حضرت ابراہیم کی سیرت میں مسلم اقلیت کے لیے اسوہ

سرفراز فیضی

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت دعوت توحید کا ایک مکمل نصاب ہے، ان کی پوری زندگی دعوتی جدوجہد سے عبارت ہے، انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر انھوں نے دعوت کی کئی منزلیں عبور کیں، بہت سارے مراحل طے کیے، مشکل گھاٹیاں سر کرکے چوٹی پر جا پہنچے۔ حضرت ابراہیم دعوت کی شان ہیں، داعیان توحید کے امام ہیں، دنیا کے ہر داعی کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی مشعل راہ ہے، داعی حق کو زندگی میں جب بھی کسی مشکل کا سامنا ہو اس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت میں اپنی مشکل کا حل اور رہنمائی کی روشنی ضرور مل جائے گی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے امت مسلمہ کے لیے اسوہ بھی اسی لیے قرار دیا ہے، ایک طرف تو ان کی شخصیت کثیرالجہات ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان کے کردار کا ہر پہلو عظیم اور مثالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر انبیاء کی بنسبت قرآن مجید ان کی شخصیت کے مختلف پہلووں کو نمایاں کرتا ہے، ایک مشرک باپ کا موحد بیٹا، مشرک قوم کے سامنے تن تنہا کھڑا نوجوان، بادشاہ وقت کے سامنے سینہ سپر حق گو مجاہد، باطل کی دلیلیں پاش پاش کردینے والا مناظر، وقت اور حالات کی مصلحتوں کو سمجھنے والا داعی، ملک ملک کی خاک چھاننے والا مہاجر، محبت کرنے والا شوہر، اپنے اولاد ہی نہیں مستقبل میں پیدا ہونے والی ذریت تک کے لیے فکر مند باپ، تن تنہا ایک امت، ایک امام، ایک صابر، شاکر، مطیع، قانت، وفادار بے چوں وچرا سر تسلیم خم کردینے والا فرمانبردار بندہ اور سب سے بڑھ کر مشرکین سے بری اور شرک کی غلاظتوں سے پاک وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ۔
توحید اللہ رب العزت والجلال کا سب سے بڑا مطلوب ہے، توحید اللہ کے نزدیک سب سے بڑی عبادت اور سب سے محبوب نیکی ہے، توحید اللہ سے قربت اور محبت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، توحید کے معاملہ میں بندوں کے مراتب مختلف ہیں، توحید ویسے تو دنیا میں آنے والے ہر نبی کی دعوت کا مرکزی موضوع اور عنوان رہا ہے، لیکن حضرت ابراہیم کی توحید کو قرآن نے بالکل منفرد اور نمایاں انداز میں بیان کیا ہے۔ بندے کو توحید کے خلوص کے بقدر اللہ کی قربت اور محبت نصیب ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید کے اس مقام پر پہنچے کہ اللہ نے ان کو اپنا خلیل منتخب کرلیا۔
قرآن مجید میں رب کائنات نے پانچ مقامات پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہوئے محبت بھرے انداز میں فرمایا: وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ۔ کہ ابراہیم مشرک نہیں تھے، یعنی جو ادا ابراہیم علیہ السلام کی رب العزت والجلال کو سب سے زیادہ بھائی، جو صفت سب سے زیادہ پسند آئی وہ یہ کہ شرک میں گلے تک ڈوبے خاندان، قبیلے اور قوم سے تعلق رکھنے کے باوجود ابراہیم نے اپنے دین کو شرک کی غلاظتوں سے بچا لیا، ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئے جہاں چاند ستاروں کی پرستش کا بھی رواج تھا، بتوں کی پوجا بھی ہوتی تھی، بادشاہ کو بھی معبود سمجھا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہر محاذ پر شرک اور مشرکین کا دلائل وبراہین سے مقابلہ کیا۔
حضرت ابراہیم مشرک قوم کے موحد فرد تھے، مشرک اکثریت کے بیچ ان کی حیثیت مسلم اقلیت کی تھی۔
اس حیثیت سے حضرت ابراہیم کی سیرت خصوصی طور پر کافر ملکوں میں رہنے والی مسلم اقلیتوں کے لیے نمونہ ہے، شرک اور بت پرستی کے ماحول میں اپنے دین اور شریعت، ایمان و عقیدہ کی حفاظت کیسے کی جائے اور کافر و مشرک اکثریت تک عقیدہ توحید کی دعوت کے لیے کیا اسلوب و وسائل اختیار کیے جائیں، حضرت ابراہیم کی سیرت کا یہ ایک بہت اہم پہلو ہے جس کو سامنے رکھ کر مسلم اقلیتوں بالخصوص ہندستان کے اہل توحید کو اپنے دین و ایمان کی حفاظت اور دعوت کا منصوبہ مرتب کرنا چاہیے۔
توحید ایک مسلمان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے، اور اس گراں قدر سامان کی حفاظت اس کا اولین فریضہ ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی اس حیثیت سے اسوہ ہے کہ انھوں نے شرکیہ ماحول میں آنکھیں کھولی، ایک مشرک قوم کے بیچ رہ کر توحید کی دعوت کا حق بھی ادا کیا عقیدہ توحید پر آنچ بھی نہیں آنے دی، دعوت کے حوالے سے اپنی قوم سے خیر خواہی اور ہمدردی کا جو حق تھا وہ بھی پورا پورا ادا کیا لیکن توحید کے معاملہ میں کسی طرح کا سمجھوتہ اور مداہنت بھی قبول نہیں کی۔
اخلاص توحید کا حق ہے، اللہ رب العزت کو اس معاملہ میں مداہنت قطعی طور پر قبول نہیں، توحید کے معاملہ میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا، جہاں سمجھوتے والی بات ہو وہاں داعی توحید کا لہجہ دو ٹوک ہونا چاہیے، کفر اور کفار کے معاملہ میں اس کا موقف واضح اور بے لاگ ہونا چاہیے۔ جہاں باطل سمجھوتے کی بات کریں وہاں خطاب “يٰٓاَيُّہَا الْكٰفِرُوْنَ” کے لہجے میں ہوتا ہے اور دو دو بار وضاحت کی جاتی ہے۔ (لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ، وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ، وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ، وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ) اور اپنا موقف صاف لفظوں میں باطل کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔
شرک کے ساتھ لاتعلقی اور برات کا یہ لہجہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت میں بالکل نمایاں ہے۔
(قَالَ أَفَرَأَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ ۔ أَنتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ۔ فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ) (الشعراء: 75-77) ابراہیم نے کہا: کیا کچھ خبر بھی ہے وہ سب جنھیں تم پوج رہے ہو تم اور تمھارے اگلے باپ دادا، یہ سب میرے دشمن ہیں بجز ایک رب العالمین کے۔
(قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ )(الانعام: 78)
ابراہیم پکار اٹھا: اے برادران قوم! میں بری و بے زار ہوا ان سب سے جنھیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو۔
(وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاء مِّمَّا تَعْبُدُونَ۔إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ) (الزخرف: 26-27)
جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا: تم جن کی بندگی کرتے ہو میں ان سے صاف بری و بیزار ہوا۔ میرا تعلق ہے تو صرف اس ذات سے جس نے مجھے پیدا کیا، وہی ذات ہے جو میری رہنمائی کرے گی۔
(قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ)
(مسلمانو!) تمھارے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے، جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا: ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا بندگی کرتے ہو ان سب سے بری و بے زار ہیں۔ ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لے آؤ۔
آج کے اس پر فتن دور میں جب مداہنت کو سیکولرازم اور لبرلزم کا حسین عنوان دے دیا گیا ہے، اور قومی دھارے میں شمولیت، رواداری اور قومی کلچر کا حوالہ دے کر قسم قسم کے شرک حلال کیے جارہے ہیں حضرت ابراہیم کی سیرت کا یہ پہلو بہت اہم ہے کہ وہ اسی عقیدہ توحید کی حفاظت کے لیے پوری قوم کے سامنے کھڑے ہوگئے، اپنی جان، مال سب کچھ داؤ پر لگا دی لیکن عقیدہ توحید کے ساتھ کسی طرح کا سمجھوتہ برداشت نہیں کیا۔
شرک اور مشرکین سے برأت کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ ان کے ساتھ حسن سلوک اور اخلاق جمیلہ کا تعلق بھی ختم کرلیا جائے اور درمیان میں قطع تعلقی کی ایسی دیوار حائل کردی جائے جسے دعوت کے سارے راستے مسدود ہوجائیں۔
شرک اور مشرکین سے برأت کے معاملہ میں بھی موحد کو اعتدال کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمھیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمھیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔( الممتحنہ:8)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت میں اعتدال بھی ہے، تدریج بھی ہے، وقت اور حالات کے تقاضوں کی رعایت بھی ہے، اپنے مدعو کے لیے حسن خلق بھی ہے، ہمدردی اور خیرخواہی کے جذبات بھی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ شرک سے انتہا درجے کی برأت بھی ہے، یہ ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کا بہت بڑا کمال ہے۔
اپنے والد سے خطاب کیا تو یا ابت کہہ کر خطاب کیا، قوم سے مخاطب ہورہے ہیں تو یا قومی کہہ کر خطاب کررہے ہیں۔ والد کے مسلسل انکار کے باوجود ہمدری اور خیرخواہی کا جذبہ ہے کہ جدا ہوتے ہوتے بھی استغفار کا وعدہ کررہے ہیں۔
حضرت ابراہیم کا یہ رویہ ہمارے لیے اسوہ ہے کہ حسن خلق ایک داعی کی لازمی صفت ہوتی ہے، مدعو جب تک داعی کو اپنے لیے خیر خواہ تسلیم نہیں کرے گا، اس کی دعوت قبول نہیں کرسکتا۔
حضرت ابراہیم کی دعوت میں تدریج ہے، دعوت کا مشن ایسے ہی مرحلہ وار آگے بڑھتا ہے، حضرت ابراہیم کی دعوت کی شروعات سوالوں سے ہوتی ہے، اپنے والد سے سوال، اپنی قوم والوں سے سوال۔ یہ سوالات اس لیے تھے کہ مشرکین کی عقل پر پڑا پردہ ہٹ سکے، غور و فکر کو راستہ ملے، باپ دادا کی اندھی تقلید کا خاتمہ ہو، تحقیق حق کا جذبہ بیدار ہو۔
جب غور و فکر کے سارے حوالے اپنے والد اور قوم کے سامنے رکھ چکے تو آخر میں ان کو اللہ کی طرف سے عذاب شدید کی وعید سنائی۔
تدریج ہی کا یہ اسلوب نمرود کے سامنے بھی اختیار کیا، اس کو پہلی دلیل توحید سمجھانے کے مقصد سے دی، لیکن جب اس نے سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنی کھلی اور عام فہم دلیل تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو اللہ کی ربوبیت کی ایسی دلیل پیش کی جس کا موٹے عقل کا مشرک بادشاہ جواب کیا دیتا مبہوت ہوکر رہ گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جہاں جہاں شریعت نے اجازت دی وہاں رخصتوں کا استعمال بھی ہے، جہاں ضرورت ہوئی تعریض اور توریہ سے بھی کام لیا۔ یعنی داعی حالات کے تقاضوں کے تحت حالت استضعاف میں کبھی شریعت کی رخصتوں کا بھی استعمال کرسکتا ہے لیکن اس حالت میں بھی یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ رخصت پر عمل مجبوری کی حالت میں ہوتا ہے، اس کو عزیمت کی طرح قبول کرلینا اور اس پر مطمئن اور راضی ہوجانا شریعت کے خلاف ہے۔
غرضیکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت بالعموم دعاۃ کے لیے اور بالخصوص حالت استضعاف میں دین و ایمان کی حفاظت اور دعوت کے لیے بہت سارے اسباق موجود ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
احمد وسیم

بہت عمدہ مضمون ۔۔ ما شاء اللہ

مصلح الدین

نہایت ہی عمدہ اور لائق عمل ۔