وطن عزیز کی آزادی کی تہترویں کڑی کی مناسبت سے تمام اہالیان وطن کے لیے محبت و بھائی چارگی، امن و سلامتی، اتحاد و اتفاق، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، حقوق و حریات، قانون کی بالادستی، مذہبی آزادی و رواداری اور وطن کی تعمیر و ترقی کے لیے نیک خواہشات اور دعائیں۔
دوستو:
قوموں کی زندگی میں تہتر سال کی مدت اس کی تعمیر و ترقی کے لیے بڑا لمبا عرصہ ہے۔ جب ہم کو آزادی کا پروانہ ملا تب دنیا دوسری عالمی جنگ کی ہولناکیوں اور کربناکیوں سے کسی حد تک سکون کا سانس لے رہی تھی۔ تباہی و بربادی کے کھنڈر سے جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا نے دوبارہ اپنے پیروں پرکھڑا ہونے کے لیے موت کے ملبے سے باہر نکلے۔ تعمیر و ترقی، سائنس و ٹکنالوجی اور خود کفیلی و خوشحالی کا عہد و پیمان کرکے اپنے اہداف و مقاصد کی حصولیابی کے لیے اس طرح منہمک ہوئے کہ کبھی انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ملک کے ہر فرد نے اسے ترقی کے آسمان تک لے جانے میں اپنا سب کچھ قربان کردیا، اور اسی عزم و حوصلے، جذبۂ ایثار و قربانی اور پیہم تگ و دو کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ ممالک آج ترقی یافتہ ملکوں کے صف اول میں نظر آتے ہیں۔
ملک کو ترقی کی راہ پر لگانے کے لیے سب کا ہاتھ اور سب کا ساتھ کا عملی نمونہ پیش کیا، قانون کی بالادستی اور سب کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لیے حکومتوں سے لے کر عوام تک، تعلیم گاہوں سے لے کر ہاسپٹل تک اور غذائیات سے لے کر امن و امان تک غرضیکہ ہر فیلڈ نے اپنا بھرپور رول انجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج وہ ترقی کے جس مقام پر فائز ہیں اسے دنیا رشک بھری نگاہوں سے دیکھتی ہے اور ان کی مصنوعات، برانڈ، ٹکنالوجی اور تمام شعبہائے زندگی کے پروڈکٹ کو بڑے احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے نیز ان کی کوالٹی و معیار کی طوطی بولتی ہے۔ اور ہاں مادیت کے ساتھ انسان سازی میں ان ملکوں نے بہت زیادہ توجہ دی۔ اک مہذب معاشرے کی تشکیل کے لیے ہر شہری کی زندگی کے تمام بنیادی حقوق کی فراہمی پر بہت زیادہ زور دیا۔ اس کے لیے تعلیم، صحت، ہاسپٹل، روڈ و مواصلات، انفراسٹکچر، قانون اور سوشل سیکیورٹی کے لیے ملک کے تمام وسائل کو مسخر کردیا اور بدلے میں ان کے شہریوں نے اپنے آپ کو ملک کی ترقی کے لیے وقف کردیا جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ سنگاپور، ملیشیا، دبئی، ہانگ کانگ اور چین نے بھی تعمیر و ترقی کے میدان میں ہم کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آخر ہمارے پچھڑے پن اور افلاس کی وجہ کیا ہے؟ مذکورہ ممالک کو بھی وقت اتنا ہی ملا جتنا ہم کو پھر ہم بھٹک کیسے گئے؟
آزادی کے وقت ہماری کرنسی ڈالر سے مضبوط تھی، ہم نے دنیا کو آزادی کا درس دیا اور سر اٹھا کر جینا سکھایا، ہم نے نان وائلنس تحریک کے ذریعہ استعمار کے غرور کو خاک میں ملا دیا اور اپنی محنت، جد و جہد اور مجاہدانہ سرفروشی کے ذریعہ اس ملک کو غلامی کے طوق سے آزاد کراکے اہل وطن سے تعمیر و ترقی کے بڑے بڑے وعدے کیے اور سپر پاؤر بننے کا خواب دکھاتے رہے، مگر یہ خواب شرمندۂ تعبیر کب ہوں گے..؟؟
ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں، وسائل میں نقص نہیں، مین پاور کا شکوہ نہیں اور عزم و حوصلے کا بھی فقدان نہیں، پھر آخر ہم کہاں بہک گئے؟؟
ہم نے اسپیس سائنس میں اپنا لوہا منوایا، کمپیوٹر سافٹ ویئر کی دنیا کے ہم زعیم ہیں، آئی آئی ٹی نے ہمیں دنیا میں بہت عزت و مقام دیا اور جب فوڈ سیکیورٹی اور غذائی اجناس کے لیے امریکہ نے ہم کو آنکھ دکھایا تو ہم نے زراعت کے سیکٹر میں سبز انقلاب برپا کردیا۔ یہ ساری خوبیاں ہم میں ہیں پھر بھی ہم فقیر ملک کہلاتے ہیں کیوں؟
کیا ہم نے آزادی کے ستر سال بعد بھی کبھی سنجیدگی سے غور کیا، کیا ہمارے زعماء اور سیاستدانوں نے کبھی اخلاص کے ساتھ اپنے اس حلف اور عہد و پیمان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سوچا جس کا وہ حکومت سازی کے وقت تمام شہریوں کے سامنے اعتراف کرتے ہیں؟ شاید نہیں، بالکل نہیں ورنہ یہ ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کے دوش بدوش ہوتا۔ آخر اس ملک کو کیا کرنا ہے؟؟؟
کرپشن سے آزادی کی ضرورت ہے، سیاست کو تعصب سے پاک کرنے کی ضرورت ہے، یکساں مواقع کی ضرورت، قانون کی بالادستی، عدل و انصاف کی حکمرانی، طبقاتی نظام پر قدغن لگانے، اونچ نیچ کی خلیج کو پاٹنے، امیر و غریب کے فاصلے کم کرنے، رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کی مکمل سنجیدگی کے ساتھ تنفیذ، منریگا قانون کی تنفیذ میں مکمل شفافیت، ہیلتھ کیئر کو ہر شہری کا حق بنانے، ہاسپٹل کو عامۃ الناس کی پہنچ تک لانے، فوڈ سیکیورٹی ایکٹ کا پوری سنجیدگی سے تنفیذ، انفراسٹکچر کی فراہمی، انڈسٹری کی ترقی کے لیے سازگار ماحول اور قانون، امن و امان کا بول بالا، مذہبی بنیاد پر لڑنے اور لڑانے کی سیاست کا مکمل خاتمہ اور ملک کو آفتاب ترقی تک پہنچانے میں ہر ایک کی شراکت کی ضرورت ہے۔ ملک کے عوام کو بھی پوری سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ اپنا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی لیڈران، ملک کے حکام اور تنفیذی اداروں کو تعصب، ذات پات، دین و مذہب کی سیاست سے بالا تر ہوکر اس ملک کی خوشحالی کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے کی ضرورت ہے۔ کرپشن کے تابوت میں آخری میخ مار کر سب کا ہاتھ سب کا ساتھ، ایک ملک ایک شہری اور سب کے ساتھ حسن سلوک و مساوات کی ضرورت ہے۔
اگر اس ایجنڈہ کو سامنے رکھ کر ملک کی ترقی کا اک وژن اور مشن متعین کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب وطن عزیز ہندوستان ہر شعبہائے زندگی میں ترقی کے راہ پر گامزن ہو، ہر شہری خوشحال اور پرامن ہو اور اس ملک کے سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کا Vision 2020 دیر ہی سہی Vision2030 بن کر پورا ہو جائے۔
اللہ اس ملک کو ترقی و خوشحالی عطا فرما اور ہم سب کو صحیح عقیدہ وایمان پر قائم رکھ۔ آمین
بہت تازہ تحریر ہے. مبارک ہو.