زندہ رہنا ہے تو…

خبیب حسن مبارکپوری

مشہور انگریزی شاعر ایڈمنڈ اسپینسر (Edmund Spenser) اپنی شہرہ آفاق نظم ون ڈے آئی روٹ ہر نیم (one day i wrote her name) میں بڑے ہی منفرد لہجے اور اچھوتے اسلوب میں تحریر کی اہمیت و افادیت اور اس کی اثراندازی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ الفاظ کی صورت اوراق پر بکھرے موتی بولے ہویے لفظوں کی طرح فضا میں تحلیل نہیں ہوتے، بلکہ آگے چل کر دستاویزی حیثیت اختیار کرتے ہویے پائیداری کے آخری معیار کو پہنچتے ہیں۔ اور خاموش سطریں صدیوں تلک دلوں میں زندہ اور ذہنوں میں گونجتی رہتی ہیں جو مصنف کو “ڈوب بھی گئے تو شفق چھوڑ گئے” کے مصداق بنایے رکھتی ہیں۔ مزید اسے راسخ کرنے کے لیے ایسی راہ اپناتا ہے کہ جس سے قاری بے خود ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا، کیونکہ نظم میں شاعر جب اپنی محبوبہ کے ساتھ پیار و محبت اور حسین یادگار لمحوں کو سمیٹنےکی غرض سے ساحلِ سمندر جاتا ہے، اور وہاں ریت پر اس کا کا نام لکھ کر اسے اپنی بے پناہ الفت کا احساس اور یقین دلانے کی کوشش کرتا یے، تو پیچھے کھڑی محبوبہ ٹکٹکی باندھے محبوب کے ریت پر انگلیوں کے پڑتے گہرے نشانات دیکھ رہی ہوتی ہے کہ اچانک پل بھر میں محبوب کے قیمتی احساسات اور اس سے جنم لیتے یقین کے قالب اور اس کے موہوم سے وجود کو لہریں ختم کردیتی ہیں، پیہم کوششوں کے باوجود پلک جھپکتے سارے نقوش مٹ جاتے ہیں اور امید و بیم کے سارے خواب بکھر کر رہ جاتے ہیں۔
شاعر کی محبوبہ خاموش پیچھے کھڑی محبت کو ہمیشگی عطا کرنے کی ناکام کوششوں کو دیکھ کر بولتی ہے کہ ایسے لایعنی امور میں متوجہ ہوکر کیونکر وقت اور محنت ضائع کررہے ہو، اگر تم واقعی ہماری محبت کو دوام بخشنا چاہتے ہو تو کوئی دوسرا ذریعہ اپناؤ۔ اور ایسی چیزوں کے سہارے نہ لو جو وقتی اور عارضی ہوں۔
شاعر پر اس تنقید کا گہرا اثر پڑتا ہے، چنانچہ وہ کہتا ہے کہ میں اپنے محبوب اور محبت دونوں کو حیات جاودانی دوں گا جس کا ہمارے اور آپ کے دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی تذکرہ ہوگا اور لوگ یاد کریں گے۔ پھر وہ یہی نظم لکھتا ہے۔
آج صدیاں گزرگئیں پھر بھی ہم پڑھتے اور دہراتے ہیں، کیا یہ دوام نہیں؟؟؟ جی ہاں یہی تذکرے ہی دراصل دوام ہیں۔
ہمیں بھی ایسے ہی پائیدار افعال و اعمال انجام دینے چاہئیں جنھیں آنے والی نسلیں نہ یہ کہ صرف یاد رکھیں بلکہ ان دیرپا اور گہرےنقوش پر چل کر اپنا حال اور مستقبل سنوار سکیں، سو ہمیں بھی ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر حال کے عزم کو ساتھ لیے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کرنی چاہیے، جو ہوچکا سو ہوچکا، وقت کو جتنا گزرنا تھا گزر چکا۔ اب سے ہم اگر روزانہ ایک صفحہ بھی لکھیں تو بقول شبلی سال میں 365 صفحات پر مشتمل مستقل کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ ہمیں اپنے طور پر ہی سہی مگر شروعات کردینی چاہیے۔ دنیا ایک اسٹیج ہے، یہاں خود کو پیش کرنا ہے، اس لیے اس کی تیاری میں آگے بڑھیں اور خود کو ثابت کریں۔
کوئی انسان پیدائشی محرر یا مصنف نہیں ہوتا بلکہ “قطرے کو گہر ہونے تک” صدیاں بیت جاتی ہیں، اور … پتھر پہ گھسنے کے بعد ہی حنا رنگ لاتی ہے۔
تحریر و صحافت سے جڑے بے شمار واقعات ہیں جو اس فن کی کتابوں میں بکثرت موجود ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ کہ انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے، کچھ نہ کچھ لکھتے رہنا چاہیے۔ ہماری مصروف ترین زندگی کے لیے یہ جدید آلات بہترین کاز ہیں، جسے زیادہ سے زیادہ زیر استعمال لاکر نہ یہ کہ امن و امان اور اخوت و محبت کو فروغ دے سکتے ہیں بلکہ ان سے منسلک بہت سارے ایسے دینی و دنیوی امور انجام دے سکتے ہیں جو سالوں تک قوم و ملت کے لیے اہم درجہ رکھیں گے۔
خیر دوسرے مشہور شاعر ورڈس ورتھ .w.worth نے بھی اپنی نظم میں کہا کہ جس طرح آج ہم گزرے ہوئے مصنفوں کو یاد کرتے ہیں اور ان کے تذکروں سے ہماری محفلیں سجتی اور آباد ہوتی ہیں بعینہ کل کو ہمیں بھی ایسے ہی یاد کیا جائے گا، ہماری محبتوں کے چراغ بھی آئندہ آنے والوں کے دلوں میں روشن رہیں گے اور ذہنوں کو جلا بخشیں گے۔ لوگ ہمیں بھی یاد کریں گے جبکہ ہم اس دنیا میں نہیں ہوں گے…کیونکہ ہم بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جنھیں آج ہم یاد کررہے ہیں۔

8
آپ کے تبصرے

3000
7 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
8 Comment authors
newest oldest most voted
سعد

بہت اچھے خبیب!

عبداللہ ادیب رحمانی

بہت اچھا مشورہ ہے خبیب صاحب ہم سب کو آپ کی ان نصیحتوں پر عمل کرنا چاہئے

ارشاد رشید

سچ ہے کہ تحریریں ہی انسان کو زندہ کئے رہتی ہیں

شکیل احمد

ماشاء اللہ
بہت اچھے

شمس ودود

You have to prove this if you are reading these two poets… Because what you said to me that you are nill in angrezi 😉

Md kausar

😋😋😋😋😋

Mohammad Danish

بیت خوبصورت پیغام بھائی

Rasheed salafi

ولولوں کو حرارت پہونچاتی اور ارادوں کو مہمیز کرتی ہوئی تحریر۔۔۔۔ایک تحریک اور پرجوش ترغیب لکھنے والوں کیلئے۔۔۔۔۔