ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

رشید سمیع سلفی

ایک اور ماب لنچنگ کی دلدوز ویڈیو وائرل ہوئی ہے، وہی لاٹھی اور ڈنڈے کی وحشیانہ ضربیں، وہی جے شری رام کے نعرے، وہی درندگیت اور قہرمانیت، وہی فلک شگاف چیخیں، جو دادری سے سفر کرتے ہوئے یہاں تک پہونچی ہے، وہ نوجوان تھا، صحت مند تھا، سخت جان تھا لیکن ظالموں کی جارحیت اس سے کہیں زیادہ ہولناک تھی، وہ جھارکھنڈ کا مظلوم تبریز تھا جو ایک بھیڑ کے قہر وغضب کا نشانہ بن رہا تھا، رات بھر وہ مظلوم ظالموں کے ہاتھوں بندی بنا رہا، اس پر ظلم کے وہ تمام حربے آزمائے گئے جن پر جنونیوں کا بس چلا، اب وہ اس قیامت خیز رات کی داستان درد بیان کرنے کے لیے دنیا میں نہیں ہے۔ لیکن خبروں کی سرخیوں میں، ٹی وی کے اسکرین پر موت سے پہلے کا منظر پلے ہورہا ہے۔ اس کا وجود تو خاموش ہے لیکن اس کی موت تماشا بنی ہوئی ہے۔
تماشا دیکھنے آئے ہیں میرے دم نکلنے کا
بڑھا دے اے قضا مشکل کہ ان کا دل بہلتا ہے

ڈیڑھ سال قبل اس کی شادی ہوئی تھی، وہ عید منانے پونہ سے گھر آیا تھا لیکن بے رحم رام بھگتوں کو ایک اور ہجومی تشدد کا تجربہ دوہرانہ تھا، اسے کیا پتہ تھا کہ وہ ایسے درندوں کے ہتھے چڑھنے والا ہے جو صرف شکلوں سے انسان لگتے ہیں، بہیمیت وسبعیت، سفاکیت ودرندگیت میں وہ آدم خوروں سے بھی دو قدم آگے ہیں، وہ رحم کی بھیک مانگتا رہا، گڑگڑاتا رہا، جان بخشی کے لیے جے شری رام اور جے ہنو مان بھی بولتا رہا لیکن شاید رام کے دھرم میں رحم اور معافی کی گنجائش نہیں تھی یا پھر وہ اسے بھی 72 حوروں کے پاس بھیجنے کی قسم کھاچکے تھے، بہر حال رام کے بھگتوں نے رام کے نام پر ایک اور بلیدان دے دیا، جمہوریت کے ماتھے پر ایک اور کلنک لگا؟ اب چاہے کوئی نندا کرے، چاہے کوئی تعزیت کرے، چاہے کوئی افسوس جتائے، یہ سب کرنےسے تبریز واپس نہیں آجائے گا اور نہ ہی ہجومی تشدد پر روک لگے گی بلکہ ابھی پتہ نہیں کتنی لاشیں رام کے نام پر اور گریں گی، ظلم وبربریت کی کتنی داستانیں رام کی طرف منسوب ہوں گی۔

ایک دور گزرگیا اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گردی کی پھبتی کستے کستے، اب ماب لنچنگ کا خون آشام دور آیا ہے، پوری دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے لیکن کیا مآب لنچنگ کے دور میں آتنک واد کی تعریف بدل گئی یا فکر و سوچ کے زاویوں کو کوئی اور ڈرامہ سوجھا ہے؟
کہاں ہیں مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والے؟ کہاں ہیں داعش وطالبان کی بربریت پر آسمان سرپر اٹھانے والے؟ اب اس انسانیت کو شرمسار کردینے والے واقعے پر خاموش کیوں ہیں؟ اب تمھارا ضمیرانسانیت کے غم‌ میں کیوں نہیں تڑپتا؟ کہاں ہیں وہ مسلمان جو عالم اسلام کی رنگ بدلتی سیاست پر گرماگرم اداریہ لکھتے ہیں؟ کیا خواتین کے غم میں نڈھال مودی جی تبریز کی بیوی کو انصاف دلائیں گے؟ اس کے درد بیوگی کا مداوا کریں گے؟ کیا حقوق انسانی کی تنظیمیں آگے آکر ماب لنچنگ کے خلاف سرکار پر دباؤ بنائیں گی؟ دیکھ لینا یہ شور و غوغا پھر بند ہوجائے گا اور ماب لنچنگ کا راکھشش پھر کسی بے بس مسلمان پر اپنے دانت آزمائے گا۔
میڈیا تومذمت کررہا ہے، ٹی وی پر ہمیشہ کی طرح بحث چل رہی ہے، سب کا ساتھ اور سب کا وشواش کی بات کرنے والے کمال بے شرمی کے ساتھ اسے چوری کی واردات کا رد عمل بتا رہے ہیں، اسے ایک حادثہ قرار دے رہے ہیں، کہا جارہا ہے کہ مجرموں کو سزا ہوگی، لیکن پھر ان گنہگاروں کی ضمانت بھی ہوگی، ہرطرح ان کی مالی مدد بھی ہوگی، وہ رہا ہوجائیں گے، اور انھیں مالا بھی پہنایا جائے گا، پرچار بھی کریں گے۔

ادھر قوم مسلم کا ضمیر پوری طرح بے حس ہوچکا ہے، ایسالگتا ہے کہ انھوں نے حالات کے رحم وکرم پر اپنی قوم کو چھوڑ دیا ہے، چاروں طرف مکمل سکوت چھایا ہوا ہے، اگر اب بھی ہم نے اپنے تحفظ کو لے کر کوئی موثر قدم نہ اٹھایا تو مستقبل کتنا اذیت ناک ہوگا، ہم اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

رہی بات ارباب اقتدار کی تو وہ ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جارہے ہیں، مآب لںچنگ کے یہ واقعات حالات کو کس رخ پر ڈال دیں گے، انھیں اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہے، وقت کے حاکمو! ذرا ہوش کے ناخن لو کہ پانی سر سے گزر رہا ہے اگر تحفظ اور انصاف سے لوگ مایوس ہو کر جوابی کارروائیاں کرنے لگے تو کیا ہوگا؟ جب حکمرانوں کا ظلم وجور بڑھتا ہے تو کوئی 1857جیسی بغاوت جنم لیتی ہے، دہشت گرد یوں ہی نہیں پیدا ہوا کرتے، حالات کا جبر انسانوں کو دہشت گرد بناتا ہے، جب کوئی قوم زندگی وموت کے دوراہے پر پہونچ جائے تو اپنی بقا کے لیے وہ سب کچھ کرتی ہے جو اسے سجھائی دیتا ہے۔
پاپ کا گڑھا تو کب کا بھر چکا ہے یہ قوم صبر و برداشت کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کرب واضطراب کا آتش فشاں پھٹ پڑے اور ملک کا مظلوم طبقہ بے قابو ہوکر مرنے مارنے پر اترآئے، گلی کوچوں میں دوطرفہ واردات ہورہی ہوں، جہاں جس کا زور چلے وہاں وہ بربریت کا ننگا ناچ شروع کردے، پورا ملک جنگ کا میدان بن جائے،کوئی بھی محفوظ نہ ہو،کس گلی میں زندگی کی شام‌ہوجائے کوئی ٹھیک نہ ہو، ہماری تو دعاہے کہ ملک امن کا گہوارہ بنا رہے لیکن نفرت کی گھٹا گرج کر اب بھی نہ کھلی تو ضبط کا باندھ ٹوٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ لیکن تب شاید بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اگر ایسا ہوا تو ملک کا کیا ہوگا؟ کیا آگ اور خون کے سائے میں ملک ترقی کا خواب پورا کرسکے گا؟ امن کے بغیر ہم دنیا میں کوئی پیش رفت کرسکیں گے، کیا وکاس کے لیے ایسے ہی خونریز حالات درکار ہوتے ہیں؟ اگر ملک کے حکمران بدنیت نہیں ہیں تو انھیں فرقہ پرستی کے خلاف سختی کے ساتھ قدم اٹھانا ہوگا، ایسے عناصر کی گوشمالی کرنی ہوگی جو ماب لنچنگ جیسے واقعات کا سبب بنتے ہیں جب تک خاطیوں کو عبرتناک سزائیں نہیں ملیں گی حالات قابو میں آنے والے نہیں، قانون ہاتھ میں لینے والوں کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے لیکن ہم جب پلٹ کرارباب اقتدار کا ماضی اور موجودہ سرد مہری دیکھتے ہیں تو کہنا پڑتا ہے۔
تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی اے شوخ ترا چاہنے والا نکلا

آپ کے تبصرے

avatar
3000