اس دنیا نے جب سے آنکھیں کھولیں مسلسل اپنے مکینوں پر نظر رکھے ہوئے ہے، مگر اس کی نگاہ ناز نے اپنی حسین پلکوں میں جن کو بسایا ان کی تعداد بہت کم ہے۔ دنیا میں انسانوں کی آمدورفت کا سلسلہ ہزاروں سالوں سے جاری ہے مگر لوحِ دنیا پر جنھوں نے اپنا نام جلی حرفوں میں لکھا ہے وہ بہت تھوڑے ہیں، جہاں اشخاص آفاق میں گم رہے وہیں بعض شخصیتوں میں آفاق گم رہا۔ جہانِ رنگ وبو میں ہزاروں کلیاں چٹخیں ہزاروں گل کھلے مگر جو گل کاکل گیتی کی زینت بنے وہ بہت قلیل ہیں۔
صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت عظیم المرتبت ان عہدآفریں اور تاریخ ساز شخصیتوں میں سے ایک ہے جن کے ذکر جمیل کو عمر دوام حاصل ہے۔سلطان الملک الناصر صلاح الدین ایوبی یوسف بن نجم الدین ایوب کی ولادت ۱۱۳۸ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں ہوئی، بچپن میں ہی فن حرب وضرب میں مہارت حاصل کی ۔ تقوی وتدین ورثہ میں پایا تھا۔ جوان رعنا ہو کر نورالدین زنگی کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کیا۔ تیسری صلیبی جنگ میں عیسائیوں کو پسپا کیا۔ قبلہ اول کو صلیبیوں کے چنگل سے ۹۰؍ سال کے بعد دوبارہ آزاد کرایا۔ اپنی خداداد شجاعت اور بے باکی کی بنا پر جنگ حطین کا ہیرو بنا اور عیسائیوں کو تاریخی شکست دی۔ بہادری، فیاضی، حسن خلق، سخاوت اور بردباری ایسی کہ اپنے تو اپنے اغیار بھی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ عسکری قوت ایسی کہ ۱۱۸۷ء میں یوروپ کی متحدہ افواج کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیا۔
مگر
اپنی تمام تر سطوت وسلطنت کے باوجود صلاح الدین ایوبی نے انتہائی سادگی اور فقر کی زندگی گزاری، پانچ امیر ترین سلطنتوں شام، عراق، مصر ، حجاز اور یمن کا مالک ہونے کے باوجود ان کے پاس اپنا کوئی گھر نہیں تھا۔ زندگی بھر جنگی سپاہیوں کے ساتھ خیموں میں سوتے رہے۔ سلطنت ایوبی کا مؤسس ہونے کے باوجود پوری زندگی عام سپاہیوں سا لباس پہنا۔ زہد و ورع کا یہ عالم کہ ان کے پاس کسی قسم کی کوئی زمین کوئی جائیداد اور کوئی بینک بیلینس نہیں تھا۔ سلطان کا حال یہ تھا کہ
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد یے مومن
اللہ کی رحمت ہو سلطان پر کہ پوری زندگی حج کی تمنا میں کاٹ دی مگر جہاد اور مالی تنگی نے آپ کو اتنا موقع نہ دیا کہ حج بیت اللہ سے بہرہ مند ہوسکیں۔ زاد راہ اتنا بھی مہیا نہ ہوسکا کہ دمشق سے مکہ کا سفر کرسکیں ۔ جب ۵۵؍ سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی تو آپ کے گھر میں صرف ۴۷؍ درہم تھے اور اس رقم سے ان کی تدفین تک نہیں ہوسکتی تھی۔ چنانچہ آپ کے کفن دفن کے اخراجات دمشق کے قاضی نے اپنی جیب سے اداکئے۔ یہ مجاہد اور متہجد سلطان ۱۱۹۳ء میں اللہ کو پیارا ہوا۔
بناکر دند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
صلاح الدین ایوبی بلاشبہ تمام مسلمانوں اور بالخصوص نوجوان نسل کے لیے آئیڈیل ہیں، آج مسلمانوں کو صلاح الدین ایوبی کی ضرورت ہے، صلاح الدین ایوبی کوئی شخص نہیں بلکہ معیار ہے، جرات و ہمت کا، عزم و شجاعت کا، صبر و حوصلے کا، زہد و ورع کا، بے لوثی و بے جگری کا۔
تری ذات میں ہے اگر شرر، تو خیال، فقروغنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِقوتِ حیدری
***
واہ کہا جانا چاہیے. مگر واہ کہے جانے کی امید اب نہ رکھیے. آپ نے ایسا موضوع چھیڑ دیا جو قربانیاں مانگتا ہے. فہم پہ پورا آپ نہ اتریں کوئی بات نہیں، آپ کے قاری آپ کے لفظ سے پیدا ہوں گے. فہم میں مجاہد بھی کوئی چیز ہوتی ہے….. شجاع، جری، رطب اللسان، حاضر جواب، بہترین علم اور بہترین عمل واضح موضوع اس وقت لاتا ہے جب معاشرہ خلوص کی چھلنی سے عقل خرد اور رمز و محن کو چھاننا شروع کر دے. قوم میں بڑے لوگ پیدا کرنے کے لئے بڑے لوگوں کا ہونا ضروری ہے اور بڑے… Read more »
اس قیمتی تبصرے کے لیے بہت ممنون ہوں سعد بھائی۔
ان شاء اللہ آپ اور دیگر اکابرین سے کسب فیض کرتا رہون گا تاکہ تحریروں کا حق ادا کرسکوں۔
جناب پروفیسر ریاض الدین مبارک صاحب نے بھی اس تحریر کے حوالے سے بڑی اچھی نصیحتیں فرمائی ہیں۔ اللہ آپ سب کو جزائے خیر دے۔