صحابۂ کرام ہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت و مصاحبت کا مرتبۂ عظیم حاصل ہے، یہ وہ پاکیزہ نفوس ہیں جنھوں نے نبی کی صبح و شام دیکھی ہے، آپ سے براہ راست استفادہ کیا ہے، جن کی پاکیزگی، پاک طینتی، عدالت اور جلالت نفسی کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے دی ہے، جنھیں دنیا ہی میں رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کے عظیم الشان منصب پر متمکن کرکے جنت کا مژدہ جانفزا سنادیا گیا، ان کی افضلیت اور مقام بلند کا کیا کہنا کہ وہ قرآن مجید کے اوّلین مخاطب تھے، ان کے سامنے دنیا کی سب سے مقدس کتاب قرآن مجید کا نزول ہوا، جن کی مدح سرائی و ثناخوانی کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جہاں تعریف کے الفاظ کا دم گھٹنے لگتا ہے کہ قرآن مجید خود ان کی مدح و ثنا میں رطب اللسان ہے، جابجا ان کی اسبقیت و افضلیت کا تذکرہ ہے۔ کہیں ان کے لیے جنت میں تیار کردہ انعامات کا ذکر ہے، کہیں ان کی ہجرت و ایمان کی تعریف ہے، کہیں ان کے سجود و قیام اور نبی ﷺ کے ساتھ تعامل کی ثنا ہے۔ ان کے علو مرتبت کا عالم تو یہ ہے کہ نبی ﷺ نے اس صدی کو خیرالقرون کہہ دیا جس میں صحابۂ کرام موجود تھے۔ کہیں ’’لاتسبوا أصحابی۔۔۔‘‘ کہہ کر اپنے اصحاب کی شان میں گستاخی کرنے والوں کی شدید مذمت فرمائی ہے، کہیں ان کو ہدایت کا ستارہ کہا ہے۔ ’’اللّٰہ اللّٰہ فی أصحابی‘‘ کہہ کر انھیں بلندی کا وہ مقام عطا کیا جہاں کوئی غیرصحابی نہیں پہنچ سکتا۔ اس طرح سیرت نبوی ﷺ کے زرّیں صفحات پر ان کی فداکاری و جان نثاری تا قیامت کے لیے ثبت فرمادی گئی۔
صحابۂ کرام کے طریقہ عمل کو رسول اکرم ﷺ نے اپنا طریقہ عمل بتایا اور ان سے بغض و عداوت کو خود نبی سے بغض و عداوت بتایا اور صحابہ کا طریقہ عمل اور منہج خالص کتاب و سنت کا اتباع و پیروی ہے۔ اس منہج سے ہٹ کر کوئی اور راہ اختیار کرنا شدید گمراہی و ضلالت ہے۔ اس منہج پر جو امت قائم ہے اسے سلف نے ’’أہل السنۃ والجماعۃ‘‘ اور اہل الحدیث کے لقب سے یاد کیا ہے اور یہی جماعت تاقیامت باقی رہنے والی ہے۔ اللہ امت بیضاء کو سیدھی راہ پر قائم رکھے۔
صحابی:
معنی و مفہوم:
صحابی کی تعریف میں اہل علم نے کافی اختلاف کیا ہے۔ ذیل میں مشہور تعریفات کے ساتھ راجح تعریف کا ذکر کیا جارہا ہے:
۱- صحابی لغوی اعتبار سے ’’الصحبۃ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ علامہ باقلانی کہتے ہیں: ’’صحابی کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوتا ہے جو کسی کی صحبت میں رہے، یہ مدت خواہ قلیل ہو یا کثیر۔‘‘(1)
اصطلاحاً:
قال ابن الصلاح نقلاً عن البخاری:
۲- انه کل مسلم رأی النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
’’ہر وہ مسلمان جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو۔‘‘
۳- ان من طالت مجالسته علی الطریق التبع۔
صحابی وہ ہے جس نے کسی کی طویل مجالست کی ہو اور اس سے استفادہ بھی کیا ہو۔ (قالہ أصحاب الأصول)
۴- إنه لا یعد صحابیا إلا من أقام مع رسول اللہ ﷺ سنة أو سنتین أو غزا معه غزوۃ أو غزوتین۔
صحابی وہ ہے جس نے نبی ﷺ کے ساتھ ایک یا دو سال گزارے ہوں یا ایک یا دو غزوہ کیا ہو۔ (2)
راجح:
من لقی النبی مومناً ومات علی الإسلام۔
صحابی وہ ہے جس نے حالت ایمان میں نبی ﷺ سے ملاقات کی ہو اور اسی پر اس کی وفات ہوئی ہو۔ (3) قالہ ابن حجر (4)
صحابۂ کرام کے فضائل و مناقب:
ایک مومن پر واجب ہے کہ وہ صحابۂ کرام سے عقیدت و محبت رکھے اور ان کی اطاعت کا جذبہ ہمہ وقت دل میں بسائے رکھے۔ ان سے بغض و عداوت موجب کفر اور غضب الٰہی کو دعوت دینا تصور کرے، اس بات کا عقیدہ رکھے کہ صحابۂ کرام دیگر تمام مومنین سے افضل و اشرف ہیں۔ البتہ آپس میں ان کی افضلیت کے درجات متفاوت ہیں۔ پہلے خلفاء راشدین پھر عشرئہ مبشرہ پھر ان کے علاوہ مبشرین بالجنۃ وغیرہ۔ (5)
جملہ صحابۂ کرام کی اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مقدس میں بڑے عمدہ پیرائے میں مدح سرائی کی ہے۔ تعریف و توصیف کے انتہائی اور کمال درجے کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ چنانچہ مہاجر صحابۂ کرام جنہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ صبر آزما مراحل کو برضا ورغبت طے کیا۔ اللہ کے نام پر بے عزتی کو غیر اللہ کے نام کی عزت پر ترجیح دی۔ اللہ کے نام پر بھوک کو غیر اللہ کے نام کی شکم سیری پر ترجیح دی۔ انہوں نے محض اللہ و رسول کی خوشنودی کے لیے اپنا مال و متاع سب کچھ چھوڑکر مدینہ ہجرت کی، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں خوشنودی کی سند سے نوازا۔ ’’رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ۔‘‘ (المجادلۃ: ۲۲)
اسی طرح انصار نے مہاجرین کے لئے اپنا سب کچھ وقف کردیا، حتیٰ کہ جن کے پاس دو بیویاں تھیں ان میں سے ایک کو اپنے بھائی کے لئے طلاق دے دی۔ الغرض انصار نے نبی ﷺ اور مہاجر صحابۂ کرام کی تکریم و تعظیم اور عزت افزائی میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔
قرآنی آیات و احادیث نبویہ میں مناقب صحابہ:
۱- وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُمْ بِإِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُo (التوبۃ: ۱۰۰)
’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جن میں ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘
۲- إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالَّذِیْنَ آوَوْا وَّنَصَرُوْا أُوْلٰـئِکَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَائُ بَعْضٍ۔ (الأنفال: ۷۲)
’’جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی، یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔‘‘
۳- أَنِّیْ لاَ أُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنثٰی بَعْضُکُم مِّنْ بَعْضٍ فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَأُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَأُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقَاتَلُوْا وَقُتِلُوْا لأُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّئَاتِہِمْ وَلَأُدْخِلَنَّہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ ثَوَاباً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ۔
(آل عمران:۱۹۵)
’’تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، میں ہرگز ضائع نہیں کرتا، تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو، اس لیے وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکال دیے گئے اور جنھیں میری راہ میں ایذا دی گئی اور جنھوں نے جہاد کیا اور شہید کیے گئے، میں ضرور ضرور ان کی برائیاں ان سے دور کردوں گا، اور بالیقین انھیں ان جنتوں میں لے جائوں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہ ہے ثواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس بہترین ثواب ہے۔‘‘
۴- لٰـکِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا مَعَـہٗ جَاہَدُوْا بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ وَأُوْلٰـئِکَ لَہُمُ الْخَیْْرَاتُ وَأُوْلٰـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَo أَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُo (التوبۃ: ۸۸-۸۹)
’’لیکن خود رسول (ﷺ) اور اس کے ساتھ ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں، یہی لوگ بھلائیوں والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں، انھیں کے لیے اللہ تعالیٰ نے وہ جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، جن میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
مذکورہ بالا آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول ﷺ کے اصحاب کی بڑی واضح تعریف کی ہے۔ ان کی جانثاریوں و فداکاریوں کا تذکرہ کیا ہے۔ پھر بدلہ میں اس بدلہ اور انعام کا ذکر کیا ہے جو انہیں جنت میں داخل ہونے کی صورت میں ملے گا۔ کیا ہی بے مثال کا میابی ہے یہ۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار احادیث میں اپنے صحابہ کی تعظیم و تکریم کا امت کو سبق دیا ہے۔ ان سے بغض و عداوت نفاق و کفر کی علامت ہے۔ اور ان کی ناراضگی اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
(۱) عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ خیر أمتی القرن الذین بعثت فیھم ثم الذین یلونھم۔ (6)
’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کے بہترین افراد وہ لوگ ہیں جن کے درمیان مجھے بھیجا گیا پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں۔‘‘
(۲) عن أبی موسیٰ رضی اللہ عنہ أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم رفع رأسہ إلی السماء و کان کثیراً ما یرفع رأسہ إلی السماء فقال : النجوم أمنۃ للسماء فإذا ذھبت النجوم أتی السماء ماتوعد، وأنا أمنۃ لأصحابی فإذا ذھبت أتی أصحابی مایوعدون، و أصحابی أمنۃ لأمتی، فإذا ذھب أصحابی أتی أمتی مایوعدون۔ (7)
’’ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور آپ اکثر آسمان کی طرف سر اٹھاتے تھے، پھر فرمایا: ستارے آسمان کے محافظ ہیں، اگر ستارے ختم ہوجائیں تو آسمان پر وعدہ کی ہوئی چیز واقع ہوجائے گی اور میں صحابۂ کرام کا محافظ ہوں، اگر میں نہ رہا تو صحابۂ کرام پر وہ چیز واقع ہوجائے گی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے، اور میرے صحابہ میری امت کے نگہبان ہیں، اگر میرے صحابہ ہی نہ رہے تو میری امت پر وہ چیز واقع ہوجائے گی جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘
ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام کا دور بعد کے ادوار کے بالمقابل احسن و افضل ہے، اور ان کے قلوب باستثناء انبیاء و رسل تمام اہل دنیا سے پاکیزہ تھے۔ اور صراط مستقیم کا نشان انہیں کی زندگی میں ملے گا۔ ہزاروں انعام ہوں اللہ کی ان برگزیدہ ہستیوں پر، ہزاروں رحمتیں ہوں ان نفسوس قدسیہ پر۔
صحابۂ کرام کو طعن و تشنیع کرنے کی ممانعت و حرمت:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لا تسبو أصحابی، لا تسبو أصحابی فوالذی نفسی بیدہٖ لو أنفق أحدکم مثل أحد ذھباً ما أدرک مد أحدھم ولا نصیفہ۔‘‘ (8)
’’میرے صحابہ کو جرح و تنقید اور برائی کا ہدف نہ بنائو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص اگر اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو وہ کسی صحابی کے خرچ کردہ ایک مد (تقریباً ایک سیر) بلکہ آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔‘‘
وقال ابن عمر رضی اللہ عنہما:’’ لاتسبوا أصحاب محمدصلی اللّٰہ علیہ وسلم فلمقام أحدھم ساعۃ یعنی مع النبی ﷺ خیر من عمل أحدکم أربعین سنۃ۔‘‘ (9)
’’ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: صحابۂ کرام کو برا بھلا مت کہو، ان کا نبی ﷺ کے ساتھ ایک ساعت بھی گزارنا تمہارے چالیس سالوں کے عمل سے بہتر اور پسندیدہ ہے۔‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں بڑی تفصیلی بحث کی ہے۔ ذیل میں خلاصہ پیش خدمت ہے:
(۱) جس نے صحابۂ کرام کو سب وشتم کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کو الوہیت کا درجہ دے دیا اور ابلاغ وحی میں جبرئیل علیہ السلام کی غلطی ٹھہرائی تو اس کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں۔
(۲) جس نے گمان کیا کہ آیات قرانی میں نقص ہے، اخفاء سے کام لیا گیا ہے اور اس کی باطنی تفسیریں بھی ہیں تو اس کے کفر میں بھی کوئی شک نہیں۔ جس نے مطلقاً طعن کیا اس کے سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے۔
(۳) جس نے کہا تمام صحابۂ کرام سوائے چند (علی الاکثر ۲۰ کی تعداد) کے سب مرتد ہوگئے۔ یا اس نے عام صحابہ کی تفسیق کی، تو اس کے کفر میں بھی کوئی شک نہیں۔
ماحصل اینکہ طعن و تشنیع کی کمی و زیادتی کے بقدر ان کی تکفیر و عدم تکفیر یا ان کے مابین کا فیصلہ کیا جائے گا۔ (10)
صحابۂ کرام کے بارے میں اہل سنت کا موقف:
اس سلسلہ میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول کا اختصار حسب ذیل ہے:
اہل سنت و الجماعت کے اصول یہ ہیں: اہل وسنت والجماعت کے دل و ز بان صحابۂ کرام کے لئے بغض و حسد سے پاک و صاف اور محبت سے مملو ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’والذین جاؤوا من بعدھم … الآیۃ (11) اور اللہ کے رسول ﷺ کے صحابۂ کرام کے سلسلہ میں قول: لاتسبو أصحابی … الحدیث(12) پر پوری طرح قائم ہیں۔ اور صحابۂ کرام کے سلسلہ میں کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت شدہ فضائل و مناقب اور درجات مراتب پر سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ اسی طرح ’’صلح حدیبیہ‘‘ سے قبل انفاق و قتال کرنے والے اصحاب رسول ﷺ کو اس کے بعد کے لوگوں پر فوقیت دیتے ہیں۔(13) اسی طرح مہاجرین کو انصار پر فضیلت دیتے ہیں۔(14) ان کا اس بات پر اعتقاد ہے کہ اہل بدر کے جملہ گناہ معاف کردیے گئے ہیں اور بیعت رضوان میں شریک صحابہ میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔(15) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مبشرین بالجنۃ کے جنتی ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ (16) اور اس منقول بالتواتر حدیث کا کہ ’’اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں‘‘(17) کا اقرار کرتے ہیں۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ کو تیسرے اور علی رضی اللہ عنہ کو چوتھے درجہ پر رکھتے ہیں۔ جیسا کہ احادیث و اجماع سے ثابت ہے(18) لیکن عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ میں افضل کون ہے، اس سلسلہ میں اختلاف ہے۔(19) لیکن خلافت کے باب میں یہی ترتیب صحیح ہے۔ (20) وہ اہل بیت سے محبت کرتے ہیں، انہیں ولی سمجھتے ہیں اور اللہ کے رسول ﷺ کی ان کے تعلق سے وصیت کی حفاظت کرتے ہیں۔ (21) روافض کے طریقہ سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ صحابہ سے بغض و نفاق رکھتے ہیں۔ اور نواصب سے بھی بری ہیں کہ وہ لوگ اہل بیت کو قول وعمل سے ایذا پہنچاتے ہیں۔ وہ صحابہ کے مابین اختلافات و مشاجرات کے تعلق سے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔(22) لیکن معصومیت کے قائل نہیں ہیں۔(23)
منہج صحابہ اور اس سے انحراف:
اسلامی شریعت کی بنیاد کتاب وسنت پرقائم ہے۔ انہیں دونوں کی خالص اتباع وپیروی عین اسلام وایمان ہے،اس اتباع و انقیاد کی راہ میں کسی بھی قسم کی مداہنت دلوں کے زیغ کی علامت ہے، بلاکسی تقلیدی جمود اور پیرویِ اشخاص وآباء کے خالص کتاب وسنت کی اطاعت پرسرتسلیم خم کرنا ہی عین منہج صحابہ ہے، اس سے روگردانی صحابہ کے منہج وطریقۂ کار سے اعراض وانحراف ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کتاب و سنت اور منہج صحابہ پر کاربند رہنے کی تعلیم یہ کہہ کردی ہے:
’’علیکم بسنتـی و سنـۃ الخلفاء المھدیین الراشدین۔ (24)
’’میری سنت اور ہدایت یاب خلفاء راشدین کے طریقہ کو لازم پکڑو۔‘‘
منہج صحابہ قیامت تک باقی رہے گا اور وہ تمام فرقے جومنہج صحابہ پرقائم نہیں مغلوب اور خائب وخاسر ہوں گے۔ ارشاد نبوی ہے:
لاتزال طائفۃ من أمتی ظاہرین علی الحق، لایضرھم من خالفھم۔ (25)
’’ میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، ان کی مخالفت کرنے والا ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔‘‘
امت ۷۳ فرقوں میں بٹ جائیگی ،اورسب جہنمی ہوں گے۔ سوائے ان کے جومنہج صحابہ پرقائم ہوں۔ ارشاد نبوی ہے:
تفترق أمتی علیٰ ثلاث وسبعین ملۃ کلھم فی النار إلا ملۃ واحدۃ۔ قالوا: ومن ھی یا رسول اللہ؟ قال: ما أنا علیہ وأصحابی۔ (26)
’’ میری امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی سوائے ایک کے سارے فرقے جہنمی ہوں گے، لوگوں نے کہا: وہ (جنتی) کون سا فرقہ ہے اے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا: جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر قائم ہوگا۔‘‘
حاصل یہ کہ اس امت کواگرراہ مستقیم پرآنا ہے اور سعادت کا حصول مطلوب ہے تو اسے منہج صحابہ کواختیار کرنا ہوگا۔
اب ذیل میں ہم مختلف ابواب و گوشہ ہائے حیات میں مناہج صحابہ کاتذکرہ کرنامناسب سمجھتے ہیں:
(۱) ’’اعتقاد میں‘‘صحابۂ کرام کامنہج :
عقائد کے باب میں سب سے بنیادی اہمیت اوراساسی مقام ایمان کوحاصل ہے۔ایمانیات کی تصحیح اوراس سے متعلقہ مباحث کی تنزیہ ہی میں اخروی سعادت وکامرانی کاراز مضمرہے، اس کا معاملہ بالکل وہی ہے کہ:
’’إذا صلحت صلح الجسد کلہ وإذا فسدت فسد الجسد کلہ‘‘
اس سلسلہ میں صحابہ کامنہج وہی تھا جو کتاب وسنت میںبیان کیاگیاہے،اس میں ان کا کوئی اختلاف معلوم نہیں،یہ وہ عقیدہ ہے جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کے استفسار پرفرمایاتھا،جوحدیث جبرئیل کے نام سے موسوم ہے،انہوں نے اسلام،ایمان،احسان اور قیامت کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ نے ’’ایمان ‘‘کے جواب میں فرمایا:
أن تؤمن باللہ وملائکتہ وکتبہ، ورسلہ، والیوم الاخر، والقدر خیرہ وشرہ،(27)
گویا اللہ، فرشتوں، آسمانی کتابوں، رسولوں، یوم آخرت اور تقدیر کی بھلائی و برائی پر ایمان، ایمان کے ارکان ہوئے۔
(۲) ’’اعمال میں‘‘ صحابۂ کرام کا منہج:
عقائد کے بعد انسانی زندگی میں دوسری چیز ’’اعمال صالحہ‘‘ ہے۔ صحابۂ کرام کا طریقۂ کار اس سلسلہ میں بہت واضح تھا، وہ کسی بھی عمل کی انجام دہی میں تین باتوں کا لحاظ رکھتے تھے:
(۱) صحت عقیدہ
(۲) اخلاص فی العمل
(۳) موافقت کتاب و سنت (28)
اگر کوئی شخص کوئی عمل کررہا ہے تو اس کی قبولیت انہیں تینوں چیزوں پر منحصر ہے۔ عمل کرنے والا عقیدئہ خالص کا حامل اور عمل شرک و بدعت سے خالی و پاک ہونا چا ہیے۔ اسی طرح وہ عمل ریاء و نمود اور جذبۂ شہرت سے دور خالصتاًللہ ہونا چاہیے۔ اور اس میں کسی امام کی تقلید نہ ہوبلکہ خالص کتاب و سنت کے موافق ہو۔ صحت عقیدہ اور اخلاص فی العمل کے معاملہ میں صحابۂ کرام کی نظیر نہیں، وہ موافقت کتاب و سنت کا حددرجہ اہتمام کرتے تھے۔ ملاحظہ ہو:
عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال: بینما رسول اللہ یصلی بأصحابہ إذ خلع نعلیہ فوضعھما عن یسارہ فلما رأی القوم ذالک ألقوا نعالھم، فلما قضی رسول اللہ ﷺ صلاتہ قال: ماحملکم علی إلقائکم نعالکم؟ قالوا رأیناک ألقیت نعلیک فألقینا نعالنا، فقال رسول اللہ ﷺ: إن جبریل أتانی فأخبرنی أن فیھما قذراً۔ (29)
’’ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: دریں اثناء کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو صلاۃ پڑھا رہے تھے، آپ نے اپنے جوتے نکال کر بائیں طرف رکھ لئے، جب لوگوں نے دیکھا تو انھوں نے بھی اپنے جوتے نکال دیے۔ صلاۃ مکمل کرنے کے بعد آپ نے پوچھا کہ تم لوگوں نے اپنے جوتے کیوں نکال دیے تو انھوں نے جواب دیا کہ آپ کو دیکھ کر، آپ نے فرمایا: جبرئیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی کہ ان جوتوں میں گندگی لگی ہے۔‘‘
آپ کی موافقت فی الاعمال کا صحابہ کرام کس درجہ اہتمام کرتے تھے۔
(۳) اتباع و امتثال میں صحابۂ کرام کا منہج :
اتباع و امتثال اور انقیاد کی جو مثال صحابۂ کرام نے قائم کی پوری انسانی تاریخ اس کو پیش کرنے سے قاصر ہے۔ صحابۂ کرام سنت رسول کی ادنیٰ سی مخالفت بھی برداشت نہیں کرتے تھے:
عن عمارۃ بن دویبۃ رضی اللہ عنہ قال رأی بشر بن مروان علی المنبر رافعا یدیہ فقال: قبح اللّٰہ ہا تین الیدین، لقد رأیت رسول اللہ ﷺ ما یزید علی أن یقول بیدہ ہکذا و أشار بإصبعہ المسبحۃ۔ (30)
’’عمارہ بن دویبہ رضی اللہ عنہ نے مروان کے بیٹے بشر کو (دوران خطبۂ جمعہ) منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو فرمایا: اللہ ان دونوں ہاتھوں کو خراب کرے میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس سے زیادہ کرتے نہیں دیکھا ،اور اپنی انگشتِ شہادت سے اشارہ کیا۔‘‘
اس کے علاوہ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے قول یا فعل کے خلاف کسی قسم کی بات سننا یا اسے حقیر سمجھنا سخت ناپسند کرتے تھے:
عن ابن عمر رضی اللہ عنھما أن رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’لاتمنعوا إماء اللہ أن یصلین فی المسجد‘‘ فقال ابن لہ انا لنمنعہُنّ فغضب غضباً شدیداً وقال أحدّثک عن رسول اللہ ﷺ وتقول إنّا لنمنعھنّ۔ (31)
’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم لوگ اللہ کی بندیوں (عورتوں) کو مسجد میں آنے سے نہ روکو۔‘‘ ان کے بیٹے نے کہا: ہم تو روکیں گے۔ عبد اللہ رضی اللہ عنہ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: ’’میں تیرے سامنے حدیث رسول بیان کررہا ہوں اور تو کہتا ہے کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے۔‘‘
اتباع کا عالم یہ تھا کہ علم ہوجانے کے بعد اگر کوئی مسئلہ دریافت کرتا تو صحابہ سخت ناراض ہوجاتے:
عن الحارث بن عبد اللّٰہ بن أوس رضی اللہ عنہ قال: أتیتُ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فسالتُہ عن المرأۃ تطوف بالبیت یوم النحر ثم تحیض قال: لیکن آخرُ عہدِھا بالبیت قال: فقال الحارث: کذالک أفتانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال، فقال عمر: أربت عن یدیک سألتنی عن شیء سألتَ عنہ رسول اللہ ﷺ لکی ماأخالف۔ (32)
’’حارث بن عبداللہ بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا اور ان سے پوچھا: اگر قربانی کے دن طواف زیارت کرنے کے بعد عورت حائضہ ہوجائے تو کیا کرے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا (طہارت حاصل کرنے کے بعد) آخری عمل بیت اللہ کا طواف ہونا چاہیے۔ حارث نے کہا: رسول ﷺ نے بھی مجھے یہی فتویٰ دیا تھا، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں تو نے مجھ سے ایسی بات پوچھی، جو رسول سے پوچھ چکا تھا تاکہ میں رسول کے خلاف فیصلہ کروں۔‘‘
صحابۂ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع من و عن کرتے تھے، ذرا بھی انحراف بلکہ ذرہ برابر تبدیلی جرم عظیم تصور کرتے تھے۔ملاحظہ ہو:
پہلی مثال:
عن زید بن أسلم عن أبیہ أنّ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال للرّکن: أما واللہ إنی لأعلم أنک حجر لاتضرُّ ولاتنفع ولولا أنّی رأیتُ النبیﷺ استلمک ما استلمتُک فاستلمہ ثم قال: فمالنا وللرمل إنّما کنّا رأینا بہ المشرکین وقد أھلکھم اللّٰہ ثم قال: شیء صنعہُ النبی ﷺ فلا نحُبّ أن نترکہ۔ (33)
’’زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو مخاطب کرکے کہا: واللہ! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے، نہ نفع دے سکتا ہے ،اگر میں نے نبی اکرمؐ کو استلام (حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ لگانا) کرتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی نہ چومتا۔ پھر فرمایا: اب ہمیں رمل کرنے کی کیا ضرورت ہے، رمل تو دشمنوں کو دکھانے کے لئے تھا، اب تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا، پھر خود ہی فرمایا: لیکن رمل تو وہ چیز ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے اور ہمیں یہ چھوڑنا پسند نہیں۔‘‘
دوسری مثال:
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال: اتخذ النبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتما من ذہب فاتخذ الناس خواتیم من ذھب فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: إنّی اتخذت خاتما من ذھب فنبذہ وقال: إنی لن ألسبہ أبدا، فنبذ الناس خواتیمھم۔ (34)
’’ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی، تو صحابۂ کرام نے بھی آپ کی دیکھا دیکھی سونے کی انگوٹھیاں بنوالیں، آپ نے فرمایا: میں نے سونے کی انگوٹھی بنوائی تھی (تم نے بھی بنوالیں) پھر آپ نے انگوٹھی اتاردی اور فرمایا: اب میں کبھی استعمال نہیں کروںگا (آپ کی اتباع میں) صحابۂ کرام نے بھی اپنی اپنی انگوٹھیاں اتار پھینکیں۔‘‘
تیسری مثال:
عن جابر رضی اللہ عنہ قال لمّا استوی رسول اللہ ﷺ یوم الجمعۃ قال: اجلسو۔ فسمع ذلک ابن مسعود رضی اللہ عنہ فجلس علی باب المسجد فرآہ رسول اللہ ﷺ فقال: تعال یا عبد اللہ بن مسعود۔ (35)
’’جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جمعہ کے دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ دینے کے لیے) منبر پر تشریف لائے تو فرمایا: لوگو بیٹھ جائو۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سنا تو مسجد کے دروازے پر ہی بیٹھ گئے۔ رسول اللہ نے دیکھا تو فرمایا: عبد اللہ! مسجد کے اندر آکر بیٹھ جائو۔‘‘
صحابۂ کرام جملہ امور میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع وپیروی کرتے تھے، آپ نے جو کیا، کہا یا دیکھ کر خاموش رہے وہ عمل صحابہ کے لئے کافی ہوتا۔ بعینہٖ اسی طرح کرنے کی کوشش بھی کرتے، خواہ اس کا تعلق عقائد و احکام سے ہو یا عبادات و معاملات سے، اتباع نبوی صحابۂ کرام کی زندگی کا جزو لاینفک بن گیا تھا۔
منہج صحابہ سے انحراف کا تاریخی پس منظر
قدیم انحراف:
حق وباطل کی کشاکش کی تاریخ بڑی قدیم ہے۔ اہل باطل نے حق کو کتاب وجود سے مٹانے کے لئے اپنی توانائیاں اور قوتیں صرف کردیں،لیکن قانون الٰہی نے باطل کو سرنگوں اور حق کو سربلند کر کے ہمیشہ اس کی حقانیت کا کھلا اعلان کیا ہے۔اس کے باوجود باطل اپنے عمل سے نہ تھکا نہ باز آیا، ریشہ دوانیاں برابر جاری رہیں، کبھی منہج رسول وصحابہ سے بغاوت کر کے اور کبھی اس سے خاموش انحراف کر کے، چنانچہ منہج صحابہ سے انحراف کی تاریخ بڑی قدیم ہے، یہ سلسلہ دور صحابہ سے ہی شروع ہوچکا تھا، وفات نبوی اور رحلت شیخین کے بعد اس سلسلہ کا آغاز ہوا تھا اور تاہنوز پوری سرگرمی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
شریعت مطہرہ کے تئیں صحابہ کے منہج کی وضاحت کے بعد اس سے انحراف کی سرسری تاریخ کی وضاحت ضروری ہے، تاکہ موضوع کسی بھی جہت سے تشنہ نہ رہ جائے، اس کو ہم مختلف ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں:
پہلا دور:(تا۳۷ھ)
قرآن مجید رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ۲۳ سالوں میں نازل ہوا، آپ اسے لوگوں تک پہنچاتے رہے اور صحابہ اس پر بآسانی عمل کرتے رہے، انہیں مسائل کے فہم میں دقت نہ ہوتی، اگر ہوتی بھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرلیتے، چنانچہ ان کے درمیان کسی طرح کا کوئی اختلاف نہ ہوا۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: صحابۂ کرام کا بہت سارے مسائل میں اختلاف ہوا اور یہ امت کے سب سے پختہ ایمان والے تھے۔ لیکن بحمدہٖ تعالیٰ انہوں نے اسماء و صفات اور توحید کے کسی ایک مسئلہ میں بھی اختلاف نہ کیا۔(36) معلوم ہوا کہ یہ دور انحرافات وبدعات سے خالی تھا۔
دوسرا دور: (۳۷ھ تا ۱۰۰ھ)
یہ دور علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد شروع ہوتا ہے،جس میں سیاسی اختلافات کے پہلو بہ پہلو بہت سارے انحرافات اور بدعات در آئیں، چنانچہ انہیں کے زمانہ میں خوارج وشیعہ جو عقیدۃً ایک دوسرے کے مقابل تھے، جیسے خطرناک فتنوں کا ظہور ہوا،کچھ دنوں بعد قدریہ اور مر جئہ بھی منصہ شہود پر آئے۔
خوارج کے یہاں صحابہ کے منہج سے انحراف یہ تھا کہ انہوں نے علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین ہونے والی جنگ میں صلح کے وقت حکمین کے فیصلہ کا انکار کرکے ’’إن الحکم إلا للّہ‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔(37)
دوسرے یہ کہ مرتکب کبیرہ کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ کافر اور ’’مخلّد فی النار‘‘ ہے ،اور اس کا خون بہانا جائز ہے۔ (38)
٭ اہل تشیع ابتدا میں تو معتدل تھے، کسی بھی صحابی کی تجریح کئے بغیر علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے قائل تھے، جیسا کہ امام ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ ’’قدماء شیعہ تمام اہل سنت کے ساتھ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی خلافت پر متفق تھے، اصل نزاع عثمان و علی رضی اللہ عنہما کے مابین تقدیم و تاخیر کا تھا۔‘‘(39) پھر یہودی مکار ابن سبا کا ظہور ہوا، جس نے علی رضی اللہ عنہ کی محبت میں بہت غلو کیا اور کہا کہ علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں اور رفتہ رفتہ انہیں الوہیت کے درجہ تک پہنچادیا،(40) اس کے بعد فتنۂ تشیع فرقوں میں بٹتا گیا۔
٭ قدریہ: ان کا انحراف یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ماسبق تقدیر کو اللہ تعالیٰ نہیں جانتا، بلکہ اس کے وقوع کے بعد اللہ کو اس کا علم ہوتا ہے،(41) اور یہ کہ بندے اپنے افعال کے خالق خود ہیں، یہ فرقہ شدہ شدہ ختم ہوگیا، جیسا کہ ابن حجر نے قرطبی سے نقل کیا ہے۔ (42)
٭ مرجئہ: یہ منہج صحابہ سے منحرف تھے، ان کا انحراف یہ تھا کہ وہ عمل کو ایمان سے مؤخر کرتے تھے،یہی ان کی وجہ تسمیہ ہے۔(43) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ارجاء کی تعریف انہیں کے قول کے ذریعہ سے کی ہے کہ انہوں نے شیخین کی خلافت کو تو قبول کیا تھا،مگر عثمان و علی رضی اللہ عنہما کی خلافت پر توقف و تاخر کیا تھا۔(44) دوسرا انحراف یہ تھا کہ ایمان لانے کے بعد گناہ کا ایمان پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ گویا دور ثانی میں مندرجہ بالا انحرافات موجودتھے۔
تیسرا دور: (۱۰۰ھ تا۱۵۰ھ)
اس دور میں چار اشخاص ایسے پیدا ہوئے جو منہج صحابہ سے انحراف کے سرخیل تھے:
(۱) واصل بن عطاء
(۲) جعد بن درھم
(۳) جہم بن صفوان
(۴) مقاتل بن سلیمان
(۱)واصل بن عطاء: بانی معتزلہ،اس کے دو منحرف عقائد تھے:
۱۔ مرتکب کبیرہ نہ مومن ہے،نہ کافر،بلکہ وہ منزلہ بین المنزلتین ہے،پورا قصہ یوں ہے کہ ایک شخص امام حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس آیا،اس نے کہا کہ ایک جماعت ہے جو اصحاب کبائر کو امت سے خارج تصور کرتی ہے یعنی خوارج، دوسری جماعت اصحاب کبائر کو کبائر کے باوجود داخل ایمان سمجھتی ہے، یعنی مرجئہ، پھر حسن بصری کے جواب دینے سے قبل ہی وہ بول پڑا کہ ان کا معاملہ منزلہ بین المنزلتین ہونا چاہیے۔ (45)
(۲) متحاربین میں سے ایک فریق(کوئی بھی ہوسکتا ہے تحدید نہیں کی) فاسق ہے، لہٰذا ان میں سے کسی کی بھی شہادت و گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ (46)
(۲) جعد بن درہم: اس نے منہج صحابہ سے انحراف کرتے ہوئے درج ذیل بدعتیں ایجاد کیں:
۱۔قرآن مجید کلام الٰہی نہیں بلکہ مخلوق الٰہی ہے۔
۲۔اللہ تعالیٰ نے نہ تو موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور نہ ہی ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا۔
۳۔ یہ پہلا شخص ہے جس نے صفات الٰہی کا انکار کیا۔(47)
(۳)جہم بن صفوان: اس کے انحرافات:
۱۔ماسبق تینوں چیزوں میں اس نے جعدکی اتباع کی۔
۲۔ انسان مجبور محض ہے، کسی چیز پر خود قادر نہیں۔
۳۔ ایمان معرفت الٰہی کا نام ہے،اس سے جہالت کفر ہے۔
۴۔ جنت وجہنم فانی ہیں۔
۵۔ اللہ کا علم حادث ہے،یعنی اللہ کو پہلے سے علم نہیں ہوتا بلکہ خلق کے بعد علم ہوتا ہے۔(48)
(۴)مقاتل بن سلیمان: اس کے منہج صحابہ سے انحرافات:
اس کا انحراف یہ تھا کہ اس نے صفات الٰہی کے باب میں حددرجہ غلوکیا، حتیٰ کہ تشبیہ دے دی۔شاید اس کا سبب جہم بن صفوان کا صفات الٰہی کا انکا ر کرنا رہا ہو۔ (49)
چوتھا دور: ( ۱۵۰ھ -۲۳۲ھ)
اس دور میں کوئی نئی بدعت ایجاد نہیں ہوئی۔بلکہ مختصر تبدیلیوں کے ساتھ سابقہ باتیں دہرائی گئیں اور یہ کل چار فرقوں میں منحصر تھیں:
(۱) خوارج
(۲) شیعہ
(۳) معتزلہ
(۴) مرجئہ
اس دور میں معتزلہ نے غیر معمولی ترقی حاصل کی، کیونکہ کلام پر مشتمل کتابیں یونانی زبان سے مترجم ہو کر عربی میں طبع ہوئیں اور اس کے دیرپا اثرات قائم رہے۔
پانچواں دور: (۲۳۲ھ – ۳۲۴ھ)
اس دور میں دو منحرف شخص پیدا ہوئے:
(۱) عبد اللہ بن سعید بن کلاب ( ت ۲۴۲ھ) کلابیہ کا بانی
(۲) محمد بن کرام السجستانی (ت ۲۵۵ھ) کرامیہ کا بانی
ابن کلاب کے دو منحرف عقائد تھے:
۱- صفات اختیاریہ کی نفی۔
۲- کلام لفظی و کلام نفسی کی تقسیم کا انحراف۔
ابن کرام کے منحرف عقائد:
۱- اللہ تعالیٰ کی جسمیت ثابت کرنا۔ (50)
۲- اللہ تعالیٰ پہلے صفت سے متصف نہیں تھا اب ہوگیا ہے۔ (51)
۳- ایمان صرف ’’اقرار باللسان‘‘ کا نام ہے۔ (52)
سابقہ سطور میں جو منحرف عقائد ذکرکئے گئے ان سب کا تعلق دور قدیم سے ہے۔ صحابہ کے منہج سے انحراف کی یہ قدیم تاریخ ہے۔ اس کے اثرات آج بھی معاشرہ میں مختلف شکلوں میں موجود ہیں۔ لہٰذا آگے ہم دور جدید میں منہج صحابہ سے انحراف کی تاریخ کا تذکرہ نہایت اختصار سے کریںگے، تاکہ موضوع کا تاریخی ربط ذہن میں قائم ہوجائے۔
منہج صحابہ کے سلسلہ میں جدید دورکے انحرافات:
مرورِ زمانہ کے ساتھ انحراف کی نوع بہ نوع شاخیں نکلتی رہیں۔ انحرافات کی یہ شکلیں کبھی تو اہل باطل کی طرف سے برسرعام نشر واشاعت کے مراحل سے گزریں اور کبھی اہل حق سے قدم بہ قدم اہل سنت کی پوشاک زیب تن کرکے باطل افکار و نظریات کو خاموش ہوا دی گئی۔ان معتقدات باطلہ کی ترویج وتعمیم میں ایک طرف یہودی وسبائی ذہنیت کار فرما تھی جو دین حنیف کی خالص اور شدید و کٹر دشمن ہے۔ جس کی اساس ہی اسلامی تعلیمات کو ہدف تنقید بنانے اور اس کے اصول و مبادی کی اہمیت و معنویت کو ختم کرنے پر ہے۔ دوسری طرف اس ذہنیت سے فریب خورہ اور ان کی عیارانہ چالوں کے شکا رسادہ لوح مسلمان تھے۔ جن کے ہاتھوں غیر ارادی وغیر شعوری طور پر اسلام کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ جس کا نتیجہ و انجام آج مختلف تحریکات وتنظیمات اور مسالک و مذاہب کی شکل میں اقوام عالم کے مابین ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
قرن اول میں مسلمانوں کا مرجع خالص کتاب و سنت تھا۔ اس کے بعد فقہاء کا دور آیا۔ شریعت کے مسائل میں اجتہادات و استنباطات کئے گئے۔ مختلف ائمۂ کرام نے شرعی مسائل میں خاصا توسع پیدا کردیا۔ امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل ، امام اسحاق بن راہویہ، امام لیث بن سعد، ائمہ کتب ستہ، امام ابن حزم، امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم وغیرہم رحمہم اللہ کی بے پناہ جد وجہد اور حیرت انگیز مجتہدانہ کاوشوں سے حوادث نو کے لئے کتاب وسنت سے مستفاد مسائل میں غیر معمولی وسعت پیدا ہوئی۔ ان تمام اکابر ائمہ اور اعا ظم رجال نے تو خالص نیتوں کے ساتھ مسائل شریعت اکٹھا کئے تاکہ آئندہ نسلوں کے لئے شرعی بنیادوں پر زندگی گزارنا آسان ہوسکے۔ مگر افسوس کہ پانچ سو سال کے بعد منہج سے منحرف ہو کر امت کے معدوں نے افکار کی سڑی مکھیوں کو قبول کرنا شروع کردیا۔ تقلید ائمہ کا دور شروع ہوا۔لوگوں نے شریعت کو چا رخانوں میں بانٹ دیا۔ پھر اختلافات رائے نے شدہ شدہ اختلاف قلوب کی شکل میں تبدیل ہو کر امت محمدیہ کو فرقوں وجماعتوں میں تقسیم کردیا اور اس نے منہج صحابہ سے انحراف بلکہ صحیح لفظوں میں بغاوت کا علانیہ مظہر مسلک کے نام پر وضع حدیث اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹا الزام باندھنے کی سعی نامشکور کی شکل میں پیش کیا۔ یہ سب تقلیدی فکر کے ابتدائی برگ و بار تھے۔ تکمیل خواہشات و نفس پر ستی کے لئے ’’ہندوستانی‘‘ تصوف کا ظہور تقلیدی نظریات کا نتیجۂ ثانی تھا۔ جدید فکر کے حاملین نے حدیثوں کو حجیت میں بھی درجۂ ثانی دے دیا۔ اور اخبار آحاد اور عقل کی میزان پر مکمل نہ اترنے والی بعض حدیثوں کی تاویلات ورد کے ذریعہ منہج صحابہ سے بُعد اختیار کیا اور شریعت مطہرہ اور منہج صحابہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
انحرافات کے امت پر برے اثرات:
منہج صحابہ یعنی خالص کتاب و سنت پر عمل بالکل واضح وعیاں ہے،مگر اس سے مسلسل انحراف اور انحرافات کے تاریخی تسلسل نے امت پر بہت خطرناک اثرات مرتب کئے۔ اس کی وجہ سے امت میں پیدا ہونے والی ضلالت و گمراہی کی خوفناک بیماریوں نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ انحرافات کی تاریخ اگرچہ قدیم ہے مگر ان کے برے اثرات بہت قوی و مضبوط ہیں جن سے امت کو ہمیشہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ذیل میں ہم بعض برے اثرات کا تذکرہ نہایت اختصار کے ساتھ کررہے ہیں:
۱- فرقہ بندی اور گروہی تعصب:
امت نے جب کتاب و سنت سے تمسک و اعتصام اور عمل ترک کردیا تو اس امت میں ایک خطرناک بیماری فرقہ بندی اور اختلاف و انشقاق کی پھیلی، لوگوں نے جب اہل سنت و الجماعت کا مسلکِ اعتدال چھوڑا تو افراط و تفریط کا شکار ہوگئے۔ رفتہ رفتہ امت چار ٹولیوں و فرقوں میں تقسیم ہوگئی۔ اس طرح صحیح منہج سے دوری کی بناپر اختلافات و انشقاقات اور فرقہ بندی کی دیواریں اونچی ہی ہوتی گئیں۔ اور اب ایک ایسا زمانہ آچکا ہے جس میں اتحاد امت کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے۔ سوائے اس کے کہ پوری امت ایک بار پھر دور صحابہ کی طرح خالص کتاب و سنت کی طرف لوٹ آئے۔
کتاب وسنت میں بے شمار مقامات پر اتحاد پیدا کرنے اور اختلافات کو جڑ سے اکھاڑنے کی الٰہی تلقین کی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولاتفرقوا۔۔۔‘‘ (آل عمران: ۱۰۳)
(اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ بازی نہ کرو) ایک دوسری جگہ اختلافات کی ممانعت میں فرمایا:
’’ان الذین فرقوا دینھم وکانو شیعاً لست منھم فی شیء‘‘ (الأنعام: ۱۵۹)
(جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے آپ کو ان سے کوئی سروکار نہیں) اسی طرح حدیث رسول میں ’’ستفترق ہذہ الأمۃ‘‘ کہہ کر اختلاف کی طرف اشارہ کے ساتھ ہی ’’ما أنا علیہ وأصحابی‘‘ کہہ کر صحیح منہج کی طرف رہنمائی بھی کردی۔ کاش کہ امت مسلمہ نبی کے اس فرمان پر عمل پیرا ہو کر صحابہ کرام کا عہد زرّیں لوٹا دیتی۔
شراب کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
۲- کتاب وسنت سے دوری:
منہج صحابہ سے انحراف کا امت پر ایک برا اثر یہ ہوا کہ یہ امت کتاب و سنت کے منبع صافی اور اصل سرچشمہ سے دور ہوگئی۔ اختلافات کی وجہ سے مختلف جماعتوں نے اپنے اپنے ائمہ کی اتباع وپیروی شروع کردی۔ اقوال ائمہ کو احادیث رسول و آثار صحابہ پر ترجیح دی جانے لگی۔ اس طرح رسول کے انقیاد و اتباع کے بجائے ائمہ کے اتباع و امتثال کی راہیں ہموار ہوگئیں۔ اور امت کتاب و سنت سے دور ہوتی چلی گئی۔ اگر امت کا یہی حال رہا اور اس کی اصلاح نہ کی گئی تو اتباع کتاب وسنت خواب و خیال بن کر رہ جائے گا۔
۳- بدعات و خرافات کا ظہور:
منہج صحابہ سے انحراف کا امت پر ایک برا اثر یہ بھی ہوا کہ خالص کتاب وسنت سے استفادہ نہ کرنے کی وجہ سے اس میں بہت ساری بدعات و خرافات در آئیں جن سے خوف کا اظہار آپ ﷺ نے اپنے دور ہی میں کردیا تھا۔ مظاہر شرک اور بدعات و خرافات کی وجہ سے امت کا ایک بڑا طبقہ اپنے صحیح عقائد و نظریات سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
۴- عقل کو نقل پر مقدم کرنا:
منہج صحابہ سے انحراف کا ایک اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے کتاب وسنت کو فیصل بنانے اور انہیں عقل پر مقدم کرنے کے بجائے عقلوں کو ان پر مقدم کرنا شروع کردیا۔ اس کی ابتداء در اصل معتزلہ اور دیگر فرق ضالہ کے ہاتھوں زمانۂ قدیم میں ہوئی کہ انہوں نے صفات الٰہی کے باب میں عقل کو دخل دیا۔ اس کی کیفیتوں کا ادراک کیا جانے لگا۔ ’’استواء علی العرش‘‘ اور ’’نزول‘‘ کے طریقوں پر بحثیں کی جانے لگیں۔ حالانکہ اس باب میں عقل کو دخل دینا بجز گمرہی کے اور کچھ بھی نہیں۔ امام مالک کا یہ قول اس باب میں اہم ہے:
’’الاستواء معلوم، والکیف مجہول والإیمان بہ واجب والسؤال عنہ بدعۃ‘‘ (تہذیب العقیدۃ الطحاویۃ ص:۲۱۱)
اور پھر یہ اسی کے اثرات تھے جنہوں نے ’’حدیث مصراۃ‘‘ اور صحیحین کی دیگر احادیث کے انکار کی احمقانہ جرأت پیدا کی۔ پھر اخبار آحاد کے شوشے چھوڑے گئے اور صحت حدیث کے لئے فقہ راوی وغیرہ کی پھسپھسی شرطیں لگائی گئیں۔
۵- صحابۂ کرام پر طعن و تشنیع:
صحابۂ کرام کے منہج سے انحراف کا ایک برا اثر یہ ہوا کہ خود صحابۂ کرام پر زبانِ طعن دراز کی جانے لگی۔ اس کا م میں کئی جماعتوں نے باقاعدہ حصہ داریاں نبھائیں۔ ان تمام کا مرجع اہل تشیع و خوارج اور معتزلہ فکر کے حامل افراد تھے۔ اور دور حاضر میں بھی غیر شعوری طور پر ہی صحیح بہت سارے لوگوں میں یہ بیماری سرایت کرچکی ہے اور بہت سارے ’’مفکرین‘’ نے صحابۂ کرام کے سلسلے میں نازیبا کلمات کہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
۶- خواہش نفس کی پیروی:
جب امت صحابۂ کرام کے منہج سے دور ہوئی تو ان میں عملی انحراف شدید تر ہوگیا۔ کسی قسم کی کوئی حد بندی نہیں رہ گئی اور طبیعتوں کو شریعت بنادیا گیا۔ جو بھی دل کہے اسے کر گذرنے کے تمنا پیدا ہوگئی۔ شریعت پر خالص عمل کا دروازہ بند کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کتاب وسنت پر عمل کا و ہ مذاق مفقود ہوگیا جو دورصحابہ کی شان تھا۔
صراط مستقیم سے وابستگی کی ضرورت:
ان تمام انحرافات سے ہٹ کر اگر امت کو سیدھی راہ کی تلاش ہے تو وہ صرف اور صرف صراط مستقیم ہے اور صراط مستقیم خالص اتباع کتاب و سنت کا نام ہے۔ کتاب وسنت میں سے کسی کو بھی اپنے ساتھ شرک برداشت نہیں، دونوں میں توحید ہونا ناگزیر ہے۔ اس میں نہ تقلید ائمہ کی ضرورت ہے نہ ہی کسی کو درجۂ الوہیت تک پہنچانے کی۔ ہماری حقیقی سعادت اور اصل کامیابی کا راز خالص کتاب وسنت کے اتباع و پیروی اور منہج صحابہ کے اختیار کرنے میں مضمر ہے اور اسی میں ہماری دنیاوی و اخروی نجات ہے جو ہٹا وہ گمراہ ہوا، اور گمراہی کے تمام راستے جہنم کی طرف جاتے ہیں۔
———
1 ؎ قاضی ابوبکر باقلانی المالکی، البصری ثم البغدادی (ت ۴۰۳) ترجمہ کے لئے ملاحظہ ہو: تاریخ بغداد (۵؍۳۷۹) ’’السیر‘‘ (۱۷؍۱۹۰) … فتح المغیث (۴؍۹)
2 ؎ یہ تعریف سعید بن مسیب کی جانب منسوب ہے، امام سیوطی نے ’’تدریب الراوی شرح تقریب النواوی‘‘ (ص ۲۸۹- ۲۹۰) میں اس پر طویل بحث کی ہے۔
3 ؎ نقلاً عن : ریاض الجنۃ بشرح أصول السنۃ (ص۳۹۰) وتیسیر مصطلح الحدیث (ص ۱۹۸)
4 ؎ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ۱- الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ لا بن حجر۔ ۲- أسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ لابن الأثیر الجزری ۳- الاستیعاب فی أسماء الصحابۃ لابن عبدالبر
5 ؎ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: منھاج المسلم للجزائری (ص ۶۴-۶۵) و شرح العقیدۃ الطحاویۃ ( ص ۴۷۷)
6 ؎ أخرجہ مسلم (۲۵۳۴)، واحمد (۲؍۲۲۸)
7؎ أخرجہ مسلم (۲۵۳۱) وأحمد (۴؍۳۹۹)
8 ؎ أخرجہ البخاری (۳۶۷۳) و مسلم (۲۵۴۱)
9؎ أخرجہ احمد (۲۰) بسند حسن
10؎ الصارم المسلول لابن تیمیۃ (۳؍۱۰۵۰-۱۱۱۳)
11؎ اہل سنت کے موقف پر استدلال ہے سورۃ الحشر آیت نمبر ۱۰ سے
12؎ ’’میرے صحابہ کو گالی مت دو‘‘ (تخریج گزر چکی ہے)
13؎ دلیل: لایستوی منکم من أنفق من قبل الفتح وقاتل: الحدید ۱۰
14؎ التوبۃ (۱۰۰) میں اللہ تعالیٰ نے سابقین اولین کا ذکر کرتے ہوئے مہاجرین کو مقدم کیا ہے۔
15 ؎ دلیل ’’اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم‘‘ رواہ البخاری، کتاب الجھاد و مسلم (۲۴۹۴)
بیعت رضوان میں شریک صحابہ کی تعداد ۱۴۰۰ سے زائد تھی۔ سورئہ فتح میں تفصیلی تذکرہ ہے: لقد رضی اللہ عن المؤمنین… (الفتح: ۱۸-۱۹)
16؎ جیسے عشرۂ مبشرہ، ثابت بن قیس امہات المومنین، بلال، عبداللہ بن سلام، سعدبن معاذ، عکاشہ وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
17 ؎ رواہ البخاری کتاب فضائل الصحابۃ باب فضل أبی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ بعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
18 ؎ صحابہ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے باجماع پہلے بیعت کی۔
19؎ اس سلسلہ میں چار رائیں معروف ہیں۔ مشہور رائے: (۱) ابوبکر، پھر عمر، پھر عثمان، پھر علی (۲) ابوبکر، پھر عمر، پھر عثمان، پھر سکوت (۳) ابوبکر، پھر عمر، پھر علی، پھر عثمان (۴) ابوبکر، پھر عمر، پھر توقف کہ کون افضل ہے۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو: شرح العقیدۃ الواسطیۃ للشیخ محمد بن صالح العثیمین، (ص ۶۰۴-۶۰۵)
20؎ خلافت کے باب میں اہل سنت کی قائم کردہ ترتیب معتبر ہے۔ اس کا مخالف احمق اور جاہل ہے۔(ایضاً ۶۰۶)
21 ؎ قال النبی ﷺ: أذکرکم اللہ فی أہل بیتی۔ رواہ مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔
22؎ اہل سنت کہتے ہیں: نزاعات صحابہ کی حدیثیں یا تو کذب پر مبنی ہیں یا ان میں اضافہ و کمی کی گئی ہے۔ ان میںجو صحیح ہیں تو اس میں صحابہ معذور ہیںکہ اجتہاد میں خطاء بھی ہوسکتی ہے اور صواب بھی۔
23؎ بتقاضائے بشریت گناہوں کا سرزد ہونا عین ممکن ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی افضلیت، خالص تو بہ، سبقت اسلام ، شفاعت نبوی یا دنیا میں کسی آزمائش کے نتیجہ میں ان کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (ایضاً ۶۲۲)
24؎ أخرجہ أبوداؤد (۴۶۰۷)
25؎ أخرجہ البخاری کتاب المناقب باب سؤال المشرکین أن یریھم النبی۔۔۔ ومسلم کتاب الإمارہ باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’لاتزال طائفۃ…‘‘
26؎ رواہ الترمذی کتاب الایمان باب ما جاء فی افتراق الأمۃ۔
27؎ رواہ مسلم کتاب الایمان باب بیان أرکان الإیمان والإسلام
28؎ تفصیل کے لیے دیکھئے: أصول الدعوۃ لعبدالکریم زیدان ص۳۹ وغیرہ
29؎ سنن أبی داؤد وصححہ الالبانی (رقم ۶۵۰) باب الصلاۃ فی النعل۔
30؎ رواہ مسلم کتاب الجمعۃ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ۔
31؎ أخرجہ ابن ماجہ کتاب السنۃ باب تعظیم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والتغلیظ علی من عارضہ رقم ۱۶ حدیث صحیح۔
32؎ أخرجہ أبوداؤد، رقم ۲۰۰۴ باب الحائض تخرج بعد الإفاضۃ۔
33؎ صحیح بخاری کتاب الحج باب الرمل فی الحج والعمرۃ۔
34؎ أخرجہ البخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب الاقتداء بافعال النبی ﷺ رقم ۷۲۹۸
35؎ سنن أبی داؤد باب الإمام یکلم الرجل فی خطبتہ رقم ۱۰۹۱
36؎ اعلام الموقعین ۱؍۴۹
37؎ تاریخ الطبری ۱؍۵۷،۶۶،۷۲ ایضاً ۵؍۷۲ ومقالات الاسلامیین ۲؍۱۴۱
38؎ الملل ۱؍۱۱۴، والفتاوی لابن تیمیۃ ۳؍۲۷۹
39؎ النبوات ص ۲۳۲
40 ؎ فرق الشیعۃ ص ۴۰ والفرق بین الفرق ص ۲۳۵ والنبوات ص ۲۳۲ والملل ۱؍۷۴
41؎ النووی فی شرح مسلم ۱؍۱۵۶
42؎ فتح الباری ۱؍۱۱۹
43؎ الفرق بین الفرق ص ۲۰۲ .
44؎ تہذیب التہذیب ۲؍۲۳-۳۲۱
45؎ الملل ۱؍۴۷، الفرق بین الفرق ص ۲۰،۱۱۸،۱۲۱
46؎ الفرق بین الفرق ص ۱۴۰
47؎ الفتاوی لابن تیمیۃ ۵؍۲۰
48؎ الفرق بین الفرق ص۲۱۱،۲۱۲ ومقالات الإسلامیین ۱؍۲۱۴،۳۸۳، والملل ۱؍۸۶
49؎ دیکھئے: تذکرۃ الحفاظ ص۱۵۹-۱۶۰۔
50؎ الفتاویٰ ۶؍۳۵
51؎ الفتاوی ۶؍۳۲۵
52؎ مقالات الاسلامیین ۱؍ ۲۲۳
آپ کے تبصرے