بات مروجہ افطار پارٹیوں کی

رشید سمیع سلفی

رمضان جس طرح اختتام کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے افطار پارٹیوں کا سلسلہ بھی زور پکڑنے لگتا ہے، ہرچہار جانب افطار پارٹی یا افطار ڈنر کا بازار گرم ہوتا ہے، الگ الگ مقامات پر افطار کی رونق سامانیاں ہوتی ولذت کامیاں ہوتی ہیں، مسجدوں میں، شادی ہالوں میں، راستوں میں، سیاسی ہیڈ کوارٹروں میں، دکانوں میں، ہوٹلوں میں، بینکوں میں، یہاں تک کہ مندروں میں بھی افطار پارٹی رکھی گئی ہے، کھانے پینے کے پر تکلف لوازمات کے ساتھ بریانی، مرغی فرآئے، سیخ کباب اور مرغن کھانوں سےدسترخوان کو مزید پرکشش بنا دیا جاتا ہے، پرتکلف دعوتوں اور ضیافتوں کی شکل میں ان تقریبات کی عوام الناس میں بڑی دھوم ہے، ڈھونڈ ڈھونڈ کر کھانے پینے کی نعمتیں بہم پہونچائی جاتی ہیں۔ مانا کہ افطار کرانا عمل ثواب اور کارخیر ہے لیکن دین کی دیگر اعمال کی طرح اس کابھی ایک دائرہ اور دینی پس منظر ہے جس کا پاس ولحاظ بہت ضروری ہے۔ دین کاہر عمل شریعت اسلامیہ میں ایک مخصوص طریقہ کار اور فکرسے ہم آہنگ ہے۔ ہم کسی بھی شرعی عمل کو اپنی مصلحت وصوابدید کا پابند نہیں بناسکتے، افطار وروزہ کامعاملہ بھی اسی طرح ہے۔
لیکن آج کی افطار پارٹیاں دینی پس منظر سے ہٹ کر سیاسی اور ریا ونمود کے طور پر انجام دی جاتی ہیں الاماشاءاللہ۔
روزے اور افطار کے نام پر کی جانے والی یہ دعوتیں نہ صرف دینی روح سے یکسر خالی ہوتی ہیں بلکہ دور دور تک دین سے ان کا کوئی تعلق بھی نظرنہیں آتا۔دعوت دینے والے بھی اپنے کسی مفاد یا دنیوی جذبے کے پیش نظر ایک لمبی پارٹی رکھتے ہیں اور بالخصوص انھیں لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے جن سے اپنا مفاد وابستہ ہویا پھرلوگوں کا منھ بند کرنے کیلئے کچھ غریبوں کو بھی مدعو کرلیا جاتا ہے۔سیاسی طالع آزما اپنے ووٹ بینک پر گرفت مضبوط بنائے رکھنے کیلئے،تاجر اپنے گاہکوں کو رجھانے کیلئے،کچھ لوگ اسٹیٹس سمبل کیلئے،کچھ اپنے مقام ورتبہ کی لاج رکھنے کیلئے افطار پارٹی رچاتے ہیں،اگر گزشتہ ادوار کا جائزہ لیا جائے تو افطار پارٹی سیاسی گلیاروں سے ہی نکل کر ہمارے سماج تک پہونچی ہے۔سیکولر روایات کو پروان چڑھانے اور اپنے ووٹ بینک کیلیئے سیاسی طالع آزماؤں کو افطار بڑا زرخیز نظر آیالہذا اسکے دینی پس منظر سے قطع نظر دوسری دعوتوں اور ضیافتوں کی طرح اسے بھی شروع کردیا گیااور پھر کیا تھا رفتہ رفتہ یہ سلسلہ چل پڑا اور اب ہر کوئی اپنے دنیادارانہ اور تاجرانہ مقاصد کیلیئے اپنے سماجی اثرورسوخ کوبڑھانے کیلیئے بڑی بڑی سیاسی وسماجی شخصیتوں سے ملاقات کا موقع پیدا کرنے کیلیئے نیز کچھ نہیں تو اپنا قد اونچا کرنے کیلیئے افطار پارٹیوں کا اہتمام کرنے لگا ہے۔میں ان مخلصین ومخیرین کو مستثنی رکھتا ہوں جوغرباءومساکین کے لیئے اپنی بساط بھر مخلصانہ طور پر افطار کا اہتمام کرتے ہیں۔ میری مراد مروجہ نام نہاد افطار پارٹیوں سے ہے۔
افطار پارٹیاں اور ان تقریبات کے مدعوئین صرف مسلمان نہیں بلکہ کثیر تعداد میں غیر مسلم بھی ہوتے ہیں۔چنانچہ علاقے کے وہ چھوٹے بڑے مسلم وغیرمسلم نیتا بھی یہ دعوت کرتے رہتے ہیں جنکانہ دیں سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی غربا ومساکین کی کوئی فکر ہے۔آپ آگے بڑھ کے دیکھیں تو علاقے کی متعلقہ پولیس ڈپارٹمنٹ بھی افطار پارٹیاں رکھنے لگی ہے۔سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ آرایس ایس بھی افطار پارٹی رکھتی ہے۔یہ دعوت جہاں بھی ہو جیسی بھی ہو اس مجلس کی زینت اچھے خاصے سیاسی وسماجی دینی شخصیات کو بنا یا جاتا ہے،اور ہاں افطارپارٹیوں میں شرکت کیلئے روزہ دار ہونا شرط نہیں ہے ۔سچ کہوں تو افطار پارٹی اب ایک ایسا فیشن بن چکی ہے کہ ہر صاحب استطاعت دوسروں کی دیکھا دیکھی اسے اپنی بساط کی حدتک انجام دینے کے کوشش کرتا ہے کہ کہیں وہ دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائے ۔مسجدوں میں ٹرسٹیان بھی افطار پارٹیاں رکھا کرتے ہیں اور ایک زمانے سے یہ سلسلہ چلاآ رہا ہے جسکا لوگوں کو شدت سے انتظاربھی رہتا ہے۔خواہ اس کے لیئے چندہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ہم ان افطار پارٹیوں کو یکسر خلاف شرع یا ناجائز تو نہیں کہ سکتے۔البتہ افطار کے ساتھ پارٹی کا لفظ ہمیں اسکاشجرہ نسب بتادیتا ہے۔ یہاں بھی مسلمان دانستہ نادانستہ طور پرمغربی کلچر کا شکار ہوا ہے کیونکہ مختلف مناسبات سے چند لوگوں کو پارٹی کے نام پر جمع کرنا اور کھانے پینے اور دیگر چیزوں سے لطف اندوز ہونا اور انجوائے کرنا یہ مغرب کا کلچر ہے جسکا جادو ہمارے بھی سرچڑھ کر بولتا ہے ۔سوچئے روزہ اور افطار کے مقدس ترین عمل میں یہ خارجی آمیزش نہیں تو اور کیا ہے؟
بے شک ایک شخص کو روزہ افطار کرانا ایک روزہ کے ثواب کو حاصل کرنے کے مترادف ہے ایسا حدیث رسول ہمیں بتاتی ہے۔لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ بھی تعلیم دی گئی ہے کہ ریا ونمود عمل کے ثواب کو اکارت کردیتے ہیں۔لہذا افطار کو سیاسی یا دنیاوی مقصد کے تحت رچانا یا فیشن کے طور پر کرنا یافخرومباہات کی چیز بنانایہ سب ایک دینی عمل کی حقیقی تصویر کو مسخ کرنا ہے اور روزہ وافطار جیسی عبادت کا استحصال ہے جو کسی بھی طرح جائز نہیں ہوسکتا ۔آج امت کا المیہ یہی ہے کہ دیں کی عبادتوں کو لوگ اپنی خواہشات کے تابع کرنے لگے ہین، دین کی تعلیمات کو سنت وسلف کے طریقے پر انجام دینے کے بجائے اپنے مفادات کے بھینٹ چڑھانے لگے ہیں۔خاکسار کا خیال ہے کہ افطار کا اہتمام صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا جانا چاہیے اور خصوصاً اس معاملے میں دنیاوی فائدے کے بجائے اُخروی اجر کو فوقیت دینی چاہیے۔ مزید یہ کہ دیگر کاروباری ملاقاتوں اور سیاسی اغراض ومقاصد کواگر اس معاملے سے الگ رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ بہر کیف نیّتوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے سو ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں خود احتسابی سے کام لے کہ اچھائی اور برائی کی تمیز اُسے ودیعت کر دی گئی ہے ۔ یوں بھی انسان ذاتی حیثیت میں ہی اللہ کو جواب دہ ہوگا۔

آپ کے تبصرے

3000