پارلیمانی الیکشن 2019: ہماری ترجیح کیا ہو؟

رشید سمیع سلفی

ملک میں پارلیمانی الیکشن کا بگل بج چکا ہے، انتخاب کو لے کر پارٹیوں کے درمیان گھمسان پڑا ہوا ہے، ریلیوں اور بھاشنوں کا ایک نہ تھمنے والا سیل رواں ہے جوامڈا چلا آرہا ہے۔ اس دوران ایک دوسرے پر الزام تراشی، طنز وتعریض، مذمت وتردید، گالی گلوج، تحقیر وتذلیل نے شیطان کو بھی شرمادیاہے، مکر و خدع، کذب و جھوٹ کی فصل لہلہارہی ہے، پرچار کا موسم شباب پر ہے، برسراقتدار پارٹی جو اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں بری طرح ناکام ہوئی ہے، وہ بھی کمال بے شرمی کے ساتھ بلند بانگ دعوے کررہی ہے، گذشتہ وعدوں کے تابوت کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے صرف ہندو ووٹ بینک کی سرکتی دیوار کو سہارا دینے میں لگی ہے۔ اب جبکہ نام نہاد وکاس کے غبارے کی ہوا پوری طرح نکل چکی ہے اور مودی کے جھوٹ بے نقاب ہوچکے ہیں، اور ملک ہر اعتبار سے شکست خوردگی اور ابتری کے دور سے گذر رہا ہے تو مدمقابل پارٹیوں پر ہندو دشمنی کا الزام لگا کر ہندو ووٹ بینک کو گھیر گھار کراپنے کھونٹے سے باندھنا چاہتی ہے، یعنی کہ اب اس پارٹی کے پاس صرف مذہب اور فرقہ پرستی کا کارڈ رہ گیا ہے، باقی ووٹروں کو رجھانے کے لیے اور ملک کو اعتماد میں لینے کے لیے کوئی دوسرا ہتھکنڈہ نہیں بچا ہے، ماضی کا ریکارڈ تو چیخ چیخ کر حکومت کی ناکامی کا اعلان کررہا ہے۔ لیکن لیڈران گلے پھاڑ پھاڑ کر مودی کے دور حکومت کو مثالی اور ترقیوں کا دور باور کرارہے ہیں، اور اپنے خفیہ اور تشنہ تکمیل عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پھر کرسی صدارت پر کمند ڈالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کررہے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ مسلمان کسی بھی انتخاب میں غیر معمولی کردار ادا کرسکتے ہیں، ان کا متحدہ اقدام فیصلہ کن نتیجہ برآمد کرسکتا ہے، یہ حکمران نہیں تو حکمران گر ضرور ہیں، پر یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب مسلمان یکجٹ ہوکر کسی ایک پارٹی کو ووٹ دیں، ایک ایسی پارٹی جو اس فاشسٹ حکومت کو ٹکر دے سکتی ہے۔ لیکن اس دوران شور و ہنگامے سے بچتے ہوئے بہت خاموش انداز میں چرچا کرنا ہوگا، ہمارے لیڈران شوروہنگامے کے ذریعے اور ہندو مخالف بیان دے کرکے ہندووں کو بھی مذہبی بنیاد پر اتحاد کے لیے تحریک دیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ فرقہ پرست پارٹی داؤ پیچ کے ذریعہ مسلمانوں کے ووٹ کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
لہذا وہ ایسے لوگوں کو بھی الیکشن میں کھڑا کرتے ہیں جو مسلمانوں کے ووٹ بینک میں سیندھ لگائیں اور ان کے ووٹ کو منتشر کریں۔ ہر الیکشن میں ایسے طالع آزما جزوی مفادات کی خاطر دینی اخوت کی دہائی دے کر ووٹ مانگتے ہیں، یہ الیکشن مسلمانوں کے لیے ایک چیلنج اور بقا و سالمیت کا سوال لے کر آیا ہے، ہماری ایک سیاسی غلطی ملک میں ہماری بربادی کی تاریخ رقم کردے گی، ہندتو عزائم کی علمبردار پارٹی کے نمائندے جابجا اس بات کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ یہ آخری الیکشن ہے پھر اس کے بعد الیکشن نہیں ہوگا، یعنی مکمل طور پر یہ ملک ہندو راشٹر میں تبدیل کردیا جائے گا اور اکثریتی فرقہ اقلیتوں کو اپنا غلام بنا کر رکھے گا۔

یہ سچ ہے کہ کسی دستوری ملک کو کسی دوسرے نظام میں تبدیل کرنا بہت آسان نہیں ہے، اس کے کچھ شرائط ہیں جن کی تکمیل کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر یہ آسان ہوتا تو فرقہ پرست اب تک کر گذرے ہوتے، لیکن یاد رہے اس الیکشن میں اگر بی جے پی برسراقتدار آتی ہے تو وہ آخری حد تک ملک کا دستور بدلنے کی کوشش کرے گی، مطلوبہ شرطوں کو پورا کرنے کے لیے ہر حد سے گذر جائے گی، مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینا ہوگا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے افرادی قوت کا احساس دشمن طاقتوں کو کرادیں، اس الیکشن میں آپ کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا بدلہ لینا ہے، کیا آپ دادری کے خون آشام منظر کو بھول گئے؟ کیا الور کی بربریت آپ کو یاد نہیں رہ گئی، کیا ننھی آصفہ پر ہوا تشدد بھی آپ کو ظلم کے خلاف کھڑا نہیں کرے گا؟ اس ظالم اور کٹھور حکومت کے ناک کے نیچے اس پورے عرصے میں جو خونی کھیل ہوا ہے اور مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی گئی ہے، کیا ہم اس سے سبق نہیں لیں گے۔ یہ ووٹ ہی تو ہے جس سے ہم گذشتہ زیادتیوں کا بدلہ لے سکتے ہیں، اپنا سیاسی وزن کسی ایک مخالف بی جے پی پارٹی کے پلڑے میں ڈال کر اسے شکست دے سکتے ہیں۔

یاد رہے ملت کے مفادات کے لیے امت کے ہر فرد کو اپنے ذاتی مفادات اور ترجیحات کی قربانی دینی پڑے گی، ممکن ہے کہیں ہمارے روابط مانع بن سکتے ہیں، کہیں ہماری علاقائی مصلحتیں رکاوٹ بن سکتی ہیں، کہیں ہمارے مذہب کا حوالہ رکاوٹ بن سکتا ہے لیکن ایسے میں ہمیں کمال ہوشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف امت اسلامیہ ہند کے مستقبل کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ آج امت تباہی کے دہانے پر اسی لیے پہنچی ہے کہ ہمارے قائدوں نے ذاتی مفادات کے لیے اور اپنے سیاسی کیریئر کے لیے امت کے مفاد کو داؤ پر لگایا ہے، اپنے سیاسی وجود کی بقا کے لیے ملت کے وجود کو خطرے میں ڈالا ہے، مسلمان ایسے ہی لوگوں کی مفاد پرستیوں کی بھینٹ چڑھتے رہےہیں۔

آج کے مسلم قائدین کو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے کردار سے سبق حاصل کرنا چاہیے جنھوں نے ملت کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنے کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے اپنی دستبرداری کا اعلان کردیا تھا اور حضرت امیر معاویہ کے ہاتھوں پر بیعت کرلی تھی، حضرت خالد بن ولید کے کردار سے سبق لینے کی ضرورت ہے جنھوں نے سپہ سالاری سے معزول کیے جانے پر بھی اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا تھا اور جب لوگوں نے حضرت عمر کے خلاف بھڑکایا اور بغاوت پر اکسایا تو کہا تھا “انی احارب لرب عمر لا لعمر” (میں عمر کے رب کے لیے لڑتا ہوں عمر کے لیے نہیں) عظمت کردار کی یہ وہ روایتیں ہیں جو ہمیشہ اہل ایمان کو تحریک کرتی رہیں گی اور ملت کے جذبہ قربانی کو زندہ رکھیں گی۔ بس سلف کی سجھائی ہوئی اسی شاہراہ ایثار و اخلاص پر چل کر ستم کی اس سیاہ رات کا ہمیں مقابلہ کرنا ہے اور مستقبل میں نتائج کی شکل میں کامیابی کی صبح روشن کو اپنے موافق طلوع کرنا ہے۔ بصورت دیگر یہ موقع اگر ہم نے ضائع کردیا تو پانچ سالہ دور حکومت میں ماب لنچنگ کے بعد وہ سب کچھ ہوگا جو ابھی صرف دھمکیوں اور خون آشام منصوبوں کے پس پردہ ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہمارا خیر خواہ کوئی نہیں ہے، ہر کسی نے ہمارے ساتھ مفاد پرستی اور وشواس گھات کیا ہے لیکن جب دو نقصانات درپیش ہوں تو ان میں سے کم تر درجے کے نقصان کو اختیار کرلینا ہی دانشمندی ہے۔

آپ کے تبصرے

3000