[زیر مطالعہ تحریر محترم مولانا عبدالرؤف ندوی حفظہ اللہ کی کتاب ’’کاروان سلف‘‘ حصہ دوم پر بطور مقدمہ شامل ہے۔ راقم نے اپنے ہاتھوں سے کمپوز کرکے مولانا کو یہ تحریر بھیجی تھی لیکن ان پیج فائل ہونے کے باوجود کتاب کے کمپوزر نے اس کو ازسرنو کمپوز کیا اور اس قدر غلطیاں کیں کہ پوری تحریر مسخ ہوکر رہ گئی۔ عجلت میں شاید مولانا بھی اس کا پروف نہیں پڑھ سکے اور کمپوزنگ کی تمام غلطیاں علی حالہ باقی رہیں۔ جن حضرات کے پاس مولانا ندوی کی یہ کتاب ہے، اس تحریر کو سامنے رکھ کر مقدمہ کی غلطیوں کی تصحیح فرمالیں۔ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ تاریخ اور تذکرہ کی ایک اہم کتاب میں اغلاط سے پُر ایسی تحریر شائع ہوگئی۔(رفیق )]۔
تاریخ ہمیشہ اعاظم رجال سے بنتی ہے، وہی تاریخ پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اس کی صورت گری کرتے ہیں۔ آنے والی نسلوں کے لیے ان کی زندگی کے شب و روز، ان کی سعی و جہد اور ان کی فتوحات و ادراکات کو محفوظ کیاجاتا ہے۔ وہ اپنے وقت کے انتہائی ذہین اور ممتاز افراد ہوتے ہیں جو نہ صرف اپنے دور کو متاثر کرتے ہیں بلکہ ان کے افکار و خیالات سے صدیوں تک استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس پہلو سے ملت اسلامیہ کی تاریخ ایک مثالی تاریخ ہے۔ بلکہ دنیا کو اس فن کی تعلیم اہل اسلام نے دی ہے اور وہی اس کے امام بھی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی سیرت پاک ہو یا صحابہ کرام کا ذکر جمیل، تابعین اور تبع تابعین کی زندگی کے حالات ہوں یا دیگر راویان حدیث و اثر کی عدالت وثقاہت، مسلم حکومتوں اور ان کے سربراہوں کی تاریخ ہو یا ان کی کامیابیوں اور محرومیوں کا تذکرہ، کوئی بھی پہلو نظر انداز نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اس کے بعض گوشوں کو ایک دینی اور ملی فریضہ سمجھ کر ابھارا گیا ہے۔ کسی مرحلے میں اس کی ترتیب و تدوین عمل میں لائی گئی ہے اور کسی مرحلے میں اس کو جرح و تعدیل کے میزان میں تولا گیا ہے اور رطب و یابس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ تاریخ ایک زندہ فن ہے۔ تحلیل و تجزیے کا عمل ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے بلکہ اسے جاری رہنا ہی چاہیے تاکہ انسانی سہوونسیان کی فطری کمزوریوں کو دور کیا جاسکے اور حقائق تک رسائی آسان ہوسکے۔
ملت اسلامیہ کی دینی قیادت ہمیشہ علماء کے ہاتھوں میں رہی ہے، ملت انہی پر اعتماد بھی کرتی ہے اور وہ بھی اللہ کی توفیق سے کوشش کرتے ہیں کہ عوام کی آرزووں پر کھرے اتریں اور ان کی دینی ضروریات کی تکمیل کرتے رہیں۔ ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں مسلم امت مختلف مسلکوں اور جماعتوں میں بٹی ہوئی ہے اور ’’کل حزب بما لدیھم فرحون‘‘ کے مصداق ہر ایک اپنے میں مگن اور مست ہے۔ ہر ایک کے پاس اپنے علماء ہیں، اپنے دینی ادارے ہیں، اپنی تنظیمیں ہیں اور اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔کون کیا کررہا ہے، کیسے کررہا ہے، اچھا کررہا ہے یا برا کررہا ہے، ان سب کا ریکارڈ اللہ کے فرشتوں کے پاس ہے، جس میں ہر چھوٹی بڑی چیز امانت دار قلم سے درج ہورہی ہے، کل قیامت کے دن یہ سب کے سامنے آجائے گا اور ہر ایک کو اپنے اپنے کیے کے مطابق بدلہ ملے گا۔ اس مختصر زندگی میں اپنا احتساب کرنے کا موقع تو ہمارے پاس ہے نہیں، ہم دوسروں کا احتساب کہاں سے کرسکیں گے۔ شاید اس کے ہم مکلف بھی نہیں ہیں اور نہ دوسروں کے اعمال کے بارے میں ہم سے سوال جواب ہوگا۔
ہندوستان میں مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو مختلف حوالوں سے محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا ایک بڑا حصہ علمائے کرام کے حالات زندگی ہیں۔ اسی ذیل میں وہ آپ بیتیاں بھی رکھی جاسکتی ہیں جو بعض شخصیات نے خود اپنے قلم سے لکھی ہیں۔ تذکرہ و سوانح کی یہ کتابیں نہ صرف شخصیات کو متعارف کراتی ہیں بلکہ اس دور کی ایک اجمالی تاریخ بھی محفوظ کردیتی ہیں جس میں صاحب تذکرہ نے اپنی زندگی کے ماہ و سال گزارے ہیں۔ دینی مدارس کے طلبہ کے لیے یہ کتابیں بطور خاص بہت مفید ہیں، ان سے نہ صرف علم میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ زندگی جینے کا سلیقہ بھی سیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے روشن افکار اور غیر معمولی اعمال ہماری زندگی پر اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں اور اندر سے یہ تمنا جاگ اٹھتی ہے کہ ہمیں بھی کچھ کرنا چاہیے۔ ہندوستان کے بعض علماء کی خود نوشت اور ان کی آپ بیتیاں بڑے کام کی ہیں۔ میں ذاتی اعتبار سے ان سے بہت متاثر ہوں اور دور طالب علمی سے ایسی کتابیں انتہائی ذوق و شوق سے پڑھتا آرہا ہوں۔ ملت کی معاصر علمی، دینی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی تاریخ کا ایک بڑا مرجع یہی آپ بیتیاں ہیں۔
ہندوستان کی سلفی تحریک میں بھی تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کا سلسلہ رہا ہے۔ دوسروں کے مقابلے میں گو یہاں مواد کی کمی ہے لیکن جو بھی ہے بسا غنیمت ہے۔ تاریخ اہل حدیث کے کئی ایک پہلو زیرقلم آئے ہیں اور کئی پہلووں پر ابھی لکھا جانا باقی ہے۔ ہمارے پاس اپنی تنظیم ہے، اپنے ادارے ہیں، اصحاب فکر و قلم کی ایک بڑی تعداد ہے جو کسی بھی موضوع پر لکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن نامعلوم اسباب سے کام جس تفصیل سے ہونا چاہیے، وہ نہیں ہوپارہا ہے۔
سوانح نگاری اور تذکرہ نویسی کے لیے انتہائی محبت، قلبی تعلق، والہانہ وابستگی اور معلومات کی فراوانی سب کچھ ضروری ہے۔ صاحب تذکرہ سے عقیدت کے بغیر اس کا سوانحی تذکرہ وجود میں نہیں آسکتا۔ جب میں اپنے یہاں آپ بیتیوں، خود نوشت اور کتب تذکرہ و سوانح کی کمی دیکھتا ہوں تو اس کے لیے تاویل ڈھونڈھتا ہوں اور عذر تلاش کرتا ہوں۔ اصحاب فکر و نظرسے اس کی وجوہات بیان کرنے کی درخواست کرتا ہوں لیکن کوئی بات دل کو لگتی نہیں ہے۔ سوچتا ہوں کہ شیخ الکل فی الکل سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ کی تعداد شمار سے باہر ہے لیکن ایک دو شاگردوں کو چھوڑ کر کسی تیسرے نے امام وقت کی حیات پر کوئی کتاب کیوں نہیں لکھی۔ عدم عقیدت کی بات تو ہم کہہ نہیں سکتے کیوں کہ اس کے بغیر استاذی اور شاگردی کا رشتہ ہی قائم نہیں ہوتا۔ معلومات کی کمی بھی وجہ نہیں بن سکتی کیوں کہ سیدالطائفہ کی حیات ایک کھلی کتاب تھی۔ اسی طرح ان کے بعض ممتاز تلامذہ افادہ و استفادہ کے معاملے میں اپنی ذات میں ایک تحریک، ایک ادارہ اور ایک انجمن تھے، وہ بھی پوری توجہ سے محروم رہے، مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ خوش قسمت تھے کہ ان کی حیات پر شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ نے ایام طالب علمی میں کتاب عربی میں لکھ دی جو آج بھی شاید پہلی اور آخری کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اب اس کا ملخص اردو ترجمہ بھی مصنف کے قلم سے پاکستان سے شائع ہوچکا ہے اور انٹرنیٹ پر موجود ہے۔مولانا عبدالعزیزرحیم آبادی رحمہ اللہ پر بھی ایک سرسری کتاب آگئی ہے اور ایک حنفی اسکالر نے مولانا محمد عبدالرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ پر کام کرکے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے۔ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی حیات کے بعض گوشے بھی کتابی شکل میں آئے ہیں اور ہمارے کئی ایک محترم مصنفین نے ان کی حیات و خدمات پر اردو اور عربی میں کتابیں لکھی ہیں۔ اسی طرح سید عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ اور حافظ عبداللہ غازیپوری رحمہ اللہ پر کچھ مختصر تحریریں آئی ہیں۔مختصر یہ کہ جس قدر عظیم شخصیات تحریک اہل حدیث کو میسر آئیں اور انھوں نے دعوت و تربیت، درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے میدان میں جس طرح کی بھرپور زندگی گزاری، اس کا تقاضا تھا کہ ان کی حیات کا ورق ورق محفوظ کیا جاتا اور ہماری نسلیں اس ملک میں سلفی دعوت کے نشیب و فراز کو اچھی طرح سمجھ پاتیں اور اغیار کو بھی کچھ چھپانے اور غلط بیانی سے کام لینے کا موقع نہ ملتا۔
بعض معاصر اہل علم کو جب یہ شکایت کرتے دیکھتا ہوں کہ ہمارے اسلاف نے یہ کیا اور وہ کیا لیکن ہمارے مخالفین تاریخ کو مسخ کررہے ہیں تو مجھے انتہائی افسوس ہوتا ہے اور اس قسم کی تحریروں پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔تاریخ جب بیان کی جائے گی تو کہا جائے گا کہ جمعیۃ العلماء ہم نے قائم کی اور تحریک ندوۃ العلماء کے صف اول میں ہم تھے۔ یہ بات درست ہے اور حقیقت واقعہ کے عین مطابق لیکن یہ بھی تو بیان کیا جائے کہ ہم بعد میں الگ کیسے ہوگئے اور کیوں الگ ہوگئے۔ کسی نے ہاتھ پکڑ کر اٹھادیا اور ہم آسانی سے اٹھ کر آگئے۔ اگر تاریخ کا یہ صفحہ کھولا جائے تو پتا چلے گا کہ حقائق کیا تھے اور کیوں ہمیں پیچھے کردیا گیا یا ہم نے ان ملی اداروں کا ساتھ چھوڑ دیا۔اجتماعیت کا ساتھ دینے کے لیے کئی قسم کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں، کچھ باتوں کو حکمت عملی کے طور پر نظرانداز کرنا ہوتا ہے، بعض غلطیوں کو مجمع عام میں نہیں، متعلقہ شخص کو تنہائی میں بتانی پڑتی ہیں۔ امرتسر میں ندوہ کا کوئی جلسہ ہوا، اس میں خطبہ استقبالیہ مولانا شبلی نے عربی زبان میں پیش کیا، ہم نے اس خطبے کی عربی غلطیاں اخبار میں شائع کیں۔ یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ مولانا شبلی کو براہ راست خاموشی سے ان کی غلطیوں پر متنبہ کردیا جاتا۔ مجھے معلوم ہے کہ میری یہ تحریر بہتوں کو ناراض کردے گی لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ملی تحریکوں میں آج بھی ہماری نمائندگی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہی ہے۔ملت اسلامیہ ہند اگر مظلوم ہے، اس کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے اور اسے مشق ستم بنایا جارہا ہے اور ملت کے تئیں ہماری کوئی ذمہ داری ہے تو ہمیں اپنی تنظیم کو ملی تنظیموں اور تحریکوں سے جوڑنا ہوگا۔ ایک بڑے مفاد کے لیے چھوٹے مفادات کی قربانی دینا دنیا کا اصول ہے۔ داغہائے سینہ دکھا کر ہم اپنے مخالفین کے دلوں میں کوئی نرم گوشہ نہیں پیدا کرسکتے اور نہ اس کی کوئی ضرورت ہے، ہم تو ملت کی حفاظت، اس کی بقا، اس کے تہذیبی تشخص اور اس کے آفاقی پیغام کی ترسیل کے لیے پیش رفت جاری رکھیں گے اور تمام اکائیوں کو متحد کرنے کے لیے اسلامی اخوت کامظاہرہ کریں گے۔ کیوں کہ سلف صالحین کا منہج مستقیم ہمارے پاس ہے، کتاب و سنت کے فہم کا وہ طریقہ ہمارے پاس ہے جو اصحاب خیرالقرون کا تھا۔ کب تک شکایتوں کا دفتر کھولے لوگوں کے سامنے اپنی صفائی دیتے رہیں گے۔ آگے بڑھیں، وقت آپ کا منتظر ہے، یہ زمین پیغام حق کے لیے ترس رہی ہے، دعوت و تبلیغ کے نام پر عام لوگوں کو عجائبات اور طلسمات سنائے جارہے ہیں، اسلامی فکر کی تعبیر میں کئی طرح کی ضلالتوں کو ساتھ لے لیا گیا ہے۔ اس کا درد محسوس کریں، اس کے بارے میں سوچیں اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملت کی قیادت کے قریب جائیں۔کوئی وجہ نہیں کہ ایک دردمند کی آواز نہ سنی جائے۔ یہ دنیا ابھی اس قدر اندھی بہری نہیں ہوئی ہے کہ اسے حق کی آواز پسند نہ آئے۔ کوئی اس کا کیا صلہ دیتا ہے، صف اول میں جگہ دیتا ہے یا پچھلی سیٹ پر ہمیں جگہ ملتی ہے، ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ اخلاص اور للہیت کا ترازو اہل دنیا کے پاس نہیں، اللہ کے پاس ہے، کوشش کریں کہ وہاں نیکیوں کا پلڑا جھکنے نہ پائے۔ بات دور نکل گئی میں اپنے حلقے میں سوانحی ادب کی کمی کا ذکر کررہا تھا اور اس کے اسباب تلاش کررہا تھا لیکن زیادہ معقول اسباب سمجھ میں نہیں آئے۔ لیکن شاید اب ہمیں اپنی ان کوتاہیوں کا احساس ہوگیا ہے اور ہم نے کمر کس لی ہے کہ اس صنف ادب کو مالامال کرکے رہیں گے۔ اس تعلق سے جو عظیم کام ماضی قریب میں ہوچکے ہیں اور جو بروقت ہورہے ہیں، ان کا مختصر تذکرہ ضروری خیال کرتا ہوں کہ یہی امیدوں کا چراغ ہیں اور شاید ان چراغوں سے کئی ایک چراغ روشن ہوجائیں اور ہر چہار جانب اجالا ہی اجالا ہوجائے۔
ڈاکٹر بہاء الدین صاحب حفظہ اللہ نے تاریخ اہل حدیث کی اب تک کئی ایک جلدیں تیار فرمادی ہیں لیکن ان کا جو انداز ہے اور جس تفصیل سے وہ چھوٹی بڑی دستاویزات کو اپنی کتاب میں محفوظ کررہے ہیں، اس کی تکمیل کے لیے خاصہ وقت درکار ہے اور تکمیل کے بعد اس سے استفادہ اس سے کہیں زیادہ وقت اور فرصت کا طالب ہوگا۔ تاریخ کے اولین دور کا لٹریچر جس طرح انھوں نے اپنے سلسلہ تاریخ میں شامل کیا ہے، بہ ظاہر بہت مفید معلوم ہوتا ہے لیکن یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش ہم اسے الگ سے شائع کردیتے اور تاریخ میں اس کی طرف اشارہ کرنے یا اس کے اثرات کا مختصر جائزہ لینے پر اکتفا کرتے۔ ایک مسلسل تاریخ میں دستاویزی مواد کا پڑھنا بہت زیادہ آسان نہیں ہے۔ قاری کا ذہن بھٹکتا ہے اور کڑیاں باہم جڑ نہیں پاتیں۔ ہم اللہ سے یہی دعا کرتے ہیں کہ کتاب جلدازجلد مکمل ہوجائے۔ ممکن ہے اسی کتاب کو سامنے رکھ کر ہمارا کوئی صاحب قلم تحریک اہل حدیث کی تاریخ ایک تسلسل کے ساتھ لکھ دے، جس سے اخذ و استفادہ آسان ہوجائے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے جس لگن، دل چسپی، محنت اور ہمت سے یہ کام کیا ہے اور کررہے ہیں، پوری جماعت ان کی احسان مند رہے گی اور ان کے احسان کو ان شاء اللہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی دوسری کتاب ’’تحریک ختم نبوت‘‘ جس کی کئی جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں، ایک عظیم کارنامہ ہے۔ قادیانیت کے رد و ابطال میں علمائے اہل حدیث کی جو مساعی جمیلہ رہی ہیں، ان سے یہ کتاب ہمیں روشناس کراتی ہے اور اس باطل تحریک کے مذموم مقاصد اور اس کی خفیہ سازشوں سے ملت اسلامیہ کو خبردار اور آگاہ کرتی ہے۔
جماعت اور علمائے جماعت کی تاریخ کے تعلق سے ایک بڑا اور معتبر نام محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ (اس تحریر کے وقت بھٹی صاحب حیات تھے) کا ہے۔ اللہ ان کی عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے۔ موصوف نے اس موضوع پر صحیح معنوں میں کتابوں کا انبار لگادیا ہے۔تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری میں ان کا اپنا منفرد مقام ہے اور اہل علم کے یہاں ان کی تصانیف کی پذیرائی بھی بہت ہے۔ ہندوستان میں ان کی کئی کتابیں کئی ایک اداروں نے شائع کی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ’’گلستان حدیث‘‘ اس سلسلے کی ابھی تک شاید آخری کتاب ہے، ’’چمنستان حدیث‘‘ اور ’’بوستان حدیث‘‘ کے لیے مواد جمع کرچکے ہیں، ان شاء اللہ دیر سویر یہ کتابیں بھی منظر عام پر آجائیں گی۔(انتقال سے پہلے بھٹی صاحب کی کتاب ’’چمنستان حدیث‘‘ شائع ہوچکی تھی، ’’بوستان حدیث‘‘ کا بھی زیادہ تر حصہ زیر قلم آچکا تھا لیکن اس کی اشاعت ابھی تک نہیں ہوسکی ہے، خوشی کی بات ہے کہ ان کے برادر عزیز اور صاحب علم بھتیجے اور نواسے ان کے مسودات کی ترتیب و اشاعت میں مصروف ہیں، کئی ایک کتابیں شائع بھی ہوچکی ہیں، امید ہے کہ باقی مسودات بھی کتابی شکل اختیار کرلیں گے۔ اللہ ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمادے اور وسائل فراہم کردے تاکہ مورخ جماعت اہل حدیث کے تمام آثار و نقوش محفوظ ہوجائیں)۔ حدیث رسول: ’’اپنے مرحومین کی نیکیاں، خوبیاں اور اچھائیاں یاد کرو‘‘، کے مطابق محترم بھٹی صاحب نے جماعت کے علماء کا جو تذکرہ لکھا ہے، وہ غیر مسبوق اور منفرد ہے۔ عزت و احترام کسے کہتے ہیں، بعض کمیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کتنی خوبصورتی سے کیا جاسکتا ہے اور شخصیات کی زندگی کے کن پہلووں کو قارئین کے سامنے رکھنا ضروری ہے، یہ تمام باتیں ہمارے قلم کاروں کو ان سے سیکھنی چاہئیں۔ ان کی کتابوں میں معلومات کی فراوانی بھی ہے، سامان عبرت و بصیرت بھی ہے، ظرائف و لطائف بھی ہیں اور ملت کی ہمہ جہت تاریخ بھی۔ ہماری جماعت کی پوری تاریخ میں یہ واحد شخصیت ہیں جن کو ذہن و فکر ایسا ملا ہے جو تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کے لیے ضروری ہے۔ کسی روشن دماغ اور کشادہ دل سے ہی یہ امید وابستہ کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے اساتذہ، بزرگوں، معاصرین، دوستوں، شاگردوں اور خردوں کے ساتھ بھر پور انصاف کرسکے گا۔ محترم بھٹی صاحب ایک وسیع قلب و نظر کے حامل عالم دین، ادیب، صحافی اور مصنف ہیں۔ ان کی یہ محبوب ادا جو مجھے ذاتی طور پر بہت بھاتی ہے، ہمارے ہی حلقے کے بعض حضرات کو حد درجہ کھٹکتی ہے۔ وہ سلفیت کو خشکی، یبوسیت، تنقید و احتساب ہی کے دائرے میں محصور کرنے کے خوگر ہیں، ان کے مطالعہ نے انھیں ان احادیث تک ابھی نہیں پہنچنے دیا ہے جن میں ایک مومن سے خندہ پیشانی سے ملنے کو صدقہ بتایا گیا ہے۔ اپنی قوم کے ایک انتہائی بدترین آدمی سے خوش اخلاقی سے ملنے کے بعد جب صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا متعجب ہوئیں تو ہمارے نبی ﷺ نے جواب دیا کہ اس کی وجہ سے میں اپنے اخلاق کیوں خراب کرلوں۔ محترم بھٹی صاحب نے ان شکایتوں کا جواب بھی بہت پیارے انداز میں اپنی ایک کتاب کے پیش لفظ میں دیا ہے۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ محترم بھٹی صاحب نے جن علمائے اہل حدیث کی صحبت پائی ہے، جن سے انھوں نے علوم کتاب و سنت کی تعلیم حاصل کی ہے اور جن اصحاب فکر و قلم نے ان کے قلم و تحریر کی تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، وہ اپنے دور کی انتہائی معتبر اور ثقہ شخصیات تھیں۔ ملک کے طول و عرض میں ان کے تقوی، تدین اور علم کا چرچا تھا اور بلاامتیاز مسلک و جماعت ان کو تمام مکاتب فکر میں محترم گردانا جاتا تھا۔ اپنی زندگی کے کئی ماہ و سال محترم بھٹی صاحب نے ان کی صحبت میں گزارے ہیں اور کسب فیض کیا ہے۔ اللہ نے انھیں جہاں علم اور حافظے سے مالامال کیا ہے، وہاں انھیں عمل کی دولت سے بھی سرفراز فرمایا ہے۔ ان کی خود نوشت ’’گزرگئی گزران‘‘ کا مطالعہ کیجیے، اندازہ ہوجائے گا کہ خود ان کی اپنی حیات کتنی منضبط ہے اور ذکر و عبادت، تلاوت قرآن پاک اور رات کی تنہائیوں میں رب کریم کے حضور سجدہ ریزی سے شاد و آباد ہے۔ شاید یہی وہ امتیازات ہیں جن کی وجہ سے انھیں خلق خدا میں محبوبیت عطا ہوئی ہے اور ان کے قلم کی شائستگی اور شرافت کا ہر چہار جانب چرچا ہے۔
علمائے اہل حدیث کے تراجم اور ان کی علمی و تصنیفی خدمات کا ذکر جمیل ہو اور اس میں مولانا ابویحی امام خاں نوشہروی رحمہ اللہ کا نام نہ آئے، یہ ناممکن ہے۔ وہی تو سالار قافلہ ہیں اور دنیا جہاں سے تنکا تنکا جمع کرکے ایسی دو کتابیں (تراجم علمائے حدیث، علمائے اہل حدیث کی تصنیفی خدمات) لکھیں جن سے کوئی سلفی مورخ بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ جماعت کی تاریخ اور علمائے اہل حدیث کے سوانحی خاکوں کی ترتیب و تدوین میں کئی ایک معتبر ناموں کا اضافہ ہوسکتا ہے لیکن شاید زیر مطالعہ کتاب کا زیر تحریر مقدمہ طویل ہوجائے گا، قارئین کو الجھن ہوگی، اس لیے اس ضمن میں مولانا نذیر احمد املوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’اہل حدیث اور سیاست‘‘ اور استاذ ذی مرتبت مولانا محمد مستقیم سلفی حفظہ اللہ کی’’جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات‘‘ کا نام ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اول الذکر ایک فکر انگیز کتاب ہے جو بہت سے سوالوں کا جواب دیتی ہے اور بعض تاریخی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے جب کہ ثانی الذکر ایک دائرۃ المعارف ہے جس میں ان تمام تصانیف کے اسماء اور ان کا مختصر تعارف زیر قلم لایا گیا ہے جو ہندوستان میں علمائے اہل حدیث نے تصنیف کی ہیں۔وقت کا تقاضا ہے اور استاذ محترم کے پاس اتنا مواد بھی جمع ہوچکا ہے کہ اس کی دوسری جلد آجانی چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ جامعہ سلفیہ کے ناظم اعلی محترم مولانا عبداللہ سعود سلفی مدنی حفظہ اللہ اس طرف بھی توجہ مبذول فرمائیں گے۔(الحمد للہ اب یہ کتاب دو جلدوں میں شائع ہوچکی ہے، پہلی جلد میں علمائے اہل حدیث کے سوانحی خاکے ہیں اور دوسری جلد میں علمائے اہل حدیث کی تصانیف کے احوال درج ہیں۔ کئی ایک باحیات بڑے علماء کا تذکرہ کتاب میں نہیں ہے، میں نے جب استاذ محترم سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود ان حضرات نے اپنا سوانحی خاکہ لکھ کر بھیجا نہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس خلا کو بعد کی اشاعتوں میں پر کرنے کی کوشش کی جائے گی)۔ ڈاکٹر بدرالزماں نیپالی حفظہ اللہ اور فضیلۃ الشیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ کے پاس بھی جماعت کی تاریخ کا خاصا مواد موجود ہے، دیکھیے ان دونوں بزرگ دوستوں کو کب دوسرے علمی کاموں سے فرصت ملتی ہے اور یہ اس کی تحریر و تدوین کو پائے تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔
تاریخ و تذکرہ کے اسی سلسلے کی ایک سنہری کڑی وہ کتاب بھی ہے، جس پر یہ چند سطریں لکھنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔ کاروان سلف کی جلداول سال ڈیڑھ سال پہلے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ اب یہ دوسری جلد زیور طباعت سے آراستہ ہونے جارہی ہے۔ کافی پہلے میں نے اپنے محترم بزرگ مولانا عبدالرؤف خاں ندوی حفظہ اللہ سے درخواست کی تھی کہ آپ ہمارے اپنے علاقے گونڈہ، بلرام پور، بستی، سدھارتھ نگر اورسنت کبیر نگر کے علماء سے قریب رہے ہیں، تنظیم اور دعوت سے آپ کی وابستگی کافی پرانی ہے، آپ نے کئی ایک علماء کو نہ صر ف قریب سے دیکھا ہے بلکہ ان کی صحبتیں بھی اٹھائی ہیں، کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ اپنے مشاہدات اور تجربات کو قلم بند فرمادیتے۔ اسی مضمون کا ایک عریضہ بھی ان کی خدمت میں ارسال کیا تھا جسے از راہ نوازش محترم نے کتاب کی پہلی جلد میں شائع فرمادیا ہے۔ میں ذاتی طور پر مصنف محترم کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے کثرت مشاغل کے باوجود اس کے لیے وقت نکالا اور کئی علمائے جماعت کے تذکرے قلم بند فرمادیے۔ ہمارے یہاں ناقدری علم کی روایت کافی پرانی ہے۔ کسی کتاب کو اہمیت دینے کے لیے بھی اپنے دل میں جگہ ہونی چاہیے۔ یہ تو اپنا اپنا ذوق ہے کہ ہم کیا پسند کرتے ہیں اور کب پسند کرتے ہیں۔ مجھے برصغیر کی سلفی تحریک کے نمائندہ علمی کام ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ جس نے پوری دنیا میں اپنی اہمیت منوالی ہے، کی تصنیف کا پس منظر معلوم ہے۔ محدث مبارک پوری رحمہ اللہ بینائی سے محروم ہونے کے باوجود اس کا پروف پڑھوانے اور اس کی تصحیح کے لیے مبارک پور سے پنجاب کا کتنا طویل اور پر مشقت سفر کیا کرتے تھے۔ مولانا محمد اسماعیل سلفی گوجرانوالہ کے والد محترم مولانا محمد ابراہیم رحمہ اللہ نے ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ کی کتابت کی تھی۔کتاب کی تکمیل کے بعد اس کی طباعت و اشاعت کے لیے انھیں کتنی زحمت اٹھانا پڑی ہے، یہ ہماری تاریخ میں درج نہیں ہے۔ مولانا مبارک پوری کے بھتیجے جو اس سفر میں ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے، راقم کو اس کی تفصیل بتائی ہے کہ کن شرائط اور معاہدوں کے ساتھ حاتم جماعت حافظ حمیداللہ صاحب نے اس کی طباعت کے لیے کچھ رقم عنایت فرمائی تھی اور مولانا مبارک پوری نے ان کو منظور کرکے کتاب شائع کرائی تھی۔ آج تحفۃ الاحوذی، جامع ترمذی کی سب سے اہم شرح تسلیم کی جاتی ہے اور دنیا کا کوئی صاحب علم تحفۃ الاحوذی سے خود کو بے نیاز نہیں کرسکتا ہے خاص طور پر وہ حضرات جو ترمذی پر کوئی علمی کام کررہے ہوں یا اس کی تدریس ان کے ذمہ ہو۔ مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ کا ترجمہ بخاری اور اس کی تشریح آج ہماری جماعت کا عظیم سرمایہ ہے۔ کتنے تجارتی ادارے ہیں جو اس سے نفع حاصل کررہے ہیں، آج کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کے مصنف جلیل نے ایک ایک پیسہ جمع کرکے پاروں کی شکل میں کئی سالوں کے بعد اس کی تکمیل فرمائی تھی۔ ایسے ہی اپنے دور میں ایک مظلوم مصنف مولانا عبدالسلام بستوی رحمہ اللہ تھے جن کی سادہ تحریروں کو حضرات علمائے کرام بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن آج ان کی کئی ایک کتابوں سے ہماری جماعتی اور مسلکی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ اولاً ہم کوئی کام نہیں کرتے، ثانیاً اگر کوئی کچھ کرتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ وقت گزر جاتا ہے تو عالم اور اس کی تصنیف کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے بزرگ مصنف کو اپنے اسلاف کی حکایات ضرور یاد ہوں گی۔ کام کی اہمیت اور اس کی قدر و قیمت وہی طے کرسکتا ہے جو خود اس راہ کی مشکلات سے گزرا ہو۔
ہمارے حلقے کی بعض شخصیات کو ہمیشہ سے یہ شکایت رہی کہ غیروں کی طرف سے ہمیں نظر انداز کیا گیا ہے، ہماری خدمات کو چھپایا گیا ہے اور دانستہ طور پر ہماری سرگرمیوں کو اپنے حصے میں ڈالنے کی ناروا کوشش کی گئی ہے۔ یہ شکایتیں زیرقلم بھی آتی رہتی ہیں اور ایسے انداز میں آتی ہیں جن کو نہ علمی اسلوب کہا جاسکتا ہے اور نہ تہذیب و شرافت سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ غیروں کے دربار عالیہ میں ان شکایتوں کا اثر آج تک نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ہماری تصویر مزید بھیانک بنانے کا انھیں موقع مل گیا۔ زوال و شکست اور انتشار و افتراق سے دوچار گروہوں اور جماعتوں کے پاس صرف شکایتوں کا دفتر ہوتا ہے اور اسی کے سہارے وہ زندگی کی تلاش میں بھاگتی پھرتی ہیں۔ ظاہر ہے مسئلے کا حل یہ نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اپنی تاریخ کے خلا کو خود پر کرناچاہیے۔ دوسروں سے یہ امید کرنا کہ وہ ہمارے ساتھ انصاف کریں گے اور ہمیں تاریخ میں ہمارا جائز مقام دیں گے، سراسر نادانی اور خود فریبی ہے۔
ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے ان جواہر پاروں کی بھی حفاظت نہیں کرسکے جنھوں نے ہماری پہچان بنائی تھی۔ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری نے بھر پور صحافتی زندگی گزاری ہے۔ اپنے ہفت روزہ اخبار اہلحدیث امرتسر کے ذریعے انھوں نے ملت کی ہمہ جہت خدمات انجام دی ہیں۔ تمام باطل فرقوں اور اسلام دشمنوں کے شبہات اور اعتراضات کے جواب دیے ہیں اور کتاب و سنت پر مبنی اسلام کی صاف ستھری تعلیمات پیش کی ہیں۔ کیا آج ہماری جمعیۃ اور ہمارے کسی بڑے ادارے کے پاس اس کی تمام فائلیں محفوظ ہیں؟ اسی طرح دور اول کے کئی ایک علمی رسائل و جرائد تھے، ان کی بھی ہم سے حفاظت نہیں ہوسکی۔ رسائل و جرائد ہی وہ واحد ذریعہ ہیں جن سے تنظیمی اور مسلکی سرگرمیوں کا حال معلوم ہوتا ہے۔ وفیات کے کالم سے علمائے اہل حدیث کی تاریخ وفات اور ان کی زندگی کے بعض حالات معلوم ہوتے ہیں۔ اس کوتاہی کی شکایت ہم کس سے کریں گے اور کسے مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم نے تقریباً نصف صدی سے صرف اینٹ روڑے اور پتھر جمع کیے ہیں، علمی اور تصنیفی کام پر زیادہ توجہ نہیں رہی ہے۔ تھوڑے بہت علمی اور تحقیقی کام جو ہوسکے ہیں، ان میں ہماری تنظیمی کوششوں کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ وہ انفرادی جہد و مساعی کا ثمرہ ہیں۔ ان انفرادی کوششوں کو بھی پذیرائی نہیں مل سکی کیوں کہ معاصرت کی خطرناک بیماریوں اور ذات برادری اور علاقائیت کی جاہلیت نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔بعض اہل علم نے نصاب کی بعض کتابیں تیار کی ہیں اور وہ مفید بھی ہیں لیکن ہم اپنے اداروں کے نصاب میں ان کو شامل نہیں کرپارہے ہیں کیوں کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے اسٹیج سے کسی دوسرے کا نام لیا جائے۔ تنگ ظرفی اور وسیع الظرفی کے مفاہیم سمجھنے ہوں تو اس دنیا کے قریب جایئے، سب کچھ سامنے آجائے گا۔
ہمارے پبلشر کسی نئی اور اوریجنل کتاب کی اشاعت نہیں کرپارہے ہیں۔ ان کے لیے آسان یہ ہے کہ کہیں سے طبع شدہ کتاب ہاتھ لگے اور جس کی مارکیٹ میں مانگ بھی ہو، اس کی کاپی کرکے چھاپ دیا جائے۔ورنہ نئی کتاب کی کمپوزنگ کرانی پڑے گی اور ممکن ہے کہ کوئی مصنف معاوضہ طلب کربیٹھے، اس لیے اس کی طرف توجہ ہی نہ دی جائے۔ یہاں ہم کس سے شکایت کریں گے، یہاں کون ہمارے اوپر ظلم کررہا ہے؟ جماعتی اور تنظیمی سطح پر جو کمزوریاں ہمارے
اندر پیدا ہوچکی ہیں، ان کا ہمیں بخوبی علم ہے لیکن ہم نہ ان کو دور کرنا چاہتے ہیں اور نہ ان پر کوئی سنجیدہ گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ آج صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ جس مصنف کے پیچھے ادارہ ہے اور اس ادارے میں غریب اور یتیم طلبہ کی کفالت کے لیے مخلصان ملت کا دیا ہوا عطیہ اور زکوۃ ہے، اس کی کتاب شائع ہوجاتی ہے اور جو اس ’’نعمت‘‘ سے محروم ہے، وہ اپنا مسودہ لیے لیے پھرتا ہے، کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہے اور اگر کسی نے جراءت دکھائی بھی تو وہ کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ تک کا معاوضہ دینے میں لیت و لعل سے کام لے گا۔ اپنے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے، اپنی ایک ایک اینٹ بکھر رہی ہے اور ہماری اپنی صلاحتیں ضائع ہورہی ہیں لیکن ہماری صحافت، ہماری فکر اور ہماری دانشوری دوسروں کی شکایت کرنے میں مصروف ہے اور تھوڑی بہت جو عزت و آبرو باقی رہ گئی تھی، اسے بھی نیلام کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ الیس منا رجل رشید؟
مولانا عبدالرؤف ندوی حفظہ اللہ ہماری جماعت کے اس قافلے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے سالار مولانا عبدالرؤف رحمانی جھنڈانگری، مولاناعبدالمبین منظر اور مفسرقرآن مولانا عبدالقیوم دودھونیاں وغیرہ تھے۔ زبان میں سادگی ہے اور تحریر میں متانت، جو کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، اسے اپنے اسلوب میں بغیر کسی تصنع کے صاف صاف لکھ جاتے ہیں۔ معاصر علمائے کرام سے استفادہ کرنے میں بھی انھیں کوئی عار نہیں ہے اور اس تعلق سے وہ کوئی تحفظ نہیں رکھتے۔ اب اسی مقدمہ کتاب کو دیکھ لیں، میں ان کے بچوں کی عمر کا ہوں، میری کوئی علمی شناخت اور پہچان نہیں، پھر بھی ان کا حکم تھا کہ مقدمہ تمھیں لکھنا ہے اور اس حکم کی تعمیل کرنے کے سوا میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں ان کے حکم کو ٹالنا گستاخی سمجھتا ہوں اور اپنے بزرگوں کی شان میں اس طرح کی گستاخی کرنا اس ماحول کے تہذیبی رجحانات سے میل نہیں کھاتا جہاں میں نے اور میرے قلم نے تربیت پائی ہے۔
کتاب میں مصنف حفظہ اللہ نے سات درجن سے زیادہ شخصیا ت اور علمائے جماعت کے تذکرے تحریر فرمائے ہیں۔ان میں قدیم و جدید دونوں طرح کی شخصیات شامل ہیں۔بعض سوانحی خاکے مختصر ہیں اور بعض مطول، کوئی تحریر صاحب تذکرہ کی وفات کے معاً بعد زیرقلم آئی ہے اور کوئی تحریر بعد میں تیار کی گئی ہے۔ کہیں جذبات فراواں ہیں اور کہیں سبک روی اور متانت ہے۔ ہر رنگ میں اور ہر انداز میں یہ سوانحی خاکے اشارہ کرتے ہیں کہ ان کو ایک دو نشست اور ماہ دو ماہ میں نہیں بلکہ کئی سالوں میں وقفے وقفے سے لکھا گیا ہے۔ ان خاکوں میں جماعت کی تاریخ بھی ہے، اس کی دعوتی تگ و تاز کا بیان بھی، ان میں اغیار کی ریشہ دوانیوں کا تذکرہ بھی ہے اور اپنوں کی سرد مہری کا حال بھی، ان میں سامان عبرت و نصیحت بھی ہے اور ہمت و حوصلہ بھی۔ مجھے امید ہے کہ جلد اول کی طرح جلد دوم کو بھی پذیرائی حاصل ہوگی اور اسے بھی ہماری جماعتی تاریخ کا حصہ بنالیا جائے گا۔
مصنف حفظہ اللہ ہمارے بزرگوں میں سے ہیں۔ میں ان کا حد درجہ احترام کرتا ہوں۔ انھیں بھی مجھ سے تعلق خاطر ہے اور وقتاً فوقتاً اپنی محبتوں سے نوازتے رہتے ہیں۔ تصنیف کتاب کے سلسلے میں کہیں نہ کہیں میری درخواست کا بھی دخل رہا ہے، اس لیے ان کا حکم تھا کہ حصہ دوم پر مقدمہ میں لکھوں۔ مجھے معلوم ہے کہ کتابوں پر مقدمے معروف اور علمی شخصیات تحریر فرمایا کرتی ہیں اور یہ ناچیز نہ معروف ہے اور نہ علم سے بہرہ ور، پھر بھی ان کے حکم کی تعمیل میں یہ چند سطریں حوالہ ٔقرطاس کردی ہیں، اللہ کرے ان کے حکم کی تعمیل کسی ناحیہ سے ہوگئی ہو اور یہ انھیں پسند بھی آجائے۔ مجھے امید ہے کہ کتاب قارئین ذی احترام کو پسند آئے گی اور وہ اس سے استفادہ کریں گے۔ اللہ مصنف کو جزائے خیر دے، اس پیرانہ سالی میں بھی ان کا قلم رواں دواں ہے اور ان کا حافظہ ان کا ساتھ دیتا ہے، یہ اللہ کا بڑا انعام ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ انھیں صحت و عافیت سے رکھے، ہمارے درمیان ان کی ذات گرامی انتہائی محترم ہے۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم ان سے استفادہ کرسکیں اور ان کی طویل زندگی کے اہم تجربات کو اپنے لیے مشعل راہ بناسکیں۔


ماشاء اللہ بہت علمی مقدمہ ہے۔ سوانح نگاری اور سوانح نگاروں کےحوالے سے بڑی اچھی گفتگو ہے۔ ڈاکٹر بہاء الدین صاحب کے تاریخ پر بھی اچھا تبصرہ ہے۔
جزاکم اللہ خیرا شیخ
ماشاءاللہ جزاک اللہ بارک اللہ اللہ آپ کو صدا سلامت رکھے آمین
اللہ آپ کی خدمات کو قبول فرماۓ آمیـــــــــــــن
کتاب. تذکرۃ المناظرین دوجلوں میں ہے یہ کتاب بھی اپنی نہایت سے برصغیر میں علماۓ اہلحدیث کے مناظروں کا دلکش مجموعہ ہے