مولانا ابوالکلام آزاد ہماری ملی تاریخ کا وہ عظیم، معتبر اور محترم نام ہے جس کو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ ہزار کوششوں کے باوجود ان کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔متنوع الجہات اور ہمہ گیر کے الفاظ لکھنے اور بولنے میں یوں تو بہ کثرت استعمال ہوتے ہیں لیکن ایمان داری سے اگران کامصداق تلاش کیا جائے توہمارے اس دور میں ان کی ذات شریف کے علاوہ مشکل سے کوئی دوسراملے گا۔ان کی دینی حیثیت امام ہند کی ہے،ان کاعلمی وادبی مقام اوج ثریا سے بھی اونچا ہے اور ان کی سیاسی عظمت کی مختلف جہات کو ابھی تک زیرقلم نہیں لایا جاسکاہے۔ان پر لکھنے والے ان کے معاصرین بھی ہیں اور بعد کے اصحاب فضل وکمال بھی، موافقین نے بھی ان پر دادتحقیق پیش کی ہے اور مخالفین نے بھی دلوں کا غبار ہلکا کیا ہے۔کئی درجن کتابیں تحریر کی جاچکی ہیں اور سیکڑوں مقالات ومضامین وجود میں آچکے ہیں۔یہ شرف ومنزلت صرف مولاناآزاد کے حصے میں آئی ہے،اس معاملے میں بھی کوئی دوسراان کا حریف نہیں ہے۔
مولانا آزاد کی مومنانہ حیثیت ،ان کا تقوی اور تدین، ان کا بے داغ کردار وعمل،ان کا حسن اخلاق ،ان کی شرافت ووضع داری،معاملات میں شفافیت اور ایمان داری، قناعت پسندی اور خودداری،بے غرضی اوراستغنا پر کافی کچھ لکھا جاچکا ہے۔ان اوصاف حمیدہ میں وہ اپنے معاصرین سے بدرجہا آگے ہیں۔قرآن مجید میں ایک مومن صادق کے صبر وعزیمت کی جو تصویر پیش کی گئی ہے،وہ ہمیں ان کی ذات میں نظرآتی ہے۔اپنی ذات کے لیے انتقام نہ لینے کا جذبہ اور مخالفین کے تئیں بھی عدل وانصاف کا طرزعمل انبیائے کرام کی خصوصیات میں سے ہے،ہمیں اس کے بھی دسیوں نمونے حیات آزاد میں نظرآتے ہیں۔
انھوں نے ایک بڑے پیر کے گھر میں آنکھیں کھولیں۔ والد محترم مولانا خیرالدین متاخرین صوفیا کے عجمی فکر کے پرستار تھے۔ان کے معتقدات کا حال یہ تھا کہ مولانا احمد رضا بریلوی کو بھی نصف مسلمان سمجھتے تھے۔سیکڑوں اور ہزاروں مریدوں کے پیر کی تمکنت اوران کے جاہ وجلال کا کیاعالم رہا ہوگا،اس کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔لیکن اللہ نے اپنی سنت کے مطابق اسی پیر کے گھر میں ایک ایسے بچے کو پیدا کیا جو توحیدخالص اورسنت صحیحہ کا بے باک سلفی عالم دین بن کر دنیا کے سامنے آیا۔گھر کے ماحول میں جس نے اپنے لیے گھٹن محسوس کی اور پھر تلاش حق میں نکل کھڑا ہوا۔سرسید کی تحریروں نے عصری آگہی بخشی، خاندان صادق پور کی ایک علمی شخصیت نے انھیں امام ابن تیمیہ اورامام ابن قیم جوزیہ کے افکار سے قریب کیا۔ مطالعہ کی عادت نے انھیں پورے اسلامی تراث کی سیر کرنے کی توفیق بخشی۔قدرت کا کرشمہ کہیے کہ وہ اپنے گھر کے فرسودہ دینی ماحول سے بے زار ہوگئے اور پیری مریدی کے جنجال سے خود کوالگ کرلیا۔غربت وتنگ دستی کے تصور نے ان کے پائے ثبات کو متزلزل نہیں ہونے دیا۔دنیا کو ٹھوکر مارنا، صرف کتابوں میں ایک محاورے کی حیثیت سے پڑھا تھا لیکن ہمیں مولاناآزاد کی زندگی اور سیرت میں یہ وصف جیتا جاگتا نظر آتا ہے۔
مولاناآزاد نے کئی جگہوں پر یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ کلام الٰہی ان کااصل رہنما رہا ہے۔قرآن مجید پر فکروتدبر نے انھیں اصابت فکر کی دولت عطا کی۔ متن قرآن تک راست رسائی کاذوق عظیم عطیہ الٰہی ہے۔طول طویل کتب تفاسیر کااسیر رہ کراس کی حکمتوں سے فیض یاب نہیں ہوا جاسکتا۔مولاناسید سلیمان ندوی کی روایت کے مطابق جن دنوں علامہ شبلی ندوہ میں تھے اور مولاناآزاد بھی ’’الندوۃ‘‘کی ادارت کے سلسلے میں وہیں قیام پذیر تھے ۔مولانا حمیدالدین فراہی ان دنوں حیدرآباد میں تھے۔اعظم گڑھ آتے جاتے وہ اپنے عزیزعلامہ شبلی کے پاس قیام کرتے تھے۔علامہ فراہی وہاں درس قرآن بھی دیا کرتے تھے۔ان کے درس میں اساتذہ ندوہ کے علاوہ بہت سے اہل علم بھی شریک ہوتے تھے۔ مولاناآزاد کے علمی ذوق کے پیش نظر یہ بات قرین قیاس لگتی ہے کہ ان کی شرکت بھی ان دروس میں رہتی ہوگی۔علامہ فراہی اور مولاناامین احسن اصلاحی کے تفردات سے مجھ جیسے کم علم کو ہی نہیں ہندوستان کے بہت سے علمائے کرام کواختلاف ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ متن قرآن پر راست غور وفکر کی دعوت جس اندازمیں ان دو حضرات نے دی ہے، اس کی اہمیت وضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مولاناآزاد نے علامہ فراہی سے استفادہ ضرور کیا ہوگا اور ان کے دروس سے فیض یاب ہوئے ہوں گے۔جہاں تک سوال ان فکری ناہمواریوں کاہے جو علامہ فراہی کے یہاں پائی جاتی ہیں،ان سے مولاناآزاد خود کو بچانے میں یوں کامیاب ہوگئے کہ وہ افکارابن تیمیہ کو اپنی دینی فکر کی اساس کافی پہلے بناچکے تھے۔فراہی طرزفکر ہی کا نتیجہ ہے کہ ترجمان القرآن میں سیدناابراہیم علیہ السلام کے تعلق سے کذبات ثلاثہ والی حدیث کی بازگشت ہمیں مولاناآزاد کے یہاں بھی سنائی دیتی ہے۔
ترجمان القرآن مکمل نہیں ہوسکی۔اس سے بحث نہیں کہ مولانا نے اسے پائے تکمیل تک پہنچادیا تھا یا نہیں۔اس تعلق سے متضاد تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔جتنا حصہ اس کا مطبوعہ صورت میں موجود ہے، اس کی قدر وقیمت علماء کرام کے یہاں تسلیم شدہ ہے۔ آخری رسالت پر عقیدے کے تعلق سے بعض بزرگوں نے سوالات اٹھائے تھے،اسے بھی مولانا آزاد نے صاف فرمادیا تھا جیسا کہ مولانا غلام رسول مہر کے نام ان کے خطوط سے اندازہ ہوتا ہے۔ اس اردو تفسیر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ کلام الٰہی کی تشریح عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق کی گئی ہے اور مولانا آزاد نے قرآن کی عالم گیریت اوراس کی آفاقیت کو کئی ایک موضوعات کے حوالے سے واضح فرمایا ہے۔ترجمہ قرآن میں انھوں نے بریکٹ کااستعمال کرکے فہم قرآن کی راہ میں حائل کئی ایک دشواریوں کودور کردیا ہے۔اسی طرح یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد جو معاشی،سیاسی اور سماجی مسائل پیدا ہوئے ہیں،ان کے سلسلے میں بھی مولانا کاموقف خالص قرآنی ہے۔سورہ توبہ کی تفسیر میں جن مسائل کوانھوں نے چھیڑا ہے،ان کی حیثیت تفسیری ادب میں گراں قدراضافے کی ہے۔
حدیث اور علوم حدیث کے باب میں انھوں نے کچھ بہت زیادہ نہیں لکھا ہے لیکن جو بھی لکھا ہے ،اس سے ان کے نقطہ نظر کی شفافیت اور قدماء محدثین کے مسلک سے ہم آہنگی کا پتا چلتا ہے۔وہ محدثین کرام کی خدمات جلیلہ کو وقعت کی نظرسے دیکھتے ہیں۔صحیح بخاری کو اسلامیات کے پورے ذخیرے میںدرجہ اول پر رکھتے ہیں۔احادیث میں صحت وضعف کی محدثانہ حیثیت تسلیم کرتے ہیں اور متاخرین نے احادیث کے باب میں جو بے اعتنائی برتی ہے اور رطب ویابس کو جمع کرکے اپنے عجمی تصورات کو مدلل کرنے کی کوشش فرمائی ہے،اس کو یکسر خارج کرتے ہیں اوراس کی کوئی علمی حیثیت تسلیم نہیں کرتے۔
مولانا کی مشہور زمانہ تصنیف ’’تذکرہ‘‘ان کے گہرے اور وسیع مطالعے کا پتادیتی ہے۔کھرے کھوٹے کی شناخت میں ان کو جو وہبی صلاحتیں اللہ کی طرف سے ودیعت تھیں،ان کی صحیح معرفت اسی کتاب سے ہوتی ہے۔اسلامی تاریخ کاسرسری جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے جن مجددین امت کے کارہائے تجدید کو نمایاں کیا ہے،وہ ان کی فکر کا حاصل ہے۔امام احمد بن حنبل،امام ابن تیمیہ اور شاہ محمداسماعیل شہید کو جن الفاظ میں انھوں نے خراج عقیدت پیش کیا ہے،وہ حرف آخر کادرجہ رکھتے ہیں۔یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ مالک رام نے ’’تذکرہ‘‘کو ایڈٹ کرتے ہوئے جو حواشی کتاب کے آخر میں تحریر کیے ہیں،اس میں شاہ اسماعیل شہید سے متعلق مولانا آزاد کی تحریر کا مصداق سیداحمد شہیدکو قرار دے دیا ہے۔یہ ایک بڑی بھول ہے جو معلوم نہیں مالک رام جیسے بڑے محقق سے کیسے سرزد ہوگئی۔کتاب اب بھی اسی غلطی کے ساتھ چھپتی ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کتاب شائع کرنے والے سرکاری ادارے کو کوئی متنبہ کرکے اس غلطی کی اصلاح کرادے۔ مولانا نے اسی کتاب میں علمائے سو اور ان کی کارستانیوں کا تذکرہ کیا ہے۔فقہ اسلامی میں جن فقہائے کرام نے کتاب الحیل تحریر فرمایا ہے، ان کی خوب خبر لی ہے اور اسے فکر ونظر کا فساد عظیم قرار دیا ہے۔پوری کتاب مولانا کے اسلوب خطابت کا شاہکار ہے۔اس کی مشکل زبان اور عربی فارسی کی دقیق تراکیب پر بعض اردووالوں نے سوال اٹھائے ہیں۔انھیں کیامعلوم کہ مولانا آزاد صراحت کے مقابلے میں کنایے کو بلیغ قرار دیتے ہیں۔ان کی سادہ تحریروں میں بھی کنایے اور اشارے کی دنیا آباد دکھائی دیتی ہے۔
مولاناآزاد کے سیاسی افکار،کانگریس میں ان کی شمولیت اور تقسیم وطن کے تعلق سے ان کا موقف سب سے زیادہ بحث ونظر کا موضوع رہے ہیں۔ مسلم لیگ نے انھیں کانگریس کا شوبوائے قرار دے رکھا تھا اور ان کے نظریات کو مسلمانوں کے حق میں غیر مفید ہی نہیں بلکہ مہلک قرار دیتی تھی۔اب جب کہ ملک تقسیم ہوچکا ہے اور دنیا کے نقشے پر برصغیر ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے تین الگ الگ ناموں سے یاد کیا جاتا ہے،اس بحث کا کوئی حاصل نہیں ہے کہ مسلم لیگ کا فارمولہ اچھا تھا یا مولاناآزاد کی تجاویز بہتر تھیں۔نقطہ ہائے نظر کی اس بوقلمونی میں کچھ کہنا بہت زیادہ آسان نہیں ہے۔لیکن مجبوری یہ ہے کہ مولاناآزاد کی شخصیت سے متعلق کسی تحریر میں اگر یہ بات زیرقلم نہ آئے تو تحریر ادھوری معلوم ہوتی ہے۔ اپنے خیالات جس طرح تمام اصحاب قلم ظاہر فرماتے رہے ہیں،یہ کم علم بھی اس تعلق سے اپنے خیالات کااظہار کردینا مناسب سمجھتا ہے ۔
مولاناآزاد ایک پکے سچے مسلمان تھے۔ایک متبحر عالم دین کی حیثیت سے ان کی پہچان تھی۔ مسلمانوں کے ہم درداور بہی خواہ تھے۔برصغیر میں مسلمانوں کے تاریخی ورثے سے انھیں محبت تھی۔ مسلمانوں کے سیاسی زوال کاانھیں بے پناہ صدمہ تھا۔ استعماری قوتوں کے سمٹنے کے بعد دنیا کا جو منظر نامہ ابھر رہا تھا،اس میں جمہوریت اور عوامی حکومت کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں تھا۔انگریز تمام سازوسامان سے مسلح ہونے کے باوجود دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹوٹ گئے تھے۔ان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ ہندوستان کو اپنی غلامی میں باقی رکھ سکیں۔ہندوستان میں جو صورت حال ابھر کر سامنے آئی تھی،اس میں مسلمانوں کے لیے یہ نا ممکن تھا کہ وہ تنہا اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کرتے بلکہ علمی اور معاشی اعتبارسے وہ برادران وطن سے بہت پیچھے چلے گئے تھے اور انگریز نوازی یااس کی شاطرانہ سیاست نے مسلمانوں کو اتنا کمزور کردیا تھا کہ وہ عوامی حمایت سے بھی محروم ہوچکے تھے۔ انگریزوں نے مسلم حکمرانوں کے تعلق سے تاریخ سازی کرکے اور طرح طرح کے افسانے لکھ کر برادران وطن کو یہ باور کرادیا تھا کہ تم مظلوم ہو اور مسلمانوں نے اپنے دور حکومت میں تمہارے اوپر مظالم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ان حالات میں یہی کیا جاسکتا تھا کہ ملک کی آزادی کے بعداس کی سالمیت برقرار رکھی جائے اور صوبوں کو زیادہ اختیارات دے دیے جائیں۔مرکزمیں ہندو اور مسلم برابر برابر رہیں اور دوسری اقلیتوں کے ایک ایک نمائندے رکھے جائیں۔مولاناآزاد کی اس تجویز کو کانگریس نے تقریباً قبول کرلیا تھا لیکن مسلم لیگ کے رہنماؤں نے اسے خارج کردیا اور وہ تقسیم پر بضد رہے۔ذراسوچئے!اگر مولاناآزاد کی یہ تجویز منظور کرلی جاتی تو ملک کا کیا نقشہ ہوتا۔ایک عظیم ہندوستان ہوتا،دونوں قومیں عزت اور برابری کے ساتھ رہتیں،تقسیم کے وقت جو ہولناک تباہی آئی، اس سے ملک محفوظ رہتا اور اس ملک میں مسلمانوں کی عزت وآبرو پہلے کی طرح باقی رہتی لیکن تقسیم نے ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو توڑ کررکھ دیا،فرقہ پرست طاقتوں کو دوسرے شہریوں کو ورغلانے کاموقع ملا اورانھوں نے یہ راگ الاپنا شروع کردیا کہ مسلمانوں نے اس ملک سے اپنا حصہ لے لیا ہے، اب وہ ہندوستان میں برابری کا درجہ نہیں پاسکتے حالانکہ ان کی یہ زہرافشانی غلط تھی۔ خاصی بڑی تعداد میں مسلمانوں نے تقسیم کی مخالفت کی تھی اورانھوں نے پاکستان کے حق میں نہیں بلکہ ہندوستان کے حق میں اپنے ووٹ ڈالے تھے۔یہی وجہ ہے کہ تقسیم میں اس کی رعایت کی گئی اور الگ ملک چاہنے والے مسلمانوں کی تعداد کے مطابق پاکستان کو حصہ ملا۔
مولاناآزاد کی مرضی کے خلاف ملک تقسیم ہوگیا،ان کی سیاست،ان کی منصوبہ بندی اوران کے عزائم دھرے کے دھرے رہ گئے۔برصغیر کے لیے ان کا دیکھا ہوا خواب چکنا چور ہو گیااوران کی بھر پور سیاسی زندگی کاتانا بانا بکھر گیالیکن حیرت ہوتی ہے کہ اس مرد آہن نے ان حالات میں بھی خود کو سنبھالا۔ انھوں نے صبر وعزیمت کادامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔بدلے ہوئے حالات میںاپنے لیے ایک باعزت جگہ بنائی، مسلمانوں کو دلاسادیا اور کانگریس کے اپنے ساتھیوں کو فرقہ پرستوں کی آگ سے محفوظ رکھا۔ملک کاآئین ایسا بنایا گیا جس میں تمام شہریوں کو بنیادی حقوق مساوی طور پر دیے گئے۔ دستور کوسیکولر بنایا گیا جس میں تمام مذاہب کو یکساں اہمیت دی گئی۔اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی سب کوآزادی دی گئی۔کیامولانا کی عدم موجودگی میں یہ سب ممکن تھا۔ آج ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود اور ملکی آئین کے تحت ان کی شہریت مولاناآزاد کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ وزیر تعلیم رہتے ہوئے بھی ان کے ہاتھ پاؤں بندھے رہتے تھے۔دارالمصنفین اعظم گڑھ کو انھوں سے سرکاری امداد دلوائی توان پرسخت اعتراض ہوئے۔معاملہ کی حساسیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ہر چیز کو نظرانداز کرنے والے مولانا آزاد کو پارلیمنٹ میں تقریر کرنی پڑی۔مولاناسید صباح الدین عبدالرحمن نے اپنی کتاب بزم رفتگاں میں وہ تقریر نقل کی ہے۔اسی طرح ان ہی کے دور میں اردو کامسئلہ بھی آیا لیکن وہ اس کا جائز حق دلانے میں ناکام رہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بھی زیر بحث آیا لیکن اس عظیم ادارے کامسئلہ بھی صاف نہیں ہوپایا۔مولانا ہی کے دور میں بابری مسجد میں مورتیاں رکھی گئیں لیکن اس کاقضیہ بھی سرد خانے میں پڑارہااورآخر کار بابری مسجد شہید کردی گئی۔اسی طرح کے بعض دوسرے مسائل بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ان سب کا جواب صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ مولاناآزاد دیکھ رہے تھے کہ ان نازک حالات میں اگر ان مسائل پر تحریک شروع کی گئی تو مسلمانوں کے مسائل مزید پیچیدہ ہوجائیں گے اور انھیں اپنی تعمیر اور سنبھلنے کے لیے جووقت درکار ہے ،وہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ فرقہ پرست عناصر جن کوابھی کھیل کھیلنے کاموقع نہیں مل رہا تھا،نہ صرف پورے طور پرآزاد ہوجائیں گے بلکہ سیکولر ذہن کے برادران وطن کو بھی اپنے جیسا بنالیں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ مولانا نے مسلمانوں ہی کے مفادمیں نیک نیتی سے یہ طرزعمل اپنایا تھا۔ ممکن ہے ان کے فیصلے زیادہ مفید نہ ثابت ہوئے ہوں لیکن اس کے سودوزیاں کی درجہ بندی اب کون کرے گا اور کس بنیاد پر کرے گا۔
ان کی کتاب’’ہماری آزادی‘‘کے تیس صفحات کا قضیہ ایک طویل عرصے تک موضوع بحث بنا رہا۔ ظاہر بیں آنکھیں یہ کہہ رہی تھیں کہ مولاناآزاد کے اندر شاید جرأ ت اور ہمت کی کمی تھی کہ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی میں جو اذیتیں محسوس کیں اور اپنی سیاسی جماعت کے جن رفقا کے طرزعمل سے حیرت زدہ ہوئے،اس کااظہاراسی وقت کیوں نہیں کیا تاکہ ان کے قلم سے پوری حقیقت سامنے آجاتی،اسے تیس سالوں کے لیے مہر بند کیوں کرادیا۔جواہر لال نہرو، گاندھی جی اورسردار پٹیل کے تعلق سے انھوں نے جن تاثرات کااظہار فرمایا ہے اور کانگریس پارٹی کابعض اصولوں سے انحراف کرنے کا جو تذکرہ کیا ہے،اس کواسی وقت شائع کرنے میں کیا دشواری تھی۔
’’ہماری آزادی‘‘مولانا کی زندگی میں لکھی گئی بلکہ مولانانے اسے املا کرایا تھا اور بعد میں اسے دیکھا بھی تھا۔ترمیمات بھی کی تھیں اوراس کے تیس صفحات کوجہاں تہاں سے الگ کرلیا تھالیکن کتاب کی اشاعت ان کی وفات کے بعدعمل میں آئی۔ مولانا جس وضع داری کے قائل تھے اور ان کا جو رکھ رکھاؤ تھا، اس میں اس بات کی گنجائش نہیں تھی کہ جن ساتھیوں کے ساتھ مل کر انھوں نے ملک کو آزاد کرایا ہے،ان کی بعض کمیوں اور کوتاہیوں کا ڈنکا پیٹا جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ نجی مجلسوں میں انھوں نے اپنے ساتھیوں پر اس پہلو سے نقد نہ کیا ہو اور اپنی ناراضگی نہ جتائی ہو لیکن ایجی ٹیشن اس لیے شروع نہیں کی کہ اس سے مسلمانوں کے مفاد کو نقصان پہنچتا۔ملک کی تقسیم کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی صورت حال سے ان سے زیادہ کون واقف تھا۔آزادی کے آس پاس کے سالوں میں فرقہ پرستی کا جوزہر یہاںگھولا گیا تھا اور آزادی کے بعد جس نے صدیوں سے ایک ساتھ رہ بس رہے ہندومسلمانوںکو بانٹ کر رکھ دیا تھا،اس کا تریاق صرف وہی تھا جو مولاناآزاد نے اپنے طرزفکروعمل سے فراہم کیا۔انھوں نے اس چنگاری کو شعلہ نہیں بننے دیا جوان کے سینے میں مسلسل ان کے وجود کو جلائے دے رہی تھی کیوں کہ شعلہ بننامسئلے کا حل نہیں تھا اور نہ اس سے اس حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع ہوسکتی تھی جو زمین پر موجود تھی۔ان کی ایمانی غیرت کااندازہ اس سے کیجیے کہ انھوں نے نظام حیدرآباد کو وقت رہتے بالکل صحیح مشورے دیے لیکن ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی اور حیدرآباد کا سقوط ہوگیا۔بعد میں جب وہاں سے کسی دعوت میں شرکت کا دعوت نامہ ملا توانھوں نے یہ کہہ کر انکار کردیاکہ جن لوگوں کے ہاتھ مسلمانوںکے خون سے رنگین ہیں،میں ان کے دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کیسے کھاسکتا ہوں
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ شماریات کے ایک پروفیسر نے کتاب لکھی ہے۔اس کانام ہے:مسیحا کون :سرسید یاآزاد؟ موصوف نے پوری کتاب میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی مسیحائی سرسید نے کی ہے،آزاد نے نہیں۔محترم نے دونوں شخصیات کاموازنہ غلط پیش کیا ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے دور کے لحاظ سے ملت کے حق میں کام کیا ہے۔آزادی کی تحریک چل رہی تھی،انگریزاس ملک سے جانے کے لیے تیار تھا۔ایسے حالات میںکیا یہ ممکن تھا کہ مولاناآزاد کسی مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھتے اور مسلمان بچوں کو اعلی تعلیم کے مواقع فراہم کرتے۔اسی طرح جب انگریز کی مخالفت میں ایک لفظ بولنا خود کو تختہ دار پر لٹکانے کے مترادف تھا،کیا یہ ممکن تھا کہ سرسید آزادی کی تحریک چلاتے اور ہندوستانی عوام کو انگریزوں سے عدم تعاون کے لیے آمادہ کرتے۔یہ تقابلی مطالعہ نامناسب اور غیر منطقی ہے۔کتاب میں مولاناآزاد کے تعلق سے جو کچھ لکھا گیا ہے،وہ غلط ہے، حقیقت بیانی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔منجدھار میں طوفانوں سے نبرد آزما مجاہد کی کار کردگی پر سوالیہ نشان اگروہ شخص کھڑا کرے، جو ساحل پر کھڑا تماشہ دیکھ رہا ہو تو اس کے تجزیے اور تبصرے کو وہی شخص اہمیت دے گا جو خود اپنی سوجھ بوجھ سے ہاتھ دھو بیٹھا ہو۔سرسید نے خواب دیکھا تھا کہ مسلمان جدید تعلیم حاصل کرکے اس ملک میں عزت ووقار سے رہے گا لیکن صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کا وہ طبقہ جو جدید تعلیم یافتہ ہے،وہ ملت کے لیے نہیں بلکہ صرف اپنی ذات اوراپنے کنبہ وقبیلہ کے لیے جیتا ہے۔مسلمانوں کے عام مسائل سے اسے کوئی دل چسپی نہیں۔ملی تاریخ کے جس عظیم فرد نے دانہ دانہ جمع کرکے تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی تھی،جس کا کردار یہ تھا کہ چند انگریز عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے صلے میں ایک معتوب مسلم نواب کی جائیداد دی جانے لگی تو بڑی بے اعتنائی سے اسے یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ میں نے جو کچھ کیا تھا ،وہ اسلامی تعلیمات کے تقاضوں کے پیش نظر کیا تھا، مجھے یہ جائیداد نہیں چاہیے،جس کواس کے دوستوں نے انگلینڈ سے واپسی پر ڈنر دینے کی کوشش کی تواس نے کہا کہ اس ڈنر کا روپیہ تعلیمی ادارے میں دے دو،آج اسی سرسید کے چاہنے والے لاکھوں روپے کا کھانا سرسید ڈنر کے نام پر آدھے گھنٹے میں کھاپی کر برابر کردیتے ہیں اور وہ روپیہ بھی طلبہ کی فیس کے ساتھ وصول کرلیا جاتا ہے۔آج کتنے ذہین بچے ہیں جواپنے والدین کی غربت کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں،کیا سرسید ڈنر کا یہ روپیہ ان کی پڑھائی پر نہیں خرچ کیا جاسکتا ہے۔آج کے سرپھرے اور بگڑے ہوئے قلم کار جب سرسید یاآزاد پر اس اندازمیں کوئی تحریر لکھتے ہیں تو مجھے ہنسی بھی آتی ہے اوران کی سوچ پر ماتم کرنے کو بھی جی چاہتا ہے۔
پاکستان کے تعلق سے مولاناآزاد نے اپنے جن خدشات کااظہار فرمایا تھا،وہ آج ہمارے سامنے ہیں۔اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا یہ ملک کئی طرح کی پیچیدگیوں کا شکار ہے۔اپنا سب کچھ چھوڑ کر جانے والے آج تک مہاجر بنے ہوئے ہیں اور انصاراور مہاجرین کے مابین کشمکش جاری ہے۔ شیعہ سنی تنازعہ الگ ہمیشہ سر اٹھائے رہتا ہے، مساجد تک میں بموں سے حملے ہورہے ہیں۔مختلف صوبے باہم ایک دوسرے سے ٹکراتے اور الجھتے رہتے ہیں۔زمین داروں کاالگ سے ایک ٹولہ اپنے اپنے علاقوں میں بے تاج بادشاہ بنا ہوا ہے۔ سرکاری انتظامیہ کی ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔مجرمین کو سزا پولیس اور عدالت نہیں بلکہ وڈیرے دیتے ہیں۔ ملک کی دینی جماعتیں سیاست میں سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔ انھیں عوام کی تربیت سے بہت زیادہ واسطہ نہیں رہ گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک ایسامعاشرہ ابھی تک وجود میں نہیں آسکا جسے اسلام کا نمائندہ معاشرہ کہا جاسکے۔ مولانا آزاد نے تقسیم کے بعد پاکستان کے بارے میں ہمیشہ اچھاسوچا اور ہمدردانہ رویہ رکھا لیکن قیادت کی بدقسمتی یہ تھی کہ اس نے ان کے بارے میں اپنی رائے نہیں بدلی۔ایک بار جب وہ غیر ملکی سفر سے واپس آتے ہوئے کراچی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے تو ان سے نہ سیاسی قیادت نے ملاقات کی اور نہ دینی قیادت نے۔مولاناآزاد کہا کرتے تھے کہ پاکستان ایک تجربہ ہے، اسے کامیاب بنائیے۔ کاش اس تجربے کو کامیاب بنانے میں وہاں کے حکمراں اور علماء دین یک جٹ ہوجاتے اور ملک کے وسائل کو اس کی تعمیر میں صرف کرتے۔دشمنی اور تناؤ کسی کے حق میں مفید نہیں ہے بلکہ اس سے صرف مسائل پیدا ہوں گے،وسائل کا ضیاع ہوگا، غربت بڑھے گی،غیر ملکی دباؤ آئے گا اور اپنے شہریوں کی تعمیر وترقی کے لیے جو منصوبہ بندی درکار ہے،اس میں ناکامی ہوگی۔برصغیر کی سیاسیات کے ایک بڑے پارکھ نے جو اندیشے ظاہر کیے تھے،وہ آج دنیا کے سامنے ہیں۔غیر مسلم اکثریت کے ساتھ رہنے میں جن خطرات کااظہار مسلم لیگ کررہی تھی،آج وہ خطرات خود مسلمانوں کے درمیان سر اٹھائے ہوئے ہیں۔جغرافیائی تقسیم کی سیاست اور رنگ ونسل کاامتیاز ہی تھا کہ بنگلہ دیش ایک مستقل ملک کی حیثیت سے وجودمیں آیا اور بہاری مسلمانوں کاایک ایسامسئلہ پیدا کرگیاجوآج تک حل نہیں کیا جاسکا۔ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعدادآج بھی زمین سے محروم ہے۔اللہ کی زمین تمام تر وسعتوں کے باوجودان غریبوںکے لیے تنگ ہوچکی ہے۔زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ان بہاری مسلمانوں کا جرم یہ ہے کہ وہ بنگالی نسل کے نہیں ہیں۔پاکستان انھیں اپنے یہاں مکان بنانے کی اجازت تو کجا مرنے کے لیے دوگززمین دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔رابطہ عالم اسلامی نے اس تعلق سے کبھی پیش قدمی کی تھی لیکن سندھ کے’’ غیور‘‘ مسلمانوں نے اپنے دروازے ان کے لیے بند کرلیے ۔برصغیر کے لیے مولانا کے جوسیاسی نظریات تھے، کیا اس میں رنگ ونسل کے اس امتیاز کی کوئی گنجائش تھی؟
مولاناآزاد کی شخصیت کا یہ پہلو بہت تابناک ہے کہ انھوں نے ہمیشہ انسانیت سے ہم دردی رکھی کیوں کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے۔مسلمانوں کے لیے جو کچھ کرسکتے تھے،اس میں انھوں نے کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی۔تقسیم کے وقت ان کی کوٹھی لٹے پٹے مسلمانوں کا مسکن بنی ہوئی تھی۔جو گھرانے برباد ہوگئے، انھوں نے ان کے لیے وظائف کاانتظام کیا۔اپنی تنخواہ کا تین چوتھائی حصہ وہ اسی طرح کے کاموں میں صرف کردیتے تھے۔ وزیر بننے کے بعد بھی وہ پیوند لگی ہوئی شیروانی استعمال کرتے تھے۔ان کے کردار کی عظمت یہ ہے کہ بعض حضرات نے ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی توانھیں یہ کہہ کر روک دیا کہ کیاآپ کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک شخص نے جواہر لال نہروسے اپنی دشمنی نکالنے کے لیے مولاناآزادپر شراب نوشی کاالزام عائد کیا۔پھر کیا تھا بعض اصحاب جبہ ودستار اور متدین اصحاب قلم بھی اسے وحی الٰہی سمجھ بیٹھے اور بغیر کسی ثبوت وشہادت کے ایک عالم دین پر تہمت تراشی شروع کردی اور مزے لے لے کر نجی محفلوں میں اس القاء شیطانی سے اپنا نامہ اعمال سیاہ کرتے رہے۔بعض ثقہ حضرات نے مولانا آزاد کی عربی دانی پر سوال کھڑے کیے اور یہ جتانے کی کوشش فرمائی کہ مولاناآزاد عربی ادبیات میں کوتاہ دست واقع ہوئے تھے۔یہ ایک فضول اور لایعنی قسم کااعتراض تھا۔ مولاناآزاد کی دینی اور علمی بصیرت کے آگے جن کا چراغ نہیں جل رہا تھا،وہ چاہتے تھے کہ اس طرح کے شگوفے چھوڑ کر ان سے آگے نکل جائیں۔آزادی کے آس پاس کے سالوں میں جس سیاسی کشمکش کی نشان دہی کی جارہی تھی،وہ پڑھنے اور سننے میں خواہ کتنی ہی پر اثر دکھائی دیتی ہو لیکن یہ ایک بے وقت کی راگنی اور حالات سے بے خبری کی دلیل تھی۔یہی وجہ ہے کہ پورے برصغیر کو اسلامیانے کا خواب کیا شرمندہ تعبیر ہوتا، پناہ بھی اسی ملک میں ملی جس کی تحریک چلانے والوں کے گھروں میں جائے نماز تک نہ تھی۔
مولانا آزاد کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ انھوں نے اس ملت کو بیدار کیا جو1857 کے بعد مکمل طور پر ٹوٹ گئی تھی،جس کے حوصلے پست ہوگئے تھے اور جس کی صفوں میں منافقین کی ایک بڑی تعداد پیدا کردی گئی تھی۔عزم وہمت رکھنے والے یا تو ملک سے باہر گوشہ عافیت میں جابیٹھے تھے یا پھر کسی چوراہے پر سولی سے لٹکادیے گئے تھے۔نوابوں کا حال ایسا بنادیا گیا تھا کہ وہ اپنے ہی عوام پر ظلم وستم کرتے تھے اور ایک متعین خراج انگریز حکومت کو پیش کرتے تھے۔ انگریزوں کی آمد پر ان کا استقبال ہوتا تھا اور ان کے ارد گرد دم ہلاناسرخروئی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ بن چکا تھا۔آہوں اور سسکیوں میں ایک طویل مدت گزارنے والی ملت تھک ہار کر سوچکی تھی۔الہلال اور البلاغ کے ذریعے مولاناآزاد نے اس مردہ ملت کے تن ناتواں میں روح بیداری پھونکی،اسے خواب غفلت سے جگایا اور قرآن کے ذریعے اسے بتایا کہ اس دنیا میں تمہاری اپنی حیثیت کیا ہے۔یہ ملک تمہارا ہے،تمہارے اجداد نے خون پسینہ ایک کرکے اسے بنایااور سنوارا ہے۔اس کی قسمت کا کوئی فیصلہ تمہارے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ آج کون اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ مولانا کی یہ آواز رائگاں گئی اور اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔پورے ملک میں استخلاص وطن کے لیے جو عام بیداری آئی اور مسلمان اگلی صفوں میں نظرآنے لگے، اس کی ایک بڑی وجہ وہ صدائے سعی وجہد تھی جو الہلال اورالبلاغ کا بے باک مدیر لگارہا تھا۔
تاریخ ایک ایساموضوع ہے جس میںہر کسی کو من پسند باتیں آسانی سے مل جاتی ہیں۔جس ذہن کو لے کرآپ اس دریا میں اتریں گے،اسی کے مطابق موتی نکال لائیں گے۔لیکن کیا ہمارے نکالے ہوئے نتائج سے گزرے ہوئے ایام واپس آجائیں گے،وہ تصویر بدل جائے گی جوایک زندہ حقیقت کی شکل میں سامنے موجود ہے۔تاریخ کے سلسلے میں اسلام کا نقطہ نظر دوسرا ہے۔جو ہوچکا سوہوچکا،اللہ کا فیصلہ یہی تھا۔غزوہ احد میں نبی اکرم ﷺکی موجودگی میں روئے زمین کی سب سے مقدس جماعت شکست سے دوچار ہوتی ہے لیکن بعد کے ماہ وسال میں اس کا تذکرہ تک نہیں ہوتا کہ ایسا کیوں ہوا اور کون اس کاذمہ دار تھا۔حال اور مستقبل کی فکر اور اسے بہتر کرنے کی کوشش خود ایک بڑی ذمہ داری ہے،اس کواٹھاتے ہوئے،اس کی فرصت کہاں ملتی ہے کہ ماضی کو کریدا جائے اوراس میں ان لوگوں کو قصور وار ٹھہرایا جائے جو اپنے نامہ اعمال کے ساتھ اپنے رب کے حضور پہنچ چکے ہیں۔یہ مشغلہ ہے ان لوگوں کا جو خود کچھ کرنا نہیں چاہتے،حال کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جن کے اندر جینے کا حوصلہ نہیں ہے اور جنھیں اپنامستقل تاریک نظر آتا ہے،وہ اپنی بداعمالیوں کو چھپانے کے لیے ماضی کوموردالزام ٹھہراتے ہیں۔شکست خوردہ اور زوال کی شب تاریک میں بھٹکتی قوموں کا یہی حال ہوتا ہے۔
مولاناآزاد کے سیاسی نظریات کا تذکرہ ادھورارہے گا اگر لکھنؤکے اس اجلاس کا ذکر نہ کیا جائے جس میں زعماء ملت اور علماء دین اکٹھا ہوئے تھے اور مولانا نے انھیں خطاب فرمایا تھا۔آزادی کے بعد منعقد ہونے والے مسلمانوں کے اس پہلے بڑے اجلاس میںمولانا نے ایک تجویز پیش کی تھی اور مسلمانوں کو خاص مشورہ دیا تھا کہ اب آپ اپنی علیحدہ سیاسی جماعت نہیں بنائیں گے بلکہ ملک میں موجود سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اس کی تعمیر وترقی میں حصہ لیں گے۔مولانا کا یہ مشورہ بھی بحث ونظر کے دائرے میں آچکا ہے۔بعض حضرات کا خیال ہے کہ مولانا نے اپنی اس تقریر سے مسلمانوں کے پر کتر دیے اور ان کی پرواز چھین لی۔یہ بھی ایک طرح کی بدگمانی ہے۔مولانا کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی الگ سیاسی جماعت فرقہ پرستوں کو متحد کرے گی اور وہ رائے عامہ کو خراب کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔اس کے برعکس اگر مسلمان پوری ایمان داری اور ذمہ داری سے دوسری سیاسی جماعتوں میں رہیں گے تو ان کاوزن محسوس کیا جائے گا اور کوئی ایسا فیصلہ نہیں لیا جاسکے گا جو مسلمانوں کے خلاف ہو۔ایک کیرالا کو چھوڑ کر ابھی تک کسی صوبے میں کسی مسلم سیاسی جماعت نے مولانا کے نظریے کی عملی تردید کرکے نہیں دکھائی ہے بلکہ ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان لیڈر کسی سیاسی جماعت سے نکال دیا جاتا ہے یااس کی بدعنوانیوں کے پیش نظر اسے پارٹی کی ابتدائی رکنیت سے معطل کردیا جاتا ہے تو اسے اپنی ملت یاد آنے لگتی ہے اور وہ دوچارآدمیوں کو جمع کرکے ایک مسلم سیاسی جماعت بنالیتا ہے۔مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی، ان کی معاشی بدحالی اور سرکاری ملازمتوں میںان کے ساتھ ناانصافی کی دہائی صرف الیکشن کے موقع پر دی جاتی ہے ۔اس سے پہلے یااس کے بعد کسی مسلم قائد کو فکر نہیں ہوتی کہ مسلمانوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ سیاست میں جس کردار اور عمل کی ضرورت ہے اور اس کے لیے جوقربانی مطلوب ہے، واقعہ یہ ہے کہ ہم اس کے لیے آج تیار نہیں ہیں۔ہماری سطحیت کی انتہا یہ ہے کہ کبھی ہم ٹرین میں بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہیں اور ٹی ٹی سے دودو ہاتھ کربیٹھتے ہیں اور کبھی ریل کے کسی ملازم کو اپنے گھر کاملازم سمجھ کر پبلک کے سامنے اسے ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان حالات میں ابھی یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ مولاناآزاد کامشورہ غلط تھا۔
مولاناآزاد اپنوں سے کتنے دکھی تھے اور اپنے دل پر کتنا بڑا بوجھ اٹھائے تھے،اس کااندازہ اس تقریر سے کیجیے جو انھوں نے دہلی کے مسلمانوں کے سامنے جامع مسجد میں کی تھی۔ مولانا آزاد کی آواز آج بھی جامع مسجد کے میناروں سے سنائی دے رہی ہے۔اگر آپ کے سینے میں علامہ اقبال جیسا دل ہے تو دہلی کی بادسحر میں وہ تقریر آپ بھی سن سکتے ہیں:
’’تمھیں یاد ہے!میں نے تمھیں پکاراتم نے میری زبان کاٹ لی،میں نے قلم اٹھایاتم نے میرے ہاتھ قلم کردیے،میں نے چلنا چاہا تم نے میرے پاؤں کاٹ دیے،میں نے کروٹ لینی چاہی تم نے میری کمر توڑ دی حتی کہ پچھلے سات برس کی تلخ نواسیاست جو تمھیں آج داغ جدائی دے گئی ہے،اس کے عہد شباب میںبھی میں نے تمھیں خطرے کی شاہ راہ پر جھنجھوڑا لیکن تم نے میری صداسے نہ صرف احتراز کیا بلکہ غفلت اور انکار کی ساری سنتیں تازہ کردیں۔نتیجہ معلوم کہ آج ان ہی خطروں نے تمھیں گھیر لیا ہے جن کااندیشہ تمھیں صراط مستقیم سے دور لے گیا تھا۔سچ پوچھو تو میں ایک جمود ہوں یاایک دور افتادہ صدا جس نے وطن میںرہ کر بھی غریب الوطنی کی زندگی گزاری ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو مقام میں نے پہلے دن اپنے لیے چن لیا تھا،وہاں میرے بال وپر کاٹ لیے گئے ہیں یا میرے آشیانے کے لیے جگہ نہیں رہی بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے دامن کو تمہاری دست درازیوں سے گلہ ہے،میرااحساس زخمی اور میرے دل کوصدمہ ہے۔‘‘


آپ کے تبصرے