اھدنا الصراط المستقیم صرف ایک دعا ہی نہیں ایک آئینہ بھی ہے جس میں بندے کو اپنے اعمال اور کردار کا جائزہ لینا چاہیے۔ بندہ جب اللہ سے زبان سے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق مانگ رہا ہو تو اس کو اس دعا کے بالمقابل اپنی شخصیت و کردار اور عقیدہ و عمل رکھ دینا چاہیے اور موازنہ کرنا چاہیے کہ جو کچھ وہ اپنے مالک سے مانگ رہا ہے اس کے حصول کے لیے خود اس کی بے تابی کس درجے کی ہے؟ زندگی کی جس سمت میں چلنے کی آرزو کا اظہار وہ رب العزت و الجلال کے سامنے کررہا ہے اس سمت میں چلنے کے لیے خود اس کی تگ و دو کیا ہے؟
بندہ جب انعام پانے والوں کے راستے پر چلنے کی چاہت کا اظہار کرے تو اس اظہار کے ساتھ اس کو اپنے ایمان و عمل پر بھی ایک نظر ڈالنی چاہیے کہ وہ عملی زندگی میں اپنی سیرت و کردار کو ان نیک بندوں کے اسوہ میں ڈھالنے کے لیے کتنی محنت کررہا ہے جن کے راستے پر چلنے کی توفیق وہ اللہ رب العزت سے طلب کررہا ہے۔
بندہ جب مغضوب علیھم اور ضالین کے راستوں سے بچانے کے لیے دست سوال دراز کررہا ہو تو ساتھ ساتھ اس کو اپنے اعمال کا محاسبہ بھی کرنا چاہیے کہ وہ گمرہی کے راستوں سے بچنے کے لیے علم و جستجو اور طلب حق کی راہ میں کتنا وقت صرف کرتا ہے اور فسق و فجور کے راستوں سے بچنے کے لیے عملا کتنا سنجیدہ ہے۔
اگر مسجد سے باہر کی زندگی انہی مغضوب علیھم اور ضالین سے منسوب اعمال سے آلودہ ہو تو کس منہ سے مالک کے سامنے ان کے راہوں سے پناہ طلب کرے گا۔
نفس لوّامہ اگر نفس امّارہ کے بوجھ تلے دب کر مر نہ چکی ہو تو زبان سے دعا کے ان کلمات کی ادائیگی ہوتے ہی ضمیر اس سے ضرور سوال کرے گا کہ پانچ وقت مسجد کے اندر رب سے جو مانگ کر جاتا مسجد کے باہر آکر اس کے حصول کے لیے کوشش کیوں نہیں کررہے۔
بے شک نماز فحش اور منکر کاموں سے روکتی ہے۔
آپ کے تبصرے