……………………………… بدلہ لے لو!

کاشف شکیل

 

بدر کا میدان تھا کفار اور مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کن جنگ ہونے والی تھی
سالارِ لشکر رشکِ قمر نبی اطہر و مطہر خالقِ کائنات کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر محوِ دعا ہیں
بدر کی تپتی ہوئی ریگ اشکہائے نبوی سے سرد ہوئی جا رہی تھی
رسول اللہ دست سوال دراز کیے ہوئے اپنے رب سے فریاد کناں تھے، خود فراموشی کا یہ عالم کہ مدثر و مزمل کی چادر شانوں سے ڈھلک کر زمین پر آ گری تھی
ابوبکر صدیق سے نہ رہا گیا جا کر حضور کو سنبھالا اور آپ کے کھلے شانوں پر کملی ڈالتے ہوئے کہا “بس کیجیے اللہ کے رسول ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اپنے نفس کو ہلاک نہ کریں اللہ ہماری مدد فرمائے گا”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گویا ہوئے “ابوبکر ! سامنے ابو جہل کی قیادت میں ایک ہزار مسلح مشرکین کا لشکر جرار ہے، اور ادھر یہ مٹھی بھر جاں نثار میرا کل سرمایہ ہیں جو فتح کی مانگ میں اپنے لہو کی سرخی لگانے کے لئے حاضر ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ 313 نفوس ہلاک نہ ہوجائیں، میں نے اپنے ساتھیوں کے لہو کے بجائے اپنے اشک بارگاہ الٰہی میں بہائے ہیں اور اللہ سے کامیابی کا سوال کیا ہے ورنہ اگر یہ مٹھی بھر جماعت راہ حق میں قربان ہوگئی تو اللہ کی عبادت کرنے والا روئے ارض پر کوئی نہ بچے گا”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جان نثاروں پر ایک نظر دوڑائی، بے مائگی کا یہ عالم کہ کسی کے پاس تیر ہے تو تلوار نہیں، کسی کے پاس تلوار ہے تو ڈھال نہیں، کوئی آبلہ پا ہے تو کوئی پراگندہ سر، اکثر پیادہ نہتے اور کم عمر جنھیں جنگ کا کوئی تجربہ نہیں،
مگر اصلی سرمایہ تو توحید ہے، ایمان ہے، توکل ہے
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ ہی لڑتا ہے سپاہی
رسول اللہ نے صفوں کی ترتیب و تنسیق شروع کی، آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی جس کے ذریعے جاں نثاروں کی صفوں کی درستی مصروف تھے، جنہوں نے برسرِ پیکار ہونے کا عزم کر لیا تھا، اسی دوران دیکھتے ہیں کہ ایک صحابی صف سے ذرا آگے نکلے ہوئے ہیں، آپ نے اپنی چھڑی سے ان کے پیٹ پر ضرب لگائی اور فرمایا “سواد ! کیا بات ہے تم صف سے آگے نکلے ہوئے ہو، صف درست کرلو!”
سواد گویا ہوئے “یارسول اللہ ! مجھے آپ کی اس چھڑی سے تکلیف پہنچی ہے، آپ کو اس عدل کا واسطہ جس کے ذریعے آپکو اللہ نے بھیجا ہے مجھے بدلہ چاہیے”
رحمۃ للعالمین کی رحمت جوش میں آئی اور کائنات کا سردار جو اپنے ساتھیوں کو ذرا اداس دیکھتا تھا تو تڑپ اُٹھتا تھا جب اس نے اپنے ساتھی کا کرب سنا تو چھڑی اپنے ساتھی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا “یہ لو ! انتقام لے لو”
چشمِ کائنات اگلا منظر دیکھنے کے لیے بے تاب تھی، صحابہ دم بخود، فضا ساکت و صامت، سواد بن غزیہ کی آواز نے پھر سے خاموشی کو توڑا “حضور والا! جس دم میرا شکم آپکی چھڑی کی زد میں تھا اس وقت وہ ننگا تھا، لہٰذا بدلہ کی تکمیل آپ کے بطن مبارک سے بے ردائی چاہتی ہے”
عدل و انصاف کا یہ پیکر اپنے شکم سے اس چادر کو ہٹاتا ہے جس کو اللہ نے قرآن کے الفاظ بنا دیا تھا اور کہتا ہے “سواد اب اپنا بدلہ چکا لو”
حبِ رسول سے سرشار، برسرِ پیکار، بے تیر و تلوار، آپ کا یہ جاں نثار جب آپ کے بطن کو بے پیرہن دیکھتا ہے تو بے ساختہ آپ سے چمٹ جاتا ہے اور پیٹ کو بوسہ دیتا ہے اور کہتا ہے “میں نے اپنا بدلہ لے لیا، میں صدق دل سے راہِ حق میں شہادت کا طالب ہوں، میں چاہتا ہوں کہ جنتوں کا مالک جب مجھ سے میرا آخری عمل پوچھے تو میں فخر سے کہوں کہ شہادت سے پہلے میں نے ترے محبوب کے شکم کو بوسہ دیا تھا”

(پلاٹ از السلسلۃ الصحیحۃ 2835)

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Mohammad Luqman

Subhanallah… زبردست نقشہ کھینچا ہے۔