اللہ تعالی کی صفت فوقیت اور اس سلسلہ میں شارح عقیدۂ طحاویہ…

راشد حسن مبارکپوری عقائد

اللہ تعالی کی صفت فوقیت اور اس سلسلہ میں شارح عقیدۂ طحاویہ کے موقف کا تنسیقی وتوضیحی مطالعہ


’’العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ عقیدہ کی بنیادی کتابوں میں سے ہے، اس کے مؤلف ابوجعفر احمد بن محمد بن سلامہ بن سلمہ بن عبدالملک الازدی الحجری المصری الطحاوی (۲۳۹ ھ- ۳۲۱ھ) ہیں۔
مؤرخین اورتذکرہ نویسوں نے ان کی تالیفات کی تعداد تیس سے زائد بتائی ہے مگر شرح معانی الآثار، شرح مشکل الآثار، مختصر الطحاوی فی الفقہ الحنفی اور العقیدۃ الطحاویۃ ان کی معروف کتابیں ہیں۔
ان میں سب سے اہم جسے بلاد اسلامیہ میں غیرمعمولی پذیرائی اور بے پناہ اہمیت و مقام حاصل رہا وہ یہی آخرالذکر کتاب ہے، اسی اہمیت کے پیش نظر اہل علم و نگاہ نے اس کی بہت سی شرحیں لکھیں، ان ميں سب سے زیادہ مقبول شرح قاضی علی بن علی بن محمد بن ابی العز الدمشقی الحنفی کی ہے، اس کے علاوہ دور جدید میں بھی مختلف شرحیں لکھی گئیں، ان میں سے شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ، شیخ سفر الحوالی، شیخ صالح الفوزان اور دکتور ناصر العقل کی شروح و تعلیقات معروف و متداول ہیں۔
علو و فوقیت اللہ تعالی کی صفات ذاتیہ میں سے ہیں (۱)، اہل سنت والجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالی آسمان پر عرش کے اوپر مستوی ہے (۲)، مخلوقات سے بلند ہے، علو و فوقیت سے متصف ہے، لیکن اہل بدعت یعنی اہل کلام، فلاسفہ، جہمیہ اور بیشتر معتزلہ اس صفت باری کا انکار کرتے ہیں، ساتھ ہی بعض ماتریدیہ بھی اس کی تاویل کرتے ہیں۔
اہل علم علو کی تین قسمیں کرتے ہیں:
۱۔ علو القوۃ
۲۔علوالقہر
۳۔علو الذات و المکان
اہل سنت ان تینوں قسموں کو تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالی قوت قہر وجلال کے اعتبارسے بھی عالی اور بلند ہے اور ساتھ ہی ذات و مکان کے اعتبار سے بھی بلند و برتر ہے اور اہل کلام اور اہل تجهم و اعتزال آیات و احادیث کو صرف علو قوت و قہر میں محصور مانتے ہیں جب کہ آیات و احادیث اور عقل سلیم علو ذات و مکان پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں۔
انکار کی صورت میں اہل باطل کے لیے مسئلہ پیدا ہوا کہ اللہ اگر عرش پر مستوی نہیں تو کہاں ہے؟ چنانچہ یہیں سے عقیدۂ وحدت الوجود (۳) و حلول جیسے باطل افکار و عقائد کا ظہور ہوا۔ ان پر ’’فرَّ من المطر، وقامَ تحتَ المیزابِ‘‘ یعنی ’’بارش سے نکل کر پرنالہ کے نیچے کھڑا ہوگیا‘‘ والی مثل صادق آتی ہے۔
شارح عقیدۂ طحاویہ نے ان سب مسائل پر سیر حاصل بحث کی ہے، ایک بات کی وضاحت یہاں ضروری معلوم ہوتی ہے کہ شارح رحمہ اللہ نے ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہما اللہ کی تحریروں سے بے پناہ خوشہ چینی کی ہے، حتی کہ اسی اسلوب میں بالکل ڈھل گئے ہیں۔ چنانچہ اسی بات کی تحقیق کے پیش نظر امام ابن القیم رحمہ اللہ کی تحریروں پر نظر ڈالی گئی تو پتہ چلا کہ شارح رحمہ اللہ بسا اوقات پورا پورا صفحہ اور مکمل بحث ان کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں اور اس کی طرف اشارہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، “الصواعق المرسلۃ فی الرد علی الجہمیۃ و المعطلۃ” سے خصوصی استفادہ کیا ہے، غالبا یہی وجہ ہے کہ باتوں میں اس قدر ترکیز باقی نہ رہ سکی جس کا اس طرح کی کتابیں تقاضا کرتی ہیں، لہذا بعد کے بہت سے اہل علم نے اس کتاب پر شرح و تعلیق اور تہذیب کا کام کیا ہے۔ اس وقت ہمارے پیش نظر دو تہذیبات ہیں:
ایک مہذب شرح العقیدۃ الطحاویۃ اور دوسری تہذیب شرح العقیدۃ الطحاویۃ، اول الذکر ہندوستان كى مشهور جامعات میں داخل نصاب ہے، اسی حوالے سے ہماری گفتگو ہوگی۔
امام طحاوی لکھتے ہیں:

’’وھومستغنٍ عن العرش ومادونه، محیطٌ بکل شيء وفوقه، وقد أعجز عن الإحاطة خلقه ‘‘

شارح نے امام طحاوی کے اس متن کی توضیح میں تین طرح کے مسائل کا ذکر کیا ہے:
۱۔استغنائہ عن خلقہ: یعنی اللہ تعالی تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے۔
۲۔إحاطتہ بہم: یعنی اس نے تمام مخلوقات کا احاطہ کر رکھا ہے۔
۳۔علوہ علیہم: اللہ کی ذات تمام مخلوقات پر بلند ہے۔
پہلے مسئلہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات مقدسہ تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے، ان سے کسی بھی طرح کا محتاج نہیں اور عرش، حاملین عرش اور ان کے ماسوا لوازم کا بھی وہ محتاج نہیں، بلکہ یہ لوازم اس کی ذات باری تعالی کے خصائص میں سے ہیں، گویا اللہ تعالی نے عرش اور حاملین عرش کو اپنی لامحدود قوت سے اٹھا رکھا ہے۔
دوسرے مسئلہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالی نے پوری کائنات کا اپنی عظمت، قدرت اور لامحدود علم سے احاطہ کررکھا ہے، اس کے احاطہ کے فہم سے انسانی عقل عاجز اور درماندہ ہے، نقلی دلائل کے ساتھ عقلی دلائل کو بھی پیش کیا ہے، مثلاً کسی شخص کے ہاتھ میں ایک رائی کا دانہ ہو تو وہ پوری طرح اسی شخص کے قبضہ اور احاطہ میں ہوتا ہے، وہ پوری طرح تصرف کی طاقت رکھتا ہے اور وہ بہرحال اس سے مبائن اور تمام وجوہ سے اس سے عالی اور بلند ہوتا ہے، خواہ علو قوت و عظمت ہو یا علو ذات و مکان، لہذا اس ذات مقدس کے بارے میں کیا کہوگے جو بے مثال ہے؟

لَیْسَ کَمِثْلِه شَيءٌ

’’اس کے مثل کوئی چیز ہے ہی نہیں۔‘‘
اور تیسرے مسئلہ میں اللہ تعالی کی صفت علو کو تین طرح سے ثابت کیا ہے:
۱۔شھادۃ النصوص والآثار۔ نصوص وآثار سے استدلال۔
۲۔شھادۃ العقول۔ عقلی استدلال۔
۳۔شھادۃ الفطرۃ۔ فطری اور بدیہی استدلال۔
۱۔نصوص وآثار سے استدلال:
شارح علیہ الرحمہ نے مختلف دلائل اور نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ سے استدلال کرکے مسئلہ’’ فوقیت‘‘ کو ثابت کیا ہے، جن کو ہم حوالۂ قلم کرتے ہیں۔
۱۔فوقیت کے ذریعہ تصریح:
ارشاد باری ہے:

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِہ. (الأنعام:۶۱)

’’اوروہ اپنے بندوں کے اوپر غالب و برتر ہے۔‘‘

یَخَافُوْنَ رَبَّہُمْ مِّنْ فَوْقِهمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ. (النحل:۵۰)

’’اور اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔‘‘

عن أبي هریرة رضي اللہ عنه عن النبي صلی اللہ علیه وسلم أنَّه قال: لمَّا قَضَـَی اللہُ الخلقَ،کتَب في کتابٍ، فھو عندہ فوقَ العرش: إنَّ رحمتي سبقتْ غضبي.

[صحیح بخاری: بدء الخلق رقم۳۰۲۲، والتوحید رقم ۶۹۹۶، متعدد مقامات پر امام بخاری نے اسے نقل کیا ہے اورسب کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔]
’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے جب مخلوقات کو پیدا کیا تو ایک کتاب میں لکھا، وہ اس کے پاس عرش کے اوپر ہے: یقینا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔‘‘

روی مسلم عن النبي صلی اللہ علیه وسلَّم فی تفسیـر قوله تعالی: ’’ھُوَ الْأَوَّلُ وَاْلآخِرُ وَالظَّاهرُ وَالْبَاطِنُ‘‘ قوله: أنت الأولُ فلیس قبلكَ شيءٌ، وأنت الآخرُ فلیس بعدك شيءٌ، وأنت الظاهر فلیس فوقك شيءٌ، وأنت الباطن فلیس دونك شيءٌ. [صحیح مسلم:الذکر رقم۶۱،والأدب رقم۵۰۵۱].

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت ھو الأول … کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: توہی اول ہے، تجھ سے پہلے کچھ نہیں، توہی آخر ہے، تیرے بعد کچھ نہیں، تو ہی غالب و بلند ہے، تجھ سے اوپر کچھ نہیں، تو ہی باطن ہے، تیرے ورے کچھ نہیں۔‘‘
یہاں ظہور سے مراد علو ہے، ارشاد باری ہے:

فَمَا اسْطَاعُوْا أَنْ یَّظْهَرُوْہُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَه نَقْباً (الکھف: ۹۷)

’’ان میں اس دیوار کے اوپر چڑھنے کی طاقت تھی اور نہ اس میں سوراخ کرسکتے تھے۔‘‘
تو گویا یہاں یظہر کا معنی یعلو ہوگیا۔ (اس کے علاوہ اور بھی اس قسم کے دلائل ہیں، طوالت کے خدشہ سے انھیں قلم انداز کیا جاتا ہے، تفصیل کے لیے تہذیب شرح العقیدۃالطحاویۃ صفحہ:۱۲۰ دیکھناچاہیے)
۲۔عروج کے ذریعہ تصریح:
نصوص میں لفظ ’’عروج‘‘ یعنی ’’بلند ہونا ‘‘ کے ذریعہ صفت فوقیت کا اثبات کیا گیا ہے۔ ذیل کے دلائل کے ذریعہ اندازہ کیاجاسکتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

تَعْرُجُ الْمَلَائِکةُ وَالرُّوحُ إِلَیه فِیْ یَوْمٍ … (المعارج:۴)

’’جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں۔۔۔۔‘‘
ارشاد نبوی ہے:

یعرج الذین باتوا فیکم فیسألہم اللہ … [صحیح بخاری: المواقیت رقم۵۳۰،وبدء الخلق رقم۳۰۵۱]

’’جن فرشتوں نے تم میں رات بسر کی ہوتی ہے وہ اللہ کی جانب بلند ہوتے ہیں تو اللہ ان سے سوال کرتا ہے۔۔۔۔‘‘
۳۔صعود کے ذریعہ سے تصریح:
ارشاد باری ہے :

إلَیْه یَصْعَدُالْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُه. (الفاطر:۱۰)

’’تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے۔‘‘
۴۔بعض مخلوقات کو اٹھانے کے ذریعہ تصریح:
ارشاد باری ہے:

بَلْ رَّفَعَه اللّٰہُ إلَیْه (النساء:۱۵۸)

’’بلکہ اللہ تعالی نے ان کو اپنی طرف اٹھالیا۔‘‘
مزید ارشاد ہے:

ياعِیْسٰی إنِّيْ مُتَوَفِّیْكَ وَرَافِعُكَ إلَیَّ. (آل عمران:۵۵)

’’(جب اللہ تعالی نے فرمایا ) اے عیسی! میں تجھے پورا لینے والا ہوں اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں۔‘‘
۵۔علو مطلق کے ذریعہ سے تصریح:
اس علو مطلق کے ذریعہ فوقیت کی تصریح جو علو کے تمام مراتب ذات، قدر اور شان کو شامل ہے۔ مثلا ارشاد باری ہے:

وَھُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ. (البقرۃ:۲۵۵)

’’وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔‘‘
اور مزید فرمایا:

إنَّه عَلِیٌّ حَکِیْمٌ (الشوری:۵۱)

’’بے شک وہ برتر ہے، حکمت والا ہے۔‘‘
۶۔کتاب نازل کرنے کے ذریعہ تصریح:
فوقیت اور علو کی صراحت اس طرح سے کی کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کو نازل فرمایا۔ ظاہر ہے نزول اوپر سے ہی ہوسکتاہے نہ کہ نیچے یا کسی اور جہت سے۔ ارشاد باری ہے:

تَنْزِیْلُ الْکِتَابِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِالْحَکِیْمِ. (الزمر:۱)

’’اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالی غالب باحکمت کی طرف سے ہے۔‘‘
۷۔اس بات سے تصریح کی کہ بعض مخلوقات اللہ کے پاس ہیں:
اللہ تعالی نے علو کی صراحت یہ بتا کر کی کہ بعض مخلوقات ایسی ہیں جو آسمان میں اس کے پاس رہتی ہیں اور ان میں سے بعض بعض سے زیادہ قریب ہیں۔ ارشاد باری ہے:

وَلَه مَنْ فِيْ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضِ وَمَنْ عِنْدَہ، لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِه وَلَا یَسْتَحْسِـرُوْنَ (الأنبیاء:۱۹)

’’آسمان اور زمین میں جو ہے اسی اللہ کا ہے اور جو اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں نہ تھکتے ہیں۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالی نے ’’مَنْ لَہٗ‘‘ اور’’َمَنْ عِنْدَہٗ‘‘ کے ذریعہ سے فرق کیا ہے۔’’مَنْ لَہٗ‘‘ کامطلب ہوا کہ کائنات میں بہت سی مخلوقات اس کی ملکیت اور اس کی نگرانی میں ہیں اور ’’مَنْ عِنْدَہٗ‘‘ کا مطلب ہوا کہ بہت سی مخلوقات اس کی ملکیت میں تو ہیں ہی اس کے پاس اور قریب بھی ہیں۔
۸۔اس بات سے صراحت کی کہ اللہ تعالی آسمان میں ہے:
علو و فوقیت کی صراحت کہ اللہ تعالی آسمانوں میں بلند ہے، ظاہر ہے کہ آسمان کی جہت اوپر ہے، نیچے یا کسی اور جہت میں نہیں۔ ارشاد باری ہے:

أَأَمِنْتُمْ مَّنْ فِیْ السَّمَاءِ أَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْأَرْضَ. (الملک:۱۶)

’’کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ آسمانوں والا تمھیں زمین میں دھنسا دے؟‘‘
مفسرین نے اس کی دو توجیہات بیان کی ہیں:
۱۔یہاں’ فی‘ ’علی‘ کے معنی میں ہے، معنی ہوا: ’’کیا تم اس ذات سے مامون ہوگئے جو آسمان پر ہے۔‘‘
۲۔’السماء‘ سے مراد ’علو‘ ہے جس میں کسی مفسر کا اختلاف نہیں، معنی ہوا ’’کیا اس ذات سے مامون ہوگئے ہو جو بلندی پر ہے۔‘‘
۹۔استوی کے ذریعہ علو کی تصریح:
اللہ تعالی نے قرآن کے متعدد مقامات پر اپنے عرش پر مستوی ہونے کی بات کہی ہے اور ساتھ ہی عموما ’علی‘ کا صلہ بھی استعمال کیا ہے جو کسی چیز پر استقرار کے معنی کو واضح کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی. (طہ:۵)

’’رحمن عرش پر مستوی ہوا۔‘‘

ثمَّ اسْتَوٰی عَلٰی الْعَرْشِ. (یونس:۳)

’’پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔‘‘
۱۰۔ہاتھ بلندی کی طرف اٹھانے کے ذریعہ علو کی تصریح:
ارشاد نبوی ہے:

إنَّ ربَّکم حيٌ کریمٌ یستحیي من عبدہ إذارفع إلیه یدیه أن یرُدَّھما صفراً. [صحیح سنن أبی داؤد:کتاب الصلوۃ باب الدعاء رقم۱۳۳۷،قال الألبانی :حدیث صحیح ].

’’اللہ تعالی کو اپنے بندے سے شرم آتی ہے کہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹائے جب وہ اپنے ہاتھوں کو اس کی طرف بلند کرتا ہے۔‘‘
۱۱۔آسمان دنیا پر نزول کے ذریعہ علو کی تصریح:
ارشاد نبوی ہے:

ینزِلُ اللہُ في کلِّ لیلةٍ إلی السَّماء الدُّنیا. [مسند أحمد إسنادہ صحیح علی شرط مسلم رقم ۱۶۷۴۵،۶۶۷۴۷].

’’اللہ تعالی ہر روز آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ نزول اوپر سے نیچے ہی ہوگا، نیچے سے اوپر نہیں، اس حقیقت کو دنیا کا جاہل ترین شخص بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے۔
۱۲۔حسی اشارہ کے ذریعہ علو کی تصریح:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر انگلی کو آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا تھا:

اللَّھم اشهّدْ.[صحیح بخاری کتاب الحج رقم۱۶۵۴، والمغازی رقم ۴۱۴۱].

’’اے اللہ! تو ان باتوں کے لیے گواہ رہنا ۔‘‘
۱۳۔أین کے ذریعہ علو کی تصریح:
اس کی صراحت اس حدیث میں ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک لونڈی سے پوچھا تھا: ’’أین اللہ؟‘‘ ’’اللہ کہاں ہے؟‘‘ تو اس نے جواب دیا: اللہ تعالی آسمان کے اوپر عرش پر ہے۔[صحیح مسلم:کتاب المساجد ۳۳،الصلاۃ ۱۲۱۹].
قرآن و سنت سے ماخوذ یہ چند اہم تصریحات ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ اللہ تعالی صفت علو و فوقیت سے متصف ہے۔ اس سلسلہ کی تمام تصریحات کا احصاء باعث طوالت ہے۔
آثار سے استدلال:
ابومطیع بلخی نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو یہ کہتا ہو کہ میں نہیں جانتا کہ میرا رب زمین میں ہے یا آسمان میں؟ تو امام صاحب نے فرمایا: وہ کافر ہے کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے کہ’’ رحمن عرش پر مستوی ہے۔‘‘ اور اس کا عرش ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے۔ میں نے کہا: اگر وہ کہے کہ وہ عرش پر تو ہے لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ عرش آسمان میں ہے یا زمین میں، تو امام صاحب نے جواب دیا کہ وہ کافر ہوگیا کیونکہ اس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا اور جس نے یہ انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔
اس کے بعد شارح طحاوی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دفاع میں لکھتے ہیں:

ولا یُلتفت إلی مَن أنکر ذلك ممن ینتسبُ إلی مذهبِ أبي حنیفةَ؛ فقد انتسب إلیه طوائفُ معتزلة وغیـرُهم مخالفونَ له في کثیـرٍ مِن اعتقاداته. [تہذیب شرح الطحاویۃ ص۱۲۳].

’’امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب بعض ایسے افراد ہیں جو علو کی حقیقت کا انکار کرتے ہیں، ان کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی، کیونکہ امام صاحب کی طرف منسوب معتزلیوں اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کی ایک جماعت ہے جو ان کے بہت سارے عقائد کا انکار کرتی ہے۔‘‘
۲۔عقلی استدلال:
شارح علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

لقد شھدتِ العقولُ السلیمةُ بعلو اللہ علی خلقه و ذلك من وجوہ: العلم البدیھي القاطع بأنَّ کل موجودین إما أن یکون أحدھما قائمًا بالآخر کالصفات، وإما أن یکون قائما بنفسه بائنًا من الآخر.
إنَّ اللہ لما خلق العالم، فإما أن یکون قد خلقه فی ذاته، أو خارجا عن ذاته والأول باطل بالاتفاق، ولما یلزم علیه أن یکون محلا للخسائس والقاذورات، والثاني یقتضي الانفصال والمباینة لأنَّ القول بأنه غیر متصل بالعالم، وغیرہ منفصل عنه غیر معقول.
إنَّ کونه تعالی لاداخل العالم ولاخارجه یقتضي نفي وجودہ بالکلية، فیکون موجودًا إما داخله وإما خارجه، والأول باطلٌ، فتعین الثاني، لزمت المباینة ولم یتصف سبحانه بفوقية الذات، مع أنه قائم بنفسه، غیر مخالط للعالم، لکان متصفا بضد ذلك، وضدہ السفول، وھو مذمومٌ علی الإطلاق، وھو مستقّرُّ إبلیس. [تہذیب شرح الطحاویۃ ص ۱۲۴].

’’پختہ اور صحیح و سالم عقلیں بھی اللہ تعالی کی فوقیت اور علو کی گواہی دیتی ہیں۔ یہ ایک بدیہی اور قطعی بات ہے کہ دو موجود شے دو حال سے خالی نہیں ہوں گی یا تو ان میں سے ایک قائم بالغیر یعنی دوسرے پر منحصر ہوگی جیسے صفت کا انحصار موصوف پر اور اس کے برعکس یا قائم بالذات وبالنفس اور دوسرے سے مبائن اور غنی ہوگی یعنی اس کا انحصار دوسروں پر نہیں ہوگا۔
لہذا جب اللہ تعالی نے کائنات کو پیدا کیا تو یہ بھی دو حال سے خالی نہ ہوگا یا تو اس نے کائنات کو اپنی ذات میں پیدا کیا ہوگا یا اپنی ذات سے خارج، پہلا قضیہ بالاتفاق باطل ہے کیونکہ اسے تسلیم کرنے سے یہ بات لازم آتی ہے کہ اللہ تعالی کی ذات بھی غلاظتوں اور گندگیوں کا محل ہو اور دوسرا قضیہ یہ واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات کائنات سے منفصل و مبائن (خارج اور الگ) ہے اور یہی قائم بالذات کی صورت ہوگی، (مزید برآں اللہ تعالی صمدیت سے متصف ہے نہ جنا ہے نہ جنا گیا ہے) اور یہ کہنا کہ اللہ تعالی کی ذات نہ متصل ہے اور نہ منفصل ہے نہایت غیر معقول بات ہے کیونکہ اللہ کی ذات کو نہ داخل ماننا اور نہ خارج ماننا وجود باری کی ہی بالکلیہ نفی کرتاہے(۴)۔ پس معلوم ہوا کہ اللہ کی ذات موجود ہے اگر موجود ہے تو یا تو داخل ہوگا یا خارج، پہلا بالاتفاق باطل ہے لہذا دوسرا قضیہ خودبخود ثابت ہوگیا اور مباینت لازم ہوگئی۔(۵)
اگر اللہ کی ذات کو فوقیت سے متصف نہ مانیں۔ جب کہ اللہ کی ذات قائم بالذات اور غیر مخالط للعالم ہے۔ تو یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ فوقیت کی ضد سے متصف ہے اور اس کی ضد سفول ہے اور یہ نہایت مذموم ہے کیونکہ سفول یہ ابلیس کا ٹھکانہ ہے ۔‘‘

تعالی اللہ عمایقولون علواًکبیراً۔

گزشتہ سطور میں یہ بات آچکی ہے کہ بعض لوگ اللہ کی صفت فوقیت کا انکار کرتے ہیں۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں:
فلسفی متکلمین، اہل تجہم، بیشتر اہل اعتزال اور اکثر متکلمین جو ان کے منہج پر چلے، مثلا: رازی اور ابتداء ًجوینی۔
یہ لوگ اللہ کی صفت فوقیت کا انکار کرتے ہیں اور نصوص میں فوقیت کے ذکر کو معنوی فوقیت پر محمول کرتے ہیں اور غلاۃ جہمیہ بالکلیہ انکار کرتے ہیں چنانچہ اس مسئلہ میں اپنی تائید کے لیے انھوں نے عجیب و غریب اصطلاحات اور دور از کار تاویلات وضع کیں۔ فی الواقع یہ اللہ کی ذات و صفات کا مسئلہ ہے، اس میں فلسفیانہ موشگافیوں کی ہرگز گنجائش نہیں ہے، اللہ تعالی کی ذات کے حوالے سے قابل للفوقیہ اور غیر قابل للفوقیہ کا شگوفہ چہ معنی دارد؟ پس ہم اہل سنت ذات و صفات کے حوالے سے وہی کہیں گے جو اللہ تعالی نے اپنے لیے ذکر کیا ہے اور پسند فرمایا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ نے بیان کیا ہے۔ چنانچہ ہر صفت کے حوالے سے امام مالک رحمہ اللہ کا مشہور قول یاد رکھیں گے:

الاستواءُ معلومٌ، والكیفُ مجهولٌ، والإیمانُ به واجبٌ، والسؤال عنه بدعة.

’’اللہ کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے، اس کی کیفیت نامعلوم ہے، اس پر ایمان واجب ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا گمرہی ہے۔‘‘
ذات و صفات کے حوالے سے اصل اعتبار کتاب و سنت کا ہوگا، ایسے امور کا ذکر جو التباس پیدا کریں ناجائز ہے، مثلا: قابل للفوقیہ یا غیر قابل للفوقیہ وغیرہ۔ یعنی اللہ کی ذات فوقیت قبول کرنے والی ہے یا نہیں۔
ہم کہتے ہیں کون شخص ہے جو اللہ کا قابل للفوقیہ ہونا یا نہ ہونا طے کرے گا؟ اللہ تعالی ہر چیز پر غالب اور متصرف کل ہے اور یہاں شارح نے جو اہل کلام کی زبان میں گفتگو کی ہے اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ انہی کی زبان میں ان کا رد کیاجائے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ جو عقیدۂ سلف سے ناواقف ہیں حیران ہوجاتے ہیں، مثلاً: قائم بالنفس یا غیر قائم بالنفس(۶)، مخالط للعالم، وجود خارجی اور وجود ذہنی وغیرہ۔ ان فلسفیانہ اصطلاحات سے عقیدۂ سلف کا طالب علم پریشان ہوجاتا ہے۔
۳۔فطری استدلال:
فطرت صحیحہ و مستقیمہ واضح انداز میں گواہی دیتی ہے کہ اللہ تعالی تمام مخلوقات پر بلند ہے اور علو کی صفت سے متصف ہے، چنانچہ ہر شخص دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھاتا ہے اور جہت علو کا نہایت خشوع و خضوع سے قصد کرتا ہے۔
محمد بن طاہر المقدسی لکھتے ہیں کہ شیخ ابوجعفر ہمدانی امام الحرمین جوینی کی مجلس میں شریک ہوئے اور وہ اس وقت اللہ کی صفت فوقیت و علو کی نفی کررہے تھے اور کہہ رہے تھے:

کان اللہ ولاعرش وھو الآن علی ماکان.

’’اللہ تعالی تو پہلے تھا مگر عرش نہیں تھا لہذا اس وقت اسی حالت میں ہے جیسے پہلے تھا ۔‘‘
پھر ہمدانی نے کہا کہ استاذ! اس ضرورت کا کیا ہوگا جسے ہم اپنے دلوں میں محسوس کرتے ہیں کیونکہ کبھی بھی کوئی عارف اللہ کا لفظ جب اپنی زبان سے ادا کرتا ہے تو اس کے دل میں اللہ کے حوالے سے علو کا احساس ہوتا ہے، وہ کبھی دائیں یا بائیں یا نیچے توجہ نہیں کرتا، لہذا ہم اس ضرورت کا دفعیہ کیسے کریں؟ راوی کہتے ہیں: جوینی نے اپنے چہرے پر طمانچہ مارا پھر نیچے اتر آئے، راوی کہتے ہیں کہ وہ روپڑے اور کہا: ہمدانی نے مجھے حیران کردیا، بلاشبہ یہ چیز بندوں نے انبیاء سے حاصل نہیں کی، بلکہ یہ ایک فطری اور بدیہی امر ہے۔
علو کے سلسلہ میں اعتراضات و تاویلات:
۱۔عقلی دلیل پر اعتراض:
ان لوگوں نے عقلی دلیل پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ دلیل عقلی بدیہی نہیں ہے کیونکہ اس کا جمہور عقلاء نے انکار کیا ہے اور اگر یہ مسئلہ بدیہی ہوتا تو اس میں کسی قدر بھی اختلاف نہ ہوتا۔
ہم جواب دیتے ہوئے کہیں گے: اگر عقل نے تمھاری بات تسلیم کی ہے تو ہماری بات کو اور زیادہ تسلیم کرے گی اور اگر ہماری بات رد کرتی ہے تو تمھاری بات کو بدرجۂ اولی رد کرے گی، یہ ایک بدیہی اور فطری امر اس لیے بھی ہے کہ اگر ہم دونوں کے مخالف کو اختیار دیا جائے تو وہ ہماری بات کو قبول کرے گا تمھاری نہیں۔ اگر تم نے حکم فطرت کو بھی رد کردیا تو تمھارا قول بالکلیہ باطل ہوگیا کیونکہ خود تمھارا استدلال بھی فطرت سے ہے اور عقل کا کیا؟ وہ تو ہم دونوں میں مشترک ہے مگر شرعی نصوص سب ہمارے موافق ہیں۔
اگر تم نے یہ کہا کہ اکثر عقلاء ہماری رائے سے متفق ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے بلکہ سب سے پہلے فلاسفہ کے ایک گروہ نے یہ باتیں پیش کیں اور اسلام میں سب سے پہلے جہم بن صفوان سے یہ عقیدہ آیا اور جو لوگ بھی تمھارے اس عقیدہ کو مانتے ہیں وہ شریعت اسلامیہ کے صریح مخالف و متضاد نظریات کے حامل ہیں۔
۲۔ فطری دلیل پر اعتراض:
تم ہم پر اعتراض کرتے ہو کہ آسمان دعا کا قبلہ ہے جیسا کہ صلاۃ کا کعبہ ہے، پھر تم زمین پر پیشانی کیوں رکھتے ہو جب کہ اللہ تعالی بلند ی پر ہے نیچے کی جہت میں نہیں؟
اس کا جواب یہ ہے:
۱۔تمھارا یہ کہنا کہ آسمان دعا کا قبلہ ہے، یہ بات سلف صالحین اور ائمۂ اعلام میں سے کسی نے نہیں کہی اور نہ ہی شریعت میں اس کی کوئی دلیل ہے۔
۲۔دعا کا قبلہ وہی ہے جو صلاۃ کا قبلہ ہے، اسلام میں دعا کرنے والے انسان کے لیے مستحب ہے کہ وہ قبلہ کی جانب منہ کرے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ بھی دعا میں قبلہ ہی کی جانب ہوتا تھا۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ صلاۃ کا قبلہ دعا کا قبلہ نہیں یا دو قبلے شریعت میں ہیں تو دراصل اس نے اسلام میں دو نظریے پیدا کردیے جو نہایت ہی باطل اور سراسر جہالت پر مبنی ہیں اور اگر دعا کا قبلہ آسمان ہوتا تو انبیاء علیہم السلام دعا کرتے وقت نگاہ آسمان کی طرف کرنے سے سختی سے منع کیوں کرتے اور رہا یہ اعتراض کہ ہم پیشانی زمین پر کیوں رکھتے ہیں؟ تو اس سے زیادہ فاسد اور قبیح اعتراض اور کوئی نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ پیشانی زمین پر رکھنے سے مقصود اللہ کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل، کمتر اور چھوٹا دکھانا ہوتا ہے، یہ ہرگز نہیں کہ اللہ تعالی نیچے ہے۔ نعوذباللہ من ذلک
تاویلات:
علو کے مسئلہ میں شارح علیہ الرحمہ نے دو طرح کی تاویلات کا تذکرہ کیا ہے:
۱۔بعض اہل کلام اور منکرین علو نے ’’فوقیت‘‘ کو خیریت اور افضلیت کے معنی میں لیا ہے۔ گویا جب ہم کہتے ہیں:
’’اللہ فوق العرش‘‘ (اللہ تعالی عرش کے اوپر ہے) تو اہل باطل کے یہاں اس کا معنی ہوا: اللہ خیروأفضل من العرش یعنی اللہ تعالی عرش سے بہتر ہے۔۔
اس اعتراض کی نامعقولیت واضح ہے یہ تو ایسے ہی ہوا جیسے کوئی کہے:

السماء أعلی من سقف الدار، والجبل أثقل من الحصی، ورسول اللہ أفضل من الیہود.

’’آسمان چھت سے زیادہ بلند ہے، پہاڑ سے زیادہ بھاری ہے، اللہ کے رسول یہود سے زیادہ افضل وبرتر ہیں۔‘‘
یہ تو توہین اور گستاخی ہے، اس شخص یا اس چیز کی تعریف نہیں۔ شاعر کہتا ہے ؎

ألم ترَ أنَّ السیف ینقصُ قدرُہ
إذا قیل إنَّ السیف أمضیَ من العصیَ

’’کیا تم نے دیکھا نہیں تلوار کی قدر و قیمت اس قت کم ہوجاتی ہے جب اس کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ تلوار لاٹھی سے زیادہ تیز ہے۔‘‘
عصا سے تیز ہے تلوار گر کہے کوئی
تو گویا اس نے کی توہین، یہ ثنا تو نہیں
اور پھر خالق و مخلوق کے درمیان اس طرح کی تمثیلات کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہاں کبھی مقام کا تقاضا ہو تو بیان تفاوت ضروری ہوجاتا ہے۔ جس طرح یوسف علیہ السلام نے جیل میں قیدیوں سے فرمایا:

أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَيرٌ أَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ. (یوسف:۳۹)

’’بھلا کئی جدا جدا آقا بہتر ہیں یا ایک اللہ یکتا و غالب ۔‘‘
یہاں گویا ایک طرح کا موازنہ کیا اللہ اور دیگر معبودان باطلہ کے درمیان، کیونکہ مقام کا اقتضا یہی تھا۔
۲۔منکرین تاویل کرتے ہیں كہ اللہ تعالی صفت علو سے تو متصف ہے لیکن’’ علوالمکانۃ والمنزلۃ لاالمکان والمنزل‘‘ یعنی وہ مقام و مرتبہ کے اعتبار سے بلند ہے، مکان اور جگہ کے اعتبار سے نہیں، ہم جواب میں کہتے ہیں کہ ’’مکانۃ‘‘ اور’’منزلۃ‘‘ یہ مکان اور منزل کی مؤنث ہیں اور مؤنث لفظ و معنی ہر دو اعتبار سے مذکر کا تابع ہوتا ہے، لہذا یہاں مکانۃ (مقام ومرتبہ) مکان (جگہ) کے تابع ہے، اسی طرح ’’منزلۃ‘‘ (مقام و مرتبہ) ‘’منزل‘‘ (جگہ ) کے تابع ہے۔ پس ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالی مقام و مرتبہ اور مکان و جگہ ہر دو اعتبار سے بلند ہے اور علو سے متصف ہے۔
مزید براں کسی مماثل کا بلند ہونا حقیقت میں بلند ہونے کے تابع ہوتا ہے۔ ایک ذات ذہن میں بلند ہے لہذا یہ حقیقت میں بلند ہونے کے تابع ہے جب ذہن اور حقیقت میں توافق و مطابقت ہو تو بات درست ہوتی ہے ورنہ لوگ اسے جھوٹا کہتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ پاک کا مقام ہمارے دلوں میں سب سے زیادہ بلند ہے تو ہم کہیں گے یہ بھی درست ہے اور یہ اللہ تعالی کی حقیقی بلندی کے عین مطابق ہے۔ اگر اللہ اپنی ذات کے لحاظ سے سب پر بلند نہیں تو بلاشبہ دلوں میں اللہ تعالی کی بلندی ثابت نہ ہوگی۔ اس کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو ایسی چیزوں کو اعلی کہتا ہے جو فی الواقع اعلی نہیں، کمن جعل أعلی مالیس بأعلی۔
اس طرح شارح نے علو کو مختلف انداز سے ثابت کیا ہے جسے مختصر بیان کیا گیا۔ مجبورا طوالت کے خوف سے بعض نکات کو ہم نے قلم انداز کردیا اور اہم نکات پر توجہ مرکوز رکھی۔

حاشیہ
۱۔صفات باری تعالی دو طرح کی ہیں: (۱) ذاتیہ (۲) فعلیہ
(1) ذاتیہ وہ ہوتی ہیں جو اللہ تعالی سے الگ نہیں ہوتیں جیسے علو، وجہ، ید، عزت، سمع، بصر، کلام وغیرہ۔
(۲) فعلیہ وہ ہیں جنھیں اللہ تعالی اپنی مشیت کے مطابق جب چاہتا ہے اختیار کرتا ہے اور جب چاہتا ہے الگ کردیتا ہے۔مثلا: استواء، نزول، عجب، رضا اور حب وغیرہ۔
۲۔صفت استواء اور صفت علو دونوں سے اللہ تعالی کی صفت علو اور فوقیت کا اثبات ہوتا ہے لیکن دونوں میں ذرا سا فرق ہے۔ صفت استواء نص اور نقل سے ثابت
ہے یعنی اگر قرآن و حدیث میں اس کا ذکر نہ ہوتا تو ہمیں اس کا علم نہ ہوتا بخلاف صفت علو کے کہ وہ نقل، عقل اور فطرت سلیمہ تینوں سے ثابت ہے۔ تفصیل ملاحظہ ہو: شرح کتاب الاقتصاد فی الاعتقاد للشیخ عبدالعزیز الراجحی فی بیان العلو.
۳۔یعنی اللہ تعالی ہر جگہ اور ہر چیز میں موجود ہے۔ یہ نہایت خطرناک مشرکانہ عقائد میں سے ہے۔ وحدت الوجود صوفیاء کی بنیاد ہے، وحدت الوجود کے معنی ہیں کہ
تمام موجودات کا وجود صرف ایک ہے اور وہ اللہ کا وجود ہے، کائنات اس سے الگ نہیں بلکہ اسی کا عین ہے، کائنات کی تمام اشیاء اس وجود باری کے مظاہر، انعکاسات اور لباسات ہیں، یہی وجہ ہے کہ صوفی کو وجودی اور ہمہ اوستی بھی کہتے ہیں، حافظ کہتا ہے ؎
ندیم و مطرب و ساقی ہمہ اوست
خیال آب وگل دررہ بہانہ
’’ساتھی، مغنی اور شراب پلانے والا سب کچھ وہی ہے، پانی و مٹی کا خیال تو درمیان میں ایک بہانہ ہے ۔‘‘
اس وحدت کے برعکس اہل اسلام دو وجود کے قائل ہیں، جو باہم ایک دوسرے سے بنیادی اور قطعی غیریت رکھتے ہیں عینیت نہیں۔ وہ دو وجود یہ ہیں: (۱) واجب الوجود: وہ ہے جو آپ سے آپ موجود ہو اور دوسری اشیاء کا خالق و موجد ہو یعنی اللہ تعالی کی ذات (۲)ممکن الوجود: وہ ہے جو آپ سے آپ موجود نہ ہو بلکہ اپنے وجو دکے لیے خالق و موجد کا محتاج ہو یعنی کائنات۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اسلام اور تصوف کے فکری نظام میں یکسر تضاد و تباین ہے۔ دونوں الگ الگ نظامہائے فکر ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ فکر و خرد سے عاری افراد تصوف کو اسلامی و غیر اسلامی یا عجمی تصوف میں تقسیم کرتے ہیں جو سراسر باطل اور کوتاہ بینی پر مبنی ہے۔یہاں اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے: ؎
بیاں میں نکتۂ توحید تو آسکتا ہے
ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے
۴۔اس میں ذات باری تعالی کی بالکلیہ ہی نفی ہوجاتی ہے جو اہل کلام، معتزلہ، جہمیہ اور صوفیاء کا مسلک ہے جس کا لازمہ اور نتیجہ وحدت الوجود اور حلول ہے۔
۵۔’’مباینت لازم ہوگئی‘‘ کا مطلب ہے کہ یہ ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالی کی ذات کائنات سے خارج اور الگ ہے یعنی جب مخلوق اللہ کی ذات سے الگ ہے جس پر ہمارا اتفاق ہے تو گویا ہم نے ثابت کردیا کہ وجود دو ہیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے سے الگ اور مختلف ہے، یعنی اللہ کی ذات اللہ کی ذات ہے اور مخلوق کی ذات مخلوق کی ذات ہے، یہ سب مسائل اسی وقت پیدا ہوں گے جب کہ وجود صرف ایک تسلیم کیا جائے جو اہل باطل کا مسلک ہے اور سراسر ملحدانہ اور کافرانہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وجود دو ہیں: ایک اللہ کا وجود اور دوسرا کائنات کا وجود۔
۶۔قائم بالنفس یا بالذات سے مراد وہ یہ لیتے ہیں كہ اللہ تعالی کا وجود مخلوقات سے الگ اور منفرد ہے اور وہ تمام مخلوقات سے غنی اور بے نیاز ہے، ا سے قیام ذات کے لیے غیروں کی ضرورت نہیں اور یہ بالکل بدیہی اور فطری ہے، اسی کا مقابل لفظ غیر قائم بالذات ہے جو دوسروں کا محتاج ہوتا ہے، قیام ذات کے لیے دوسروں کی ضرورت ہوتی ہے مثلا: صفت کے بغیر موصوف نہیں اور لون کے بغیر ملون نہیں۔ اسی طرح اللہ تعالی کا مخالط للعالم نہ ہونا بھی بدیہی ہے اور اس کا وجود خارجی یعنی خارج المخلوقات ہونا بھی بدیہی اور فطری ہے، داخل و خارج کی اصطلاحات فلسفیانہ موشگافیوں کا نتیجہ ہیں، وجود کے حوالے سے اتنی سی بات ملحوظ خاطر ہونی چاہیے کہ اگر اس وجود کا تعلق عالم شہادہ سے ہے تو ہم اسے حواس کے ذریعہ سے معلوم کرسکتے ہیں اگر عالم غیب سے ہے تو صرف غیبی طریقہ سے ہی جان سکتے ہیں۔ لہذا اگر حواس سے وجود کا علم ہوا تو خیر ورنہ غیب کے ذریعہ سے ہی اشیاء کے وجود کا صحیح ادراک ممکن ہے۔ ذات و صفات الہیہ کا سارا انحصار غیب پر ہے لہذا عقلیاتی ورزش کی ذرا بھی گنجائش نہیں۔ تفصیل کے لیے شرح العقیدۃ الطحاویۃ للدکتور ناصر بن عبدالکریم العقل -جو ان کے محاضرات پر مشتمل ہے- کی طرف رجوع مفید ہوگا۔

آپ کے تبصرے

3000