مولانا سلطان احمد اصلاحیؒ (چند یادیں اور تاثرات)

رفیق احمد رئیس سلفی تاریخ و سیرت

مولانا سلطان احمد اصلاحی رحمہ اللہ کی علمی شخصیت، ان کی تحقیقی اور تصنیفی خدمات اور ان کے افکار ونظریات پر مفصل گفتگو ایک ملی فریضہ ہے جسے ادا کرنے کے لیے علماء اور باحثین اس سیمینار میں ملک کے مختلف حصوں سے تشریف لائے ہیں۔ اسی طرح ان کے دور آخر کے سیاسی رجحانات، اس کی ضرورت اور معنویت اور وطن عزیز میں مسلم قیادت کو ابھارنے کے لیے ان کے بے پناہ جذبے پر بحث بھی ضروری ہے جو مولانا کا وجہ امتیاز بنے اور جس کی وجہ سے جماعت اسلامی سے باہر کے حلقوں میں ان کے تعارف کا دائرہ وسیع ہوا۔ نقد و نظر تعمیر کی اساس ہے۔ اس سے غور و فکر کے کئی مخفی گوشے سامنے آتے ہیں اور بحث و تحقیق کے کئی ایک دروازے کھلتے ہیں۔
مولانا خالص ایک دینی مدرسہ کے پروردہ تھے لیکن ان کی زندگی کا ایک طویل حصہ بلکہ کارکردگی کے تقریباً تمام ماہ و سال علی گڑھ میں گزرے۔ یہاں کی علمی فضا کو انھوں نے قریب سے دیکھا اور اسے برتا بھی، اس لیے وہ خود اس چیز کو روا رکھتے تھے کہ کسی ایک فکر پر جمود اختیار کرنا درست نہیں ہے۔ مولانا سے عقیدت رکھنے والوں اور دوسرے متعلقین کو تعمیری تنقید کو کھلے دل و دماغ سے قبول کرنا چاہیے اور جب مجموعۂ مقالات شائع کیا جائے تو مقالہ نگار کے مضمون پر حواشی لگا کر اسے بوجھل بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ جہاں تک مولانا کو میں جانتا ہوں، وہ اس چیز کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ جب مدرسۃ الاصلاح میں مولانا حمیدالدین فراہی پر سیمینار ہوا اور اس کا مجموعۂ مقالات حواشی و تعلیقات سے مزین ہوکر منصہ شہود پر آیا تو مولانا نے اس پر اپنی خفگی اور برہمی کا اظہار فرمایا اور اسے علمی و تحقیقی تقاضوں کے خلاف قراردیا۔ مولانا ایک وسیع النظر عالم دین تھے، ان کی شخصیت سے ایک عالمانہ وقار جھلکتا تھا۔ اپنے مخصوص عالمانہ لباس سے وہ جانے پہچانے جاتے تھے۔ علماء کے لیے جو طرز زندگی اور وضع قطع ہمارے اسلاف کے یہاں معروف رہی ہے اور جس کی انھوں نے حوصلہ افزائی کی ہے، اس کی جیتی جاگتی تصویر مولانا سلطان احمد اصلاحی تھے۔
جب مجھے اس سیمینار میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، اسی وقت ذمہ داروں سے میں نے درخواست کی تھی کہ میں مولانا سے متعلق اپنی چند یادیں اگر ممکن ہوا تو ترتیب دے دوں گا اور اگر آپ حضرات نے موقع دیا تو انہی منتشر یادوں کو پیش کردوں گا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ میری یہ درخواست قبول کی گئی اور اب میں آپ کی خدمت میں مولانا سے متعلق اپنے تاثرات اور ان سے متعلق اپنی چند یادیں لے کر حاضر ہوں:
مولانا سے میری ملاقات علی گڑھ میں اس وقت ہوئی جب میں۱۹۸۶ء میں ادارہ تحقیق و تصنیف میں ایک ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے داخل ہوا۔ مولانا اس وقت ادارے کے ایک معزز رکن تھے اور تصنیف و تالیف میں مصروف تھے۔ ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے ہمارے استاذ گرامی قدر مولانا سید جلال الدین عمری حفظہ اللہ (موجودہ [اور اب سابق] امیر جماعت اسلامی ہند) اپنے فرائض انجام دے رہے تھے اور ادارے کے طلبہ کی تصنیفی تربیت مولانا ہی کے ہاتھ میں تھی۔ ادارے نے ہمارے لیے ایک نصاب بنا رکھا تھا جس کا سلسلہ بحمد اللہ آج بھی جاری ہے اور ہر ماہ کوئی نہ کوئی مضمون لکھنا ہمارے نصاب کا لازمی حصہ تھا۔ بسااوقات بعض مضامین کے سلسلے میں مولانا سلطان احمد اصلاحی سے بھی رہنمائی حاصل کیا کرتا تھا۔ وہ بڑی محبت سے مراجع و مصادر کی طرف رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ ادارے کے طلبہ ہر ماہ کسی صاحب علم کی نگرانی میں اپنے مقالات پیش کرتے تھے، اس مجلس کی صدارت کبھی کبھی مولانا اصلاحی بھی فرمایا کرتے تھے اور پیش کردہ مقالے کی خوبیوں اور خامیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے تھے۔ ہم طلبہ کی تربیت اور رہنمائی کے نقطۂ نظر سے کبھی کبھی مولانا لائبریری سے کوئی کتاب لانے کا حکم دیتے اور حکم دیتے کہ اس کے فلاں ابواب یا صفحات کھول کر دکھائیں۔ ادارہ ہمارے دور میں پان والی کوٹھی میں کرایے کی ایک عمارت میں تھا جہاں جگہ کی تنگی تھی۔ اس عمارت کے سب سے چھوٹے کمرے میں مولانا تصنیف و تالیف کا کام کیا کرتے تھے۔ آج بھی میرے سامنے اس کمرے کا نقشہ ہے کہ اگر کوئی ایک مہمان آجاتا تو بڑی مشکل سے اس میں اس کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنانی پڑتی تھی۔ موسم کے اثرات سے بے نیاز مولانا اسی کمرے میں مصروف عمل رہا کرتے تھے۔ مولانا کی کتنی تحریریں اور کتنی کتابیں اسی تنگ حجرے میں تیار ہوئیں اور برصغیر ہی نہیں بلکہ دنیا کے ان تمام گوشوں تک پہنچی جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ان کی ان تمام کتابوں اور تحریروں کو امت کے لیے نفع بخش بنائے اور مولانا کے حق میں ان کو صدقہ جاریہ کی حیثیت سے قبول فرمائے۔ آمین
میری تعلیم چونکہ جامعہ سلفیہ بنارس میں ہوئی ہے اور میں عقیدہ و مسلک کے لحاظ سے الحمد للہ اہل حدیث ہوں، مولانا کی ذرہ نوازی اور ان کی چھوٹوں سے شفقت ہی کا نتیجہ تھا کہ بعض احادیث کی تلاش و تحقیق کے معاملے میں بسااوقات وہ مجھے یاد فرمالیا کرتے تھے۔ ایک بار کسی کتاب میں امام بخاری کی ذکر کردہ ایک حدیث کا مجمل حوالہ تھا، مولانا اس کو خود دیکھنا چاہتے تھے تاکہ اپنی تحریر میں اس کا مکمل حوالہ دے سکیں۔ صحیح بخاری میں متعلقہ ابواب میں مولانا نے دیکھا لیکن حدیث نظر نہیں آئی، مستشرقین کے تیار کردہ اشاریہ کو بھی دیکھا لیکن اس سے بھی مشکل حل نہیں ہوئی۔ مولانا نے مجھے طلب فرمایا کہ ذرا دیکھو یہ حدیث صحیح بخاری میں کہاں مل سکتی ہے۔ میں نے کتاب کے مجمل حوالے کو دیکھا تو یہ سمجھ میں آیا کہ یہ حوالہ صحیح بخاری کا نہیں بلکہ امام بخاری کی دوسری کتاب ’’الادب المفرد‘‘ کا ہے۔ کتاب نکالی گئی تو حوالہ مل گیا‌ مولانا بہت خوش ہوئے اور اپنی دعاؤں سے نوازا۔
اسی طرح ایک بار مشہور حدیث ’’بعثت لأتمم مکارم الاخلاق‘‘ کا مولانا حوالہ تلاش کررہے تھے۔ موطا امام مالک وغیرہ میں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان میں’’بعثت لاتمم صالح الأخلاق‘‘ کے الفاظ کے ساتھ ہے۔ مولانا نے طلب فرمایا کہ ذرا اس حدیث کے یہ الفاظ کس کتاب میں ہیں، تلاش کرو۔ کتب ستہ وغیرہ میں جہاں جہاں اس حدیث کے پائے جانے کا امکان تھا، میں نے خود تلاش کیا، حدیث نہیں ملی۔ میں نے مولانا سے عرض کیا: مشہور کتابوں میں ان الفاظ کے ساتھ حدیث نہیں مل رہی ہے، شاید حدیث کی دوسری کتابوں میں یہ الفاظ مل جائیں۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی کا فتح الباری میں ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ صحیح بخاری کی کسی حدیث کی شرح لکھتے ہوئے اس کے متابعات و شواہد بھی نقل کرتے ہیں۔ اگر کسی سند میں الفاظ دوسرے ہیں تو اس کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ میں نے مولانا سے جب یہ بات عرض کی تو انھوں نے فرمایا کہ فتح الباری لاکر دیکھو۔چنانچہ اخلاق سے متعلق احادیث کی شرح میں جب دیکھنا شروع کیا تو ایک جگہ حافظ ابن حجر نے مطلوبہ الفاظ نقل کیے ہیں اور اس کے لیے حوالہ مسند البزار کا دیا ہے۔ جب میں نے مولانا کو یہ حوالہ دکھایا تو بہت خوش ہوئے اور پھر فتح الباری کے حوالے سے مکمل حوالہ اپنی تحریر میں شامل کیا۔
حدیث کے باب میں مولانا کا تحقیقی ذوق بہت اعلی تھا اور جب تک وہ خود اپنی آنکھوں سے حوالہ دیکھ نہیں لیتے تھے، کسی کی تحریر پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ ایک بار فرمایا کہ جن علماء کی کتابیں زیادہ پڑھی جاتی ہیں، ان کی کتابوں میں موجود احادیث کے مجمل حوالوں کو مفصل کردینا چاہیے اور یہ نشاندہی بھی کردینی چاہیے کہ صحت و ضعف کے لحاظ سے ان کا درجۂ استناد کیا ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ بڑے مصنفین کے ذیل میں مولانا نے بطور خاص مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کا نام لیا تھا۔ الحمد للہ علامہ محمد ناصرالدین البانی کی خدمات حدیث کا پوری دنیا پر اثر ہوا ہے اور اب نہ صرف احادیث کے مکمل حوالوں کا رواج عام ہوگیا ہے بلکہ اکثر اہل علم اپنی تحریروں میں ذکر کردہ احادیث کا درجۂ استناد بھی متعین کردیا کرتے ہیں۔ حدیث کے باب میں بعض اردو مصنفین کی کوتاہی اور سستی دینی اور علمی کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔اسی سے غلط فہمیاں عام ہوتی ہیں، فکر و نظر میں انحراف پیدا ہوتا ہے اور بسااوقات بدعات و خرافات کو ان سے تقویت مل جاتی ہے۔
حدیث ہی کے ان کے اعلی ذوق کا ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے۔یہ بات ان دنوں کی ہے جب مولانا سلطان احمد اصلاحی، مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کی کتاب ’’حقیقت نماز‘‘ کو ایڈٹ کررہے تھے۔ کتاب میں نماز کی فضیلت سے متعلق ایک حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی گئی ہے: ’’الصلوۃ عماد الدین، من أقام الصلوۃ فقد أقام الدین ومن ھدمھا فقد ھدم الدین‘‘۔ مولانا اس حدیث کی مکمل تخریج کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے بہت تلاش کیا لیکن ان الفاظ اور اس سیاق کے ساتھ حدیث کہیں نہیں ملی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ مولانا نے اس ایک حدیث کی تلاش میں مسند احمد بن حنبل کی تمام جلدیں سطر سطر دیکھ ڈالیں۔ اپنی تلاش و تحقیق کے بعد مولانا اس نتیجے پر پہنچے کہ اس حدیث کا صرف پہلا ٹکڑا ثابت ہے، بعد کے جملے اس حدیث کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ باتیں میں اپنی یاد داشت سے لکھ رہا ہوں، اس وقت میرے سامنے مولانا کی ایڈٹ کردہ حقیقت صلوۃ نہیں ہے کہ میں یہ بتاسکوں کہ مولانا نے مزید اس کی کیا تفصیل تحریر فرمائی ہے۔ یہ بات ان دنوں کی ہے جب حدیث کی تحقیق و تلاش کے لیے بہت سے وسائل عام نہیں ہوئے تھے۔
علی گڑھ میں جماعت اسلامی کا ماہانہ اجتماع مسجد نور میں مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کی لاج کے پیچھے ہوا کرتا ہے۔ کبھی کبھی اجتماع کے ذمہ داران مجھ جیسے کم علم کو بھی اس میں کچھ عرض کرنے کا حکم دیا کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ مجھے مطالعہ حدیث کی ذمہ داری دی گئی۔ عنوان بھی شاید صلہ رحمی طے کردیا گیا تھا۔ صلہ رحمی سے متعلق چند احادیث پیش نظر رکھ کر اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے امام نووی رحمہ اللہ کے حوالے سے ان رشتہ داروں کی تفصیل پیش کی جن کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں دادھیال، نانھیال اور سسرالی رشتہ داروں کی درجہ بندی کرتے ہوئے یہ عرض کیا گیا کہ اسلامی تعلیمات میں مقدم وہ رشتے دار ہیں جو باپ کی طرف سے وجود میں آتے ہیں، دوسرے نمبر پر وہ رشتہ دار ہیں جو والدہ کی طرف سے وجود میں آتے ہیں اور تیسرے نمبر پر وہ رشتہ دار ہیں جو بیوی کی طرف سے وجود میں آتے ہیں۔ اسلام کی ترتیب یہی ہے لیکن ہم مسلمانوں نے یہ ترتیب الٹ دی ہے۔ سسرالی رشتے دار تیسرے نمبر سے پہلے نمبر پر آگئے ہیں اور باپ کے رشتے دار پہلے سے تیسرے نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔ اجتماع کی صدارت مولانا اصلاحی فرمارہے تھے۔ آپ نے اپنے تبصرے میں فرمایا کہ رفیق صاحب نے حدیث کی اور مسئلہ صلہ رحمی کی جو تشریح کی ہے، وہ بہت خوب ہے اور کیوں نہ ہو، وہ ایک اہل حدیث مدرسے کے فیض یافتہ ہیں، ان کی حیثیت ’’صاحب البیت ادری بما فیہ‘‘ کی ہے۔ چھوٹوں کی اس طرح سے حوصلہ افزائی کرنا مولانا اصلاحی کا امتیاز تھا۔ کتاب و سنت پر خود ان کی نگاہ بہت وسیع تھی، وہ علوم شرعیہ کے فاضل تھے۔ لیکن نوآموز طلبہ کی حوصلہ افزائی اور ان کے علمی کاموں کی تعریف وہ دل کھول کر کیا کرتے تھے۔ قارئین یہ نہ سمجھیں کہ یہاں یہ واقعہ میں نے اپنی تعریف و ستائش میں نقل کیا ہے، مجھے اپنے علم کی حدود اربعہ کا بخوبی علم ہے۔ مجھ جیسے کم علم کی ان کلمات کے ساتھ حوصلہ افزائی ان کے وسیع الظرف ہونے کی دلیل ہے۔ مولانا کا وہ جملہ محض ان کے حسن ظن کی دلیل ہے۔ حدیث کے باب میں میری معلومات کا دائرہ اتنا بھی وسیع نہیں ہے جو مولانا نے بیان فرمایا ہے۔
مولانا مدرسۃ الاصلاح کے فیض یافتہ اور اس کے فاضل تھے۔ قرآن سے ان کی خاص دلچسپی تھی۔ قرآن کی تلاوت بھی ان کے معمولات میں شامل تھا۔ اگر کسی وجہ سے گھر موقع نہیں مل سکا تو میں دیکھتا تھا کہ ادارے میں پہنچ کر اپنا وظیفہ مکمل فرمایا کرتے تھے۔ ان کی کتابوں اور مضامین میں قرآن کی آیات سے استدلال کثرت سے پایا جاتا ہے۔ ’’مشترک خاندانی نظام‘‘ اور ’’پردیس کی زندگی اور اسلام‘‘ میں مولانا کی قرآن فہمی اپنے شباب پر ہے۔ آیات قرآنی سے اس قدر باریک اور لطیف استدلال وہی کرسکتا ہے جس کا قرآنی ذوق اعلی معیار کا ہو۔ یہ دونوں کتابیں آج بھی اپنے موضوع پرحرف آخر کا درجہ رکھتی ہیں اور ان میں قرآنی آیات سے جس طرح استدلال کیا گیا ہے، وہ مولانا کی اجتہادی بصیرت کی دلیل ہے۔ آج ہماری یہ بہت بڑی کوتاہی ہے کہ ہم غور و فکر کے ساتھ قرآن کی تلاوت بہت کم کرتے ہیں۔ ایک دیدہ ور مصنف جب قرآن کی آیات کی تلاوت کرتا ہے تو کئی ایک موضوعات سے متعلق آیات اس کے سامنے آتی ہیں اور ان سے وہ اپنے مضامین کو مدلل کرتا ہے۔ فہم قرآن کی دولت سب سے بیش قیمت اور گراں مایہ ہے، یہ نعمت خاص عطیۂ الٰہی ہے جو کسی کسی کے حصے میں آتی ہے۔
مولانا کی کتابوں میں عام طور پر تفسیر کبیر، تفسیر کشاف اور تفسیر ابن کثیر کے حوالے ملتے ہیں۔ بساوقات وہ ان تفاسیر سے طویل عربی عبارتیں نقل کرتے ہیں اور ان کا رواں اردو ترجمہ کرکے محل استدلال کی وضاحت کرتے ہیں۔یہ کام اہل علم کا ہے کہ وہ بتائیں کہ مولانا نے اپنے موقف کے حق میں جو تفسیری اقتباسات نقل کیے ہیں، ان سے ان کے موقف کی کس قدر تائید ہوتی ہے، محل استدلال کیا ہے اور آیات قرآنی کا جو مفہوم اس موقع پر مولانا نے بتایا ہے، اس کا درجۂ استناد کیا ہے؟ مولانا کی قرآن فہمی کو جانچنے کے لیے ایسے تمام تفسیری اقتباسات پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ عصر حاضر کے شاید کسی اور اردو مصنف نے مسائل اور نقطہائے نظر کو پیش کرنے کے لیے اس کثرت سے قرآنی آیات اور ان کی مستند عربی تفاسیر کے حوالے نہیں دیے ہیں۔ یہ مولانا سلطان احمد اصلاحی کا وجہ امتیاز ہے۔
مولانا کی قرآن فہمی ہی کے ذیل میں ایک بات یہ بھی عرض کردوں کہ مدرسۃ الاصلاح میں نظم قرآن کو جو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس فکر اور فلسفہ کو جس انداز میں پیش کیا جاتا ہے، مولانا اصلاحی اس سے بہت زیادہ متفق نہیں تھے بلکہ ایک بار ایک مجلس کی گفتگو میں فرمایا کہ بھائی کھانے میں جو حیثیت نمک کی ہے، وہ قرآن میں نظم کی ہے۔ اگر آپ پورے کھانے کو نمک میں تبدیل کردیں تو بھلا کوئی اسے کیسے کھاسکتا ہے۔ فارغین مدرسۃ الاصلاح سے معذرت کے ساتھ یہ عرض کروں گا کہ الحمد للہ آپ حضرات نے قرآن کو اپنے مطالعہ و تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ یہ بات بڑے شرف کی ہے اور اس سے بڑی کوئی سعادت ہو نہیں سکتی۔ لیکن یہ ضرور یاد رکھیں کہ مولانا حمیدالدین فراہی رحمہ اللہ نے علی گڑھ میں مستشرقین اور شیعہ حضرات کو بہت قریب سے دیکھا تھا اور سرسید رحمہ اللہ کے تفسیری خیالات سے بھی واقف تھے۔ ان گروہوں، جماعتوں اور افراد نے قرآن کی تفسیر جس انداز میں کی ہے اور جس طرح کے خیالات قرآن کے حوالے سے ظاہر کیے ہیں، مولانا فراہی رحمہ اللہ نے بڑی درد مندی سے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن کی باطل تاویلات کا سد باب کیا جائے، کچھ ایسے اصول سامنے لائے جائیں جن سے ضلالت و گمراہی کے بڑھتے سیلاب کو روکا جائے۔ ایک ہی آیت کے سلسلے میں متعدد تفسیری اقوال بسااوقات منحرفین کو اپنے باطل افکار ثابت کرنے کا موقع فراہم کردیا کرتے ہیں۔ چنانچہ شیعی اور متصوفانہ کتب تفاسیر اور قرآن کے سلسلے میں اسلام دشمن بعض مستشرقین کے خیالات پر جن حضرات کی نظر گہری اور وسیع ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آیات قرآنی کی باطل تاویلات کے لیے خود بعض کتب تفاسیر میں مواد موجود ہے۔ خود مغربی افکار کے زیر اثر سرسید احمد خاں کے یہاں جو بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں، وہ امام فراہی کے سامنے تھیں لیکن ابھی ان کی تحقیق اور غور و فکر کا سفر جاری ہی تھا کہ وقت موعود آپہنچا اور کئی ایک کام ادھورے رہ گئے۔ وہ خواب جو علامہ فراہی نے دیکھا تھا، وہ شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا۔قرآن کریم کے ایک مخلص خادم کی یہ ایک عظیم خدمت تھی جس کا اس نے منصوبہ بنایا تھا۔ مولانا فراہی کے بعض تفردات سے اتفاق مشکل ہے لیکن جس جذبے کے ساتھ انھوں نے تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط کی تعیین کا کام شروع کیا تھا، اس کی ضرورت ہنوز باقی ہے۔ اصلاحی برادران نے مولانا فراہی کے کاموں کو تو آگے نہیں بڑھایا لیکن ان کے بعض تفردات کے سہارے ملت میں حدیث کے تعلق سے کئی طرح کے شکوک و شبہات ضرور پیدا کردیے اور حیرت اس بات کی ہے کہ وہ اپنی اس منفی سوچ کو فکر فراہی کا حاصل قرار دے رہے ہیں۔ شیعہ حضرات کی باطل تاویلات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور مستشرقین کے شاگرد قرآن کریم پر مشق ستم جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اس وقت کوئی فراہی موجود نہیں ہے جو علمی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی زبانیں بند کرنے کے لیے میدان میں اترے۔
مولانا فراہی سے سچی عقیدت مندی یہ ہوگی کہ ان کے علمی کاموں کو آگے بڑھایا جائے اور اس اعلی مقصد کو پیش نظر رکھا جائے جو امام فراہی کے سامنے تھا۔ اپنی اپنی عقل سے قرآن کی تفسیر کی جو روایت چل پڑی ہے، اس کو روکا جائے۔ آپ اگر صرف نظم قرآن میں الجھے رہیں گے تو مولانا فراہی کا وہ مقصد عظیم کبھی حاصل نہیں کرپائیں گے جو ان کے پیش نظر تھا۔ نظم اور عمود وغیرہ کی تمام بحثیں اسی لیے ان کے پیش کردہ اصول تفسیر میں اہمیت رکھتی ہیں کیوں کہ ان سے کسی حد تک باطل تاویلات کا دروازہ بند کیا جاسکتا ہے۔ نظم اور تعیین عمود منصوص نہیں بلکہ ایک اجتہادی چیز ہے، نصوص کی طرح اس کو حجت قطعی قرار دے لینا غیر علمی رویہ ہے، جس کی تائید نہیں کی جاسکتی۔ خود مولانا امین احسن اصلاحی نے پورے احترام کے ساتھ اپنے عظیم استاذ سے جو اختلاف کیا ہے، وہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ فہم قرآن کو عام کرنے کا جذبہ لیے ہوئے ایک مکمل دینی ادارہ کھڑا ہے، اصلاحی بزرگوں کی پوری ایک ٹیم اس سمت میں کام کرتی رہی ہے لیکن قرآن سے تعلق اور اس سے استفادہ کی جو روشنی معاشرے میں عام ہوجانی چاہیے، وہ کہیں دور تک بھی نظر نہیں آتی۔ نظم اور عمود وغیرہ ایک فکر اور فلسفہ ہے، قرآن کتاب ہدایت ہے جو اپنی سادگی اور واضح بیانی میں اپنی مثال نہیں رکھتا، اس کی اس سادگی کو متاثر ہونے سے بچائیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے، ادارہ علوم القرآن علی گڑھ کے ایک سیمینار میں جب ایک صاحب نے یہ فرمادیا کہ علامہ فراہی نے سرسید رحمہ اللہ کی تفسیری کاوشوں کو آگے بڑھایا ہے تو مجھے سخت حیرت ہوئی، عالم اسلام کے مشہور محقق اور عربی زبان و ادب کی ممتاز شخصیت ڈاکٹر اجمل اصلاحی صاحب بھی اس سیمینار میں تشریف لائے تھے اور اتفاق سے میں ان کے قریب ہی بیٹھا تھا، جب میں نے ان سے اپنے ان خیالات کا اظہار کیا تو انھوں نے بھی اس کی تائید کی اور ان صاحب کی تردید کی جو یہ فرمارہے تھے کہ علامہ فراہی نے سرسید کے تفسیری افکار و خیالات کو آگے بڑھایا ہے۔ علامہ فراہی تو سرسید کی قرآنی فکر کا رد عمل ہیں، ان کو ان کا موید وہی شخص کہہ سکتا ہے جس نے صحیح طور پر نہ فراہی کو پڑھا ہو اور نہ سرسید کو سمجھا ہو۔
مولانا سلطان احمد اصلاحی کے قرآنی ذوق کے حوالے سے ایک بات مجھے اور بھی یاد آرہی ہے۔ ایک مرتبہ انھوں نے فرمایا کہ امام رازی کی تفسیر کے سلسلے میں یہ بات جو مشہور کردی گئی ہے کہ ’’فیہ کل شیء الا التفسیر‘‘، یہ بات غلط ہے۔ یہ بات صرف وہی کہہ سکتا ہے جس نے تفسیر کبیر دیکھی نہ ہو۔ امام رازی کا امتیاز یہ ہے کہ وہ ایک ایک آیت کو سامنے رکھ کر اس کے کئی ایک پہلووں پر مفصل گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے دور کا علم کلام بھی ان کی تفسیر میں موجود ہے اور فلسفہ بھی۔ کوئی بھی مفسر اپنے عہد میں مروج فکر و فلسفہ سے بے نیاز کیسے ہوسکتا ہے یا اس کو نظر انداز کیوں کر کرسکتا ہے۔ امام رازی کی تفسیر بیشتر علوم تفسیر کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مولانا نے یہ بات پوری علمی بصیرت کے ساتھ فرمائی تھی، وہ خود تفسیر کبیر سے برابر رجوع کیا کرتے تھے اور ان کی کتابوں میں تفسیر کبیر کے طویل اقتباسات دیکھے جاسکتے ہیں۔
مسلمانوں میں مسلکی تعصب جس قدر عام ہے، اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مولانا اصلاحی کی کتاب و سنت پر گہری نظر تھی، امہات کتب ان کے مطالعہ میں رہا کرتی تھیں۔ وہ بین المسالک تنازعات سے اچھی طرح واقف تھے۔لیکن ان کا نقطہ نظر فقہی مسائل میں بالکل واضح تھا۔جہاں ان کو دلیل مل جاتی تھی، اس کے حق میں بات کہتے تھے۔ مولانا فقہی مسائل میں روادار اور جمود کے قطعی خلاف تھے۔ ادارہ تحقیق میں میرے ہم درس ساتھی مولانا محمد ہارون تھے جو دارالسلام عمرآباد کے فاضل تھے اور مسلک کے اعتبار سے اہل حدیث تھے۔ اس دور میں ہم تمام لوگ پنج وقتہ نمازیں مزمل منزل کی مسجد میں ادا کیا کرتے تھے۔ اس وقت کبھی کبھی بعض نمازوں کی امامت پروفیسر نجم الحسن مرحوم فرمایا کرتے تھے۔ ایک دن عصر کی نماز میں ہمارے ساتھی نے اقامت کہی اور اقامت فرادی کہہ دی۔ پروفیسر صاحب جو مصلی پر قبلہ رخ کھڑے تھے، پیچھے پلٹے اور فرمایا: یہ کیسی اقامت ہے، اس سے تو وحشت ہوتی ہے۔ مولانا اصلاحی صف میں موجود تھے، انھوں نے زور دے کر کہا، اقامت ہوگئی، یہ طریقہ بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے، پروفیسر صاحب آپ نماز پڑھائیں۔ امت کا شیرازہ منتشر کرنے میں مسلکی تعصبات کا بھی نمایاں حصہ ہے۔
اسی اقامت مثنی اور فرادی کے تعلق سے ایک بات مزید عرض کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ تمام حلقوں میں مقبول ہے بلکہ بعض مدارس میں داخل نصاب بھی ہے۔ اس کی ایک بڑی مفصل اور علمی شرح ’’رحمۃ اللہ الواسعہ‘‘ کے نام سے آئی ہے۔ شاہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں جہاں اذان اور اقامت کی بحث چھیڑی ہے، وہاں یہ لکھا ہے کہ سب سے صحیح طریقہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کا طریقہ ہے، پھر سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کا طریقہ ہے۔ کتب احادیث میں یہ تفصیل موجود ہے کہ سیدنا بلال فرادی اقامت کہتے تھے اور سیدنا ابومحذورہ مثنی اقامت کہتے تھے۔ شارح صاحب نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی اس عبارت کی یہ تشریح فرمائی کہ سیدنا بلال تکبیر تو مثنی کہا کرتے تھے لیکن ایک ہی سانس میں دونوں کلمات ادا کردیا کرتے تھے جسے فرادی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فقہ حنفی میں تکبیر فرادی کی نفی کی گئی ہے، اسی کی پاسداری شارح نے کی ہے اور شاہ صاحب کی عبارت کے مفہوم کو الٹ پلٹ دیا ہے۔حدیث کے ایک ذمہ دار عالم کے اندر اتنی رواداری تو ہونی چاہیے کہ وہ یہ لکھتا کہ یہ طریقہ بھی حدیث میں آیا ہے اور یہ طریقہ بھی ثابت ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ہم اپنے مسلک کو ترجیح دینے کے لیے احادیث کا مفہوم بدل دیتے ہیں اور معتبر علماء کی تحریروں کی تاویل کرکے ان کا مطلب اپنی مرضی کے مطابق بیان کردیتے ہیں۔ اقامت کے کلمات کی تعداد بھی احادیث میں مذکور ہے جس سے اس قسم کی تمام تاویلات کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ حیرت ہے کہ فقہ حنفی میں سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی تکبیر کو تو فضیلت حاصل ہے لیکن ترجیع کے ساتھ ان کی اذان قابل قبول نہیں ہے۔ تقلید کی بندشوں نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچادیا ہے۔
اسی مثنی اور فرادی تکبیر سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ بھی سن لیں۔ ایک مرتبہ میں دہلی جانے کے لیے علی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کررہا تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے ایک بڑے اور بزرگ استاذ کے ساتھ تبلیغی جماعت کے چند شناسا چہرے بھی نظر آئے۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا۔ ابھی ہم سلام و کلام میں مصروف ہی تھے کہ ٹرین آگئی اور ہم سب ٹرین میں سوار ہوگئے۔ دوران سفر گفتگو میں جب مسلمانوں کے مابین فقہی اختلافات کا ذکر آیا تو میں نے استاذ حدیث کے سامنے مزمل مسجد میں ہوئے واقعہ کا تذکرہ کیا۔ جب دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث نے پروفیسر موصوف کا وحشت والا جملہ سنا تو بار بار اپنی پیشانی پر ہاتھ مارنے لگے اور افسوس کے ساتھ فرمایا کہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں یہ جرأت کیسے آگئی کہ ایک حدیث سے ثابت شدہ مسئلہ کو اپنی لاعلمی کی وجہ سے وحشت بھرا کہہ رہے ہیں۔ تبلیغی جماعت سے متعلق علی گڑھ کے نیاز مندوں نے حضرت سے پوچھا کہ کیا فرادی تکبیر کا ذکر حدیث میں آیا ہے۔ پھر استاذ حدیث نے تفصیل سے مسئلے کی وضاحت کی۔ میں نے عرض کیا کہ مولانا! یہ ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے کہ ہم دعوت و تبلیغ میں اپنی ترجیحات کا تعین مسلکی بنیاد پر کرتے ہیں۔اگر ہم نے عوام کو بتایا ہوتا کہ دونوں طرح کی تکبیروں کا ثبوت حدیث میں ملتا ہے تو یہ نوبت نہ آتی۔ محترم استاذ حدیث نے میری بات سے اتفاق کیا اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فقہی اختلافات پر اپنی تشویش ظاہر کی۔
فقہ حنفی میں نماز قصر کے سلسلے میں جو تحفظات ہیں اور موزوں پر مسح کرنے کے سلسلے میں جو الجھنیں پیدا کی گئی ہیں، ان کو یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ مولانا سلطان احمد اصلاحی کی اپنی تحقیق تھی کہ وہ اس عام رجحان سے ہٹ کر سفر میں جمع بین الصلاتیں صوری اور معنوی دونوں کیا کرتے تھے اور موزے خواہ سوتی کے ہوں یا چمڑے کے، ان پر مسح کرنے کے قائل تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ ایک مجلس کی تین طلاقوں کا مسئلہ آج کا نہیں ہے، یہ پہلے بھی کئی بار اخبار کی سرخیاں بن چکا ہے۔ مولانا اصلاحی امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم الجوزیہ کے رجحان کی تائید کرتے تھے بلکہ انھوں نے اس سلسلے میں ایک طویل مقالہ بھی لکھا تھا جو جماعت اسلامی ہند کے اخبار ’’سہ روزہ دعوت ،نئی دہلی‘‘ میں شائع ہوا۔ بعد میں اکابرین جماعت اسلامی کی زبان سے میں نے خود سنا کہ دعوت اخبار میں مولانا سلطان احمد اصلاحی کا یہ مضمون نہیں شائع ہونا چاہیے۔ اس مسئلے میں امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم الجوزیہ کا موقف کمزور نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے دلائل موجود ہیں۔ اگر امت کے عام مفاد کے پیش نظر اس کو تسلیم کرلیا جائے تو اس سے ہمارے فقہی مسلک پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ جب مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے الحیلۃ الناجزۃ میں اس مسلمان عورت کے انتظار کی مدت چار سال کردی جس کا شوہر غائب ہوگیا ہو اور اپنے فقہی مسلک کو جس میں نوے سال انتظار کی بات کہی گئی تھی، ترک کردیا تھا تو کس فقہی مسلک کی دیوار منہدم ہوگئی تھی۔ آج کے ماحول میں طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں مولانا سلطان احمد اصلاحی رحمہ اللہ کا نقطۂ نظر ہمیں دعوت غور و فکر دے رہا ہے۔
مولانا کی مسلکی رواداری اور ان کی فقہی وسعت نظری کا ایک واقعہ راقم سطور کو مولانا ابوالعاص وحیدی صاحب نے یہ بتایا کہ بستی شہر میں فقہ اکیڈمی کا سیمینار ہورہا تھا۔ اس کا ایک موضوع تقلید بھی تھا۔ مذاکرۂ علمیہ کے دوران جب فقہی رجحانات اور مختلف مسالک میں پائی جانے والی بعض چیزوں پر بحث شروع ہوئی تو مولانا سلطان احمد اصلاحی صاحب نے ظہر سے پہلے پڑھی جانے والی سنت موکدہ کا تذکرہ فرمایا اور کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں واضح طور پر ظہر سے پہلے دو رکعت کا بھی ذکر آتا ہے لیکن فقہ حنفی میں اس کا ذکر نہیں ہے جب کہ بسااوقات اس کی ضرورت پڑتی ہے کہ نمازی ظہر کی نماز میں جماعت سے ذرا پہلے مسجد میں آیا اور اس کے پاس چار نہیں بلکہ صرف دو رکعت پڑھنے کا موقع ہے تو اسے اس کی اجازت ہونی چاہیے یا کبھی کبھی آدمی اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے ظہر سے پہلے چار کی بجائے صرف دو رکعت سنت موکدہ ادا کرلے تو اس میں کیا حرج ہے جب کہ حدیث میں اس کا واضح طور پر ثبوت ملتا ہے۔ اسی مجلس میں انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ جہاں نصوص واضح ہوں، وہاں تقلید کی کوئی ضرورت نہیں البتہ جہاں نصوص واضح نہ ہوں وہاں اپنے فقہی سرمایے سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ایسے تمام مواقع پر تقلید ضروری ہے۔
میں نے جب بھی کسی اہل حدیث ادارے کے پروگرام میں شریک ہونے کے لیے مولانا کو دعوت دی تو خوشی سے انھوں نے قبول کیا اور اس میں شریک ہوئے۔ مولانا کے فکر و نظر میں بڑی وسعت تھی۔ علی گڑھ میں ۱۹۹۳ء میں میں نے ایک سیمینار ’’علوم الحدیث: مطالعہ و تعارف‘‘ کے مرکزی عنوان کے تحت منعقد کیا تھا۔ اس میں مولانا نے بھرپور انداز میں شرکت کی، مقالہ پیش فرمایا اور تاثرات کی آخری مجلس میں منتخب اہل حدیث علماء سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ آج کا علمی دور وسعت نظر کا متقاضی ہے۔اپنے تحفظات کے ساتھ دوسروں کے تئیں روادار ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے کئی ایک اہل حدیث اداروں میں شرکت کی، علمائے اہل حدیث سے بھی برابر رابطہ میں ہوں، اس وقت اہل علم کی ایک بڑی ٹیم جماعت اہل حدیث کے پاس موجود ہے، اسے علمی اور تحقیقی کاموں سے وابستہ کرنا اور اس کے علم سے فائدہ اٹھانا جماعت اور تنظیم کی ذمہ داری ہے۔ اہل علم و فضل کی اتنی بڑی جماعت کی نعمت ہمارے ملک میں کسی دوسری دینی جماعت کو حاصل نہیں ہے۔
مولانا کے علمی و تحقیقی ذوق کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی مطبوعہ کتابوں میں مستقل اضافے کرتے رہتے تھے۔ ان کے اپنے مخصوص نسخوں میں طول طویل حواشی پر مشتمل الگ سے کاغذ لگے ہوتے ہیں۔ان کی خواہش اور کوشش تھی کہ جدید ایڈیشن ان اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ شائع کیا جائے لیکن ناشرین کے اپنے مسائل کی وجہ سے شاید ان کی یہ خواہش کئی ایک کتابوں کے تعلق سے پوری نہیں ہوئی۔ اس سلسلے کی چند ایک کتابوں کی ذمہ داری مولانا نے میرے سپرد کی تھی جن کے مقدمے میں مولانا نے میرے نام کی صراحت کی ہے۔مولانا کے بچوں سے یہ عرض کروں گا کہ مولانا کی اپنی مطبوعات کے جو ذاتی نسخے ان کے اپنے استعمال میں رہے ہیں، ان کو سنبھال کر رکھیں، متعلقہ اداروں کو خبر بھی کردیں شاید ان کو توفیق ہوجائے کہ مطبوعہ کتابوں کے جدید ایڈیشن ان اضافوں کے ساتھ شائع ہوجائیں۔ مولانا کی مطبوعہ کتابوں پر ان کے اپنے ہاتھ سے کیے ہوئے یہ اضافے بیش قیمت ہیں۔ ان سے زیر بحث مسائل کے کچھ نئے پہلو سامنے لائے گئے ہیں اور بعض مسائل کی توضیحات میں کئی ایک معتبر اور مستند حوالوں کا اضافہ ہے۔
اسی طرح مولانا کی ایک خاص علمی چیز ان کی روزمرہ کی ڈائری ہے۔ ابتدائی دنوں میں مولانا اس کے لیے اسکول میں بچوں کے استعمال میں آنے والی سائنس کے مضمون کی کاپی استعمال کیا کرتے تھے۔ اس میں دو طرح کی چیزیں عام طور پر ہوا کرتی تھیں: ایک اخبارات کے ضروری تراشے جن کو بڑی احتیاط سے مولانا کاٹ لیتے تھے اور اس کاپی میں چسپاں کردیا کرتے تھے۔ اس کاپی میں دوسری چیز ان کی بعض یاد داشتیں یا کوئی علمی بات درج ہوتی تھی۔ یہ گزشتہ پچیس تیس سالوں کے واقعات و حادثات اور علمی نوادرات کا مختصر دائرۃ المعارف ہے۔ جس میں ملک اور بیرون ملک میں رونما ہونے والے بڑے واقعات کا ذکر بھی ملے گا، مختلف میدانوں میں سرگرم عمل شخصیات کی وفیات اور ان کے امتیازات کا بھی تذکرہ ملے گا۔ اسی طرح مولانا کے ذہن میں آنے والے خاص نکتے بھی اس میں ملیں گے۔کسی اہم موضوع پر کوئی معتبر اور مستند حوالہ بھی اس میں درج ہوگا۔ ایک بار ایک مجلس میں دلتوں اور دیگر پس ماندہ ذاتوں پر ہونے والے والے مظالم کی بات چل نکلی تو میں نے عرض کیا: دلتوں کے ساتھ زیادتی کا ایک بڑا ثبوت گاؤں دیہات میں خود ان کی آبادیاں بھی ہیں۔ ہمارے ملک میں عام طور پر جنوب کی ہوائیں کم چلتی ہیں۔پورب، پچھم اور اتر سے ہوائیں زیادہ چلتی ہیں۔ دلتوں کی زیادہ ترآبادیاں آج بھی گاؤں دیہات میں عام آبادی سے جنوب کی طرف ہیں۔ ان کے ساتھ ظلم روا رکھنے والوں کو یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ ان کے جسم سے لگ کر ہوا بھی گاؤں میں داخل ہو۔ یہ بات سن کر مولانا خوشی سے چہک اٹھے اور فرمایا: بالکل صحیح بات ہے، ہمارے اپنے علاقے اعظم گڑھ میں بھی تقریباً یہی صورت حال ہے۔ تمھارے ذریعے آج ایک نئی بات سامنے آئی اور پھر اسے اپنی ڈائری میں میرے نام کے تذکرے کے ساتھ نوٹ فرمالیا۔ مختصر یہ کہ یہ ڈائری بہت بیش قیمت ہے۔ کسی بھی حال میں اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ بہتر ہوتا کہ اس کی الگ سے ایک زیراکس کاپی تیار کردی جائے اور وہ کسی معروف علمی جگہ پر برائے استفادہ موجود ہو۔ اللہ کرے کہ کوئی صاحب علم کئی کاپیوں پر مشتمل اس ڈائری کے مشتملات کی افادیت پر کوئی مضمون لکھ دے اور اس کی ایک عام فہرست بنادے تاکہ اس سے استفادہ عام ہوسکے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ مولانا کے بڑے بیٹے جو خود اصلاحی فاضل ہیں، اپنے والد محترم کے اس اہم دستاویزی سرمایے کو محفوظ کرنے کا کوئی انتظام کردیتے۔
علی گڑھ میں مولانا کے مجھ پر کئی ایک احسانات ہیں جو میں شاید کبھی فراموش نہ کرسکوں۔ ادارہ تحقیق میں تربیت کے دوران مجھے رہائش کے لیے کرایے کا گھر چاہیے تھا کیوں کہ میری اہلیہ کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی اور مجھے مجبوری میں انھیں اپنے ساتھ علی گڑھ لانا پڑا جب کہ اس دور میں ادارہ تحقیق سے ملنے والی اسکالر شپ صرف ایک آدمی کے اخراجات کے لیے بہ مشکل کفایت کرتی تھی۔ مولانا ان دنوں خود ایک کرایے کے مکان میں سرسید نگر میں رہا کرتے تھے۔ گرمی کی چھٹیوں میں مولانا کے بچے وطن گئے ہوئے تھے تو مولانا نے جب میری یہ پریشانی سنی تو فوراً حکم دیا کہ تم میرے مکان میں آجاؤ، ڈیڑھ دو ماہ تک یہاں آسانی سے رہ سکتے ہو۔ مجھے علاج کے لیے اتنا ہی وقت درکار تھا جو مولانا کی توجہ اور عنایت سے مل گیا۔
اسی طرح ان کی سفارش پر ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی رحمہ اللہ کے ساتھ ماہ نامہ زندگی نو میں معاون مدیر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا اور ڈھائی تین سال تک ڈاکٹر فریدی صاحب کی صحبت میں رہ کر ان سے استفادہ کرتا رہا۔ ڈاکٹر فریدی صاحب اسلامی معاشیات کے متخصص تھے اور دنیا کے چند بڑے اسلامی معاشیات کے ماہرین میں ان کا شمار ہوتا تھا اور کئی ایک اسلامی موضوعات پر وہ بڑے اعتماد کے ساتھ لکھتے اور بولتے تھے۔ڈاکٹر صاحب کی زبان اور اردو تحریر بڑی رواں اور فصیح ہوا کرتی تھی۔ سماجی مسائل پر بھی ان کے خیالات دعوت غور و فکر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر تابش مہدی صاحب کی توجہ سے جو فریدی صاحب کے خاصے قریب تھے، ماہنامہ زندگی نو میں ان کے تحریر فرمودہ اداریے الگ الگ موضوعات کے تحت شائع ہوچکے ہیں۔ سلگتے ہوئے مسائل پر کس اعتدال اور توازن کے ساتھ ایک صحافی کو قلم اٹھانا چاہیے، اس کی مکمل تربیت ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی رحمہ اللہ کے یہ اداریے فراہم کرتے ہیں۔ ایک صاحب علم کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کا یہ زریں موقع مجھے مولانا اصلاحی صاحب کی توجہ سے نصیب ہوا۔ ڈاکٹر فریدی صاحب سعودی عرب کی ایک یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر بھی رہ چکے تھے، وہ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ رفیق صاحب میں بھی آدھا سلفی ہوں۔ میں جواب میں کہتا کہ آپ چوں کہ تقلید جامد سے دور ہیں، اس لیے میری نظر میں پورے سلفی ہیں۔ موڈ میں ہوتے تو بڑی دل چسپ باتیں کرتے تھے۔ ملت اسلامیہ کے یہ مخلص خادم اپنے علم اور خدمات کے لحاظ سے بہت بڑے تھے، میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان سے کچھ سیکھنے کے مواقع ملے۔
میری زندگی کا یہ بھی ایک بڑا فیصلہ تھا جب میں نے ماہنامہ زندگی نو سے علاحدگی اختیار کی اور اس فیصلے میں مولانا سلطان احمد اصلاحی صاحب نے میرا ساتھ دیا۔ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی صاحب نے مجھ سے ایک دن فرمایا کہ ادارہ زندگی نو نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے ایک ہمہ وقتی کارکن چاہیے جو میرے ساتھ رسالے کی ادارت میں مدد بھی کرے اور آفس کا کام بھی دیکھے۔ میں تمھارے کام سے مطمئن ہوں، اب یہ فیصلہ کرنا تمھارا کام ہے کہ جزء وقتی کام نہ کرکے ہمہ وقتی ملازم کی حیثیت سے کام کرو لیکن ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی میں تربیت حاصل کرتے ہوئے اور بعد کے ماہ و سال میں کئی علمی کاموں سے وابستگی رکھتے ہوئے میں اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ سلفی فکر اور تحریکی فکر کے دھارے الگ الگ ہیں۔ میری تعلیم و تربیت خالص سلفی ماحول میں ہوئی تھی اور میرے لیے ممکن نہیں تھا کہ میں تحریکی فکر کے سانچے میں خود کو ڈھال سکوں، قدم قدم پر مجھے اندرونی احساسات سے جنگ کرنا پڑتی تھی۔ فریدی صاحب نے مجھے سوچنے اور فیصلہ کرنے کے لیے ایک ہفتہ کا موقع دیا تھا۔ ہفتہ بھر غور و فکر کرنے کے بعد احباب اور دوستوں سے مشورہ کرتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے اس پیش کش کو قبول نہیں کرنا چاہیے چنانچہ میں نے فریدی صاحب کو اپنا معذرت نامہ تحریری صورت میں پیش کردیا۔ وہ بہت حیران بھی ہوئے کہ اتنا اچھا موقع کسی کو خوش قسمتی سے ملتا ہے، یہ تمھیں کیا ہوگیا کہ تم اس سے دور جانا چاہتے ہو۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا: ڈاکٹر صاحب! میں فکر و عقیدہ کے اعتبار سے جو کچھ ہوں، آپ جانتے ہیں، میں یہاں اپنے آپ کو ایڈجسٹ نہیں کرسکتا۔ میں علی گڑھ میں جماعت اہل حدیث کے جن کاموں سے وابستہ ہوں، ان پر ہی اکتفا کروں گا۔ روزی روٹی کا مالک اللہ ہے۔ آج سوچتا ہوں تو اپنے اس فیصلے پر خوشی بھی ہوتی ہے اور اطمینان بھی کہ اللہ نے زندگی میں اس فکری کشمکش سے محفوظ رکھا جس میں مبتلا ہونے کے بعد انسان ختم ہوجاتا ہے اور زمین پرصرف اس کا ایک مادی ڈھانچہ باقی رہتا ہے۔ سلفی فکر میں جو وسعت ہے اور اس میں شرعی مصادر اور فہم سلف کو جو مرکزی اہمیت حاصل ہے، اس کی مثال کسی دوسرے مکتبۂ فکر میں نہیں ملتی۔ اللہ نے میرے فیصلے کی لاج رکھی اور بحمد اللہ میں آج بھی علی گڑھ میں اپنی سوچ اور فکر کے مطابق کام کرنے کے لیے آزاد ہوں۔ آزادی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ ذہنی دباؤ سے جو اضطراب پیدا ہوتا ہے، وہ انسان کو کچھ نیا سوچنے کے لائق نہیں رہنے دیتا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے آزادی کی اس نعمت سے سرفراز کررکھا ہے۔
مولانا کا ایک بڑا امتیاز یہ بھی تھا کہ وہ اپنے یہاں آنے والوں کا بڑا والہانہ استقبال کرتے تھے۔ اپنی خوشی ظاہر کرتے اور فوراً چائے پانی سے میزبانی کا حق ادا فرماتے تھے۔اس معاملے میں ان کے یہاں بڑے چھوٹے کا کوئی امتیاز نہیں تھا۔ آنے والے مہمان کو پورا وقت دیتے اور اس کے ساتھ بیٹھ کر دل چسپی کے موضوعات پر اس سے گفتگو فرماتے تھے۔ کہیں سے یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ مولانا مصروف ہیں، آنے والے کو بار سمجھ رہے ہیں۔ کھانا کھانے کا وقت ہوتا تو بلا تکلف ماحضر پیش فرماتے اور مہمان کے ساتھ خود بھی کھانے میں محبت اور اپنائیت کے ساتھ شریک رہا کرتے تھے۔ زندگی میں کئی بار اس کا مشاہدہ اور تجربہ میں نے ذاتی طور پر کیا ہے۔ الحمد للہ مولانا کے تمام بچے بھی انہی صفات کے حامل ہیں۔ اللہ ان سب کو خوش رکھے اور اپنے جلیل القدر اور عظیم باپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ اس پہلو سے علی گڑھ کے بعض بڑے لوگوں کے یہاں جو کمی ہے، اس کا تذکرہ مولانا اصلاحی بڑے افسوس کے ساتھ کیا کرتے تھے۔
مولانا ایک درد مند دل سینے میں رکھتے تھے۔ بچوں کے برسر روزگار ہونے سے پہلے مولانا کا ذریعہ آمدنی صرف ادارۂ تحقیق کی تنخواہ تھی۔ اس کے باوجود ان کے یہاں میں نے کبھی کسی چیز کی تنگی نہیں دیکھی اور نہ معاشی پہلو سے انھیں کبھی پریشان دیکھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مولانا غریب پرور تھے۔ کمزوروں کی مدد کرنا ان کی شناخت تھی۔ کتنی غریب عورتیں تھیں جو مولانا کے ذریعے اپنی ضروریات پوری کرتی تھیں اور مولانا ہر نازک موقع پر ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ اس تعلق سے مجھے کئی ایک واقعات یاد آرہے ہیں لیکن سب کو یہاں ذکر کرنے کا موقع نہیں ہے، صرف ایک واقعے کا ذکر کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ وفات سے تقریباً دو ماہ پہلے میں نے مولانا کے ساتھ ایک سفر کیا۔ واپسی پر جب مدرسے کا ڈرائیور گاڑی سے ہمیں ریلوے اسٹیشن پہنچانے آیا تو گاڑی سے اترتے ہی مولانا نے مجھ سے سوروپے طلب کیے۔ جب میں نے انھیں روپے دیے تو وہ انھوں نے ڈرائیور کو دیے اور مجھ سے کہا کہ اسٹیشن پر تمھیں روپیہ واپس کردوں گا۔ مجھے خیال آیا کہ مولانا نے ایک قلیل آمدنی پر کام کرنے والے ڈرائیور کی نہ صرف دل جوئی کی بلکہ اس کی ضرورت کا خیال بھی رکھا کہ اس کے بچے منتظر ہوں گے کہ پاپا شہر گئے ہیں تو کھانے پینے کی کوئی چیز لے کر ہی لوٹیں گے۔ اس طرح کے مواقع پر مولانا کا ہاتھ کافی کھلا ہوا تھا۔ شاید اسی کی برکت تھی کہ مولانا کے بچے بہت جلد برسر روزگار ہوگئے اور گھر میں کسی طرح کی کوئی تنگی نہیں رہی۔ بڑے سے چھوٹے بیٹے عزیزم ارشد سلمہ کی جب پہلی تنخواہ ملی تو ایک ملاقات میں مولانا نے فرمایا: مولانا رفیق صاحب! مجھے میری پنشن مل چکی ہے۔ الحمد للہ اب کسی فکر کی ضرورت نہیں۔
 ۲؍۳؍اپریل ۲۰۱۶ء کو صفا شریعت کالج ڈومریاگنج، سدھارتھ نگر میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نجدی کی حیات و خدمات پر ایک سیمینار ادارے کے سربراہ مولانا عبدالواحد مدنی حفظہ اللہ نے منعقد کیا تھا۔ مولانا اصلاحی اور مولانا مدنی کے باہمی تعلقات بہت خوش گوار تھے اور جماعت اسلامی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کے بعد مولانا اصلاحی کے آخری دور کی سیاسی تحریریں مولانا مدنی کی نظر سے گزرتی تھیں، وہ ان کے اپنے افکار کا آئینہ دار تھیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے مولانا نے کئی بیش قیمت مقالے لکھے جن کو بعد میں انھوں نے کتابی صورت میں شائع کیا۔ مولانا عبدالواحد مدنی صاحب نے اس کتاب کے بہت سے نسخے خریدے اور اسے اپنے حلقۂ احباب میں تقسیم کرایا۔ اپنے اسی تعلق کی وجہ سے مولانا مدنی نے مجھے حکم دیا کہ پروفیسر محمدیسین مظہر صدیقی کے ساتھ مولانا سلطان احمد اصلاحی صاحب کو بھی مقالہ لکھنے کی دعوت دو۔ میں نے حکم کی تعمیل کی اور پھر سیمینار میں میرے عزیز ڈاکٹر احسان اللہ فہد سمیت چار لوگوں نے شرکت کی۔ پروفیسر یسین مظہر صدیقی نے محمد بن عبدالوہاب نجدی کی سیرت نگاری پر بڑا علمی اور مفصل مقالہ پیش کیا جسے ہم بجا طور پر کسی بھی زبان کا پہلا علمی مقالہ کہہ سکتے ہیں۔ شیخ محمد بن عبدالوہاب کی سیرت نگاری پر اب تک کوئی خاص علمی کام نہیں ہوا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہمارا کوئی فاضل نوجوان اس مبسوط مقالے کو عربی میں منتقل کردیتا اور پھر سعودی عرب کے کسی ادارے سے اس کی اشاعت عمل میں آجاتی۔ مولانا سلطان احمد اصلاحی نے پہلے ہی یہ فرمادیا تھا کہ بعض مصروفیات کی وجہ سے میں مقالہ تو نہیں لکھ سکا لیکن کتاب التوحید کا مطالعہ کرلیا ہے، اس پر اپنے خیالات کا اظہار کردوں گا۔ چنانچہ مولانا نے سیمینار کے ایک سیشن میں شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی کتاب ’’کتاب التوحید‘‘ پر بھرپور تبصرہ کیا اور اس بات پر خوشی ظاہر کی کہ اس کتاب سے توحید کے بعض گوشوں کو سمجھنے میں مجھے مدد ملی ہے۔ کاش صفا شریعت کالج میں مولانا کے اس خطاب اور تبصرے کا کوئی ریکارڈ موجود ہو اور وہ کاغذ پر منتقل ہوجائے تو ایک اہم علمی چیز ہوگی۔ محترم مولانا عبدالواحد مدنی صاحب سے درخواست کروں گا کہ اگر وہ محفوظ ہو تو کسی طرح اسے سامنے لائیں۔
اسی سفر میں ہمارا قافلہ جامعہ اسلامیہ دریاباد بھی پہنچا، وہاں کے اساتذہ اور ذمہ داران نے علی گڑھ کے مہمانوں کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور پھر مغرب کے بعد جامعہ کی جامع مسجد میں پروفیسر یسین مظہر صدیقی اور مولانا اصلاحی کے ساتھ راقم سطور نے بھی طلبہ و اساتذہ کو خطاب کیا۔ مولانا نے اس بات پر بڑی خوشی ظاہر کی کہ یہاں میں طلبہ کے چہرے پر خاص روشنی اور چمک دیکھ رہا ہوں۔ انھوں نے ذمہ داروں سے پوچھا کہ طلبہ کے پینے کے لیے کس طرح کا پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ جب مولانا کو بتایا گیا کہ مشین کا صاف کیا ہوا پانی انھیں پینے کے لیے فراہم کیا جاتا ہے تو مولانا نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور بتایا کہ طلبہ کی صحت کا راز یہی ہے۔ جامعہ اسلامیہ دریاد باد جماعت اہل حدیث کا مشرقی یوپی میں بڑا ممتاز دینی ادارہ ہے۔ محترم ڈاکٹر عبدالباری فتح اللہ حفظہ اللہ نے علم کا ایک شہر دیہات میں بسا دیا ہے۔ اس کی تمام عمارتیں ان کے اعلی ذوق کی دلیل ہیں۔ محترم مولاناعتیق اثر ندوی صاحب جو جامعہ کے ناظم ہیں، اردو زبان و ادب کا بڑا ستھرا ذوق رکھتے ہیں۔ اردو کے ایک کہنہ مشق شاعر بھی ہیں، حالات و زمانہ کے تقاضوں نے ان کے فکری و ذہنی افق کو جس قدر وسیع اور روشن کیا ہے، کاش ہم سلفی فکر اور دعوت کو اسی راہ پر ڈال کر اس کے کارواں کو تیز گام کرپاتے جو کئی طرح کے جمود کا شکار ہوچکا ہے اور اسے حالات و زمانہ کے تقاضوں کا کوئی احساس نہیں رہ گیا ہے۔اس سفر میں وہ بذات خود جامعہ کے محترم استاذ اور تحقیق حدیث میں سلفیان ہند میں ممتاز مقام کے حامل شیخ محمد جعفر ہندی کے ساتھ علی گڑھ کے مہمانوں کی ضیافت فرماتے رہے اور ان کے ساتھ کی مجلسوں میں کئی طرح کی علمی گفتگو میں شریک رہے۔ تمام مہمانوں نے جامعہ کی لائبریری کی بھی زیارت کی جو اسلامی تراث کے تمام بڑے اور اہم مصادر سے مزین ہے۔ یہ لائبریری بھی جامعہ کے بانی ڈاکٹر عبدالباری حفظہ اللہ کے اعلی علمی ذوق کی دلیل ہے۔ اللہ اس چمن کو سدا بہار رکھے اور وہ تمام متعلقین کے حق میں صدقہ جاریہ ثابت ہو۔
یہ سفر بڑا مصروف سفر تھا، دریا باد سے واپسی پر جامعہ خیرالعلوم ڈومریاگنج میں بھی پروگرام رکھا گیا تھا جس میں تمام مہمانوں کو شریک ہوکر طلبہ و اساتذہ کو خطاب کرنا تھا۔ دریاباد سے ہمارا قافلہ جامعہ خیرالعلوم پہنچا، وہاں جامعہ کے ناظم محترم ڈاکٹر عبدالباری حفظہ اللہ اور جامعہ کے تمام اساتذہ نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔ ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی اور مولانا سلطان احمد اصلاحی تھک کر چور ہوچکے تھے۔ آتے ہی مہمان خانے میں اپنے اپنے بستر پر دراز ہوگئے اور پھر وہاں سے باری باری جاکر جامعہ کے وسیع ہال میں طلبہ کو خطاب فرمایا اور ان کو بیش قیمت نصیحتیں فرمائیں۔ آخر میں راقم سطور نے بھی اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں طلبہ کو خطاب کیا جس میں ان کو خاص طور پر اہم نصابی کتابوں کا مطالعہ کرنے پر متوجہ کیا اور اس کی افادیت بیان کی۔ طلبہ کی لائبریری کو وسیع کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا۔ پروگرام کے بعد جامعہ میں ہی مہمانوں کے ظہرانے کا بھی انتظام تھا جس میں صفا شریعت کالج سے مولانا عبدالواحد مدنی اور مولانا ابوالعاص وحیدی بھی شریک تھے۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ پہلی بار میں نے مولانا ابوالعاص وحیدی صاحب کو مکمل خطبہ اردو میں دیتے ہوئے سنا اور عذر کی وجہ سے یہ خطبہ بھی مولانا نے کرسی پر بیٹھ کر دیا تھا۔ عام طور پر آگے پیچھے عربی زبان میں مسنون خطبہ کے الفاظ ہوتے ہیں اور درمیان میں اردو خطاب ہوتا ہے، مجھے بھی اسی کی عادت ہے لیکن مولانا وحیدی صاحب حفظہ اللہ نے از اول تا آخر مکمل خطبۂ جمعہ اردو میں دیا اور پروفیسر محمد یسین مظر صدیقی نے خطبہ کے سلسلے میں اپنی خوشی کا اظہار فرمایا۔
مولانا سلطان احمد اصلاحی کے ساتھ یہ میرا آخری سفر تھا۔ اسی سفر کے ۵۵؍۵۶؍دنوں کے بعد مولانا ہم سب سے جدا ہوگئے۔ دوران سفر مجھے یہ دیکھ کر طرح طرح کے اندیشے لاحق ہورہے تھے کہ مولانا کی صحت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے۔بستی ریلوے اسٹیشن کا پل کراس کرتے ہوئے مولانا کو دو تین بار بیٹھنا پڑا، اسی طرح جب علی گڑھ پہنچے تو اس کے اسٹیشن پر بھی یہی صورت حال پیش آئی، دو تین بار بیٹھنے کے بعد ہی مولانا سیڑھیوں سے نیچے اتر سکے۔ موت کے وقت کے سلسلے میں اگر مگر سے باتیں کرنا اسلامی عقیدے کے خلاف ہے۔ اس لیے یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ وقت سے پہلے آگئی البتہ ان علامتوں سے اندازہ ضرور کیا جاسکتا تھا کہ اندرون جسم سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔مولانا اپنی ذات کے سلسلے میں کبھی فکر مند نہیں رہے۔اپنی علمی مصروفیات اور بچوں کے مسائل میں اس طرح مشغول رہا کرتے تھے کہ شاید کبھی اس کی طرف ان کا ذہن ہی نہیں گیا کہ پیدل چلتے یا بلندی پر چڑھتے ہوئے ہمارے جسم کی یہ کیفیت کیوں ہوجاتی ہے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے۔ اچانک پیش آنے والے اس حادثے سے مولانا کے اہل خانہ، ان کے متعارفین اور دوست و احباب سکتے میں آگئے۔ میرے عزیز دوست مولانا محمد اسلام عمری نے جب اس حادثہ فاجعہ کی اطلاع دی تو مجھے یقین نہیں ہوا اور میں پریشان ہو اٹھا لیکن رب قدیر کے فیصلہ کے آگے کسی کا کوئی بس کہاں چلتا ہے۔ اللہ نے مولانا اصلاحی کو جو مہلت حیات عطا فرمائی اور اس میں انھوں نے جو بڑے بڑے علمی اور دعوتی کام کیے، وہ ان کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ان کی تمام علمی، دعوتی اور رفاہی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور اپنے مقبول بندوں میں انھیں جگہ دے۔
آمین تقبل یا رب العالمین

آپ کے تبصرے

3000