میرے گاؤں میں ایک انسان رہتا تھا. مسلمان بھی تھا. اس کے آباء و اجداد گاؤں والوں کے کپڑے دھویا کرتے تھے. وہ دھوبی کہلاتے تھے. وہ اب گاؤں والوں کے کپڑے نہیں دھوتا تھا، لیکن اب بھی دھوبی کہلاتا تھا. مسجد میں ‘مسلمانوں’ کے ساتھ نماز پڑھتا، رمضان کے روزے رکھتا اور لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتا تھا. عام طور پر لوگ اسے مسلمان سمجھتے تھے، لیکن گالی دیتے وقت پتا نہیں کیوں ‘دھوبی’ کہتے تھے. اس نے اپنے بڑے لڑکے کو حفظ قرآن کریم کے لئے قریب کے ایک مدرسہ میں بھیجا. اس نے کسی کو نہیں بتایا کہ وہ ‘دھوبی’ ہے. اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کے بیٹے کو بھی ‘دھوبی’ کہہ کر گالی نہ دی جائے. بیٹا بھی سمجھ دار تھا، کسی کو بھی بھنک نہیں لگنے دیا کہ وہ ‘دھوبی’ کا بیٹا ہے. محنتی اور ذہین تھا، ساتھیوں کے ساتھ ساتھ ‘حافظ جی’ کے دل میں بھی اس کے لئے احترام پیدا ہو گیا. دھیرے دھیرے وہ ‘حافظ جی’ کا شاگرد خاص بن گیا.
دوسرے سال، اسی مدرسہ میں اسی کے گاؤں کا ایک ‘خانزادہ’ حفظ قرآن کریم کرنے کے لئے آیا. ‘دھوبی زادہ’ نے ‘ خانزادہ’ سے منت و سماجت کرکے اس کا راز فاش نہ کرنے پر راضی کر لیا. لیکن دونوں بچے تھے، ایک ہی گاؤں کے تھے، ایک دن کسی بات پر جھگڑ بیٹھے. ‘خانزادہ’ نے سب کے سامنے گالی دی: “سالا دھوبی!”.
ساتھیوں نے سنا، آنکھوں میں احترام کی جگہ حقارت نے لے لی. ‘حافظ جی’ کو بھی پتا چل گیا کہ ان کا شاگرد خاص ‘دھوبی’ ہے…
دوسرے دن سبق سنانے کے لئے وہ ‘حافظ جی’ کے پاس گیا. سورۃ الحجرات سنا رہا تھا:
“يأیها الناس إنا خلقناكم من ذكر و أنثى و جعلناكم شعوبا و قبائل لتعارفوا، إن أكرمكم عند الله…”،
“إن أكرمكم عند الله…”، “إن أكرمكم عند الله…”، “إن أكرمكم عند الله…”، “إن أكرمكم عند الله…”
”حافظ جی’ جھلا کر بولے: ” أتقاكم، رے دھوبی!”
آپ کے تبصرے