أحب الصالحین و لست منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا
اس سود و زیاں کی دنیا میں کبھی کچھ انمول موتی بغیر کسی محنت و مشقت یوں ہی اللہ رب العالمین کی مہربانی سے مل جاتے ہیں اور کبھی اپنا سب کچھ نچھاور کرنے بعد بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
زندگی کے نشیب و فراز میں میں نے کئی احباب کو اپنے دل کے قریب پایا اور کتنوں کے دل کے قریب رہا بھی۔ ان کے ساتھ نشست و برخاست رہی۔ کئی شامیں ساتھ گزاریں۔ ایک دوسرے کے لیے بہت کچھ کر گزرنے کا جذبہ بھی دلوں میں جا گزیں رہا۔ اور اس جذبے کی تکمیل بھی ہوتی رہی ہے۔ کچھ اب بھی ساتھ ہیں اور کچھ حالات کی نذر ہوگئے۔
دوستی اللہ رب العالمین کی جانب سے ایک خوب صورت تحفہ ہے۔ یہ ایسا جذبہ ہے جو خلوص و وفا، مودت و محبت، ہمدردی و غم گساری اور ایثار و قربانی کا متقاضی ہے۔ اس رشتے کو پائیدار بنانے میں بہت کچھ داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ کبر و غرور، نخوت و نفرت، خود پرستی و خود پسندی کو بھلانا پڑتا ہے۔ زمانے کی باتوں سے بے پروائی اور بے اعتنائی برتنی پڑتی ہے۔ بے غرض اور بے لوث ہونا پڑتا ہے۔ اس کی بقا و احیا کے لیے جو سب سے بڑی دولت ہے وہ ایک دوسرے کی ذات پر کامل یقین اور بھروسہ ہے اور یہی بھروسہ زندگی
کے نازک موڑ پر ہمیشہ قوت و طاقت عطا کرتا ہے۔
میں اگرچہ ایک معمولی انسان اور کم پڑھا لکھا ہوں لیکن ہر انسان کی عزت کرتا ہوں خصوصا اہل علم حضرات سے دلی لگاؤ ہے۔ ان سے ربط و ضبط اور رسم و راہ کو اپنی شرف یابی اور خوش نصیبی سمجھتا ہوں۔ (اہل علم سے مراد یہاں وہ اہل علم ہیں جو اپنی ذمے داریوں کو سمجھتے ہیں، جن کے چہروں پر منافقت کا خول نہیں ہوتا، جن کا ظاہر باطن ایک ہوتا ہے) ہمیشہ ان کی قدر کرتا ہوں۔
غالبا اسی علم دوستی نے کئی ذی علم شخصیات سے جڑنے اور ان کی صحبتوں سے بہت کچھ سیکھنے کے مواقع فراہم کرتے رہے ہیں۔ ابھی چند دنوں پہلے کچھ ایسی ہی شخصیات کے ساتھ ایک محفل سجی جس میں مختلف علمی موضوعات پر وقیع اور پر مغز مباحثوں اور ان کے تجزیات و تجربات سے مستفید ہونے کا حسین موقع نصیب ہوا۔
ابوالمیزان بھائی کی ممبئی سے نیپال آمد کی مناسبت سے یہ پروگرام طے ہوا۔ انھیں میں اس وقت سے جانتا ہوں جب جامعہ اسلامیہ سنابل میں زیر تعلیم تھا۔ اس وقت ماہنامہ دی فری لانسر ہارڈ کاپی میں شائع ہوا کرتا تھا۔ میرے پھوپھا کے بھتیجے مولانا سعود عامر عالیاوی نے ان سے متعارف کرایا تھا جو کہ ان کے کلاس فیلو بھی رہ چکے ہیں۔ لیکن باقاعدہ تعارف چند ماہ پہلے ہوا اور اس کے بعد سے برابر ہم لوگ ایک دوسرے کے رابطے میں رہے۔ مجھے ان کی آمد کا پہلے سے علم تھا چوں کہ برابر گفتگو ہوتی تھی میں نے اس موقعے کو غنیمت جانا اور تقریب ملاقات اپنے گھر پر رکھ دی اور اس میں مزید رنگ بھرنے کے لیے فیس بک فرینڈ رشید ودود صاحب کو بھی فیس ٹو فیس ملاقات کے لیے راضی کرلیا۔ اسی طرح ایک اور محترم شخصیت شیخ عبدالغنی القوفی صاحب کو بھی مدعو کیا انھوں نے بہ خوشی دعوت قبول بھی کی۔ مگر رشید ودود بھائی جن سے پہلے بات ہوچکی تھی کہ گھر سے آتے ہوئے ان کو ساتھ لیتے آئیں گے مگر آں جناب کو اسی دن اپنے کسی تجارتی کام سے نوگڑھ جانا پڑگیا۔ ادھر شیخ اکیلے پڑگئے پھر اسی دن مدرسہ بورڈ کی ضروری میٹنگ بھی رکھ دی گئی۔ ان سب وجوہات کی بنا پر شیخ موصوف نے مجھ پر اپنی معذوری ظاہر کردی۔ لیکن ہمارے رشید بھائی بھی کم نہیں، انھوں نے ان کی غیر حاضری کا جرمانہ اس طرح وصول کیا کہ شمس ودود، ابوالمیزان بھائی اور مجھ کو مہمان بنا کر ان تک پہنچا دیا۔ رشید بھائی کے پاس ان کی اپنی کار تھی ہی اس لیے سفر میں کوئی دقّت بھی نہیں ہوئی اور منزل پر بر وقت ہم لوگ پہنچ گئے۔ شیخ نے بھی ماشاء اللہ بڑی خوش دلی سے استقبال کیا اور اچھی مہمان نوازی کی حالانکہ رشید بھائی نے ہر قسم کے تکلفات سے منع کر دیا تھا اور بتا دیا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہم سب کھا پی کر نکلے ہیں اب آج مزید ہمیں کھانے کی کوئی خواہش و ضرورت نہیں لیکن بندۂ دل نواز نے خوب کھلایا بھی اور جب تک محفل جمی رہے بھر بھر کے پلایا بھی۔
شیخ کے یہاں سے نکل کر ہم لوگ رشید بھائی کے پیدائشی مسکن (جھنڈا نگر) پر پہنچے وہاں کچھ دیر گفتگو ہوتی رہی کہ فجر کی اذان ہوگئی۔ نماز پڑھ کر کچھ مزید گفتگو ہوئی اس کے بعد ہم نیند کی آغوش میں چلے گئے۔ مشکل سے تین گھنٹے سوئے تھے کہ پھر جاگنا پڑا کیوں کہ سفر ابھی باقی تھا۔ نیند پوری نہیں ہوئی تھی اسے دور کرنے لیے غسل فرمایا گیا تاکہ کچھ سستی دور ہوجائے۔ پھر ہم لوگ بڑھنی میں ناشتہ کرکے رشید بھائی کے دولت کدے کے لیے نکل گئے۔ وہاں ناشتہ کیا اور لٹل رشید غزوان سے بھی ملاقات کی۔ اس کی شرارت آمیز مسکراہٹ نے یہ یقین دلایا کہ مستقبل میں وہ جناب رشید ودود کی ساری حسرتیں پوری کرے گا۔
ناشتے سے فارغ ہوکر ہم لوگ اٹوا بازار رشید بھائی کے ہیڈ آفس “عفان حج و عمرہ گروپ” پہنچے وہاں کچھ دیر ٹھہر کے ڈومریا گنج نصیر الحق سلفی بھائی سے ملنے کے لیے نکلے۔ وہاں ان کی کلینک پر پہنچ کر شام تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ دوپہر کا کھانا بھی نصیر الحق بھائی کے ساتھ کھایا۔
شام کو واپسی میں رشید بھائی نے ان کو بھی ساتھ لے لیا اور ہم پانچ لوگوں کی جماعت رشید بھائی کے دولت خانے پر پہنچی۔ عشاء کی نماز پڑھ کر کھانا کھایا اور پھر چھت پر جا کر کھلے آسمان کے نیچے کئی اہم نکات پر مباحثہ اور مذاکرہ ہوا۔
یہاں ایک بات قابل ذکر سمجھتا ہوں کہ دوران گفتگو میں نے نصیرالحق بھائی کی غیر معمولی سنجیدگی دیکھی جس سے بے حد متاثر ہوا۔ اتنی سنجیدگی اور اس عمر میں حیران کن ہے۔ یہ ان کی پختہ طبیعت اور قوت ارادہ کے مستحکم ہونے کی دلیل ہے۔ اگر نوجوانوں کا کچھ طبقہ اسی طرح سنجیدہ ہوجائے تو انقلاب لا سکتا ہے۔
ابوالمیزان بھائی کی گفتگو سے کوئی ان کی شخصیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اودھی زبان میں اتنی سادگی سے گفتگو کرتے ہیں کہ دی فری لانسر کے ایڈیٹر یہی ہیں ایک لمحے کو آدمی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ انہی کا خاص انداز ہے جو ان کی ملون طبیعت اور نرم خوئی کی دلیل ہے۔
رشید بھائی کی بے باکی اور حس مزاح سے تو سبھی واقف ہیں۔ ان کی فیس بک پر جو ایک امیج بنی ہوئی ہے اس سے ممکن ہے کچھ لوگ گھبراتے ہوں کہ کہیں وہ ان کی گرفت کا شکار نہ ہوجائیں اور گرفت بھی انہی کی کرتے ہیں جو قابل گرفت ہوتے ہیں۔ قریب سے دیکھنے پر پتا چلتا ہے کہ بڑے ہنس مکھ اور خوش دل انسان ہیں۔ مطالعہ بڑا وسیع ہے۔ یہی وجہ ہے سند عالمیت و فضیلت حاصل نہ کرنے کے باوجود اتنی صلاحیت پیدا کرلی ہے کہ کسی ڈگری ہولڈر سے کم نہیں اور نہ کوئی اندازہ کر سکتا کہ یہ کسی ادارے سے فارغ التحصیل نہیں۔ خود مجھے نہیں معلوم تھا اسی ملاقات کے بعد مجھ پر یہ منکشف ہوا۔
رشید بھائی اور ابوالمیزان بھائی کا مجھ سے یہی استفسار تھا کہ آپ نثر کیوں نہیں لکھتے؟ میں نے انھیں اپنی کم زوری بتائی کہ طوالت سے گھبرا جاتا ہوں اور منتشر خیالی کے سبب تحریر ادھوری چھوڑ دیتا ہوں۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ تو کیا ہوا ابتدا میں ایسا ہوتا ہے لکھیں پھر ان شاء اللہ جب عادت ہوجائے گی تو یہ ڈر خود بہ خود ہی ختم ہوجائے گا۔
رشید بھائی کے اس محبت بھرے جملے اور مشورے نے مزید حوصلہ پیدا کہ “اگر سحر بھائی آپ نثر نہیں لکھیں گے تو یہ سمجھ لیں کہ آپ اپنے اوپر ظلم کریں گے”۔
حالانکہ کئی دنوں سے میں اس درد کو لے کر ڈھو رہا تھا اور خود سے سوال کر رہا تھا کہ آخر نثر کیوں نہیں لکھتا؟ سوچتا تھا کہ کسی خاص موقعے سے لکھوں گا لیکن کتنے مواقع آئے اور آکر چلے گئے اور میں مؤخر کرتا گیا۔ میری یہ پہلی باقاعدہ نثری تحریر ہے جسے اہتمام کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ اس سے پہلے بس چند جملے لکھ کر چھٹکارا حاصل کر لیا کرتا تھا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی دوام عطا کرے اور تاثیر پیدا کرے۔ آمین
دوسرے دن صبح ناشتے کے بعد جھکہیا چوک پر ہم لوگوں نے ایک دوسرے کو الوداع کہا۔ دل تو جدائی نہیں چاہتا تھا
ہم اتنے گھل مل گئے تھے جیسے برسوں کے شناسا ہوں اور ایک لمحے کے لیے بھی احساس نہیں ہوا کہ پہلی بار ملے ہیں۔
رشید بھائی اور نصیر الحق صاحب اپنی اپنی تجارت کو اٹوا اور ڈومریا گنج کے لیے روانہ ہوگئے۔
مجھے اور ابوالمیزان بھائی کو ایک ساتھ ہی واپس ہونا تھا، ان کی سسرال میرے گاؤں سے قریب ہی ہے۔ تقریباً چار پانچ کلو میٹر کا فاصلہ ہوگا۔ وہ بچوں سے مل کر اسی دن ممبئی کے لیے نکلنے والے تھے۔ شمس ودود بھائی نے بڑی خوش دلی کے ساتھ ہم دونوں کو اپنی اپنی منزل تک اپنی گاڑی سے پہنچا دیا۔
دل صد نگاہ… برادرم… خوب کہی آپ نے بھی… اللہ کرے زور قلم اور زیادہ.
شکریہ برادر محترم! جزاکم اللہ خیرا