صیہونی سازش

شمس الرب خان

 

میرے ایک دوست ہیں، عمر میں بڑ ے ہیں اس لیے شیخ کہلاتے ہیں. یوں تو کئی خوبیوں کے مالک ہیں لیکن ایک خوبی انتہائی منفرد ہے. صیہونیات کے بہت بڑ ے ماہر ہیں، بہت بڑ ے بولے تو بہت بڑ ے!! صیہونیات میں ان کے” بڑکپن” کا اندازہ خود ان ہی کی زبانی کیجیے:

“صیہونیات اس دنیا کا سب سے بڑا علم ہے اور میں اس کا سب سے بڑا ماہر، تو میں کتنا بڑا ہوا اس کا فیصلہ آپ خود ہی کر لیں! اس علم کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دنیا کی کسی بھی درسگاہ میں پڑھائی نہیں جاتی. اس کو کوئی پڑھا بھی نہیں سکتا. اس کا علم تو خال خال ہی کسی کو نصیب ہو جاتا ہے. یہ مکمل وجدانی علم ہے لیکن  درست اورعین مطابق پیشین گوئی اوراثر و رسوخ میں کسی بھی طبیعیاتی سائنس سے بڑھ کر ہے. یہ میری مہارت ہی ہے کہ اب میں صیہونی سازش کا ایسے ہی کھوج لگا لیتا ہوں جیسے کھوجی کتا کھوجی جانے والی شی کا”. میں نے من ہی من میں شیخ کی  تشبیہ کی داد دی اور مزید استفادہ کی غرض سے سوال کیا:

“شیخ، یہ صیہونی سازش کیا بلا ہے؟ آۓ دن سنتا رہتا ہوں.”

“بلا نہیں دوست اعظم البلاء ہے. صیہونی سازش ایک ایسا نادیدہ جال ہے جس میں ہم سب دانستہ یا نا دانستہ پھنسے ہوۓ ہیں. یہ ہر جگہ موجود ہے؛ یہ ہوا میں باریک ذرات کی شکل میں موجود ہے جو ہمارے سانس لینے کے ساتھ ہی اندر داخل ہوکر ہمارے جسمانی اور عقلیاتی نظام پر اثر انداز ہوتی ہے. یہ پانی میں خورد ترین مخلوقات کی شکل میں پائی جاتی ہے اور ہماری غذا کے مختلف اجزاء میں مختلف شکلوں میں براجمان ہے. یہ ہر جگہ موجود ہے دوست، ہر جگہ.” شیخ خود کلامی کے انداز میں گویا ہوۓ.

” یہ سب بکواس ہے، شیخ! آپ انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں. در حقیقت جب کسی قوم کی ‘قوت فکر و عمل…فنا’ ہو جاتی ہے، اس کی رگوں میں خون منجمد ہو جاتا ہے اور اپنی کرتوتوں کی وجہ سے شکست و ریخت اس کا مقدر بن جاتی ہے، تو وہ اپنی ناکامیوں کا بھانڈا کسی اور پر پھوڑتی ہے. امت مسلمہ بھی ناکارہ ہو چکی ہے اس لیے اپنی ناکامیوں کا بھانڈا صیہونی سازش کے سر پھوڑتی ہے.” میں نے بھی اپنی شیخی بگھارنی چاہی.

شیخ کو مجھ سے ان الفاظ کی توقع نہ تھی. وہ میرے گھر کے ہال میں بیٹھے ہوۓ تھے. انہوں نے اپنی نگاہیں ادھر ادھر دوڑائیں. آخر کار ان کی نگاہیں ہمارے سر کے اوپر برق رفتاری کے ساتھ دوڑ رہے پنکھے پر مرکوز ہو گئیں.

“یہ پنکھا دیکھ رہا ہے؟” شیخ کی ناراضگی ان کے الفاظ اور لہجہ میں جھلک رہی تھی.

“جی، دیکھ رہا ہوں.” شیخ کی غضبناک نگاہوں نے میری جرات کو لجاجت میں تبدیل کر دیا تھا.

” یہ بھی صیہونی سازش ہی کا ایک حصہ ہے کم عقل!”

” وہ کیسے؟” بڑی مشکل سے یہ دو الفاظ میری زبان سے نکل سکے.

” دیکھ، اس پنکھے اور اس کی برق رفتاری کو دیکھ! اس کی ہوا بہت اچھی لگ رہی ہے نا؟ بظاہر اس سے فائدہ ہوتا نظر آ رہا ہے لیکن ہے نقصان دہ. اس سے لوگوں میں آرام طلبی اور تن آسانی کو فروغ مل رہا ہے. یہ غیر فطری ہوا پسینہ کو وقت سے پہلے خشک کر دیتی ہے، جسم پر ضرورت سے زیادہ ہوا کا دباو بڑھاتی ہے اور سر کے بال کو ٹھوکر مارتی ہے. اس کے نتیجہ میں جلد خراب ہو جاتی ہے، جسم کمزور ہو جاتا ہے اور سر کے بال جلد ہی جھڑنے لگتے ہیں. ڈاکٹر اور دواؤں کا ڈیمانڈ بڑھ جاتا ہے. دوا کمپنیاں خوب منافع کماتی ہیں. تم کو معلوم ہونا چاھئے کہ زیادہ تر دوا کمپنیاں صیہونیوں کے زیر اثر ہیں. سمجھ گۓ کہ اور سمجھانا پڑے گا کہ کیسے یہ صیہونی سازش ہے”.

میں نہ چاھتے ہوۓ بھی لاجواب ہوگیا!

دوسرے دن عصر کی نماز کے بعد شیخ سے ملاقات ہوئی. میں کل کی شکست سے تلملایا ہوا تھا، جھٹ سے سوال داغ دیا:

” شیخ، آج میرے کچن اسٹور میں رکھے ہوۓ کچھ آلو سڑ گۓ ہیں. کہیں یہ بھی تو صیہونی سازش نہیں ہے؟” میرا لہجہ استہزائیہ تھا.

خلاف توقع شیخ کی پیشانی پر فکر مندی کے آثار نمودار ہوۓ. کچھ دیر سوچنے کے بعد گویا ہوۓ:

” یہ صیہونی سازش ہے یا نہیں اس کا انحصار دو باتوں پر ہے۔ پہلے یہ  بتائیے کہ آلو میں سڑاند آنکھ کی طرف سے شروع ہوکر اردگرد پھیلا ہے یا اس کے بر عکس؟”

“آنکھ کی طرف سے.” میں نے مختصر جواب دیا.

” دوسری بات یہ کہ آلو چھ کی تعداد میں سڑے ہیں؟”

” جی ہاں.”

” تب تو یہ قطعی طور پر صیہونی سازش ہی ہے.”

” آپ اس نتیجہ پر کیسے پہونچے؟” میں نے حیرانی سے سوال کیا.

” دیکھ بچو! میرے وجدان نے خبر دی ہے کہ آج صبح ہی صیہونیوں نے تل ابیب سے ایک خاص قسم کا مادہ فضا میں تحلیل کیا ہے. یہ مادہ ہوا کے دوش پر بحر ابیض، نہر سوئز، بحر احمر اور بحر عرب سے ہوتے ہوۓ دوپہر میں ممبئی پہونچا ہے. اس مادہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ صرف آلو میں اس کی آنکھ کی طرف سے سڑاند پیدا کرتا ہے. آنکھ کی طرف سے اس لیے کیونکہ صیہونی ادھر ادھر نہ بھٹک کر سیدھے قلب میں وار کرتے ہیں.”

” اچھا تو پھر یہ چھ کی تعداد والا معاملہ کیا ہے؟”

” تمہیں میں جانکار آدمی سمجھتا تھا لیکن تم تو نرے گا‎ؤدی نکلے. کبھی اسرائیل کے پرچم اور اس میں موجود ستارے کے کونوں کی تعداد پر غور کیا ہے؟ چھ کی تعداد کا راز اسی میں مضمر ہے.”

میں پھر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا!!

شیخ سے میری اگلی ملاقات ایک ہفتہ کے بعد ہی ہو پائی. میرا منہ لٹکا ہوا تھا. چہرے پر غم اور پریشانی کے آثار تھے.

” کیا بھ‎‎ا‎ئ، کیا بات ہے؟ بہت غمگین دکھ رہے ہو!” شیخ نے پوچھا.

” غمگین نہ رہوں تو کیا شادیانے بجاؤں؟ آپ کو معلوم نہیں ہے کہ جمعیت میں پھوٹ پڑ گئی ہے. اس کے دو دھڑے ہو چکے ہیں!”

” تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ یہ بھی صیہونی سازش ہے.” شیخ نے پھر بم پھوڑا.

” سٹھیا گۓ ہیں آپ کیا؟ ہمیشہ صیہونی سازش صیہونی سازش  کی رٹ لگاۓ رہتے ہیں.” میں آپے سے باہر ہو گیا.

” تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم کو ہر بار سمجھانا پڑتا ہے. چلو حریف کا نام بتاؤ!”

” رہنے دو، معلوم ہے.” میں نے نام بتانے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ شیخ نے روک دیا.

” کبھی ملے ہو ان سے؟”

” تقریبا پانچ سال پہلے علیک سلیک ہوئی تھی.”

” داڑھی مہندی کے رنگ سے رنگی ہوئی ہے نا؟”

” ہاں!”

” اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ وہ بھی صیہونیوں کے آلۂ کار ہیں۔”

” اب بک بھی دو کہ کیسے؟” غصہ نے میرے الفاظ سے احترام چھین لیا تھا۔

“دیکھو، شیخ جس مہندی کا استعمال اپنی داڑھی کا بال رنگنے کے لیے کرتے ہیں وہ صیہونی مصنوعات میں سے ہے.  صیہونیوں نے اس مہندی میں نہ نظر آ سکنے والے روبوٹ ملا دیے ہیں. یہ روبوٹ ایک خود کار نظام کے تحت مہندی لگانے کے ساتھ ہی ان کی داڑھی کی بال سے چپک گۓ ہیں، پھر دھیرے دھیرے دماغ میں سرایت کرکے پوری قوت فکر پر قبضہ جما لیا ہے. اب صیہونی دور دراز بیٹھ کر ریموٹ کنٹرول کی مدد سے ان سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نت نئی سازشیں کرواتے رهتے ہیں. یہ نیا فتنہ بھی اسی کا ایک حصہ ہے.”

شیخ کے اس سائنٹفک تجزیہ سے میرا دماغ بھک سے اڑ گیا، منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اور سر دیوار سے جا لگا. میری دگرگوں حالت دیکھ کر شیخ اٹھ کھڑے ہوۓ اور میرے کندھے پر تھپکی دیتے ہوۓ تسلی آمیز لہجے میں بولے:

” سینے پر ہاتھ رکھ کر آل از ویل بولو، آل از ویل!!!”

آپ کے تبصرے

3000