دلائل وجود باری تعالیٰ

ابوالمرجان فیضی

از : مولانا ابوالکلام آزاد
ترتيب و پیشکش : ابوالمرجان فیضی

[زیر نظر مضمون مولانا کے تحریری مجموعے حقیقت توحید نامی کتاب سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب مولانا کی بلا واسطہ تصنیف نہیں ہے بلکہ مختلف جگہوں سے ان کی تحریروں کو جمع کرکے ترتیب دی گئی ہے۔ عرصہ سے یہ تجسس تھا کہ مولانا کے پاس وجود باری تعالی اور الحاد کی تردید کے لیے کیا کیا دلائل تھے۔ جب یہاں ملا تو اسے نوٹ کرلیا۔ان دلائل کی اہمیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ مولانا خود اس وادی الحاد کی سیر کرچکے تھے۔ یہ دلائل آج بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف اس سے مولانا کے ذہنی پرواز کا پتہ چلتا ہے۔ دوسری طرف ان کو اس سے رہنمائی بھی مل سکتی ہے جو الحاد کے خلاف میدان میں ہیں۔ یہاں سات اہم دلیلیں ہیں جن سے میں متاثر ہوا۔ اور میں نے ان کو یہاں جمع کردیا۔عنوان قائم کیا۔ فارسی اشعار کے ترجمے کردیے، کچھ جملے داخل کیے اور کہیں کہیں ہلکی سی تبدیلی کردی ہے۔]

کارخانہ ہستی کا معمہ:
انسان نے جب سے ہوشمندی کی آنکھیں کھولی ہیں اس معمہ کا حل ڈھونڈ رہا ہے۔ لیکن اس پرانی کتاب کا پہلا اور آخری ورق کچھ اس طرح کھویا گیا ہے کہ نہ تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ شروع کیسے ہوئی تھی نہ اس کا کچھ سراغ ملتا ہے کہ ختم کہاں جا کر ہوگی اور کیونکر ہوگی؟
اول و آخر ایں کہنہ کتاب افتاد ست
ترجمہ: اس پرانی کتاب کا پہلا اور آخری ورق (سڑ گل کر) گر گیا ہے۔
زندگی اور حرکت کا کارخانہ کیا ہے اور کیوں ہے؟ اس کی کوئی ابتدا بھی ہے یا نہیں؟ یہ کہیں جا کر ختم بھی ہوگا یا نہیں؟ خود انسان کیا ہے؟ یہ جو ہم سوچ رہے ہیں کہ انسان کیا ہے؟ تو خود یہ سوچ اور مجھے کیا چیز ہے؟ اور پھر حیرت اور درماندگی کے ان تمام پردوں کےپیچھے کچھ ہے بھی یا نہیں؟
بار ہا مجھے خیال ہوا کہ ہم خدا کی ہستی کا اقرار کرنے پر اس لیے بھی مجبور ہیں کہ اگر نہ کریں تو کارخانہ ہستی کے معمے کا کوئی حل باقی نہیں رہتا اور ہمارے اندر ایک حل کی طلب ہے جو میں مضطرب رکھتی ہے۔ اور اس کا حل وجود باری تعالی کا اقرار ہے۔ جس کی رہنمائی درج ذیل دلیلیں کرتی ہیں:

وجدان:
قرآن نے تصور الہی کی بنیاد انسان کے عالمگیر وجدانی احساس پر رکھی ہے۔ یہ نہیں کیا ہے کہ اسے نظر و فکر کی کاوشوں کا ایک ایسا معمہ بنادیا ہو جسے کسی خاص طبقے کا ذہن ہی حل کرسکے۔ انسان کا عالمگیر وجدانی احساس کیا ہے؟ یہ ہے کہ کائنات ہستی خود بخود پیدا نہیں ہوگئی۔ پیدا کی گئی ہے اور اس لیے ضروری ہے کہ ایک صانع ہستی موجود ہو۔ چنانچہ قرآن بھی اس بارے میں عام طور پر جو کچھ بتلاتا ہے وہ اتنا ہی ہے۔ اس سے زیادہ جو کچھ ہے وہ مذہبی عقیدے کا معاملہ نہیں ہے انفرادی اور ذاتی تجربے و احوال کا معاملہ ہے۔ اس لیے وہ اس کا بوجھ جماعت کے افکار پر نہیں ڈالتا اسے اصحاب جہدوطلب کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔

{وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ (20) وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (21)} [الذاريات: 20، 21]

اور ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں زمین میں کتنی ہی حقیقت کی نشانیاں ہیں اور جو تمھارے اندر بھی پھر کیا تم دیکھتے نہیں؟

ریاضی اور منطق:
اگر ایک الجھا ہوا معاملہ ہمارے سامنے آتا ہے اور ہمیں اس کے حل کی توقع ہوتی ہے تو ہم کیا کرتے ہیں؟ ہمارے اندر بالطبع یہ بات موجود ہے اور منطق اور ریاضی نے اسے راہ پرلگایا ہے کہ ہم الجھاؤ پر غور کریں گے۔ ہر الجھاؤ اپنے حل کے لیے ایک خاص طرح کے تقاضے کا جواب چاہتا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ ایک کے بعد ایک، طرح طرح کے عمل سامنے لائیں اور دیکھیں اس تقاضا کا جواب ملتا ہے یا نہیں؟ پھر جونہی ایک حل ایسا نکل آئے گا جو الجھاؤ کے سارے تقاضوں کا جواب دے دے گا اور معاملہ کی ساری کلیں ٹھیک ٹھیک بیٹھ جائیں گی۔ ہمیں پورا پورا یقین ہو جائے گا کہ الجھاو کا حل نکل آیا اور صورتحال کی اندرونی شہادت ہمیں اس درجہ مطمئن کر دے گی کہ پھر کسی بیرونی شہادت کی احتياج باقی نہیں رہے گی۔ اب کوئی ہزار شبہے نکالے یقین متزلزل ہونے والا نہیں۔ اور اس ہستی کے الجھاو کا حل وجود باری تعالی ہے۔

کپڑے کا تھان:
فرض کیجیے، کپڑے کے تھان کا ایک ٹکڑا کسی نے پھاڑ لیا ہو اور ٹکڑا پھٹا ہو اس طرح ٹیڑها ترچھا اور دندانہ دار ہو کہ جب تک ویسے ہی الجھاؤ کا ایک ٹکڑا وہاں آ کر بیٹھتا نہیں تھان کی خالی جگہ بھرتی نہیں۔ اب اس کپڑے کے بہت سےٹکڑے مل جاتے ہیں اور ہر ٹکڑا وہاں بٹھا کر ہم دیکھتے ہیں کہ اس خلا کی نوعیت کا تقاضا پورا ہوتا ہے یا نہیں۔ مگر کوئی ٹھیک بیٹھتا نہیں۔ اگر ایک گوشہ میل کھاتا ہے تو دوسرے گوشے جڑنے سے انکار کردیتے ہیں۔ اچانک ایک ٹکڑا ایسا نکل آتا ہے کہ ٹیڑھے ترچھے کٹاؤ کے سارے تقاضے پورے کر دیتا ہے اور صاف نظر آ جاتا ہے کہ صرف اسی ٹکڑے سے یہ خلا بھرا جا سکتا ہے۔ اب اگرچہ اس کی تائید میں کوئی خارجی شہادت موجود نہ ہو لیکن ہمیں پورا یقین ہو جائے گا کہ یہی ٹکڑا یہاں سے پھاڑا گیا تھا۔

قفل ابجد:
اب علم تیقین کی راہ میں ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہیں اور ایک تیسری مثال سامنے لاتے ہیں۔ آپ نے حرفوں کی ترتیب سے کھلنے والے قفل دیکھے ہوں گے۔ انھیں پہلے قفل ابجد کے نام سے پکارتے تھے۔ ایک خاص لفظ کے بننے سے وہ کھلتا ہے اور وہ ہمیں معلوم نہیں۔ اب ہم طرح طرح کے الفاظ بناتے جائیں گے اور دیکھیں گے کہ کھلتا ہے یا نہیں؟
(اب حروف کی جگہ پر نمبرات آگئے ہیں۔ اور خاص عدد ملانے سے تالا کھلتا ہے۔ لیکن پہلے حروف ہی سے کھلتے تھے۔ جیسا کہ غالب نے کہا ہے:
تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہوجانا)
فرض کیجیے ایک خاص لفظ کے بنتے ہی قفل کھل گیا۔ اب کیا ہمیں اس بات کا یقین نہیں ہوجائے گا کہ اسی لفظ میں اس قفل کی کنجی پوشیدہ تھی؟ جستجو جس حل کی تھی وہ قفل کا کھلنا تھا۔ جب ایک لفظ نے قفل کھول دیا تو پھر اس کے بعد باقی کیا رہا جس کی مزید جستجو ہو!۔

جسم اور روح:
اگر جسم میں روح بولتی ہے اور لفظ میں معنی ابھرتا ہے تو حقائق ہستی کے اجسام بھی اپنے اندر کوئی روح معنی رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت کہ معمہ ہستی کے بے جان اور بے معنی جسم میں صرف اسی ایک حل سے روح معنی پیدا ہوسکتی ہے کہ ہم کوئی خالق تسلیم کرلیں۔ ہمیں مجبور کردیتی ہے کہ اس حل کو تسلیم کرلیں۔

نظریہ ارتقا:
اور پھر خود وہ صورتحال جسے ہم نشو ارتقا (Evolution) سے تعبیر کرتے ہیں، کیا ہے اور کیوں ہے۔ کیا وہ ایک خاص رخ کی طرف انگلی اٹھائے اشارہ نہیں کررہی ہے۔ ہم نے سینکڑوں برس کی سراغ رسانیوں کے بعد یہ حقیقت معلوم کی کہ تمام موجودات ہستی آج جس شکل و نوعیت میں پائی جاتی ہیں، یہ بیک دفعہ ظہور میں نہیں آ گئیں۔ یعنی کسی راست تخلیقی عمل نے انھیں یکایک یہ شکل و نوعیت نہیں دے دی۔ بلکہ ایک تدریجی تغیر کا عالمگیر قانون کام کرتا رہا ہے۔ اور اس کی اطاعت و انقیاد میں ہر چیز درجہ بدرجہ بدلتی رہتی ہے۔ اور ایک آہستہ چال سے جسے ہم فلکی اعداد و شمار کی مدتوں سے بھی بمشکل اندازہ میں لاسکتے ہیں۔ نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔ہر نچلی کڑی بتدریج اپنے سے اوپر کی کڑی کا درجہ پیدا کرے گی۔ تو کیا یہ نہیں ہوسکتا وہ کڑی جس سے ہم گذر رہے ہیں اس سے اونچی کڑی پیدا کرے جو دائمی ہو اور ہمیشہ ہمیش کے لیے ہو۔ جسے ہم آخرت کی زندگی کہتے ہیں؟

محسوس و تعقلات:
اگر کہا جائے کہ حل کی طلب ہم اس لیے محسوس کرتے ہیں کہ اپنے محسوس و تعقلات کے محدود دائرے میں اس کے عادی ہوگئے ہیں اور اگر اس حل کے سوا اور کسی حل سے ہمیں تشفی نہیں ملتی تو یہ بھی اسی لیے ہے کہ ہم حقیقت تولنے کے لیے اپنے محسوسات ہی کا ترازو ہاتھ میں لیے ہیں۔ تو اس کا بھی جواب صاف ہے۔ ہم اپنے آپ کو اپنے فکر و نظر کے دائرے سے باہر نہیں لے جاسکتے۔ ہم مجبور ہیں کہ اسی کے اندر رہ کر سوچیں اور حکم لگائیں۔
یعنی ہمارے نفس میں خالق کا اقرار رکھ دیا گیا ہے۔جس کا تقاضا ہماری عقل اور احساس کرتے ہیں۔ ہم اس عقل اور احساس کے دائرے کو توڑ کر باہر نہیں جاسکتے۔ اس لیے ہم صانع ہستی کے اقرار پر مجبور ہیں۔

سائنس اور علم تجریبی:
اس وقت سے لے کر جب کہ ابتدائی عہد کا انسان پہاڑوں کے غاروں سے سر نکال نکال کر سورج کو طلوع و غروب ہوتے دیکھتا تھا آج تک جبکہ وہ علم کی تجربہ گاہوں سے سر نکال کر فطرت کے بے شمار چہرے بے نقاب دیکھ رہا ہے انسان کے فکروعمل کی ہزاروں باتیں بدل گئیں مگر یہ معمہ معمہ ہی رہا۔
اسرار ازل را نہ تو دانی و نہ من
ویں حرف معمہ تو نہ خوانی و نہ من
ترجمہ: ازل کے رازوں کو نہ تم جانتے ہو اور نہ میں۔اس معمہ کو نہ تم پڑھ سکتے ہو اور نہ میں۔
ہم اس الجھاؤ کو نئے نئے حل نکال کر سلجھانے کی جتنی بھی کوششیں کرتے ہیں وہ اور زیادہ الجھتا
جاتا ہے۔ ایک پردہ سامنے دکھائی دیتا ہے اسے ہٹانے میں نسلوں کی نسلیں گزار دیتے ہیں لیکن جب وہ ہٹتا ہے تو معلوم ہوتا ہے سو پردے اور اس کے پیچھے پڑے تھے اور جو پردہ ہٹا تھا وہ فی الحقیقت پردے کا ہٹنا نہ تھا بلکہ نئے نئے پردوں کا نکل آنا تھا۔ ایک سوال کا جواب ابھی مل نہیں چکتا، کہ دس نئے سوال سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک راز ابھی حل نہیں ہوچکتا کہ سو نئے راز چشمک کرنے لگتے ہیں:
دریں میدان پر نیرنگ حیران ست دانائی
کہ یک ہنگامہ آرائی وصد کشور تماشائی؟
اس عجیب میدان میں عقل حیران ہے۔ یہاں صرف ایک ہنگامہ ہے لیکن سو ممالک تماشائی ہیں۔
آئن سٹائن (Einstein) نے اپنی ایک کتاب میں سائنس کی جستجوئے حقیقت کی سرگرمیوں کو شرلاک ہومز کی سراغ رسانیوں سے تشبیہ دی ہے اور اس میں شک نہیں کہ نہایت معنی خیز تشبیہ دی ہے۔ علم کی یہ سراغ رسانی فطرت کی غیر معلوم گہرائیوں کا کھوج لگانا چاہتی تھی مگر قدم قدم پر نئے نئے مرحلوں اور نئی نئی دشواریوں سے دو چار ہوتی رہی۔ دیمقراطس (Democritus) کے زمانہ سے لے کر جس نے چارسو برس قبل مسیح مادہ کے سالمات (Atoms) کی نقش آرائی کی تھی آج تک جب نظر یہ مقادير عنصری (Quantum Theory) کی رہنمائی میں ہم سالمات کا ازسرنو تعاقب کر رہے ہیں علم کی ساری کد و کاوش کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکلا کہ پچھلی گتھیاں سلجھتی گئیں نئی نئی گتھیاں پیدا ہوتی گئیں۔ اس ڈھائی ہزار برس کی مسافرت میں ہم نے بہت سی نئی منزلوں کا سراغ پالیا جو اثنائے سفر میں نمودار ہوتی رہیں، لیکن حقیقت کی وہ آخری منزل مقصود جس کے سراغ میں علم کا مسافر نکلا تھا آج بھی اسی طرح غیر معلوم ہے جس طرح ڈھائی ہزار برس پہلے تھی۔ ہم جس قدر اس سے قریب ہونا چاہتے ہیں اتنا ہی وہ دور ہوتی جاتی ہے:
بامن آویزش او الفت موج ست و کنار
دمبدم با من و ہر لحظہ گریزاں از من
ترجمہ: میرے اور اس کے بیچ جو محبت ہے وہ دریا کے موج اور ساحل کی طرح ہے۔ مسلسل میرے ساتھ لیکن ہر لمحہ مجھ سے گریزاں۔
دوسری طرف ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک نہ بجھنے والی پیاس کھول رہی ہے جو اس معمہ ہستی کا کوئی حل چاہتی ہے۔ ہم کتنا ہی اسے دبانا چاہیں مگر اس کی تپش لبوں پر آہی جائے گی۔ ہم بغیر ایک عمل کے سکون قلب نہیں پا سکتے۔ بسا اوقات ہم اس دھوکے میں پڑ جاتے ہیں کہ ہمیں کسی تشفی بخش حل کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ محض ایک بناوٹی تخیل ہوتا ہے۔ اور جونہی زندگی کے قدرتی تقاضوں سے ٹکراتا ہے پاش پاش ہوکر رہ جاتا ہے۔ مگر جس وقت یہ معمہ انسانی دماغ کے سامنے نیا نیا ابھرا تھا اسی وقت اس کا حل بھی ابھر آیا تھا۔ ہم اس حل کی جگہ دوسرا حل ڈھونڈنا چاہتے ہیں اور یہیں سے ہماری تمام بے حاصلیاں سر اٹھانا شروع کر دیتی ہیں۔ اچھا، اب غور کیے، اس معمہ کے حل کی کاوش بالآخر ہمیں کہاں سے کہاں لے جا کر کھڑا کر دیتی ہے۔ یہ پورا کارخانہ ہستی اپنے ہر گوشہ اور اپنی ہر نمود میں سرتاسر ایک سوال ہے۔ سورج سے لے کر اس کی روشنی کے ذروں تک کوئی نہیں جو یک قلم پرسش و تقاضا نہ ہو کہ یہ سب کیا ہے؟ یہ سب کچھ کیوں ہے؟ یہ سب کس کے لیے ہے؟ ہم عقل کا سہارا لیتے ہیں اور اس روشنی میں جسے ہم نے علم کے نام سے پکارا ہے۔ جہاں تک راہ ملتی ہے چلے جاتے ہیں۔لیکن ہمیں کوئی ایسا حل ملتا نہیں جو اس الجھاو کے تقاضوں کی پیاس بجھا سکے۔ روشنی گل ہوجاتی ہے۔ آنکھیں پتھرا جاتی ہیں۔ اور عقل و ادراک کے سارے سہارے جواب دے دیتے ہیں۔ لیکن جونہی پرانے حل کی طرف لوٹتے ہیں اور اپنی معلومات میں صرف اتنی بات بڑھا دیتے ہیں کہ ایک صاحب قوت و ارادہ پس پردہ موجود ہے۔تو اچانک صورتحال منقلب ہوجاتی ہے۔ اور ایسا معلوم ہونے لگتا ہے جیسے اندھیرے سے نکل کر اجالے میں آکھڑے ہوئے ہیں۔ اب جس طرف بھی دیکھتے ہیں روشنی ہی روشنی ہے۔ ہر سوال نے اپنا جواب پالیا۔ہر تقاضے کی طلب پوری ہوگئی۔ ہر پیاس کو سیرابی مل گئی۔ گویا یہ سارا الجھاو ایک قفل کی طرح تھا جو اس کنجی کے چھوتے ہی کھل گیا۔
چنداں کہ دست و پا زدم آشفتہ سر شدم
ساکن شدم میانہ دریا کنار شد
میں نے جتنے بھی ہاتھ پیر مارے، مزید حیران و پریشان ہوتا گیا۔ ساکن ہوتے دریا کی گہرائی کنارہ بن گئی۔
یہ سات اہم دلیلیں ہیں جنھوں نے مجھے اپیل کیا۔اور میں نے ان کو یہاں جمع کردیا۔ فارسی اشعار کے ترجمے اور کہیں کہیں ہلکی سی تبدیلی کے علاوہ پورا مضمون مولانا ہی کا ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
سعد

مبارک ہو! بہترین انتخاب، اچھاانداز۔ آپ نے بات شروع کی ہے ،،،آپ کی بڑی مہربانی۔