چیتھڑے

شمس الرب خان

 

آج تین دنوں کے بعد وہ اپنے شہر غوطہ واپس لوٹ رہا تھا۔ بزنس کے لئے بیرون شہر گیا ہوا تھا۔ پہلے مہینے میں کئی چکر لگ جاتے تھے، لیکن خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد یہ نوبت کبھی کبھی ہی آتی تھی۔ ارد گرد کے شہروں میں صورتحال انتہائی مخدوش تھی۔ ہر وقت جان کے لالے پڑے رہتے تھے۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کب آسمان سے شعلے برسنے لگیں گے اور کب ان کی ہنستی کھیلتی دنیا اجڑ جائے گی۔۔۔
اس کی بیوی کی آنکھوں میں آنسو ہلکوریں مار رہے تھے۔ وہ اسے کبھی شد و مد اور کبھی عاجزی کے ساتھ شہر سے باہر جانے سے روک رہی تھی۔ اس کی چھ سالہ بیٹی ٹی وی پر خوفناک مناظر دیکھ کر سہم جاتی ہے اور کہتی ہے:
” ابو، ہم یہ ملک چھوڑ کر کب جائیں گے؟ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔”
اس نے اپنی بیٹی کو بانہوں میں سمیٹ کر اسے تسلی دی۔ ساتھ ہی اس کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔ اس کی بیٹی نے اسے اپنی بیوی کو منانے کا ایک بہت ہی اچھا خیال دے دیا تھا:
” جانِ من! میرا اس بزنس ٹرپ پر جانا بیحد ضروری ہے، ہمارے لیے، ہماری بچی کے لیے! مجھے امید ہے کہ اس ٹرپ کے بعد ہمارے پاس اتنا پیسہ ہو جائے گا کہ ہم اپنا پاسپورٹ بنوا سکیں گے اور کسی دوسرے ملک میں جا کر ایک پر امن زندگی گزار سکیں گے۔۔۔”
اس کی بیوی کا دل اب بھی نہیں مان رہا تھا، لیکن ایک پرامن زندگی کی امید نے اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔۔۔پھر بھی اسے الوداع کہتے ہوئے اس کی بیوی کے ہاتھ پتہ نہیں کیوں لرز رہے تھے۔۔۔
*************************************
اس کا بزنس ٹرپ توقع سے زیادہ کامیاب رہا۔ اسے خاطر خواہ منافع ہوا تھا۔ اب اس کے پاس اتنے پیسے ہو گئے تھے کہ وہ اپنی فیملی کے لئے پاسپورٹ بنوا سکے اور کسی دوسرے ملک میں جا کر بس سکے۔۔۔
شہر میں داخل ہوتے ہی اسے کسی انہونی کا احساس ہو گیا تھا۔ بس اڈہ سے اس کے گھر کی دوری تقریبا تین کلومیٹر تھی۔ عام دنوں میں یہاں ٹیکسی والوں کی لائن لگی رہتی تھی، لیکن آج کوئی بھی ٹیکسی والا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔مجبورا اس نے یہ دوری پیدل ہی طے کرنے کی سوچی اور آہستہ آہستہ اپنے گھر کی جانب چل دیا۔۔۔
سڑکیں ویران پڑی تھیں۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ ہاں، فضا میں کبھی کبھی بمبار طیاروں کے گرجنے کی آواز آتی اور اس کے ساتھ ہی کہیں نہ کہیں سے دھواں کا طوفان آسمان کو نگلنے کے لیے لپکتا۔۔۔
اس کا دل خدشات کی آماجگاہ بن گیا۔۔۔اس کے ذہن و دماغ میں طرح طرح کے وسوسے آنے لگے۔۔۔اس کے قدموں کی رفتار تیز سے تیز تر ہونے لگی اور آخرکار وہ بدحواس ہو کر دوڑنے لگا۔۔۔ہانپتے ڈانپتے جب وہ اس جگہ پہونچا جہاں اس کا گھر تھا، تو دیکھا کہ وہاں اب صرف کھنڈر ہے۔۔۔ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا اور کئی گھنٹوں تک کسی لاش کی مانند پڑا رہا۔۔۔کئی گھنٹوں کے بعد، اس کے وجود میں جنبش ہوئی اور وہ دھیرے دھیرے کھڑا ہو کر کھنڈرات میں نہ جانے کیا تلاشنے لگا۔۔۔
*************************************
دوسری صبح وہ پاسپورٹ آفس کے سامنے لائن لگا کر کھڑا تھا۔ اپنی باری آنے پر اس نے پاسپورٹ افسر کی جانب تین فارم بڑھائے۔۔۔ پاسپورٹ افسر نے تینوں فارم کو دیکھنے کے بعد اسے تیز نگاہوں سےگھورتے ہوئے کہا:
” عدنان صبحی، عمر پینتیس سال، یہ آپ ہیں! لیلی حلقی، عمر اٹھائیس سال، سارہ صبحی، عمر چھ سال، یہ دونوں کون ہیں؟ کیا آپ کو نہیں معلوم ہے کہ حکومتی قانون کے مطابق، پاسپورٹ کا فارم بھرتے وقت شناخت کے لیے متعلقہ شخص کا بذات خود موجود رہنا ضروری ہے؟ کہاں ہیں دونوں؟ ان کو لے کر آئیں!”
اس نے کھوئی کھوئی سی آواز میں کہا:
” لایا ہوں، سر! دونوں کو لایا ہوں!”
یہ کہتے ہوئے اس نے افسر کے سامنے کاؤنٹر پر اپنے ساتھ لائی ہوئی دونوں بوریوں کو الٹ دیا۔۔۔ ان بوریوں میں چیتھڑے تھے۔۔۔

آپ کے تبصرے

3000