“پوسٹ ٹروتھ” یعنی سچائی پر خواہش نفس کی جیت

شمس الرب خان

 

آکسفورڈ ڈکشنری نے اپنی پرانی روایت برقرار رکھتے ہوئے حال ہی میں اس سال کے لفظ کا اعلان کیا ہے. روزنامہ ‘دی ہندو’ (17 نومبر، پچھلا صفحہ) کے مطابق، آکسفورڈ ڈکشنری نے لفظ ‘پوسٹ ٹروتھ’ (Post-truth) کو سال 2016 کا لفظ قرار دیا ہے. اس لفظ کو دوسرے امیدوار الفاظ جیسے ‘اڈلٹنگ’ (adulting)، ‘آلٹ رائٹ’ (alt-right)، ‘بریگزیٹیر’ (Brexiteer)، ‘ گلاس کلف’ (glass cliff) اور ‘ووک’ (woke) پر ترجیح دی گئی ہے.
‘پوسٹ ٹروتھ’ یا ‘ما بعد الصدق’ (اگر ترجمہ درست ہے) کیا ہے؟ اخبار کے مطابق، آکسفورڈ ڈکشنری میں اس کی تعریف یوں دی گئی ہے:
” ایسے حالات جن میں رائے عامہ کی تشکیل میں جذباتی لبھاوے اور شخصی اعتقاد کی بہ نسبت معروضی حقائق کا عمل دخل کم ہوتا ہے.”
دوسرے لفظوں میں، اس لفظ کا اطلاق ان حالات پر ہوتا ہے جن میں کسی بھی رائے کو اختیار کرنے کے لئے سچ کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے اور انسان کی خواہش، جذبات اور شخصی اعتقاد کی حیثیت اولین ہوتی ہے. ہر کوئی وہی رائے اختیار کرتا ہے جو اس کے دل کو لبھاتی ہے، قطع نظر اس کے کہ سچ کیا ہے!
اس مفہوم میں اس لفظ کا استعمال 1992 سے شروع ہوا. اس سال بریگزٹ استصواب رائے اور ٹرمپ کے امریکی صدارتی امیدوار بننے کے سیاق میں یہ لفظ مضبوطی کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا. گویا اس لفظ نے دو براعظموں کے دو انتہائی اہم امور کی توجیہ پیش کر کے عالمی اہمیت حاصل کی.
قابل غور بات یہ ہے کہ بھلے ہی اس لفظ کا استعمال ماضی قریب میں رونما ہونے والے کچھ خاص سیاسی واقعات کے تناظر میں ہوا ہو، اس کا مفہوم ہر زمان و مکان میں انسانی مزاج کا حصہ رہے ایک عادت کو سموئے ہوئے ہے.
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ سے انسانوں کی غالب اکثریت نے دل کو دماغ پر ترجیح دیتے ہوئے کسی نقطہ نظر کو اپنایا ہے اور پھر اسی سے چمٹ گئی ہے، چاہے وہ نقطہ نظر کتنا ہی خلاف حقیقت کیوں نہ ہو. ہم میں سے اکثر و بیشتر لوگ کسی بھی دینی یا دنیوی امر کے تعلق سے اپنی خواہش کے مطابق ایک اٹل موقف اختیار کر لیتے ہیں. بعد ازاں، اس اٹل موقف کے خلاف حقائق و دلائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا ان کو ٹھکرانے کے لئے بے جا تاویلیں گڑھتے ہیں، گرچہ وہ برحق ہی کیوں نہ ہوں. لیکن جیوں ہی کوئی ایسی چیز مل جاتی ہے جو اس موقف کی تائید میں ہو، تو اس کو لے اڑتے ہیں، گرچہ وہ جھوٹ کا پلندہ ہی کیوں نہ ہو.
موجودہ دور میں خاص طور پر سماجی میڈیا کے ہماری زندگی کا جزء لا ینفک بن جانے کے بعد، یہ صورت حال مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے. سماجی میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں کچھ لوگ مل کر ایک حلقہ بنا لیتے ہیں جس میں وہی چیزیں گردش کرتی ہیں جو اصحاب حلقہ کے مزاج، خواہشات، تصورات و خیالات، مفادات وغیرہ سے میل کھاتی ہوں. ہر ایک حلقہ کی اپنی ایک افتراضی (virtual) دنیا ہوتی ہے، جس کو اصحاب حلقہ مل جل کر بنانے بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں. بنانے بگاڑنے کا عمل چونکہ من موافق منتخب مواد کے ذریعہ اور ایک بند حلقہ میں طے پاتا ہے، اس لئے ہر حلقہ کی دنیا یک رنگی ہو جاتی ہے، جس میں اختلاف رائے کی گنجائش نہ کے برابر ہوتی ہے. اس سے لوگ خود فریبی کا شکار ہوجاتے ہیں اور عدم تحمل ان کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے. اس کا دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ خاص حلقہ میں گردش کر رہی من موافق چیزوں کے سلسلے میں لوگ تحقیق کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، جس کی وجہ سے بسا اوقات جھوٹی اور فرضی معلومات کو لوگ حقائق سمجھ بیٹھتے ہیں.
روزنامہ ‘دی ٹائمز آف انڈیا’ کے اداریہ (18 نومبر) میں امریکیوں کا یہ خدشہ نقل کیا گیا ہے کہ فیس بک اور دیکر سماجی سائٹوں پر موجود خبر کے لبادہ میں جھوٹی اور فرضی معلومات امریکی صدارتی انتخاب پر اثر انداز ہوئی ہیں. اسی اداریہ کے مطابق، زیادہ تر لوگ اپنی من موافق معلومات کو بلا تحقیق ہو بہو تسلیم کر لیتے ہیں، وہ اس سلسلے میں کسی بھی تحقیق و تنقید کی ضرورت محسوس نہیں کرتے. انگریزی زبان میں اس مظہر کو ‘confirmation bias’ (‘تاکید تعصب’، اگر ترجمہ درست ہے) کہتے ہیں. فیس بک کے اس دور میں، ‘confirmation bias’ کے امکانات و خطرات حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں.
جیسا کہ میں اوپر ذکر کر چکا ہوں کہ گرچہ اس دور میں اس مسئلہ کی سنگینی بڑھ گئی ہے لیکن یہ صرف اسی دور یا سماجی میڈیا تک ہی محدود نہیں ہے. ہر دور اور ہرجگہ میں یہ انسانی مزاج کا حصہ رہا ہے. یہ ہم میں سے ہر ایک کے اندر پایا جاتا ہے. ہم سب جانے یا انجانے میں اس بیماری کی گرفت میں ہیں. ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ سچائی کو تسلیم کر لینا اور اسی کے مطابق موقف اختیار کرنا مطلوب و مقصود اور قابل ستائش خصلت ہے، جبکہ جھوٹ کو اپنانا، اس سے دلائل اخذ کرنا اور اسی کی بنیاد پر موقف اختیار کرنا غیر مطلوب و مقصود اور قابل مذمت عادت ہے. ہم میں سے ہر ایک کو سنجیدگی و باریک بینی کے ساتھ اپنا محاسبہ کرنا ہوگا. ہمیں اپنی تشخیص کرنی ہوگی کہ خدانخواستہ کہیں ہم بھی ‘پوسٹ ٹروتھ’ اور ‘کنفرمیشن بائز’ نامی بیماریوں کا شکار تو نہیں ہو گئے. کہیں ہمارے اندر بھی وہ جراثیم تو نہیں سرایت کرگئے جن کو دیسی زبان میں “میٹھا میٹھا ہاپ ہاپ، تیکھا تیکھا آخ تھو” کہتے ہیں…

آپ کے تبصرے

3000