بات ہو بیلن بلرامپوری رحمۃ اللہ علیہ کی اور رنج و الم کی کوئی داستان ذہن میں نہ آئے، مشکل ہے۔ آپ اپنی پوری زندگی بیلن سے پریشان رہے اور جب بیلن کا درد حد سے زیادہ بڑھ گیا تو اسی کو دوا بنالیا اور بیلن بلرامپوری کے نام سے شاعری کرنے لگے۔ اپنی شاعری میں انھوں نے گھریلو زندگی کی وہ خونچکاں داستان سنائی ہے اور ضرب بیلن کی ایسی مرثیہ خوانی کی ہے کہ پڑھنے والے آج بھی آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ بہرحال، بات کہیں اور چلی گئی۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ بیلن بلرامپوری کا نام آتے ہی رنج و الم کی کئی داستانیں منہ کھولے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک داستان میں آپ لوگوں کو آج سنانے جا رہا ہوں۔
بیلن گزیدہ شوہروں کی محفل میں ایک دوست نے اپنی بیوی کو ‘جان’ کہا تو بیلن بلرامپوری کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ دوستوں نے استفسار کیا تو کچھ دیر چپ رہنے کے بعد انھوں نے لمبی سانس بھری اور اپنی دکھ بھری آپ بیتی سناتے ہوئے گویا ہوئے:
شروع شروع میں جب میری شادی ہوئی تھی تو میں بھی خوب چھٹکتا تھا اور اپنی بیوی کو ‘جان، جان’ کرتا تھا۔ ‘جان، جان’ کرنے کی یہ عادت اتنی بڑھی کہ میں نے اپنی بیوی کے علاوہ دوسروں کی بیویوں کو بھی ‘جان’ کہنا شروع کردیا، لیکن کمال احتیاط و ہوشیاری کے ساتھ۔ میں انھیں ‘بھابھی جان’ کہتا تھا۔۔۔میرا شوق بھی پورا ہوجاتا اور کوئی ناراض بھی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن شومئ قسمت ایک دن مجھے اپنے بچپن کے ایک دوست کے بارے میں پتہ چلا۔ ہم گاؤں میں ایک ساتھ پلے بڑھے تھے اور لنگوٹیا یار تھے۔ بعد میں ہم دونوں جدا ہوگئے۔ میں پہلے تعلیم کے لیے اس شہر سے اس شہر بھٹکتا رہا اور حصول تعلیم کے بعد ممبئی میں ملازمت اختیار کر لی۔ میرے دوست نے زیادہ پڑھائی نہیں کی اور گاؤں کے مکتب سے درجہ پانچ پاس کرنے کے بعد ممبئی چلا آیا۔ یہیں آکر اس نے کام بوت سیکھا، پیسہ کمایا اور شادی بھی کی۔ بہرحال، ہم دونوں ایک شہر میں تھے۔ مختلف لوگوں کے توسط سے، ہم دونوں کو ایک دوسرے کے بارے میں پتہ چلا۔ بچپن کی دوستی نے جوش مارا اور ہم نے ملاقات کرنے کی ٹھانی۔ میرے دوست نے مجھے اپنے گھر بلایا۔ پھر کیا تھا، میں مارے خوشی کے گنگنانے لگا اور خوب سج دھج کر تیار ہوا۔ دوست پر رعب جمانے کے لیے میں نے اپنے منحنی سے وجود پر کوٹ بھی ٹانگ لیا۔ گھر سے نکلتے وقت بیوی نے کہا بھی کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے ہینگر پر کپڑا لٹکا ہو، لیکن میں مگن تھا، سنی ان سنی کردی۔۔۔۔!!!
قصہ مختصر یہ کہ میں اپنے دوست کے گھر پہنچ گیا۔ دوست بڑے تپاک سے ملا۔ سوکھی لکڑی کی مانند میرے وجود کو گلے سے لگایا اور خورد و نوش کے مختلف سامانوں سے خوب آؤ بھگت کی۔ کھانے پینے سے فارغ ہونے کے بعد، ہم دونوں بات چیت کرنے لگے، بچپن کی یادیں تازہ کی گئیں۔ دوست نے بچپن میں کسی جھگڑے میں میرے کندھے پر دانت کاٹا تھا۔ اس کا نشان ابھی بھی برقرار تھا۔ میں نے اپنا کندھا کھول کر وہ نشان بھی دکھایا۔ ہم دونوں خوب ہنسے۔ بات آگے بڑھی، شادی کی بات آئی۔ میں نے بتایا کہ میری شادی بہت پہلے ہوچکی ہے اور میرے چار بچے بھی ہیں۔ دوست نے بتایا کہ کمانے بنانے کے چکر میں اس نے تاخیر سے شادی کی۔ اس کی شادی کو ابھی چھ مہینے ہوئے ہیں۔ شادی کی بات سن کر میرے دماغ میں کیڑا کلبلانے لگا۔ میں نے کہا: یار، ابھی جلدی شادی کیے اور مجھے بلائے بھی نہیں۔ چل کوئی بات نہیں، یہ بتا ‘بھابھی جان’ کیسی ہیں؟
میرے چہرے پر اطمینان پھیل گیا مانو برسوں کا بوجھ اتر گیا ہو، ‘جان’ جو کہنے کو مل گیا تھا۔ لیکن یہ میری بہت بڑی غلطی تھی۔ میرے دوست نے جواب دینے کے بجائے مارنا شروع کردیا۔ لات، مکا، ہیڈر، فوٹر، دہنی، لبڑی، پنجا، چھکا کچھ نہیں چھوڑا۔ میں چیختا چلاتا رہا کہ کیا ہوا، لیکن دوست نے مانو زبان بند رکھنے اور ہاتھ پیر چلانے کی قسم کھا رکھی تھی۔ مارا خوب مارا۔ اتنا مارا کہ اگر میری ہڈیوں کے اوپر تھوڑا سا بھی گوشت ہوتا تو کچومر بن جاتا، اگر کچومر نہیں تو قیمہ ضرور بن جاتا۔ اسی پر بس نہیں کیا، کپڑا بھی پھاڑ دیا، قیمتی کوٹ کو جھلرا کردیا، پینٹ شرٹ، بنیان ونیان سب پھاڑ ڈالا، ہاں اتنی مہربانی کی کہ اتنا کپڑا چھوڑدیا جتنے سے عزت پر پردہ پڑا رہے۔۔۔ مار مار کر جب وہ تھک گیا اور سستانے کے لیے رکا، تو میں نے بھی راحت کی سانس لی اور روتے گڑگڑاتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر انتہائی عاجزی سے پوچھا:
صرف اتنا بتادے کہ اتنا مارا کیوں؟
دوست نے معصومیت سے جواب دیا: میری بیوی کو ‘جان’ کیوں بولا، بے؟!!!
بہت جلد جواب آئیگا ۔۔۔۔😅😅😅
خوش آمدید
برادر عزیز! فکاہی کالمس بھی ضروری ہیں ،ان سے منہ کا ذائقہ بدل جاتا ہے اور تھوڑی تفریح ہوجاتی ہے لیکن یہ ذمہ داری اگر حضرت بیلن ہی کے سر رہنے دیں تو زیادہ اچھا ہوگا اور وہ ہر ہفتہ کچھ نہ کچھ لکھ کر منورنجن کا سامان کردیا کریں۔آپ سے ہماری امیدیں بہت ہیں،عالمی مسائل پر کچھ لکھیں یا انگریزی میڈیا میں جو کچھ لکھا جارہا ہے،اسی سے متعارف کراتے رہیں تاکہ ہمیں یہ معلوم ہوسکے کہ آج دنیا اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔جس تنگی میں ہم مبتلا کردیے گئے ہیں،اس سے نکلنے کی… Read more »
بہت بہت شکریہ، شیخ محترم۔ آپ نے جس امر کی جانب توجہ دلائی ہے، وہ میری ترجیح ہے۔ البتہ کبھی کبھی ہلکی پھلکی تفریح کا مزاج بھی بن جاتا ہے۔ آپ ہمارے لیے انتہائی قابل قدر ہیں۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ آئندہ خیال رکھوں گا، ان شاء اللہ۔