جامعہ سلفیہ بنارس کے ناظم اعلی محترم مولانا عبداللہ سعود سلفی حفظہ اللہ نے جامعہ کے اولڈ بوائز کا ایک دوروزہ پروگرام جامعہ میں منعقد کرنے کا فیصلہ اپنی منتظمہ کمیٹی کے ذریعے لیا تھا۔ الحمد للہ ۲۸؍۲۹؍نومبر ۲۰۱۸ء کو یہ پروگرام ہوا اور اس میں حسب اعلان، افتتاحی اجلاس، سیمینار، عوامی جلسہ اور جامعہ سے متعلق متنوع تجاویز پر مشتمل مجلسیں بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوئیں۔ ابنائے قدیم نے ہر پروگرام میں پوری دلچسپی سے حصہ لیا اور پیش نظر مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے انتہائی مفید اور قابل عمل تجاویز پیش کیں۔
جامعہ نے عمومی دعوت نامہ تمام ابنائے قدیم کو جاری کیا تھا جس کا مطلب تھا کہ اس پروگرام میں جامعہ کے تمام فارغین اور مستفیدین مدعو ہیں۔ جن حضرات کو عوامی جلسے کو خطاب کرنا تھا یا سیمینار میں مقالہ پیش کرنا تھا، ان کو الگ سے بھی دعوت نامے جاری کیے گئے تھے تاکہ وہ تفویض کردہ کاموں کی تکمیل کرکے پوری تیاری کے ساتھ پروگرام میں شرکت کریں۔جامعہ کی انتظامیہ اور اساتذہ و طلبہ نے تمام شرکائے اجتماع کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور سب کی مہمان نوازی کی۔
اب تک جامعہ کے فارغین کی تعداد جیسا کہ ناظم محترم نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں ذکر کیا تھا، نوہزار تین سو پینتیس (9335) ہے، ظاہر ہے کہ ان میں سے کئی ایک حضرات وفات پاچکے ہوں گے، بہت سے اپنی مصروفیات کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے ہوں گے اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جنھوں نے شاید اس اہم اور تاریخی پروگرام کی اہمیت ہی نہ سمجھی ہو۔جامعہ نے بغیر کسی فرق و امتیاز کے دعوت اپنے تمام فارغین کو دی۔ اصحاب توفیق نے اس میں شرکت کی اور اپنی محبت اور تعلق کا اظہار کیا۔
مادر علمی سے محبت و عقیدت ایک فطری جذبہ ہے، جس کے آنگن میں ہم نے کئی سال گزارے ہیں اور جس جامعہ نے بولنا اور لکھنا سکھایا ہے، اس کی ایک آواز پر دوڑے چلے آنا دلیل ہے اس بات کی کہ ہمیں اپنے اس ادارے سے آج بھی وہی محبت ہے جو اس کے کیمپس میں رہتے ہوئے دل میں پیدا ہوئی تھی۔ تقریباً سات سو فارغین جامعہ اس پروگرام میں شریک ہوئے اور سارے پروگرام نظم و ضبط کے ساتھ اختتام پذیر ہوئے۔
سیمینار میں مقالہ پیش کرنے کے لیے راقم سطور کو بھی دعوت دی گئی تھی جسے خاکسار نے ایک اعزاز سمجھ کر قبول کیا اور اپنے قدیم دوست، جو جامعہ سلفیہ میں میرے بہت قریب رہے اور آج بھی وہی قربت ہے، مولانا ارشد سراج الدین مکی کے ساتھ جامعہ میں حاضری دی اور اس کے سارے پروگراموں میں شریک رہا۔ میرے مقالے کا عنوان تھا: ’’دینی مدارس کو درپیش چیلنجز‘‘۔ امید ہے کہ مقالات کا مجموعہ جلد ہی شائع ہوگا تاکہ پیش کردہ مقالات سے استفادہ عام ہوسکے۔ بعض بڑے اہم موضوعات پر مقالات لکھائے گئے تھے۔ وقت کی تنگی کی وجہ سے مقالہ نگاروں نے اپنے اپنے مقالات کا خلاصہ ہی پیش کیا تھا جیسا کہ اب دینی مدارس میں منعقد ہونے والے سیمیناروں کی روایت بن گئی ہے، جسے پسندیدہ اور بامقصد کسی بھی حال میں نہیں کہا جاسکتا۔ اس روایت کو بدلنے اور اس میں خاصی بڑی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا شاہد جنید سلفی صدر جامعہ سلفیہ بنارس کی صدارت اور مولانا اسعد اعظمی، استاذ جامعہ سلفیہ بنارس و مدیر عربی ماہنامہ’’صوت الامۃ‘‘ کی نظامت میں افتتاحی اجلاس کا آغاز ہوا، تلاوت قرآن مجید اور جامعہ کے ترانے کے بعد جامعہ کے ناظم مولانا عبداللہ سعود حفظہ اللہ نے اپنا خطبۂ استقبالیہ پیش کیا جس میں انھوں نے جامعہ کے قیام کے اغراض و مقاصد، اس کی پیش رفت اور مختلف جہات سے اس کی ترقی، موجودہ صورت حال، جامعہ کو درپیش مشکلات اور ان کو حل کرنے کی ممکنہ صورتوں کا تفصیل سے تذکرہ کیا۔ جامعہ کے اس پروگرام کے مہمان خصوصی، فخر سلفیت، حرم مکی کے مفتی و مدرس ڈاکٹر وصی اللہ عباس حفظہ اللہ تھے۔ آپ نے افتتاحی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے جامعہ کی تاسیس سے متعلق کئی ایک واقعات کا تذکرہ فرمایا اور سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال بیان فرمایا۔ جس سایہ دار گھنے درخت پر آج ’’گلشن رسول کے طیور خوشنوا‘‘ نغمہ سرا ہیں، اس کی اولین پود کیسے اور کن حالات میں لگائی گئی تھی، اس کی دلچسپ داستان خاصی توجہ سے سنی گئی۔ امید ہے کہ یہ داستان آیندہ نسلوں کو اسی طرح سنائی جاتی رہے گی تاکہ اس کی یاد تازہ رہے اور کاروان تعلیم و تعلم اسی ذوق و شوق کے ساتھ آگے بڑھتا رہے۔ افتتاحی اجلاس کے دو مقررین مولانا اصغر علی امام مہدی امیر مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند اور مولانا عبدالسلام سلفی(ممبئی) نے جامعہ سے اپنی محبت اور تعلق کا اظہار ایسا کیا کہ ان کی آواز تمام ابنائے جامعہ کی آواز بن گئی۔ مادر علمی سے جس روحانی تعلق کا تذکرہ جامعہ کے دونوں فارغین نے کیا، واقعہ یہ ہے کہ وہی تعلق تمام ابنائے جامعہ کا ہونا چاہیے۔ اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں ذمہ داران جامعہ کو تلخ مشورے دیے جاسکتے ہیں لیکن یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ اس کے اغراض و مقاصد اور اس کی شان و عظمت پر ذرا بھی حرف نہ آئے۔ بعض مقررین نے افتتاحی اجلاس میں بھی اپنی کچھ تجاویز پیش کیں اور پوری دردمندی کے ساتھ اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کئی ایک مفید مشورے دیے۔
۲۸؍نومبر۲۰۱۸ء کو بعد نماز مغرب شیخ عبد الغنی القوفی، استاذ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال، کی نظامت میں سیمینار کا آغاز ہوا۔ کئی محترم اور فاضل مقالہ نگاران سلفی منہج اور سلفی طرز فکروعمل کی تشریح و توضیح پر مشتمل مقالات لکھ کر تشریف لائے تھے، ان سے تین چار منٹ میں اپنے اپنے مقالات کا خلاصہ پیش کرنے کے لیے کہا گیا۔وقت کی تنگی کی رعایت کرتے ہوئے فاضل مقالہ نگاروں نے مختصر طور پر اپنی باتیں رکھیں۔جامعہ سلفیہ کے فارغین کی متنوع خدمات پر بھی کئی مقالات لکھے گئے تھے، اسی طرح بعض مقالات کا تعلق دینی مدارس کے کردار اور ان کو درپیش چیلنجز سے تھا۔ عشاء کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس طرح مقالات کے موضوعات اور ہر موضوع پر چند ایک کلمات سے سامعین مستفید ہوئے۔ امید کی جاتی ہے کہ مجموعۂ مقالات جلد ہی شائع کردیا جائے گا۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو ماہنامہ محدث ہی کا کوئی خصوصی شمارہ کردیا جائے۔ جامعہ میں منعقد کیے جانے والے کئی ایک سیمیناروں کے مقالات اب تک شائع نہیں ہوسکے ہیں۔ یہ ایک بڑی کمی ہے جس پر قابو پانا ضروری ہے۔ افراد کی قلت یا سرمایہ کی عدم فراہمی اگر کوئی مسئلہ ہے تو اسے سامنے آنا چاہیے۔ الحمد للہ ابنائے جامعہ میں کئی ایک اخوان ایسے ہیں جو جامعہ کی اس ضرورت کی تکمیل کرسکتے ہیں۔
جس وقت بنارس کے سفر کا ارادہ کیا تھا، اسی وقت وہاں سے مئو جانے کا بھی پروگرام بنالیا تھا اور اپنے رفیق سفر مولانا ارشد سراج الدین مکی کے ساتھ مئو پہنچ کر وہاں سے علی گڑھ لوٹنے کا ارادہ تھا۔ اپنے اس ارادے سے اپنے انتہائی کرم فرما عزیز مولانا عبدالرحمن انصاری؍سینئر استاذ جامعہ عالیہ مئو کو بھی آگاہ کردیا تھا۔ انھوں نے اس ارادے پر اپنی خوشی کا اظہار فرمایا اور حسب وعدہ اپنی گاڑی سے بنارس تشریف لائے تھے تاکہ اسی سے ہم آرام کے ساتھ مئو پہنچ سکیں۔ابھی ہم گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ اچانک اطلاع ملی کہ میرے رفیق سفر مولانا سراج الدین مکی کے چچا کا انتقال ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے انھیں اپنے چچا کی تجہیز وتکفین میں شرکت کرنی تھی اور وہ ہمارے ساتھ مئو نہ جاکر پہلے اپنے وطن بارا( غازی پور) اس وعدے کے ساتھ روانہ ہوگئے کہ کل شام تک میں مئو آجاؤں گا۔
مئو کے چند دوستوں کے ساتھ ہمارا قافلہ روانہ ہوا اور ہم دیر رات گئے مئو بخیریت پہنچ گئے۔راستے میں ہی ہمارے عزیز دوست مولانا مظہر علی مدنی پرنسپل جامعہ فیض عام کا فون آچکا تھا کہ کل خطبۂ جمعہ مجھے جامعہ فیض عام کی جامع مسجد میں دینا ہے۔ الحمد للہ خطبۂ جمعہ کا ایک ایسا سلسلہ ہے جو علی گڑھ میں گزشتہ پینتیس (۳۵) سالوں سے جاری ہے۔ اب تو خطبۂ جمعہ کسی وجہ سے نہ ہوسکے تو ایک کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ علی گڑھ سے باہر رہوں تو دوستوں کی محبت اور ان کا اعتماد یہ خدمت انجام دینے کا موقع فراہم کردیتا ہے جو میں اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہوں۔ برصغیر میں سلفی دعوت کا یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو کسی دینی جماعت کو حاصل نہیں ہے۔ اردو خطبہ جمعہ کے فائدے بہت ہیں، سامعین کو دین کی باتیں سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ جمعہ کے اپنے سلفی خطیبوں سے میں ہمیشہ یہ درخواست کرتا رہا ہوں کہ دعوت کے لیے اس ذریعے کا استعمال پوری علمی بصیرت اور درد مندی سے کریں تاکہ اسے ہر لحاظ سے مفید اور موثر بنایا جاسکے۔خطبات جمعہ کے موضوعات عوامی ہوں، سیدھی سادی زبان میں ہوں، لب ولہجہ وعظ ونصیحت کا ہو تاکہ سامعین زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکیں۔ فکر وفلسفہ، بھاری بھرکم الفاظ واصطلاحات اور غیر ضروری چیخ وپکار خطبۂ جمعہ کے لیے چنداں مفید نہیں۔
قیام جامعہ عالیہ کے مہمان خانے میں رہا، وہیں میزبان محترم نے کھانے پینے کا نظم کیا اور پھر صبح کو ناشتے کے بعد انھوں نے بتایا کہ مکتبہ فہیم کے سربراہ، میرے کرم فرما عزیز الرحمن(ابواشعر فہیم) صاحب خطبے سے پہلے مہمان خانے آجائیں گے اور خطبے کے لیے جامع مسجد لے جائیں گے۔ غسل وغیرہ سے فارغ ہوکر خطبۂ جمعہ کے لیے ذہن بنایا اور ہم وقت پر مسجد پہنچ گئے۔ جامعہ فیض عام کی مسجد الحمدللہ بہت کشادہ ہے اور اس کی عمارت بھی عالی شان ہے۔خطبۂ جمعہ کے لیے میں نے سورہ لقمان کی ان آیات کا انتخاب کیا تھا جن کا تعلق بچوں کی تربیت سے ہے۔ ان آیات کے نزول کا پس منظر بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ قرآن کتاب ہدایت ہے، یہ کیسے ممکن تھا کہ بچوں کی تربیت سے متعلق اس میں رہنمائی نہ ہو۔لقمان نے جس طرح اپنے بیٹے کو نصیحت کی ہے، جن باتوں کی نصیحت کی ہے اور جس ترتیب سے کی ہے، اس سے اسلام کا مکمل تربیتی نظام سامنے آتا ہے۔لقمان کی ان نصیحتوں میں عقیدہ بھی ہے، اللہ کی معرفت بھی، والدین کی خدمت واطاعت کی تاکید بھی ہے اور اس کی حدود بھی، نماز کا ذکر بھی ہے اور دعوت الی اللہ کا بیان بھی، راہ دعوت میں صبر وعزیمت کا تذکرہ بھی ہے اور اخلاقیات کی اعلیٰ تعلیم بھی۔ لقمان کے حوالے سے ان نصیحتوں کو کتاب الٰہی میں محفوظ کرنے کی کئی ایک حکمتیں ہیں۔ چالیس پینتالیس منٹ تک خطاب کا یہ سلسلہ رہا، اس میں کوشش تھی کہ عوامی زبان استعمال کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ حضرات مستفید ہوسکیں۔ خطبے کے بعد کئی ایک سامعین نے اپنی خوشی کا اظہار فرمایا جس سے خاکسار کو اطمینان ہوا کہ الحمد للہ خطبۂ جمعہ کا جو مقصد تھا، وہ کسی حد تک پورا ہوا۔ تحریر اور تقریر کی زبان میں جو فرق ہوتا ہے، خطیب جمعہ کو اس کی رعایت کرنی چاہیے تاکہ سامعین تک اصل پیغام پہنچ جائے اور وہ اس سے پورے طور پر مستفید ہوسکیں۔ منبر پر خطیب کو اپنے علم ومطالعہ کی دھاک جمانے کی بجائے سامعین کے فہم وادراک اور ان کی ضروریات کا لحاظ کرنا چاہیے۔ جمعہ کا یہ خطبہ برادرم ابواشعر فہیم صاحب نے اپنے موبائل میں محفوظ کرلیا تھا۔انھوں نے ایک دن فون پر بتایا کہ اسے تحریری شکل دے دی جائے، دیکھیے کب اس کی فرصت میسر آتی ہے۔
خطبۂ جمعہ کے بعد مولانا مظہر علی مدنی پرنسپل جامعہ فیض عام مئو کے دولت کدے پر ظہرانے کا اہتمام تھا چنانچہ میں عزیز الرحمن صاحب کے ساتھ ان کے گھر پہنچا اور ان کے دسترخوان پر پرتکلف مہمان نوازی سے آسودگی حاصل کی۔ مولانا مظہر علی مدنی جامعہ سلفیہ بنارس میں مجھ سے ایک کلاس پیچھے تھے البتہ اپنی محنت اور ذہانت سے اپنے ساتھیوں میں ایک الگ پہچان رکھتے تھے۔ ندوۃ الطلبہ میں بھی وہ ہمارے ساتھ رہا کرتے تھے۔ اس لیے ان سے ہر مسئلے پر کھل کر بات ہوتی ہے اور درمیان میں کسی طرح کے تکلف کا اظہار نہیں ہوتا۔ کھانے کے بعد ہم دونوں مکتبہ فہیم آگئے۔ مجھے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک شعبہ ’’پروفیسر خلیق احمد نظامی مرکز علوم القرآن‘‘ کی سیمینار لائبریری کے لیے کتابوں کا انتخاب کرنا تھا۔ یہاں برادرم عزیزالرحمن کے بڑے بھائی محترم شفیق الرحمن صاحب کے ساتھ بیٹھ کر کئی ایک کتابوں کا انتخاب کیا اور طے یہ ہوا کہ ان کو ٹرانسپورٹ کے ذریعے علی گڑھ بھیج دیا جائے گا۔ شفیق الرحمن صاحب بڑے دلچسپ آدمی ہیں، ان کا ہنستا مسکراتا ہوا چہرہ ہر آنے والے کا دل موہ لیتا ہے۔ صاحب علم اور صاحب نظر بھی ہیں۔ ہر مسئلے پر اپنی منفرد رائے بھی رکھتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی گفتگو حزبیت کا شکار نہیں ہوتی ہے۔ عقیدہ و مسلک سے محبت اور لگاؤ ایک الگ چیز ہے اور اپنے ہم جنسوں سے تعلق، سلوک اور برتاؤ کا تعلق اسلام کی عام اخلاقیات سے ہے جسے کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عمر اور تجربہ اگر کوئی چیز ہے تو اس کا مشاہدہ شفیق اور عزیز دونوں بھائیوں میں کیا جاسکتا ہے۔ ایک بے پناہ جذبات سے معمور ہے اور دوسرا اپنی متانت اور سنجیدگی میں طاق ہے۔ اللہ دونوں بھائیوں کو خوش رکھے اور وہ مکتبہ فہیم کے ذریعے اسی طرح دین اسلام اور علم کی خدمت انجام دیتے رہیں۔اللہ ہر طرح کے شرور وفتن اور حسد سے انھیں محفوظ رکھے۔آمین
یکم دسمبر ۲۰۱۸ء کو دس بجے دن میں جامعہ فیض عام مئو کے طلبہ کو خطاب کرنا تھا۔ طبیعت رات ہی سے ناساز تھی، نزلہ، زکام اور کھانسی سے برا حال ہوگیا تھا۔ جامعہ عالیہ کے ایک استاذ جو ڈاکٹر بھی ہیں، اپنے دواخانے سے دوائیں لے آئے تھے، ناشتے کے بعد ان کو استعمال کیا تو کچھ راحت ملی اور طلبہ کو خطاب کرنے کی ہمت جٹا سکا۔ وقت پر میں اپنے رفیق سفر مولانا ارشد سراج الدین کے ساتھ جو دیر رات گئے مئو آچکے تھے، جامعہ فیض عام پہنچ گیا۔ وہاں برادر عزیز مولانا مظہر علی مدنی نے اپنے آفس میں چائے پانی کا انتظام کررکھا تھا۔ فیض عام کے تمام محترم اساتذہ کرام سے ملاقات ہوئی۔ اعلان کیا گیا کہ تمام اساتذہ اور طلبہ جامعہ کی مسجد میں جمع ہوجائیں اور پھر تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔اس کے بعد مولانا ارشد سراج الدین مکی کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ آپ نے طلبہ کو بہت قیمتی نصیحتیں فرمائیں اور طالب علمی کی زندگی میں دین داری، تقوی اور اخلاص کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ نمازوں کی باجماعت پابندی ضروری ہے۔ آپ خود علوم شریعت پڑھ رہے ہیں، نماز کی اہمیت بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس پہلو سے جو کوتاہی پائی جاتی ہے، وہ حددرجہ افسوس ناک ہے۔
میں نے اپنے خطاب میں طلبہ کو بتایا کہ مدرسے کی زندگی کے یہ چند سال آپ کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہی فیصلہ کردیں گے کہ آپ آیندہ کس طرح کی زندگی گزاریں گے، لہذا ان بیش قیمت ایام کو سیروتفریح میں ضائع نہ کریں۔ والدین نے آپ کو اپنے سے جدا کیا ہے تاکہ آپ ایک ذمہ دار عالم دین بن کر ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک فراہم کریں۔ جامعہ میں پڑھائے جانے والے تمام شرعی علوم آپ کی بنیادی ضرورت ہیں۔ہر فن اور موضوع کو پوری محنت سے پڑھیں۔ ہم نصابی کتابوں کا مطالعہ برابر جاری رکھیں۔ یہی مطالعہ آپ کو بتائے گا کہ حاصل کردہ شرعی علوم کو کس طرح اور کس حکمت کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ عربی، اردو اور انگریزی میں مہارت حاصل کریں۔زبان کی کمزوری بہت بڑی کمزوری ہے، یہ آپ کے لیے ترقی کا ہر دروازہ بند کردے گی۔ اساتذہ کا احترام کریں، ان کے تجربات کو مشعل راہ بنائیں اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔درس کے علاوہ بھی اساتذہ سے کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
پروگرام کے بعد میرے بزرگ دوست مولانا ابوالقاسم عبدالعظیم مدنی حفظہ اللہ نے بڑی محبت سے اپنے دولت کدے پر چلنے کی دعوت دی۔ ان کے اس حکم کو کیسے ٹالا جاسکتا تھا۔چنانچہ میں اپنے رفیق سفر مولانا ارشد سراج الدین مکی کے ساتھ ان کے گھر حاضر ہوا۔ مولانا نے بغیر تاخیر کے کھانا کھلایا اور میرے نزلہ، زکام اور کھانسی کے لیے کوئی جلد فائدہ پہنچانے والی یونانی دو ا بھی دی۔ الحمد للہ اس سے کافی فائدہ ہوا۔ تھوڑی دیر ہم ملک، ملت، جماعت اور جماعتی اداروں پر تبادلۂ خیال کرتے رہے اور پھر یہ طے پایا کہ چوں کہ ہم دونوں کو مرزا ہادی پورہ میں بعد نماز عشاء خطاب کرنا ہے، اس لیے تھوڑی دیر آرام کرلیا جائے۔ مولانا ارشد سراج الدین مکی تو اپنے کسی واقف کار کے ساتھ ان کے ادارے میں چلے گئے اور میں مولانا ابوالقاسم صاحب کے گھر پر آرام کرنے کے لیے ذرا دیر لیٹ گیا۔
یہاں میں مولانا ابوالقاسم عبدالعظیم مدنی حفظہ اللہ کے تعلق سے چند باتیں قارئین ذی احترام کو بتانا چاہوں گا۔ میرے یہ فاضل بزرگ دوست خداداد صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ تصنیف وتالیف، تحقیق وتخریج، ترجمہ وترتیب، خطابت وصحافت اور درس وتدریس کے تمام شعبوں میں بحمد اللہ ان کی خدمات نمایاں ہیں۔ اس وقت مئو میں ان کی علمی شخصیت ایک امتیازی شان رکھتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مئو میں اپنے مدارس اور اپنی تنظیم کے چند داخلی مسائل کی وجہ سے ان کی صلاحیتوں سے علماء، طلبہ اور عوام کو کماحقہ فیض نہیں پہنچ پارہا ہے۔میں نے مولانا سے اس موضوع پر گفتگو بھی کی اور بعض دوسرے حساس نوجوانوں کو اس کی طرف متوجہ بھی کیا کہ مولانا کے علم سے عوام، علماء اور طلبہ کو فائدہ پہنچنا چاہیے۔ اگر تینوں بڑے جامعات میں موجود مساجد میں وقفے وقفے سے ان کے خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا جائے تو ان کے علم سے طلبہ اور اساتذہ سبھی مستفید ہوں گے۔ کوئی آدمی آپ کی ہی نہیں کسی کی بھی میزان پر سو فیصد پورا نہیں اترسکتا، اس کی بشری کمزوریوں کے ساتھ اسے قبول کرنا چاہیے تاکہ اللہ نے اسے جن صلاحیتوں سے نوازا ہے، اس کی افادیت عام ہوسکے۔اختلاف اور مخالفت کے درمیان باریک فرق کو بالائے طاق رکھ کر پورے ملک میں جس طرح بعض حضرات صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے تنظیم اور مدارس کی سطح پر شروفساد پھیلائے ہوئے ہیں، وہ ایک سنگین جرم ہے، یہی ہماری تباہی اور بربادی کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج حال کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ کرنے کے لیے ہمارے پاس رہا نہیں تو ہم ماضی کی فتوحات کا تذکرہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور پدرم سلطان بود کا نعرۂ مستانہ سنا کر خود بھی خوش ہولیتے ہیں اور دوسروں کو بھی غفلت کی میٹھی نیند سلادیتے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے دوسروں پر خشت باری کرنے کی وجہ سے ہماری اپنی اساسیات کمزور ہوگئی ہیں۔ ہمیں موقع ہی نہیں ملتا کہ دعوت کتاب وسنت کی علم بردار اتنی بڑی جماعت کی علمی، عملی اور فکری کوتاہیوں کا احتساب کرسکیں۔ اگر کوئی اس سمت قدم بڑھاتا بھی ہے تو اس پر فتوے کی سنگ باری ایسے کی جاتی ہے جیسے اللہ نے اس روئے زمین پر انھیں اپنا داروغہ مقرر کردیا ہے۔وہ اپنے لیے یہ حق محفوظ کرچکے ہیں کہ وہ جسے چاہیں سلفیت سے خارج کردیں اور جسے چاہیں داخل کرلیں۔ اس نوعیت کی فتوے بازی اہل کتاب کے یہاں عام تھی اور اللہ نے اپنی آخری کتاب میںان کی اس روش کی مذمت اسی لیے کی تھی کہ امت مسلمہ اس بیماری سے خود کو دور رکھے لیکن مذاہب کی تاریخی مزمن بیماریوں سے خود کو بچاکر رکھنا آسان کہاں ہے؟ ہمارے یہاں اس وقت قحط الرجال نہیں ہے بلکہ کمی جوہر شناسوں کی ہے۔کاش ہم اپنے باصلاحیت علماء کے علم اور تجربے سے ملت و جماعت کو کماحقہ فائدہ پہنچا پاتے۔
بعد نماز عشاء مرزا ہادی پورہ کی جامع مسجد میں خطاب عام کا پروگرام تھا۔ طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے میں نے اپنے دوست مولانا ارشد سراج الدین مکی سے درخواست کی کہ آپ پہلے پہنچ جائیں اور خطاب شروع کردیں۔تھوڑی دیر بعد میں حاضر ہوجاؤں گا۔ چنانچہ جب مسجد پہنچا تو خطاب جاری تھا اور جماعت کے ناظم مولانا سرفراز فیضی حفظہ اللہ، استاذ جامعہ فیض عام مئو پروگرام کی نظامت فرمارہے تھے۔ہمارے فاضل دوست عوام کو بہت سلجھے ہوئے آسان لفظوں میں خطاب کرتے ہیں۔تقوی، اخلاص، احکام اسلام کی پابندی اور اسلامی اخلاقیات سے خود کو مزین کرنا وغیرہ سے متعلق انھوں نے کتاب و سنت کی روشنی میں تفصیل سے گفتگو کی۔
ناظم اجلاس مولانا سرفراز احمد فیضی صاحب نے دوسری تقریر کرنے کا حکم مجھے دیا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ عوام کے اس اجتماع کو مسلمانوں کے معاشرتی مسائل کے حوالے سے خطاب کیا جائے۔ اس وقت مسلم سماج میں جو افراط و تفریط اور ناانصافی اور بے اعتدالی دیکھنے کو مل رہی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے ان معاشرتی مسائل کو اپنے گھر کا مسئلہ سمجھ لیا ہے، ان کو کتاب وسنت کی روشنی میں حل کرنے کی بجائے ہم پنچایت کے ذریعے یا اپنی مرضی سے حل کرنے لگے ہیں۔ شادی بیاہ، جہیز اور وصیت و وراثت کے مسائل کی صورت حال بیان کرتے ہوئے عوام کو بتایا گیا کہ ان مسائل میں کتاب وسنت کے قوانین کو تسلیم نہ کرنا ایک طرح سے بغاوت ہے اور اسی بغاوت کی سزا ہمیں یہ مل رہی ہے کہ ہمارے گھروں سے سکون واطمینان رخصت ہوچکا ہے۔ رشتے ناتوں پر گفتگو کرتے ہوئے صلہ رحمی اور اس کی معنویت اور اہمیت بتائی گئی اور بعض قریبی عزیزوں سے اختلاف کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ان کے نقصانات کی طرف اشارہ کیا گیا۔ عوام کی خواہش تھی کہ خطاب کا سلسلہ ابھی جاری رہے لیکن درمیان میں نزلے کی وجہ سے کھانسی آتی رہی، مجبوراً خطاب کو مختصر کرنا پڑا۔ سامعین سے یہ وعدہ کیا کہ اللہ نے اگر دوبارہ موقع دیا تو اس موضوع پر ان شاء اللہ تفصیل سے گفتگو کروں گا۔
شہباز عالم صاحب نے اپنے دولت کدے پر مہمانوں اور جماعت کے دیگر علماء کو عشائیہ پر مدعو کررکھا تھا۔ تمام ہی حضرات نے ان کے پرتکلف دسترخوان پر حاضری دی اور طرح طرح کے لذیذ کھانوں سے آسودگی حاصل کی۔ میزبانوں کا خلوص اور ان کی محبت نے کھانوں کا لطف دوبالا کردیا تھا۔ اللہ سے یہی دعا کرتا ہوں کہ جماعت میں اس طرح کے مخلص افراد کو اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمائے اور علماء سے انھیں جو عقیدت ہے، اس کو دوام اور ہمیشگی بخشے۔آمین
اس طرح سنیچر یعنی یکم دسمبر۲۰۱۸ء کا دن ختم ہوا اور ہم جامعہ عالیہ کے مہمان خانے میں واپس آگئے۔ دسمبر کی دوسری تاریخ کو ہمارا واپسی کا پروگرام دوپہر کو تھا۔ اس سے پہلے جامعہ عالیہ کے طلبہ اور اساتذہ کو خطاب کرنا تھا۔
جامعہ میں اعلان ہوا کہ تمام اساتذہ اور طلبہ دس بجے جامعہ کی مسجد میں آجائیں۔ جامعہ کی مسجد بھی الحمدللہ کافی کشادہ اور عالی شان ہے۔ پروگرام کے مطابق ہم بھی وہاں پہنچ گئے اور ناظم پروگرام نے مختصر تعارف کے بعد مولانا ارشد سراج الدین مکی کو خطاب کی دعوت دی۔صدیق محترم نے طلبہ کو اپنے خطاب میں اخلاص اور تقوی اختیار کرنے اور آنے والی زندگی کے لیے تیاری کرنے کی تاکید کی۔نماز کی اہمیت بتائی اور اس سلسلے میں پائی جانے والی کوتاہیوں پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ مسلم معاشرے کے لیے ایک نمونہ ہیں۔ اگر ابھی سے آپ کے اندر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی عادت نہ پڑی تو آیندہ اس سلسلے میں مزید کوتاہیاں سامنے آئیں گی۔
دوسرا اور آخری خطاب مجھے کرنا تھا۔ وقت کی تنگی کو دیکھتے ہوئے میں نے مختصر طور پر ملک میں مدارس و جامعات کی اہمیت، دینی اور شرعی علوم کی ضرورت اور فارغین مدارس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور طلبہ کو بتایا کہ آپ درسیات کے ساتھ ساتھ ہم نصابی کتابوں کا بھی مطالعہ کریں اور جو مضامین مدارس میں داخل نصاب نہیں ہیں لیکن ایک دعوتی زندگی میں ان کی ضرورت ہے، ان کا مطالعہ ضرور کریں۔ اساتذہ سے ربط و تعلق رکھیں اور ان کی نگرانی میں اپنی طالب علمانہ زندگی گزاریں۔ مضمون نگاری اور مقالہ نویسی کی عادت ڈالیں۔ اس کے لیے آپ کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔ مطالعے کے وقت لغت کی کتابوں کا استعمال ضرور کریں۔ کوئی مشکل لفظ سامنے آئے تو اس کا معنی ضرور معلوم کریں۔ اسی سے آہستہ آہستہ آپ کے لیے مطالعہ آسان بھی ہوجائے گا اور مطالعہ کی رفتار اور مقدار میں اضافہ بھی ہوجائے گا۔
سامان سفر تیار تھا، مہمان خانے میں آئے اور جامعہ نے اپنے آٹو رکشہ سے ہمیں ریلوے اسٹیشن پہنچادیا۔ جامعہ کے دو طلبہ بھی ساتھ تھے۔ ان کی موجودگی نے سامان اٹھانے میں مدد کی اور اگلی صبح میں علی گڑھ اور رفیق سفر دہلی بخیر و عافیت پہنچ گئے۔ فالحمد للہ علی ذلک۔مئو کے تمام دوست احباب کا شکریہ جنھوں نے بھرپور محبت اور اپنائیت کا ثبوت دیا۔ مسلسل پروگرام اور طبیعت کی ناہمواری کی وجہ سے اپنے انتہائی محترم اور بزرگ عالم دین مولانا محفوظ الرحمن فیضی حفظہ اللہ سے ملاقات نہیں کرسکا، جس کا افسوس ہے۔ اخبارات میں پروگراموں کی تفصیل شائع ہوئی تو مولانا کو میرے مئو آنے کا علم ہوا۔ بعد میں انھوں نے فون پر ملاقات نہ ہونے پر اظہار افسوس کیا۔ واقعی یہ بہت بڑی بھول تھی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مئو میری حاضری ہوئی ہو اور دعا سلام کے لیے ان کی خدمت میں حاضری نہ دی ہو۔ ان کی صحبت خواہ وہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو، کبھی افادیت سے خالی نہیں رہی۔ معلومات میں اضافہ ہوا اور جماعت کی تاریخ اور اس سے وابستہ علماء کی علمی فتوحات سے واقفیت ہوئی۔ تواضع و خاکساری جو ہمارے بڑے اور ممتاز علماء کی شان رہی ہے، اس کا نمونہ مولانا کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس وقت مولانا کی شخصیت مئو میں اہل علم و فضل کے لیے مرجع کی حیثیت رکھتی ہے اور ان کا شمار مئو کے مشہور اور صاحب تصانیف علماء میں ہوتا ہے۔ اللہ ان کو صحت و عافیت سے رکھے اور ہمیں توفیق دے کہ زیادہ سے زیادہ ان کے علم اور تجربے سے استفادہ کریں۔
بہت عمدہ اور گرانقدر معلومات سے معمور سفرنامہ جسے پورا ازاول تاآخر پڑھے بغیر نہ رہ سکا،سفرنامہ صرف ذاتی حالات واقعات کانام نہیں بلکہ جابجا اپنے علم ومطالعے تجربے ومشاہدے سے قارئین کو مستفید بھی کیا جاتا ہے جو الحمدللہ اس سفرنامے میں قدم قدم پر نظر آیا،خاص طور پر آپ نے مختلف مقامات پر اپنے خطاب اور موضوعات کا جو خلاصہ پیش کیا ہے وہ سونے پر سہاگہ کا کام کررہا ہے،پھر تعبیر اور تحریرکا دلپذیر انداز اس پر مستزاد ہے۔جزاکم اللہ احسن الجزاء۔
❤️❤️🌹🌹👍👍