طبع آزاد پر قید رمضاں بھاری ہے

رشید سمیع سلفی

رمضان کی آمد آمد ہے۔ ابھی سے ہی رمضان کا پورا منظر نامہ، گھر اور بازار کی رونق سامانیاں، مسجد اور گھر سے جڑی گہماگہمی نظروں کے سامنے رقص کررہی ہے۔ سحری اور افطار کے وقت کے پر کیف مناظر، نماز و تراویح کے روح پرور لمحات دامان دل کو کھینچ رہے ہیں۔ ماہ مبارک کی فضیلتیں تو اس درجہ ہیں کہ بندے کو عبادت و ریاضت میں ڈوب جانا چاہیے، ذکر و تلاوت اور دیگر اعمال خیر سے بندھ جاناچاہیے لیکن ہمارا معاملہ بھی رسمی اور ظاہری سطح کا حامل ہوگیا ہے۔روح تقوی کا دور دور تک سراغ نہیں ملتا۔ اخلاص و للہیت بھولی بسری شی ہوگئی ہے۔ بس کسی طرح چند ظاہری پابندیوں کو گوارا کرلیا جاتا ہے اور جیسے تیسے کشتی کو پار لگا دیا جاتا ہے۔ بقول شاعر
تیس دن کے لیے ترک مے و ساقی کرلوں
واعظ سادہ کو روزوں میں تو راضی کرلوں
اب دیکھیے نا ایمان کا تقاضہ ہے کہ رمضان کی آمد ہماری خوشی و مسرت میں اضافہ کردے اور پورے بشاشت قلب کے ساتھ اس کا استقبال کیا جائے لیکن بہتیروں کے لیے رمضان کی آمد بار خاطر ہے، گراں بار ہے۔ خیر و نیکی کی آمد بہار انھیں غم و الم میں مبتلا کرجاتی ہے۔ پورا مہینہ وہ سوگوار رہتے ہیں۔ رمضان کی قید و بند انھیں بہت کھلتی ہے۔ ایک ایک پل ان کے لیے پہاڑ ہوتا ہے بمشکل تمام رمضانی زندگی کے بوجھ کو وہ پورے مہینے اٹھائے پھرتے ہیں۔ بس عید کے چاند کا انتظار ہوتا ہے۔ ایک ایک روزہ گن گن کر رکھتےہیں، ہر روزے کے اختتام پر ایسے آہ سرد بھرتے ہیں جیسے کوئی پہاڑ کاٹ رہے تھے۔ علامہ اقبال ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہہ گئے ہیں:
طبع آزاد پر قید رمضان بھاری ہے
تمھیں کہہ دو یہی آئین وفاداری ہے
یہ درحقیقت عبادت و ریاضت، خیر و بھلائی کے کام انجام دینے کا مہینہ ہے لیکن اکثریت نے اسے کھانے پینے اور مختلف قسم کے پکوانوں کا مزہ لینے کا مہینہ بنا لیا ہے۔ لذت کام و دہن کی لت سی لگ جاتی ہے۔ انواع و اقسام کی نعمتیں افطار میں کھانے کے بعد سلسلہ رک نہیں جاتا بلکہ تراویح کے بعد بھی رات بھر چٹخاروں کا دور چلتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مخصوص ڈشوں کا لطف لینے کے لیے دور دراز کا سفر بھی کیا جاتا ہے۔ رات تو اپنی ہے جتنا زیادہ جاگیں گے اتنا دن میں سو سکیں گے۔ پھر یہی ہمارے بھائی بڑی شان اتقا سے کہتے ہیں ہم سحری میں صرف ایک کھجور اور پانی لیتے ہیں یا بس ایک کیلا اور پورا دن اسی طرح گزار دیتے ہیں۔ ارے بھئی صبر کا مہینہ ہے قربانی تو بنتی ہے نا
انداز جنوں کون سا ہم میں نہیں مجنوں
پر تیری طرح عشق کو رسوا نہیں کرتے
وہ یہ نہیں سوچتے کہ جب پوری رات کھاتے پیتے گزری ہے تو سحری میں مزید کی گنجائش کہا ں رہے گی۔ یہی مومن روزے دار بسا اوقات چہرے کی نورانیت کو مسکنت اور سال خوردہ مصیبت میں ایسے تبدیل کرلیتا ہے کہ آدمی کو جذبہ ہمدری میں پوچھنا پڑجاتا ہے ارے کیا ہوا؟ اتنے اداس اور اتنے پژمردہ؟ جواب ہوتا ہے روزہ لگ گیا ہے۔ اس نمود تقوی پر خوش اس لیے ہیں کہ روزے میں ریا کی گنجائش ہی کہاں ہے؟ خواتین کا تذکرہ اگر اس سیاق میں نہ کیا جائے تو بڑی ناانصافی ہوگی۔ ظہر کے بعد ہی سے یہ کچن کا محاذ سنبھال لیتی ہیں۔ اور نان اسٹاپ غروب آفتاب تک افطار کی تیاریوں میں جٹی رہتی ہیں۔ بسا اوقات مطلوبہ مقدار میں تیاری نامکمل ہونے کے سبب آدھی افطاری کچن میں کھڑے کھڑے کرنا پڑتی ہے تب کہیں جاکر سارے لوازمات تیار ہوپاتے ہیں اور ہمیشہ کچھ نئی ڈشوں کا تجربہ بھی کرتی رہتی ہیں۔ کئی آئٹم تو صرف ضیافت نظر اور دسترخوان کی رونق کو بڑھانے کے لیے ہوتے ہیں کیونکہ تصویر لے کر شیئر بھی تو کرنا ہے۔کھانے پینے کے ساتھ اس مہینے کو سونے جاگنے کا مہینہ بھی بنا لیا گیا ہے۔ سحری کے لیے جگے ہوئے مومن کو فجر کے بعد دنیا کی کوئی طاقت سونے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ وہ علی طول ظہر یا ظہر سے کچھ پہلے تک سوتے رہتا ہے اور ظہر کے بعد تو قیلولہ نبی کی سنت ہے اور رمضان میں سنت پر عمل نسبتا زیادہ ضروری ہے۔ ادھر جوں جوں عید قریب آتی جاتی ہے عید کی خریداری اور تیاری کا ماحول شباب پر آنے لگتا ہے۔ٹھیک اس وقت جب آخری عشرے کی طاق راتوں کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہے مومنین و مومنات کی توجہ خریداری اور تیاری پر مرکوز ہوتی ہے۔ آغاز رمضان کا جوش و خروش بھی پانی کا بلبلہ ثابت ہوتا ہے۔ چند روزوں، نمازوں اور تراویح و تلاوت کے بعد حرارت ایمانی سرد پڑ جاتی ہے۔ جذبہ تقوی کہیں اور آرام فرما ہوجاتا ہے۔ پھر آخری عشرے میں ایک بار دینی سطح پر تلاطم دیکھنے کو ملتا ہے۔ دعوی ہے کہ قیام اللیل اور شب قدر کی شب بیداری ہے۔ لیکن یہاں بھی رات کی ابتدا مسجد اور تلاوت و نوافل سے کی جاتی ہے پھر پوری رات وقت گزاری، سیر و تفریح اور لذت کام و دہن ہی راس آتا ہے۔ اور عید سے پہلے کی چند راتیں شب قدر کے بہانے بازاروں کی نذر ہوجاتی ہیں۔ آخر عید آ ہی جاتی ہے اور ہم خودساختہ دینداری سے نجات پاجاتے ہیں۔ وہ تقوی جسے رمضان اور روزے کا ماحصل کہا گیا تھا اسے اپنے اندر جھانک کر دیکھنے کی فرصت کسے ہوتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا طرز عمل عید و رمضان کے شان تقوی سے میل کھاتا ہے۔ کیا ہماری لگی بندھی دینداری اس مقام بلند تک ہمیں پہنچائے گی جو رمضان کا ٹارگیٹ ہے۔ بہت زیادہ سنجیدگی کے ساتھ رمضان کی ظاہر داری پر ہمیں غور کرنا ہوگا۔ اور اپنی زندگی اور طرز عمل کو ماہ مقدس سے ہم آہنگ کرکے عظیم خسارے سے بچانا ہوگا ورنہ ہم اس وعید کے مصداق قرار پائیں گے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ رمضان کو پاکر جو اپنے عمل و عبادت سے مغفرت کا سامان نہیں کرسکا وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوا۔

6
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
3 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
خبیب حسن

🌹🌹❤️❤️👍👍

رشید سلفی

جزاکم اللہ خیرا بھائی

ام ھشام

بروقت ،بہترین

رشید سلفی

شکریہ

ابوالوفاء رامپوری

بہترین اور لاجواب تحریر ہے
آپ نے مسلمانوں کی رمضانی حالت کی تصویر کشی بہت ہی عمدہ اور خوبصورت انداز میں کی
آپ کی تحریر ماحول پر آپ کی گہری نظر پر بھی دال ہے
ابوالوفاء رامپوری

رشید سلفی

شکریہ شیخ