ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا

راشد حسن مبارکپوری تاریخ و سیرت

ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق رجال و سیر اور تراجم کی کتابوں میں بہت کم معلومات ملتی ہیں،چنانچہ سیر و تراجم کے مستند مآخذ اور اہم ترین مراجع ابن عبدالبر (ت:۴۶۳ھ) الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ابن الأثیر (ت:۶۳۰) کی أسد الغابہ، ذہبی (ت:۷۴۸ھ) کی سیر اعلام النبلاء اور ابن حجر (ت:۸۲۵ھ) کی الاصابہ فی تمییز الصحابہ معروف ہیں۔ مگر ان تمام کتابوں میں دیکھ جائیے حضرت زینب بنت خزیمہ کے حوالہ سے صرف ایک ایک صفحہ پر ترجمہ مکمل ہوگیا ہے، البتہ بعد کے ادوار میں معروف کتابوں میں دکتورہ عائشہ عبدالرحمن بنت الشاطئ (ت:۱۴۱۹ھ=۱۹۹۸م) نے تاریخی اختلافات اور روایات کو جمع کرنے سعی کی ہے، وہ بھی چھ صفحات سے زائد نہیں۔
موثوق مصادر میں ام المومنین کے متعلق قلت معلومات کی جو سب سے بڑی وجہ ہے وہ یہ کہ ان کا تیس سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا جیسا کہ محمد بن عمر واقدی(ت:۲۰۷ھ) نے ذکر کیا ہے اور ابن حجر نے ’’الاصابہ‘‘ میں نقل کیا ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کی زوجیت میں بہت کم رہنے کا موقع ملا، الاصابہ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما سے شادی کے کچھ ہی دنوں بعد آپ ﷺ نے حضرت زینب بن خزیمہ سے شادی کی، مگر ابھی دو یا تین مہینے ہی گذرے تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا۔
ایک روایت کلبی کی ہے:

فتزوجھا فی شھر رمضان سنۃ ثلاث، فأقامت عندہ ثمانیۃ أشھر و ماتت فی ربیع الآخر سنۃ أربع۔ (أسد الغابۃ، الترجمۃ رقم: ۹۶۵۳،۷؍۱۲۹)

یعنی رمضان ۳ھ میں شادی ہوئی اور اللہ کے رسول ﷺ کی زوجیت میں ۸؍مہینے رہیں پھر ۴ھ ربیع الآخر کے مہینے میں انتقال ہوگیا۔
اس کم عمری اور کم مدتی کے باعث ان کے متعلق تاریخ و تراجم کی کتب ہم تک بہت زیادہ معلومات نہیں پہونچا سکیں، البتہ جو کچھ بھی ہے غنیمت ہے۔
ولادت و نسب نامہ:
ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ کی ولادت ۲۶؍قبل ہجری ہوئی، جیسا کہ ہم ذکر کر آئے ہیں کہ ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر بن خطاب(ت:۴۱ھ) ابھی آپ ﷺ کی زوجیت میں آئی ہی تھیں کہ اس کے کچھ دنوں بعد اولین قرشی مہاجر حضرت عبیدہ بن الحارث شہید رضی اللہ عنہ(ت:۲ھ) کی بیوہ، پانچویں امہات المومنین حضرت ’’زینب بنت خزیمہ الہلالیۃ‘‘ آپ کی زوجیت میں شامل ہوکر بیت نبوی اور دبستان محمدی کی چشم و چراغ بن گئیں۔
تاریخی اختلاف کے باوجود باپ کی طرف نسب نامہ کی صحت میں اجماعی شکل بن گئی ہے اور وہ اس طرح ہے:

زینب بنت خزیمہ بن حارث بن عبداللہ بن عمرو بن عبد مناف بن ہلال بن عامر بن صعصعہ بن معاویہ بن بکر بن ہوزان بن منصور بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس عیلان بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان

جیسا کہ ابن عبدالبر نے ’’استیعاب‘‘ میں تصریح کی ہے۔ (دیکھیے:

الطبقات الکبری، السیرۃ الھشامیۃ:۴؍۲۹۷، تاریخ الطبری:۳؍۱۷۹، المحبرلابن حبیب:۸۳، وجمہرۃ أنساب العرب:۲۶۲، والسمط الثمین:۱۱۲، و عیون الأثر: ۲؍۳۰۲، تراجم السیدات:۳۱۵)

البتہ ماں کی طرف سے جو نسب نامہ ہے وہ تاریخ نویسوں کی توجہ کا مرکز نہ بن سکا۔ ابن عبدالبر نے اس سلسلہ میں ابوالحسن الجرجانی علی بن عبدالعزیز النسابۃ (ت:۳۹۲ ھ، النسّابۃ کی نسبت علم الأنساب میں مہارت کی وجہ سے ہی ہے) کا قول نقل کیا ہے: زینب بنت خزیمہ میمونہ بنت حارث (ام المومنین) کی أخت لأم تھیں، ابن عبدالبر اس کے بعد لکھتے ہیں: ولم أر ذلک لغیرہ واللہ أعلم‘‘ (الاستیعاب، کتاب النساء و کناھنّ، باب الزای) میں نے ان کے علاوہ یہ چیزیں کہیں نہ دیکھی واللہ اعلم۔ اسی طرح ابن سیدالناس اندلسی (ت:۷۳۴ھ) نے ابن عبدالبر سے یہ جملہ نقل کیا ہے اور اس پر کوئی نقد نہیں کیا ہے۔ بہر حال ماں کی طرف والا نسب نامہ یہ ہے:

’’ہند بنت عوف بن الحارث بن حماطہ بن جرش بن أسلم بن زید بن سھل بن عمرو بن قیس بن معاویہ بن خشم بن عبد شمس بن وائل بن الغوث بن قطن بن عریب بن زہیر بن الغوث بن أیمن بن ہمیسع بن حمیر بن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان الحمیریۃ‘‘

اس نسب کی عظمت الاصابہ کی یہ عبارت ہے:

’’ولا یعلم امرأۃ فی العرب کانت أشرف أصھارا من ھند بنت عوف أم میمونۃ و أخواتھا‘‘ (الإصابہ:۸؍۹۵)

یعنی میمونہ اور ان کی بہنوں کی ماں ہند بنت عوف کے گھر سے زیادہ شریف ترین گھر عربوں میں نہ دیکھا گیا۔
ہند بنت عوف (حضرت زینب بنت خزیمہ کی ماں) کی اور بھی بیٹیاں تھیں، جو درج ذیل ہیں:
۱۔ ام المومنین حضرت میمونہ بنت حارث ہلالیہ۔
۲۔ اسماء بنت عمیس خثعمیہ (حضرت ابوبکر صدیق، حضرت جعفر و علی بن طالب کی زوجہ)
۳۔ أروی بنت عمیس خثعمیہ (حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کی زوجہ)
۴۔ام الفضل لبابۃ کبری بنت حارث ہلالیہ (حضرت عباس بن عبدالمطلب کی زوجہ)
۵۔ لبابہ صغری بنت حارث ہلالیہ (خالد بن ولید کی والدہ)
نشو نما:
ام المومنین حضرت زینب بن خزیمہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں، وہیں ان کی پرورش و پرداخت ہوئی، اس وقت مکہ فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنا ہوا تھا، بت پرستی عام تھی، شجر و حجر کی عبادت ان کا مذہبی شوق تھا، حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ایسے ہی بت پرست ماحول میں آنکھیں کھولیں، اس وقت لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا مذہبی روایت اور خاندانی شرافت تھی مگر چونکہ وہ نہایت پاکیزہ اور بلند پایہ خانوادے سے نسبت رکھتی تھیں اس لیے وہ موت کے اس خوفناک اور آہنی پنجے سے بچ گئیں، والدین کی محبت و شفقت میں پلیں بڑھیں، اس وقت مکہ کے اندر جو اہم واقعات ہوئے ان میں خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر اور حجر اسود کی اپنے اصل مقام پر منتقلی کے شدید اختلافات تھے، ظاہر ہے یہ ساری چیزیں ان کے مشاہدہ میں آئیں، نبی اکرم ﷺ کا تاریخی اور شاندار فیصلہ بھی دیکھا جس نے عرب قبائل کے مابین متوقع خونریز جنگ سے بچا لیا، اور حجر اسود کو اپنے مقام تک ہونچانے کا شرف تمام قبائل کو حاصل ہو گیا۔ ظاہر ہے اس دور اندیشانہ فیصلہ کا اثر ہر سلجھے ذہن پر غیر شعوری انداز میں پڑا ہوگا۔ ان میں حضرت زینب بنت خزیمہ بھی تھیں، چنانچہ اسلام کی ضیا پاش کرنیں جب وادی بطحا پہ پھیلیں اور نبی ﷺ نے دعوت توحید سے لوگوں کو آشنا کیا تو وہ بھی اسلام کی طرف مائل ہوگئیں۔
أم المساکین:
تاریخ نویسوں اور ترجمہ نگاروں کے یہاں حضرت زینب بنت خزیمہ کے حوالہ سے (تاریخ و سنین میں خصوصا) بہت اختلافات ہیں، مگر اس بات سے تمام کا اتفاق ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نہایت پاکیزہ سیرت تھیں، پاکبازی تو ویسے بھی آپ کے خانوادہ کا شعار تھا، جود و سخا، رقت قلبی، رحم دلی، شفقت و محبت، ایثار و قربانی اور وفا شعاری کی دولت سے مالامال تھیں، چنانچہ تاریخ میں بالاجماع آپ کا لقب ’’ام المساکین‘‘ بتایا گیا۔ یعنی مسکینوں اور محتاجوں کی ماں، ظاہر ہے یہ وصف ان پر غالب تھا، نہایت نرم دل واقع ہوئی تھیں جس کی وجہ سے انہیں یہ لقب ملا، چنانچہ عبدالملک بن ہشام بصری(ت:۲۱۸ھ) لکھتے ہیں:

’’وکانت تُسمّی أم المساکین لرحمتھا إیاھم و رقتھا علیھم‘‘ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام:۴؍۲۹۶)

حضرت زینب کا نام مسکینوں کی ماں تھا کیوں کہ وہ محتاجوں کے لیے بڑی نرم اور رحم دل واقع ہوئی تھیں۔
امام ابن شہاب زہری (ت:۱۲۴ھ) سے روایت ہے فرماتے ہیں:

’’تزوج النبی ﷺ زینب بنت خزیمۃ، وہی أم المساکین، سُمّیت بذلک لکثرۃ إطعامھا المساکین، وھی من بنی عامر بن صعصعۃ‘‘ (راوہ الطبرانی، اس کے رواۃ ثقہ ہیں، دیکھیے: مجمع الزوائد:۹؍۲۴۸)

اللہ کے رسول ﷺ نے زینب بنت خزیمہ سے شادی کی جنہیں مساکین کی ماں کہا جاتا ہے اور یہ نام اس لیے پڑا کیوں کہ وہ مسکینوں کو بہت زیادہ کھانا کھلایا کرتی تھی، ان کا تعلق بنو عامر بن صعصعہ سے تھا۔
اسی طرح امام عبدالبر کی کتاب ’’الاستیعاب‘‘ اور امام ابن حجر کی ’’الاصابہ‘‘ میں ہے:

’’وکان یقال لھا أم المساکین، لأنھا کانت تطعمھم وتتصدق علیھم‘‘، ومثلہ فی تأریخ الطبری۔(تأریخ الطبری:۳؍۳۳)

انہیں غریبوں کی ماں اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ انہیں کھانا کھلاتی تھیں اور ان پر صدقہ خیرات کرتی تھیں اسی طرح تاریخ طبری میں بھی ہے۔
سیرت ابن اسحاق میں ہے:

’’قالت النسوۃ لرسول اللہﷺ:أینا أسرع بک لحوقاً؟ قال: فقال: أطولکنّ یدا، فأخذن یتنازعن عن أطولھن یدا، فلمّا توفیت زینب علموا أنھا کانت أطولھن یداً فی الخیر والصدقۃ‘‘۔(سیرۃ ابن اسحاق، ج؍۳، باب تزویج النبی ﷺ زینب بنت خزیمہ)

امہات المومنین نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ (جنت میں) سب سے پہلے آپ سے کون ملے گا اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے، چنانچہ ام المومنین کے مابین تنازعہ ہوگیا کہ ہاتھ کس کے لمبے ہیں، مگر جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو یہ بات واضح ہوگئی کہ خیرات و صدقات میں ان کا ہاتھ سب سے لمبا تھا۔
بعض اہل علم نے ’’ام المساکین‘‘ کا لقب حضرت زینب بنت جحش کو دیا ہے، مگر وہ صحیح نہیں، صحیح وہی ہے جو ہم نے دلائل کی روشنی میں تحقیق پیش کی۔
ہجرت:
جب مکہ میں مسلمانوں کی زندگی سخت تلخ ہو گئی اور مسلمان طرح طرح مشکلات و آزمائشوں سے دوچار ہوئے تو شدہ شدہ مسلمان حبشہ پھر مدینہ کی جانب ہجرت کر گئے، ان مہاجرین مسلمانوں میں ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ بھی تھیں، حضرت زینب ان خوش قسمت صحابیات میں سے ہیں جنھوں نے شعب ابی طالب کی تین سالہ ظالمانہ حصار بندیوں میں قید رہ کر ایمان و یقین اور عزیمت و استقامت کی قندیل روشن رکھا، یہ اس لیے تھا کیوں کہ ان کا اپنے رب سے رشتہ نہایت مضبوط تھا اور اللہ کی رضا مندی اور خوشنودی کی خاطر ہر ظلم گوارا کر لیا، ایمان کی آبرو کے لیے ہر مشقت کو گلے لگایا، رسول اللہ ﷺ کی محبت میں یہ سب سختیاں جھیلیں، یہ در اصل کمال ایمان کی کھلی دلیل ہے، اللہ اور رسول سے محبت کی واضح نشانی ہے، چنانچہ مدینہ پہونچ کر اپنے شوہر نامدار حضرت عبیدہ بن حارث کے ساتھ اس صالح اور پاکیزہ اسلامی معاشرہ کا ایک مقدس حصہ بن گئیں، ایمان و یقین کا رشتہ بھی ایسا مضبوط رشتہ ہوتاہے کہ انسان اس کی خاطر وطن، دیار، گھر بار سب کچھ چھوڑنا گوارا کر لیتا ہے یہ وہ مقام بلند ہے جہاں معرفت و عقل اور شعور و آگہی کے بجائے محبت اور صرف محبت کام کرتی ہے۔ یہ دولت و عظمت بلاریب ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ کے حصہ میں آئی۔
اسی طرح حضرت زینب کو اللہ تعالی نے سادگی، قناعت، نرم خوئی، استغنا، عقلی پختگی جیسے کمالات سے پوری فیاضی کے ساتھ نوازا تھا، یہی وجہ ہے کہ جب اسلام کے پہلے معرکۂ عظیم جنگ بدر میں حضرت عبیدہ بن الحارث شہید ہوگئے تو حضرت زینب نے جس صبر و ضبط اور شکیب و ثبات کا مظاہرہ کیا اس تابند نقوش تاریخ کے صفحات میں ثبت ہیں۔
شادی:
تاریخی روایات میں اختلاف ہے کہ حضرت زینب کی اولین شادی کس سے ہوئی، پھر کس طرح اللہ کے رسول ﷺ کی ازواج مطہرات میں شامل ہوئیں؟
(۱) بعض اہل علم کہتے ہیں: پہلے طفیل بن حارث بن عبدالمطلب سے شادی ہوئی تھی، اس کے بعد ان کے بھائی عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب سے ہوئی، مدینہ ہجرت کے بعد جنگ بدر پیش آئی جس میں حضرت عبیدہ بن حارث نے اولین مجاہدین کے طور پر لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا، اخیر میں آپ ﷺ نے ان کی دلجوئی کے لیے ان سے شادی کی، تاکہ کہیں قید تنہائی اور غم روزگار انہیں مضمحل نہ کردیں، یہ وہ عظیم سعادت تھی جس کا اعزاز اللہ تعالی نے آپؓ کو بخشا۔
یہی بات ابو جعفر محمد بن حبیب (ت:۲۴۵ھ) نے ’’کتاب المحبر‘‘ میں ابن سعد بغدادی (ت:۲۳۰ھ) نے واقدی کی سند سے اور ابن سید الناس نے ’’عیون الأثر‘‘ میں بیان کیا ہے، اور اقوال ابن عبدالبر کی الاستیعاب اور ابن حجر کی الاصابہ میں موجود ہیں۔
(۲) امام طبری، ابن عبدالبر قتادہ کی روایت سے اور واقدی نے زہری سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ: پہلے طفیل بن حارث بن عبدمناف کے یہاں تھیں پھر طلاق ہو گئی، اس کے بعد نبی ﷺ نے ان سے شادی کر لی۔
(۳) ابن اسحاق نے ’’السیرۃ الھشامیۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ پہلے جھم بن عمرو بن حارث ھلالی جو ان کے چچا زاد بھائی تھے شادی ہوئی پھر عبیدہ بن حارث سے۔
(۴) ابن عبدالبر نے زہری سے نقل کیا ہے اور ابن حجر نے الاصابہ میں لکھا ہے:
پہلے شادی عبداللہ بن جحش سے ہوئی، وہ غزوۂ احد میں شہید ہوگئے تو نبی ﷺ سے عقد ہوا۔
تاریخ طبری میں ہے:
اس چوتھے سال نبی ﷺ نے زینب بنت خزیمہ جو بنی ہلال سے تھیں، شادی کر لی، مہینہ رمضان کا تھا، اس سے قبل طفیل بن حارث کے عقد میں تھیں جنھوں نے طلاق دے دی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: تراجم سیدات بیت النبوۃ، ص:۳۱۶-۳۱۷)
بہر حال اختلافات جوبھی ہوں لیکن ان میں راجح پہلا ہی قول ہے۔
یہ شادی کس نے کرائی تھی؟ اس امر میں بھی کتب تراجم میں بہت اختلاف ہے۔ ’’الإصابۃ‘‘ میں ہے: نبی ﷺ نے انہیں شادی کا پیغام بھیجا، تو انھوں نے قبول کیا پھر شادی ہوگئی۔
السیرۃ النبویۃ میں ابن ہشام کی روایت ہے ’’حضرت زینب کی شادی ان کے چچا قبیصہ بن عمرو ہلالی نے کرائی اور نبی ﷺ نے چار سو درہم مہر ادا کی۔
بیت نبوی میں:
حضرت عبیدہ بن حارث جب جنگ بدر میں شہید ہوگئے تو اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت زینب کا غم غلط کرنے کے لیے ان سے شادی کر لی، جیسا کہ گذشتہ سطور میں تراجم کی کتابوں سے بعض عبارتیں نقل کی گئیں، لیکن افسوس کی حضرت زینب ام المساکین آنحضرت ﷺ کے ساتھ زیادہ وقت نہ رہ سکیں اور جلد ہی زندگی کی صرف تیس بہاریں دیکھ کر اپنے عظیم شوہر کو چھوڑ کر دار بقا کو کوچ کر گئیں۔ابن حجر نے الاصابہ میں ذکر کیا ہے:

کان دخولہ بھا، بعد دخولہ علی حفصۃ بنت عمر، ثم لم تلبث عندہ شھرین أوثلاثۃ و ماتت‘‘
یعنی حضرت حفصہ بنت عمر کے بعد حضرت زینب سے نکاح کیا، پھر حضرت زینب آپ کے ساتھ دو یا تین مہینہ ہی رہ کر وفات کر گئیں۔
کلبی سے منقول ایک اور روایت ہے:

فتزوجھا فی شھر رمضان سنۃ ثلاث، فأقامت عندہ ثمانیۃ أشھر و ماتت فی ربیع الآخر سنۃ أربع‘‘

یعنی آپ ﷺ نے رمضان ۳ھ میں شادی کی حضرت زینب آپ کے ساتھ آٹھ مہینہ رہ کر ۴ھ میں وفات کر گئیں۔
امام ذہبی کتاب العبر میں لکھتے ہیں:

وفیھا -یعنی السنۃ الثالثۃ- دخل بزینب بنت خزیمۃ العامریۃ، أم المساکین، فعاشت عندہ ثلاثۃ أشھر و توفیت‘‘۔(تفصیل دیکھیں:تراجم سیدات بیت النبوۃ ص:۳۱۷)

یعنی ۳ھ میں ام المساکین حضرت زینب سے شادی ہوئی، تین مہینہ آپ ﷺ کے ساتھ رہ کر وفات کر گئیں۔
وفات:
ام المومنین اور مسکینوں کی ماں حضرت زینب بنت خزیمہ صرف تیس سال کی عمر میں عین جوانی کے عالم میں ۴ھ کو اس دار فانی سے کوچ کر گئیں، نبی ﷺ نے جنازہ پڑھائی۔ جنت البقیع میں میں تدفین ہوئی، آپ ازاواج مطہرات میں پہلی زوجۂ مطہرہ ہیں جن کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی، ام المومنین حضرت خدیجہ اور ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ کے علاوہ کسی اور زوجہ مطہرہ کی وفات آپ کی زندگی میں نہیں ہوئی۔
ام المساکین کے حالات بہت زیادہ تفصیل سے معلوم نہ ہوسکے، مگر ان کی عظمت و شرافت اور اللہ کے حضور مقام بلند ہونے کے لیے یہی کیا کم ہے کہ آپ کو امہات المومنین کا زندہ جاوید اور بے نظیر شرف ملا، آپ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات نبی اکرم ﷺ صحبت میں گذارے ہیں، بلا شبہ یہ وہ سعادت ہے کہ ہزار سعادتیں اس پر قربان، ہزار نعمتیں صرف اس ایک نعمت پر نچھاور۔ بہت سی سعادتیں اور زندگی کی کامرانیاں ایسی ہیں جنہیں انسان اپنی پیہم کاوشوں سے حاصل کرتا ہے، جستجو کرتا ہے خود کو فنا کرتا ہے، تب کچھ ملتا ہے، مگر یہاں تو بات ہی کچھ اور ہے، کامرانی اور سعادت خود آپ کے پاس کر چل کر آئی، نکاح کا پیغام خود آنحضور ﷺ نے ہی بھیجا تھا۔ ظاہر ہے یہ سعادت آپ کی عظمت کے اعتبار سے آپ کو حاصل ہوئی اور یہ بجائے خود ہی نبی ﷺ کی جانب سے آپ کے شرف، دیانت، پاکیزگی اور عظمت کا خاموش اعلان ہے۔
شبہات اور ازالے:
۱۔ ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے متعلق ایک شبہ تو یہ ہے کہ: میمونہ بنت حارث حضرت زینب خزیمہ آپ کی ماں جائی بہن تھیں، تو کیسے آپ ﷺ نے دونوں بہنوں سے شادی کر لی۔
اس کا ازالہ اس طرح ہوگا کہ پہلے آپ ﷺ نے حضرت زینب بنت خزیمہ سے شادی کی، پھر جب ان کا انتقال ہوگیا تب حضرت میمونہ بنت حارث سے شادی کی اور جو ممانعت ہے وہ دو بہنوں کو ایک ساتھ رکھنے سے ہے، اگر بیوی وفات کے بعد کوئی اس کی بہن سے شادی کرنا چاہے تو بلا کسی شرعی قباحت کے کر سکتا ہے۔ تفصیلات علماء کے فتاووں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
۲۔ بعض اہل علم نے کہا کہ ’’أم المساکین‘‘ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش کا لقب تھا۔
چنانچہ استاد محمد مدنی مجلہ ’’الرسالہ‘‘ عدد:۱۱۰۳، تاریخ ۴؍۳؍۱۹۶۵ء میں لکھتے ہیں:
’’ام المومنین حضرت زینب بنت جحش نہایت سخی تھیں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ رحم دل تھیں، یہاں تک کہ آپ کو ’’ام المساکین‘‘ کا لقب ملا۔
استاذ محمد نے تو یہ ذکر کیا مگر یہ کہاں سے ذکر کر دیا معلوم نہ ہوسکا، البتہ امام ابن الأثیر نے بھی ’’اسد الغابہ‘‘ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔
مگر فی الواقع راجح ترین بابت یہی ہے کہ ’’ام المساکین‘‘ کا لقب حضرت زینب بنت خزیمہ کے لیے ہی ہے۔
تاریخی روایت اور موثوق تراجم میں کثرت سے یہ لقب حضرت زینب بنت خزیمہ ہی کے لیے منقول ہے۔ اس کی تفصیل صاحب ’’تراجم سیدات النبوۃ‘‘ نے ذکر کی ہے اور یہی بات راجح قرار دی کہ ’’ام المساکین‘‘ کا لقب حضرت زینب بنت خزیمہ ہی پر صادق آتا ہے۔
۳۔ بعض اہل علم نے سورۂ أحزاب کی آیت ’’ماکان لمومن ولا مؤمنۃ…‘‘ میں مراد حضرت زینب بنت خزیمہ کو قرار دیا ہے، مگر یہ بات قطعاً درست نہیں، تفاسیر کی کتابوں میں اس کی مکمل تفاصیل موجود ہیں، ساتھ ہی گذشتہ سطور سے بجائے خود اس قضیۂ نامرضیہ کی بالکلیہ نفی ہوجاتی ہے۔
مراجع:
۱۔ الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب از ابن عبدالبر۔
۲۔أسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ از ابن الأثیر۔
۳۔سیر اعلام النبلاء از ذہبی۔
۴۔ الاصابہ فی تمییز الصحابہ از ابن حجر۔
۵۔ تراجم سیدات النبوۃ از عائشہ بنت الشاطئ
۶۔ منتدیات بیت النبوۃ۔
۷۔ سیرت کی مختلف کتابیں۔

آپ کے تبصرے

3000