جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی

راشد حسن مبارکپوری متفرقات

افتتاحی كلمات
بمناسبت افتتاحی پروگرام ابنائے قدیم جامعہ سلفیہ بنارس
بتاریخ یکم دسمبر۲۰۱۹، بمقام نئی دہلی

اثر كچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل!

’’ نوا را تلخ تر می زن چوں ذوق نغمہ کم یابی‘‘

تڑپ صحن چمن میں ، آشیاں میں ، شاخساروں میں

جدا پارے سے ہوسکتی نہیں تقدیرسیمابی


جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی

جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

خداے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے

یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے


ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے

چمن میں ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے

ذمہ داران جمعیت وجامعہ سلفیہ، اساتذہ کرام، علماء ذی احترام، ابناء جامعہ سلفیہ!
میری گفتگو کے بنیادی طور سے تین نکات ہیں: جامعہ سلفیہ، پروگرام کا خاکہ از ابتداتا امروز! عزائم و تجاویز.
حضرات گرامی قدر!
جامعہ سلفیہ بنارس اہل حدیثان ہند کی مرکزی درس گاہ کی حیثیت سے معروف ہے، جسے خالص کتاب وسنت کی تعلیمات کو عام کر نے، منحرف افکار ومعتقدات کی بیخ کنی، عربی زبان کی ترویج اور تہذیب اسلامی کی بالا دستی کی خاطر پیہم کاوشوں اور مخلصانہ کوششوں سے ۱۹۶۳ء میں قائم کیا گیا۔ مقام شکر ہے کہ جامعہ اپنی بساط بھر آج تک ان عظیم مقاصد کی بجا آوری میں مصروف ہے، جامعہ کے قیام سے اب تک کا دورانیہ بہت طویل نہیں مگر اس قلیل مدت میں جو اس کی متنوع اور گوناگوں خدمات ہیں وہ بلاشبہ حیرت انگیز اور قابل تقلید و تعریف ہیں، خصوصاً ’’ادارۃ البحوث الإسلامیہ‘‘کے ذریعہ شائع ہونے والی متعدد زبانوں میں قیمتی و علمی کتابیں جن کے ہندوستانی ثقافت وتمدن اور مذہبی فکری رویوں پر گہرے اثرات مرتب ہویے، جماعت و منہج کے دفاع ، نصاب تعلیم اور دیگر علوم و فنون سے متعلق سرمایہ کتب غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح بہتر نظام تعلیم، اچھے اساتذہ اور عمدہ تہذیبی و ثقافتی ڈھانچہ جامعہ کو امتیازی شناخت دیتے ہیں، اس مدت میں جامعہ نے اپنی قابل تقلید حصولیابیوں سے جلد بڑا مقام بنالیا۔ یہ سب فی الواقع اسلاف کی مخلصانہ کوششوں اور ذمہ داران جامعہ کی انتھک محنتوں کے طفیل ممکن ہو سکا، ہمیں امید بھی ہے اور دعا بھی کہ جامعہ ترقی کے اعلیٰ مدارج طے کرتا رہے اور امت ہندیہ اسلامیہ کے حق میں اپنا مؤثر اور حکیمانہ کردار ادا کرتا رہے۔ع
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین آباد
آج سے تقریباً تین سال قبل ’’تنظیم ابناے جامعہ‘‘ سے متعلق ایک سرسری خانہ بنا کر جامعہ بھیجا گیا تو ناظم صاحب حضرت مولانا عبداللہ سعود حفظہ اللہ کی جانب سے ایک حوصلہ افزااور تفصیلی خط آیا ، اس کے بعد ناظم صاحب کی آمد پر ایک مختصر سی ملاقات رکھی گئی جس میں مرحوم استاذ شیخ عبد السلام مدنی، شیخ صلاح الدین مقبول، شیخ اسعد أعظمی بشمول چند ابناء شریک ہویے، ان حضرات نے لائحہ عمل پر اپنی پسند یدگی اور اطمینان کا اظہار کیا، مگر افسوس کہ آج کی اس حتمی محفل میں ناظم صاحب کے علاوہ ان میں سے کوئی بھی شریک نہ ہوسکا، پھر عرصہ بعد ایک میٹنگ رکھی گئی مگر ناظم صاحب شریک نہ ہوسکے، لہٰذا وہ مجلس بھی حوالہ التوا کر دی گئی۔
پھر طویل خموشی کے بعد ذمہ داران جامعہ کے اصرار اور محبت آمیز حوصلہ افزائی پر چند ماہ قبل ’’اسی اہل حدیث کمپلیکس کی لائبریری‘‘ میں امیر محترم حضرت مولانا اصغر علی سلفی، حضرت ناظم صاحب اور حضرت مولانا ابو القاسم فاروقی بشمول دو اساتذہ جامعہ (ڈاکٹر عبدالصبور سلفی مدنی اور ڈاکٹر عبدالحلیم سلفی مدنی) حفظہم اللہ کی موجودگی میں ابناء کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی جس میں سات لوگوں پر مشتمل ایک ’’ایڈہاک کمیٹی‘‘تشکیل دی گئی، پھر اس کمیٹی نے سست رفتاری سے ہی سہی کام کو آگے بڑھایا، اس طرح مسلسل تیاریوں اور جانکاہی کے بعد آج کی یہ بزم منعقد ہو سکی۔
تنظیم سازی سے عموماً دائرہ کار محدود ہوجاتا ہے یا سمجھا جاتا ہے ، یہ بات کہیں نہ کہیں سچ بھی ہے، مگر ہم جس نہج پر کام کرنے کے خواہاں ہیں اس کی روشنی میں اس بات کے اظہار میں پر یقین ہیں کہ اس کے دائرہ کار کی جہات صرف ابناء، جامعہ سلفیہ یا جمعیت ہی نہیں بلکہ اس کے اہداف و مقاصد اور حصولیابیوں کے اثرات پوری امت کو پہنچیں گے، ان شاء اللہ کہ ہم بالعموم نہ سہی ہر شب کو سحر کرنے پر یقین رکھتے ہیں؎

مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر

فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

اب مناسب معلوم ہو تا ہے کہ ’’جمعیۃ ابناء‘‘سے متعلق کچھ شرائط عزائم ، تجاویز اور خاکے سے متعلق چند نکاتی گفتگو پیش کی جائے، مزید تفصیلات و تجاویز آئندہ اہل علم کے خطابات میں آتی رہیں گی ان شاء اللہ ، مزید اخیر میں ایک سیشن آراء وتجاویز کا ہے جس میں ان شاء اللہ آپ تمام حضرات اپنے گراں قدر خیالات و افکار و آراء سے استفادہ کا موقع دیں گے تاکہ اس کی روشنی میں لائحہ عمل کو مزید نکھارا جاسکے۔
مبادیات
۱۔اس جمعیت کا نام ’’جمیعت ابنائے قدیم جامعہ سلفیہ‘‘( بنارس) ہوگا۔
۲۔اس کا دائرہ کار حتی المقدور پورا عالم ہو گا۔
۳۔اس جمعیت کی سر پرستی جامعہ سلفیہ کے ذریعہ انجام پائے گی۔ اس سر پرستی کی کیفیت و شکل کا تعین کمیٹی کرے گی ، نیز ابناء کے صدر اور ناظم کا انتخاب چالیس رکنی کمیٹی کرے گی۔
۴۔اس کا صدر آفس دلی میں ہو گا ( مرکز ہونے کی وجہ سے )۔
۵۔جامعہ سے فارغ(ثانویہ، عالمیت، فضیلت) ہونے والا ہر طالب علم اور جامعہ کا ہر استاذ اس کا مستقل رکن ہو گا۔ البتہ پچاس ممبران کی خصوصی کمیٹی ہو گی جس میں ۲۵ ممبران جامعہ کے قدیم فارغین میں سے کبار اہل علم اور ۲۵ جدید فارغین میں سے ہوں گے۔
۶۔جامعہ سلفیہ سے کسی بھی طرح کا مالی تعاون نہیں لیا جائے گا، بلکہ اسے ہر طرح کا تعاون پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی، نیز جامعہ کے داخلی مسائل میں اس جمعیت کا کوئی دخل نہیں ہو گا۔
۷۔جمعیت کا خرچ جامعہ کے ابناء کے ذریعہ ہی پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اغراض و مقاصد
۱۔ابنائے جامعہ کو منظم و متحد کرنا اور فارغین جامعہ کی رہنمائی۔
۲۔ایک ہفت روزہ یا پندرہ روزہ اخبار کی اشاعت۔
۳۔اسلام کی صحیح تعبیر’’سلفیت‘‘ کی اشاعت اور اس کا دفاع کرنا۔
۴۔جامعہ سلفیہ کی ترقی کے لیے ہر ممکن تعاون کرنا۔
۵۔ابنائے جامعہ کی فلاح و بہبود کے لیے ان کی ہر طرح کی رہنمائی و تعاون کی کوشش کرنا۔
۶۔یتیم و نادار طلبہ کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا۔
۷۔ابنائے جامعہ یا سلف کی بعض کتابوں کو جمعیت کے بجٹ سے شائع کرا کر ان کی حوصلہ افزائی کرنا۔
۸۔ابنائے جامعہ سلفیہ کے اندر ، علمی تحریک پیدا کرنے کے لیے تحریری مسابقے وغیرہ کا انعقاد۔
قواعد و ضوابط
۱۔جامعہ کے کسی بھی شعبہ سے فراغت حاصل کرنے والا اور جامعہ کا ہر استاد جمعیت ابنائے قدیم کا ممبر ہو سکتا ہے، بشرطیکہ وہ مقاصد جمعیت سے اتفاق رکھتا ہو۔
۲۔جامعہ سلفیہ کے وہ قدیم طلباء بھی جمعیت کے ممبر بنائے جاسکتے ہیں جنھوں نے باقاعدہ کورس کی تکمیل نہ کی ہو لیکن مقاصد جمعیت سے گہری دلچسپی رکھتے ہوں۔
۳۔ممبری فیس سالانہ پانچ سو روپے ہوگی جسے جمعیت کے ہر ممبر کو ادا کرنا ہو گا۔
اخیر میں اس بات کا اظہار ضروری سمجھتاہوں کہ ابناء دہلی میں مجھ سے کہیں بہتر اہل علم موجود ہیں جو مجھ سے بہتر انداز میں افتتاحی کلمات پیش کر سکتے تھے، مگر کبھی کبھی بزرگوں کے اصرار بڑے ظالمانہ ہوتے ہیں، سو ظلم کا یہ تلخ گھونٹ بھی مجھے ہی پینا پڑ۔
ہمیں یقین ہے کہ اب یہ قافلۂ سخت جاں نکل پڑا ہے، آگے بڑھتا ہی رہے گا ان شاء اللہ، تنقید کرنے والے تنقید کرتے رہیں گے، کام کرنے والے آگے بڑھتے رہیں گے۔ تنقیدوں سے کام رکتے ہیں اگر حکیمانہ مزاج ہے تو یہی تنقیدیں کاموں میں نکھار پیدا کرتی ہیں۔ خدا اسے نظربد سے بچالے اور کاموں میں اخلاص کی دولت نصیب فرمایے؎

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

والسلام علیکم ورحمہ اللہ

آپ کے تبصرے

3000