مسافر نامہ: دلی؛ میری عروس نوآمدہ

کاشف شکیل سفریات

دوپہر 1:00 بجے نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچا۔ یہاں سے مجھے جامعہ نذیریہ پھاٹک حبش خان دہلی جانا تھا۔ اس لیے میں نے پہلے اجمیری گیٹ سے لاہوری گیٹ کا سفر آٹو رکشہ سے کیا۔
وہاں مجھے ریسیو کرنے کے لیے جامعہ نذیریہ کے دو طلبہ حاضر تھے۔ لاہوری گیٹ سے پھاٹک حبش خان کے لیے پیدل جانا تھا۔ گلیاں بالکل ویسی جیسا کہ مشتاق احمد یوسفی نے کہا تھا کہ دو گزرنے والوں کے درمیان سوائے نکاح کے کوئی صورت باقی نہیں بچتی:
“کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی”

مدرسہ میاں صاحب پھاٹک حبش خان میں

پھاٹک حبش خان وہ تاریخی مقام ہے جہاں شیخ الکل فی الکل میاں صاحب کے تبرکات بکھرے پڑے ہیں۔ محدث عبدالرحمن مبارکپوری، علامہ عبدالعزیز رحیم آبادی، شیخ الاسلام امرتسری یہیں تربیت پا کر ذرے سے آفتاب بنے تھے۔
لاہوری گیٹ سے پھاٹک حبش خان پہنچا۔ سب سے پہلے “مسجد میاں صاحب” نے میرا استقبال کیا۔ یہاں کے مکین گرچہ تبدیل ہوگئے مگر مسجد بالکل میاں صاحب جیسی ہی ہے۔ کسی آنے والے کے قدم کو نہیں روکتی اور ہر کس و ناکس کو اپنے سایہ عاطفت میں جگہ دیتی ہے۔ آب طہور سے پاک کرتی ہے اور بارگاہ الٰہی تک پہنچانے کے لیے اپنے بازو پھیلا دیتی ہے کہ آ اور دو رکعت نماز پڑھ کر رب سے قریب ہو جا۔ ہر قدم پر یہی احساس دل میں موجزن ہوتا کہ یہ وہی مقام ہے جہاں شیخ الکل اور ان کے نابغہ روزگار تلامذہ رہتے تھے۔ ہر گام ان بزرگوں کا سوچ کر ساغر قلب تقدس سے لبریز ہو جاتا اور عقیدت کے پیمانے گردش میں آنے لگتے۔
“افسوس ہم کو میر سے صحبت نہیں رہی”:
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنجہائے گراں مایہ کیا کیے

جامعہ نذیریہ کے در و دیوار ابھی تک ماتم کناں ہیں۔ اگر سمندروں کا یہ پانی وہ اشک ہوتا جو شیخ الکل کی وفات پر بہایا گیا ہوتا تب بھی کم تھا۔ آخر یہ کیسا گُل تھا جو خود تو مرجھا گیا مگر اپنی ساری خوشبو اس فضا میں قیامت تک کے لیے محلول کرگیا۔
یہ کیسی گِل تھی جس نے مجسم وجود بن کر خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانے کو لا کر رکھ دیا تھا۔ یہ کیسا چراغ تھا جس نے اپنے وجود کو جلا کر ساری کائنات کو روشن کردیا۔ کیا عرب کیا عجم سبھی میاں صاحب کے قدموں کی خاک کو اپنی چشم بصیرت کا سرمہ بنانا چاہتے تھے۔
اب تو وہ سانچہ ہی ٹوٹ گیا جس میں میاں صاحب ڈھلے تھے۔ وہ پیکر ہی بکھر گیا جو میاں صاحب جیسے ہمہ جہت وجود کو سمیٹ سکے۔ نشتر غم و الم دل کے ہر گوشے میں چبھ رہا ہے اور اس کو چھلنی کیے جا رہا ہے۔ اللہ جانے اس مکان نے اس شدت سے اپنے اُس پرانے مکین کی یاد کیوں دلا دی؟ “موت العالِم موت العالَم” پہ آج پختہ یقین ہوا:
تن ہمہ داغ داغ شد
پنبہ کجا کجا نہم

یہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کو دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں

سیڑھیوں سے چڑھ کر پہلی منزل پر پہنچا، وہاں شیخ انوار سلفی، شاعر برادرم منظور قمر سلفی بلرامپوری اور برادرم محمد عاصم سلفی سے ملاقات ہوئی۔ ان سب سے مل کر بڑی خوشی ہوئی‌۔ مختصر گفتگو ہوئی اور کل(جمعرات 14 اکتوبر 2017) سے مجھے تدریسی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ہدایت ملی۔
تھوڑی دیر بعد میں عاصم بھائی کے ساتھ برادرم شکیل احمد سلفی قنوجی سے ملنے مسجد حفیظ اللہ خان گیا جو جامعہ نذیریہ میں استاد ہونے کے ساتھ مذکورہ مسجد کے امام بھی ہیں۔
بھائی نے خاصی ضیافت کی، ریسیپیز کی تفصیل یہاں نہیں پیش کر سکتا ورنہ قارئین کی رال ٹپکنے لگے گی اور تب کا کھایا ہوا اب بھی پیٹ درد کا باعث بن جائے گا۔
المختصر یہ کہ خورد و نوش کے بعد سلسلہ گفتگو دراز ہوتا گیا، ساتھ ہی سورج نے بھی دم توڑ دیا اور شام اپنی زلفیں بکھیرنے لبِ بام آگئی۔ رات کا کھانا کھایا اور سو رہا اس لیے کہ اگلے دن جامعہ نذیریہ میں تدریس کی ذمہ داری ادا کرنی تھی۔
14/09/2017ء جامعہ نذیریہ دہلی میں میری تدریس کا پہلا دن تھا۔ خود کی حالت دیدنی تھی۔ یہ گھبراہٹ فطری تھی۔ کیا خوب کہا ہے کسی شاعر نے:
ہیں ابھی کمسن و ناواقف ہیں لطف وصل سے
دل میں کچھ ڈرتے ہیں کچھ دبتے ہیں شرماتے ہیں کچھ

الباعث الحثیث، تاریخ الفقہ الاسلامی، نزھۃ النظر، البلاغۃ الواضحہ اور کلیلہ دمنہ کی تدریس میرے ذمہ آگئی۔ خود اعتمادی اور احساس بے مائیگی نے حماس اور الفتح کی طرح آپس میں صلح کرلی۔ مولانا انجم کے یہ اشعار مجھ کو مخاطب کر کے میری ڈھارس بندھا رہے تھے:
نہیں ہے تم میں تازگی تو پھولوں سے ادھار لو
نہیں ہے تم میں روشنی تو تاروں کو اتار لو
ہے راہ پُرخطر تو اپنے عزم کو پکار لو
قدم بڑھاؤ ساتھیو یہ وقت کی پکار ہے

کلاس روم میں نارملی داخل ہوا۔ استاد کی مخملی گدی بھی چبھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اعاذہ، بسملہ اور استعانہ کے بعد اللہ نے سکینت نازل فرمائی۔ بے جھجھک درس دیا اور الحمد للہ گاڑی ایک بار جو اسٹارٹ ہوئی تو خود اعتمادی کے پٹرول سے وہ چلتی ہی رہی البتہ رفتار کا مسئلہ کچھ قابل غور تھا۔ پہلی گھنٹی کلیلہ دمنہ کی تھی‌۔ اس کتاب کی تدریس کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارک پر ایمان تازہ ہو رہا تھا کہ
“بئس مطیۃ الرجل: زعموا”
اس لیے کہ اس کم ظرف دمنہ کے “زعموا” ہی کی وجہ سے کتاب اتنی ضخیم ہوئی ہے۔ میں نے بیلوں کی ڈکار بگوشِ خود سماعت کرنے کا شرف حاصل کیا ہے مگر مجھے اس سے کبھی وہ قلق نہ ہوا جتنا کلیلہ دمنہ میں اس کی ڈکار سے ہوا ہے۔ اسی کی ایک ڈکار نے ساری مٹی پلید کردی ہے۔ نہ رہتا بانس نہ بجتی بانسری۔ چونکہ (ہفتہ کا اکلوتا مؤنث دن) جمعرات تھی اس لیے شروع کی تین گھنٹیاں ختم ہونے کے بعد طلبہ کی انجمن شروع ہوگئی۔
سچ کہوں تو تدریس بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ یہ بِیل ہم اناڑیوں کے منڈھے چڑھنے میں وقت لگائے گی۔

۔

 استاذ الاساتذہ مولانا ابوالقاسم فاروقی کی بارگاہ میں

چونکہ ابھی دلی میرے لیے کسی عروس نو آمدہ کی طرح تھی جس کے مرمریں بدن کا ہر انگ “دعوتِ فکر و عمل” دیتا ہے۔ اس لیے جمعہ کی چھٹی انجوائے کرنے کے لیے منصوبہ بندی شروع ہوگئی۔
دراصل اس سے پہلے راقم الحروف صرف ایک بار 26 جنوری 2016 میں محض ایک دن کے لیے گردش نہار کا ساتھ دینے اور شب گزاری کے لیے دلی آیا تھا۔ 26 جنوری کا دن بڑا ہی لذیذ تھا۔ رحمہ اللہ
چنانچہ اس بات پر اتفاق ہوا کہ یہاں سے نکل کر جامعہ سنابل کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی جائے اور دوپہر میں مولانا ابوالقاسم فاروقی صاحب سے ملاقات کی جائے اور شام مرشد عبدالقدیر کے نام ہو۔
حسب مشورہ مؤرخہ 15/9/2017 صبح دس بجے برادرم شکیل احمد نجریس احمد قنوجی، برادرم عاصم افضال سلفی اور میں بذریعہ بس اوکھلا کے لیے روانہ ہو گئے۔ گیارہ بجے برادرم کوثر سے ملاقات ہوئی۔ وہ ہمیں اپنے روم لے گیے اور ضیافت کی۔ کوثر عالم جامعہ سلفیہ میں تین سال میرے ہم درس رہے (اس تین سالہ ہم درسی کو شاید انگریزی میں تھرڈ کلاس ساتھی کہہ سکتے ہیں) پرانی یادوں نے دامنِ گفتگو پکڑ کر مچلنا شروع کردیا تو ان مرحوم یادوں پر بھی فاتحہ درود پڑھ لیا گیا۔
ہم نے یہاں سے نکلنے میں جلدی کی تاکہ مولانا اصغر علی امام مہدی کے قائم کردہ “جامعہ ازہر ہند” کی زیارت سے مشرف ہوجائیں۔ جامعہ ازہر جیت پور گڈھا کالونی میں واقع ہے۔ جامعہ کا کل رقبہ اتنا ہی ہے جتنا اس کی تشہیر میں اوراق کا رقبہ تھا۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ تقریبا 200 صفحہ (نئے پیمانہ سے حیران نہ ہوں) اس کا کُل طول و عرض ہے
ایک اقرا گرلس کالج ہے اس میں ایک مسجد ہے وہی مسجد پارٹ ٹائم کلاس روم کا کام کرتی ہے۔
وہاں کی غیر مرئی بلڈنگوں کو سلام عرض کرکے ہم نے جامعہ اسلامیہ سنابل کا رُخ کیا۔ خطبہ سنا اور نماز جمعہ ادا کی۔ الحمد للہ۔
جامعہ اسلامیہ سنابل ایک وسیع و عریض زمین پہ قائم ہے۔ جہاں علم کی کاشت ہوتی ہے۔ علامہ عبدالحمید رحمانی کے خلوص، عزائم، کوششوں، کاوشوں اور قربانیوں کا نام جامعہ سنابل ہے۔
جمعہ بعد ہم لوگ شیخنا ابوالقاسم فاروقی مدیر ماہنامہ محدث بنارس کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ استاد محترم ہنس مکھ، ملنسار اور متواضع ہیں۔ شاگردوں کو بیٹوں جیسا مانتے ہیں۔ واللہ العظیم آپ جیسے شفیق استاد بہت کم ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ نایاب نہ ہوں کم یاب ہیں ہم
خورد نوازی ہی تھی کہ مدت بعد مجھے دیکھا اور پہچان گئے۔ شیخ ازہار العرب، دروس البلاغہ اور کئی ایک کتابوں کے شارح ہیں۔ ماہنامہ محدث بنارس کے عرصہ دراز سے مدیر ہیں۔ تاریخی شخصیت ہیں اور فن تاریخ کے شناور بھی۔ کئی ایک کتابیں زیر تصنیف ہیں۔ گلہائے الفاظ سے ایسا دبستان تیار کرتے ہیں جس کے رنگ برنگے پھول قاری کو دعوت مطالعہ دے رہے ہوتے ہیں۔ اسلوب نگارش ایسا کہ نگار خانہ قلب میں اپنا امتیازی مقام بنالے اور روانی ایسی کہ دل کو بہا لے جائے۔ سوز و ساز ، ہنگم و ہنگامہ، ثبوت و ثبات، اصل و اصول، پھل و پھول سبھی الفاظ کی کمین گاہ بنا کر قاری کی آمد کا انتظار کرتے ہیں اور جیسے ہی آبلہ پا قاری اس راہ سے گزرتا ہے اس کے دل پر حملہ بول دیتے ہیں۔ آپ کی بعض جذباتی تحریروں سے دل بالکل کشمیر ہوجاتا ہے۔ خوبصورتی کے ساتھ زخم آلود بھی۔
آپ کی تحریریں پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جملے ذہن کا دریچہ بڑے نازکی سے وا کرتے ہوئے دل میں جاگزیں ہورہے ہیں اور آہستگی کے ساتھ حواس پر سوار ہوکر ذہن کو تھپتھپا رہے ہیں۔ بقول رشید ودود بھائی “شیخ کی عربی دانی مسلم ہے لیکن شیخ بنیادی طور پر اردو فکشن اور تاریخ کے آدمی ہیں”
شیخ نے ہم ناہنجاروں کی بریانی سے مہمان نوازی کی پھر دسترخوان علم بچھایا تو ایسے انواع و اقسام کے لذیذ فنون ہمارے سامنے پیش کیے کہ روح سیراب ہوگئی۔ یوں لگتا تھا کہ خود علم نے ہمارے لیے اپنے خوشے جھکا دیے ہیں اور ہم اپنے دامن سے ان تازہ ترین شیریں پھلوں سے اپنے وجود کی گرسنگی مٹا رہے ہیں۔
دو تین گھنٹہ محفل جمی رہی۔ شیخ نے اپنے مسودے کے بعض اہم مقامات ہمیں پڑھ کر سنائے۔ علم و ادب کا دریا رواں تھا۔ فکر و فن کی گہرباری ہو رہی تھی۔ ان دو تین گھنٹوں کی خوراک سے ہمارا علمی وزن بہت بڑھ گیا۔ شیخ کے لیے یہ شعر بجا ہے:
قليل منك يكفيني ولكن
قليلك لا يقال له قليل۔

 

مرشد عبدالقدیر سے پہلی ملاقات

مؤرخہ 15/9/2017 کو جامعہ اسلامیہ سنابل میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد استاد محترم ابوالقاسم فاروقی صاحب کی بارگاہ میں حاضری ہوئی۔
فاروقی صاحب سے مفارقت کے بعد ہمارے آج کے “سیر” کا “مقطعہ” مرشد والا جاہ عبد القدیر تھے۔ عبدالقدیر بھائی ہم سب کے متفق علیہ مرشد تھے۔ لہذا بصد شوق ہم لوگ (برادرم شکیل نجریس قنوجی، برادرم محمد عاصم سلفی اور میں) جمعیت اہل حدیث کے دفتر کی طرف محو خرام ہوگئے۔ جمعے کی بنا پر آفس بند کرکے مرشد یارانِ با وفا سے ملنے گئے ہوئے تھے۔ فون سے گفتگو ہوئی اور مرشد نے آنے کی نوید سنائی۔ ہم پہلے سے ہی آفس کے باہر حالتِ قیام پسینوں سے وضو بنا رہے تھے۔ گرمی شدید تھی مگر ہم نے دل والا چراغ راہ میں رکھ دیا تو کچھ حرارت کم ہوئی:
آمد دوست کی نوید راہِ وفا میں عام تھی
میں نے بھی اک چراغ سا دل سرِ شام رکھ دیا

ہائے اب پہلی دید کا نقشہ کیسے کھینچوں۔ کیسے بتاؤں کہ وہ بہار لا رہے تھے یا بہار انھیں۔ طبیعت دہلی جیسی مکدر اور آلودہ فضا میں بھی گارڈن گارڈن ہوگئی۔ “صیفی” حدّت کے ساتھ مصافحہ ہوا۔ ڈیجیٹل بیعت اب لمسِ حقیقی سے سرشار ہو رہی تھی۔
مرشد نے آفس کا دَر وا کیا (بغیر زہ کی تکلیف کے ورنہ مکمل دروازہ کہا جاتا)۔ پہلے تو ہم “بھگتوں” کو “آؤ” کہہ کر حجرہ خاص میں زینت آرائے نشست کیا پھر خوب “آؤ بھگت” کی۔ آب طہور کے ساتھ شیریں کھجور پیش کی۔ پھر بنفس غیر نفیس چائے بنانے کا عمل شروع فرمایا۔ چائے کا پانی رکھ کر ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ ادھر چائے جوش پر ادھر ہماری گفتگو۔ ہم سب گوش بر آوازِ مرشد۔ ہم مرشد کے حسن سلوک کو دیکھ کر منازل سلوک طے کرنے لگے، ض اور ہم فنا فی المرشد ہونے ہی والے تھے کہ ادھر چائے کھول کر مائل بہ انحطاط ہونے لگی۔ یہیں محسوس ہوا کہ سچ میں آتش اور آتشی مخلوق ہم خاکیوں کی بڑی دشمن ہے
میں سمجھتا ہوں کہ وہ آتشِ حسد تھی جس کی گرمی سے چائے بھڑک اٹھی تھی:
کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں

مرشد چائے بڑی اچھی بناتے ہیں۔ مرشد کو سیاہ رو چائے سے نفرت ہے اس لیے جب تک وہ اس کو “لالہ رُخ” نہیں بنا لیتے لبوں سے نہیں لگاتے۔ خیر یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے ہم تو کالی ہی پاؤڈر کے ساتھ گَٹک جاتے ہیں۔ چائے کی چسکی کا چسکا لیتے ہوئے مرشد نے زر و جواہرات اگلنے شروع کردیے۔ مجاز، عصمت، عینی آپا، منٹو، اختر شیرانی، جذبی، غالب و اقبال سبھی زیر بحث آئے۔
اب ذرا مرشد کے اوصافِ خَلقیہ سن لیں:
سفید رنگت، “شریر” شریر، رو پہلا رُو، لبادہ (لب اور بادہ کا مرکب نہ سمجھیں) دلکش، دبلا بدن، زہرہ جبین، ستواں ناک، خندہ لب، میانہ خرام بلا آرام، ہم نے مرشد سے ان کے ایام کنوارگی کے احوال دریافت کیے تو مرشد نے اپنی عزیز از جان صفیہ کے شوہر نامدار جاں نثار اختر کے یہ اشعار پڑھے:
اگر پوچھتا ہے تو سُن یارِ جانی
ہماری جوانی بھی تھی کیا جوانی
ہنسی، دل لگی، چہچہے، شادمانی
ہمیشہ حسینوں سے آنکھیں لڑانی
وہ دن رات کُوئے نگاراں کے پھیرے
وہ کمرے فروزاں، وہ زینے اندھیرے
وہ زلفوں کے حلقے، وہ بانہوں کے گھیرے
وہیں مدّتوں جا کے راتیں بِتانی

مرشد سے ایک شکوہ ہے کہ ان کے پاس وقت میں برکت نہیں ہے۔ تین گھنٹہ کیسے گزرا احساس ہی نہ ہوا۔ مرشد ماہر نفسیات بھی ہیں اور ماہر نسوانیات بھی، اور ہاں! معجون ساز حکیم بھی ہیں، معجونوں کا تذکرہ پھر کبھی!
مرشد فرماتے ہیں “ہر مرد کی ترقی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ہر عورت کی “ترقی” پر مرد کے دونوں ہاتھ”
“‘اپنے پیر پہ کھڑے ہوجائیں گے تب شادی کریں گے’ کہنے والے نوجوان اس وقت شادی کرتے ہیں جب ان کے پیر میں درد شروع ہوجاتا ہے”
“آئن اسٹائن نے چونکہ کشش ثقل سے دنیا کو روشناس کرایا اس لیے بیگمات کا ذکر کرنے کے لیے غمگسار کے نام کے ساتھ ‘آئن’ کا لاحقہ لگا دیتے ہیں مثلا مولوی سے مولویائن، مرشد سے مرشدائن، ڈاکٹر سے ڈاکٹرائن وغیرہ” جب کہ مرشد کے مشہور مرید رشید ودود بھائی اس سے اختلاف کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اصل میں ڈائن کا لاحقہ جوڑنا تھا مگر ثقالت کے خوف سے “ڈ” حذف کردیا گیا۔
واضح رہے کہ یہ لَغویوں کے اقوال ہیں لُغَوی حضرات اس سے بُری طرح بَری ہیں۔ دونوں حضرات اپنے تجربات کی روشنی میں تاویل کر رہے ہیں۔ چونکہ سنیچر کو حمل تدریس اٹھانا تھا اس لیے مرشد کے پاس “استقرار” مناسب نہیں تھا۔ مجبورا لوٹنا پڑا:
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
وللكلام بقية۔

7
آپ کے تبصرے

3000
7 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
7 Comment authors
newest oldest most voted
رشید سلفی

بہت خوب رنگا رنگ سفرنامہ ہے،اسلوب نگارش دامن دل کو کھینچ رہا ہے،ادب،علم،مزاح،حسن تعبیر،ندرت بیان جیسے کتنے رنگ ہیں جو سفرنامے کے حسن کو بڑھا رہے ہیں۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

Asim

خوب، الفاظ کے دروبست نے تحریر میں حلاوت و شیرنی بکھیر دی ہے

خبیب حسن

خوب ہے برادرم

عطاء الله

بہت خوب کاشف بھائی
بارک اللہ فیکم

Abdul Wahab

کیا ہی خوبصورت لکھا ہے سلامت رہیں

عامر انصاری

اچھی تشبیھات ، عمدہ معلومات

ریاض الدین شاہد

بہت خوب