نیز آئینہ مدارس کے عنوان سے بھی گراں قدر اضافہ کیا گیا جس نے کتاب کو اہم ترین بنانے میں اساسی کردار ادا کیا۔
باقی آپ بھی پڑھیں اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔ 200 سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب مرکزی پبلیکشیر، دہلی سے اچھے کاغذ اور عمدہ جلد میں شائع ہوکر مارکیٹ میں آچکی ہے۔
آپ کے تبصرے