یہ فاقہ کشی مقصد رمضان نہیں ہے

رشید سمیع سلفی

رمضان اخلاقی و نفسیاتی انقلاب کا مہینہ ہے، انسانی شخصیت میں خوشگوار تبدیلی کا تربیتی دور ہے۔ غور کیجیے، وہ لوگ جو نعمتوں کی فراوانی میں جیتے ہیں، عشرت حیات کی بخشائشوں میں ڈوبے ہوتے ہیں وہ بھی بھوک پیاس کی شدتوں سے آشنا ہوجاتے ہیں، رمضانی مشقتوں و مشکلات سے جوجھ کر وہ بھی درد آشنا بن جاتے ہیں، پھر محرومی کیا ہوتی ہے؟ نارسائی کسےکہتے ہیں؟ فاقہ کیا ہوتا ہے؟ وہ بہت اچھی طرح جان جاتے ہیں۔ سچ کہا ہے:
اللہ کے احکام کی تعمیل ہے لوگو
یہ فاقہ کشی مقصد رمضان نہیں ہے

گویا رمضان درد حیات اور غم زمانہ کی حس پیدا کرتا ہے، غربت و مسکنت کے سایوں میں بسر ہونے والی زندگیوں کا قلق محسوس کراتا ہے، اثرپذیری کی صلاحیت جن میں ہوتی ہے وہ سماج کے زخموں کی ٹیسیں اپنے جگر پر محسوس کرتے ہیں، معاشرے کی پریشانیوں کی آنچ ان کے دل پر پڑتی ہے اور تڑپ اٹھتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو غریب کے ننگے پیر کو دیکھ کر اپنے تلووں کو جلتا ہوا محسوس کرتے ہیں، مسکین کی صدا پر ان کا وجود درد سے ابل پڑتا ہے، دوا سے محروم بیمار کی کسمپرسی انھیں تڑپا دیتی ہے، نامراد ضرورتوں کی حسرتیں ان کی جان نکال لیتی ہیں۔ پھر وہ ایسی تمام حرماں نصیب زندگیوں کی مدد پر آمادہ ہوتا ہے جو سختئ حالات کے مارے ہوتے ہیں، وہ اپنی بساط بھر غرباء و مساکین کی غمگساری کرتاہے اور ان کی اشک شوئی میں ذرا بھی پیچھے نہیں رہتا۔
برا برے کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے
ہر آدمی میں کوئی دوسرا بھی ہوتا ہے

ایسے ہی کردار کا رمضان ہم سے مطالبہ کرتا ہے، جذبہ ہمدردی اور غمخواری کی جوت ہر روزہ دار میں بیدار کرنا چاہتا ہے۔
لیکن ذرا گھوم پھر کر دیکھیے تو غربت و مسکنت رمضان میں بھی نشان عبرت بنی ہوئی ہے، حسرتیں شکوہ کناں ہیں، محرومیاں سراپا احتجاج ہیں، پر تکلف افطار تو خواب و خیال کی بات ہے، کتنے نان شبینہ کو ترستے ہیں۔ وہ لوگ جو پورے سال اپنوں کے علاج و معالجہ میں ٹوٹ چکے ہوں وہ عید و رمضان کے تکلفات کا بار کہاں اٹھا سکتے ہیں، وہ جو قرضوں کے بوجھ تلے کراہ رہے ہوں وہ نئے لباس، نئے جوتے، مہندی، چوڑیاں، خوشبو، کھلونے اور مرغن کھانوں کا بوجھ کیسے سہار سکتے ہیں، وہ جو عام دنوں میں بھی تنگدستی اور فاقوں سے گذرے ہوں، وہ لوازمات عید کا اہتمام کہاں کرسکتے ہیں؟ رمضان میں بھی یہ لوگ فاقوں سے گذرے ہوں گے، سحری و افطاری کے نام پر حلق میں اٹکنے والے کھانوں پر گذارہ کیے ہوں گے، محتاجگی و ناداری نے ان کی ضرورتوں کا گلا گھونٹا ہوگا، رمضان کا پل پل ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوگا۔ کیا آج بازاروں کی رونق دیکھ کر ان کا کلیجہ کٹ نہیں جاتا ہوگا؟ عید کی تیاریوں اور خریداریوں کے مناظر ان کے دل کو کچوکے نہیں لگاتے ہوں گے؟ کیا بے کسی اور بے بسی کے سل تلے ان کی روح پس نہیں رہی ہوگی۔
کتنا درد ہوتا ہے جب رات کسی کو گھر سے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوا دیکھ کر سوال کرلیا گیا کہ آپ اس وقت یہاں کیوں؟ کہا مجھے بھوک سے بلکتے میرے بچے دیکھے نہیں جاتے۔
غور کیجیے اور محسوس کیجیے کہ کس طرح محرومی کا خون رس رہا ہے جواب میں؟ ایک ایک لفظ آنسوؤں میں نہایا ہوا ہے، مصیبت کی ماری زندگیاں ہی اس کرب کو محسوس کرسکتی ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ انھیں خزانہ تو نہیں چاہیے، انھیں دولت کا ڈھیر تو نہیں چاہیے بلکہ اپنی پیاسی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے چند قطرے درکار ہوتے ہیں۔

ہم نہیں چاہتے دریا پے حکومت کرنا
ایک قطرہ ہی سہی پیاس بجھا دے کوئی

رمضان بھی کثیر اخراجات کا بوجھ لے کر آتا ہے، دنیا افطار کے نام پر اپنے دسترخوان کو لذائذ اور چٹخاروں سے ایسے آراستہ کردیتی ہے کہ دیکھنے والوں کا رمضانی پرہیز جاتا رہے۔ لیکن شام غریباں روٹی کے چند ٹکڑوں اور سادہ پانی سے روزے داروں کی تواضع کرتی ہے، غریب کے دسترخوان سے زیادہ خوش نصیب تو کچرے کا وہ ڈبہ ہے جو امیروں کے دسترخوان سے بچے ہوئے نعمتوں سے شادکام ہوجاتا ہے۔
زندگی کے تماشے بھی خوب ہیں، کہیں تو چار چار پانچ پانچ جوڑے بھی عید کے لیے ناکافی ہوتے ہیں اور کہیں پورا بازار چھان مارنے کے بعد بھی غریب کا بجٹ مہنگائی کے سبب ایک ایک جوڑا بھی اپنے معصوموں کو نہیں دلا سکتا۔
امیری کا بدن سونے سے پیلا
غریبی کے لیے اترن نہیں ہے

خود ساختہ لوازمات نے انسان کو غیر ضروری بوجھ سے دوچار کیا ہے، اصحاب ثروت تو اپنے امیری کے چونچلوں کی تکمیل میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے، ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی میں بھی بہت کچھ بے جا شوق پورا کیا جاتا ہے، تکلفات کی بھرمار ہوتی ہے، حرماں نصیب اور مفلوک الحال غریب کسی طرح عید کے دن اپنی عزت بچانے کی کوشش کرتا ہے، وہ جب یہ سنتا ہے کہ کچھ اصحاب خیر عید پیک بانٹ رہے ہیں تو دل کڑا کرکے پہنچتا تو ہے لیکن یہ کیا؟ دینے والا سامان کی بوری کے ساتھ تصویر بھی لے رہا ہے، مرتا کیا نہ کرتا، وہ سوچتا ہے کہ بچوں کو محرومی اور بے کسی کے کرب میں مبتلا کرنے سے بہتر ہے کہ میں سامان لے کر تصویر دے دوں، آخرکیا ہوگا؟ تذلیل ہوگی، مذاق اڑایا جائے گا تو ہونے دو تذلیل، اڑانے دو مذاق، مر تو نہیں جاؤں گا ناں؟ میں اپنے بچوں کی خوشی کے لیے یہ کڑوا گھونٹ بھی پی لوںگا۔
ایسے نہ معلوم کتنے غربت کے مارے لوگ ہیں جو اپنی بد قسمتی کی ہر قیمت چکانے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور ہمارا کٹھور سماج اپنی سخاوت کا ڈنکا بجانے کے لیے ان کے جذبات کا ذرا بھی خیال نہیں کرتا اور ان کی مفلسی سے کھیلتا ہے، ان کی عزت نفس کو لہولہان کرتا ہے۔ نشہ دولت انسان کو اندھا و بے حس کردیتا ہے، اخلاص و للہیت کی جملہ نصیحتیں کہیں دور محو خواب ہوتی ہیں۔ یاد کیجیے رمضان میں رسول اللہ بہتی ہواؤں سے بھی زیادہ سخی ہوتے تھے، آپ کا فیضان سخاوت عام ہوجاتا تھا، سلف اسوہ رسول کی پیروی میں اناج سے بھری بوریاں رات میں لے کر غریبوں کی بستیوں میں اس لیے نکلتے تھے کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ غور کیجیے، ریا و نمود کا دور دور تک کہیں سراغ نہیں ملتا۔ ضروری ہے کہ ضرورتوں کے اس مہینے میں بے لوث نبی اور سلف کے اسوے کو اپنایا جائے، اللہ کی دی ہوئی دولت سے غرباء و مساکین کی دلجوئی کی جائے، ان کی ڈھارس بندھائی جائے، آپ کے دیے ہوئے چند روپوں سے آپ کی دولت گھٹ تو نہیں جائے گی لیکن غریب کے گھر کا دامن خوشیوں سے بھر جائے گا، اداس در و بام پر خوشیوں کی کرن اتر آئے گی۔ چند لمحوں کی یہ خوشی تو قسمت کے ماروں کو دے ہی سکتے ہیں۔

بڑے گھروں میں رہی ہے بہت زمانے تک
خوشی کا جی نہیں لگتا غریب خانے میں
(نعمان شوق)

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Kashif Shakeel

ماشاء اللہ بہت خوب لکھا، کمال کا لکھا۔

بارک اللہ فیکم و جزاکم خیراً کثیرا
اس خوبصورت مضمون پر ڈھیروں مبارکباد۔