ماہ محرم اور کربلائی فکر کی شورشیں

رشید سمیع سلفی

محرم کی آمد کے ساتھ ہی فضا کا سکوت درہم برہم ہونے لگتا ہے، ڈھول اور با جوں کی گھن گرج گلی اور محلوں کا سکون غارت کردیتی ہے، اسٹیجوں پر بھی موسم باد و باراں شروع ہوجاتا ہے، سوگ اور ماتم کی نحوست عالم انسانیت پر چھاجاتی ہے، ایک جانکاہ تاریخی سانحہ اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں کے ساتھ اعصاب پر سوار ہوتا ہے، کربلا اور شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی تصویریں پردہ ذہن پر ابھرنے لگتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ حادثہ کربلا سے قومی بحران کی جو کھائی وجود میں آئی تھی وہ صدیوں کے ماتم کے بعد بھی پر نہیں ہوئی؟ رافضی ادیبوں کی خون آشام تحریریں اور مرثیہ نگاروں کے آنسؤوں میں تیرتے الفاظ بھی ملی تاریخ کے اس ناسور کو بھر نہ پائے؟ خون شہادت کے چھینٹے ابھی تک خشک نہیں ہوئے؟ آخر کب تک کربلا کا سانحہ انسانیت کو خون کے آنسو رلاتا رہے گا؟ دین اسلام کا وہ کون سا تقاضا تھا جس سے مجبور ہوکر نام نہاد اسلامیوں نے اس فتنۂ عالم رسا کا دہانہ امت پر وا کیا؟ ایک زخم کو اتنا کریدا کہ شیعیت کی پوری حسیات اس میں سمٹ آئی، دیکھتے دیکھتے سوگ اور ماتم کے ایسے خونچکاں دروازے کھولے گئے کہ عقل انسانی حیران‌ و ششدر رہ گئی۔ اب بات گریبان پھاڑنے، بال نوچنے اور سینہ کوبی سے بہت آگے جاچکی ہے، اب یہ رسم بے تمیزی ترقی کرکے مقابلہ آرائی کے دور میں داخل ہوچکی ہے، جہاں شیعی حب حسین میں نشتر سے اپنے جسم کو لہو لہان کرتا ہے اور خود سوزی میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانا چاہتا ہے۔ دسویں محرم کو ہر گلی کوچے میں کربلا کا خونیں منظر دہرانے کی کوشش کی جاتی ہے، نام نہاد ماتم گاہیں بھی وجود میں آگئی ہوتی ہیں جہاں “ہائے حسین” اور “یا حسین ہم نہ تھے” کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ حب آل بیت کا یہ خونی مظاہرہ شیعیت کی خونی پیاس کو دوآتشہ سے سہ آتشہ کردیتا ہے پھر انھیں تلاش ہوتی ہے انسانیت کے گرم‌ اور تازہ لہو کی جو انھیں اہل سنت کے شریانوں سے فراہم ہوتی ہے، کئی سنی ممالک میں اس کربلائی مخلوق نے خونریزی کا جو بازار گرم کیا ہے وہ اس کی زندہ مثال ہے۔ انسانی تاریخ کو روافض نے جس طرح خون سے لالہ زار کیا ہے وہ ایک دردناک کہانی ہے، اس کا تذکرہ پھر کبھی، ابھی محرم میں شیعیت کا کچاچٹھا بیان کرنا مقصود ہے۔

ماہ محرم میں رفض و تشیع کا فکری بہاؤ پوری اسلامی تاریخ اور اسلامی تعلیمات کو حاشیے پر لا کھڑا کردیتا ہے، تبھی تو روزہ جو متفقہ طور پر سنت رسول اللہ تھا وہ نسیامنسیا ہوجاتا ہے اور جگہ جگہ پانی کی سبیلیں لگا کر سنت روزہ پر کربلا کی پیاس کو ترجیح دی جاتی ہے، عقل و ذہن کے تانے بانے کارزار کربلا سے ایسے الجھادیے جاتے ہیں کہ انسان کو آتش و آہن میں حسین اور ان کے رفقاء کی مظلومانہ شہادت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا، کبھی وہ پیاس سے تڑپتے نظر آتے ہیں، کبھی زخموں سے چور نظر آتے ہیں، کبھی ستر سالہ بزرگ ہونے کے باوجود بہادرانہ صفوں کی صفیں الٹتے نظر آتے ہیں، کبھی گھوڑوں کے کھروں سے روندے جاتے ہیں، کبھی خاک و خون‌ میں ان کی سربریدہ لاش نظر آتی ہے، پتہ نہیں اچانک یزید کی مسلم فوج کو کیا ہوجاتا ہے کہ وہ رحم و مروت کے سارے تقاضے بھول کر درندہ بن جاتے ہیں اور سفاکیت کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالتے ہیں۔ وہ اتنے سںنگدل اور کٹھور بن جاتے ہیں کہ انھیں نواسۂ رسول اور بچوں پر ذرا بھی ترس نہیں آتا، ہر دسویں محرم کو ایک گھمسان کے رن کے بعد نوحہ و ماتم کا مانسون گذر جاتا ہے اور شیعیت کی بے چین روح کو جیسے قرار آجاتا ہے۔
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

افسوس اپنوں کی محبت نے کیا ستم ڈھایا ہے؟ آل بیت کے چاہنے والوں نے پوری دنیا میں حسین کی شہادت کو تماشہ بنادیا ہے، گلی گلی حسین کی قربانی کو رسوا کیا ہے، آل بیت سے ہونے کی سزا یہ دی گئی کہ ایک بار خاک و خون میں تڑپانے کے بعد بخشا نہیں گیا بلکہ بار بار انھیں خاک و خون‌ میں تڑپایا جاتا ہے۔

ہوئے مرکے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

آل بیت کی محبت کا قائل کون نہیں؟ ناموس خانوادہ رسول پر مر مٹنے کا شیدائی کون‌ نہیں؟ لیکن یہ محبت دنیوی اغراض و مقاصد کی اسیر بن جائے، شرک و بدعات کا عنوان بن جائے، کون اسلامی تعلیمات پر یقین رکھنے والا ایسا چاہےگا؟ حب آل بیت شریعت کی پاسداری کا جذبہ ہے نہ کہ شریعت کی جگ ہنسائی کا ذریعہ۔

جنون عقیدت اتنا بے لگام ہوا کہ تکمیل شریعت کے پچاس سال بعد کا واقعہ شریعت اور وحی آسمانی سے زیادہ اہم ترین قرار پاگیا، اس واقعے کے گرد و پیش میں خرافات کا ایک نا پیدا کنار جنگل پھیلا دیا گیا، بیان واقعات میں مبالغہ آرائی انتہاؤں کو چھونے لگی، ان کی دور بین نگاہوں نے خون کی بارش بھی دیکھی، جابجا پتھروں کے نیچے جمے ہوئے خون کا مشاہدہ بھی کیا، آسمان کا لہو رنگ اشک بھی دیکھا، زمین کا شق ہوتا کلیجہ بھی دیکھا، سیدہ فاطمہ بھی عالم برزخ سے نکل کر میدان کربلا میں وہ جگہ صاف کرتی نظر آئیں جہاں بیٹا شہید ہوکر گرنے والا تھا، لفظوں پر تو تمھاری حکمرانی ہے، رگ گل سے بلبل کے پر باندھنے کا ہنر تم کو آتا ہے، تمھارا گلشن فکر تمھارے اسی ہنر سے پھلتا پھولتا رہا، اسی نقطہ نظر کے ساتھ فکر شیعیت ماہ و سال کی مسافت طے کرتی رہی، اور ماہ محرم شرک و بدعت سے گھرتا چلا گیا۔

ایک حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی اسلامی تاریخ اور قربانیوں کا نقطہ عروج قرار پائی، باقی اسلامی جنگوں کی مایہ ناز شہادتیں طاق نسیاں کےحوالے کردی گئیں، پھرسیدالشہدا حمزہ رضی اللہ عنہ پر بھی نگاہ ناز نہیں ٹھہرتی، وہ حمزہ رضی اللہ عنہ جنھیں بے رحمانہ شہید کیا گیا اور جن کی کٹی پھٹی لاش کو دیکھ کر چشم نبوت سے موج اشک بہہ پڑا تھا، کئی تکبیرات کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی، لیکن آل بیت کا یہ مظلوم شہید بھی کربلا کی مخلوق کی نظر میں اہمیت نہیں رکھتا، شہادت حسین پر آنسؤوں کا سمندر لنڈھانے والوں کو بئر معونہ کے ستر شہید صحابہ بھی نہیں بھاتے؟ آہ انھیں پیاس سے تڑپتا ہوا وہ عثمان بھی نظر نہ آیا جو نبی کی ایک آواز پر بئر رومہ کو خرید کر اہل مدینہ پر وقف کردیتا ہے۔ اسی عثمان پر شیعوں کے باوا آدم ابن سبا کے آدمیوں نے بئر رومہ کا پانی روک دیا تھا۔
لوگوں کی پیاس جس نے بجھائی تمام عمر
سنتے ہیں آج پیاس سے وہ شخص مرگیا

اب اس عمر کے ساتھ تم انصاف کیوں کرنے لگے جس نے آتشکدۂ ایران کو ٹھنڈا کردیا تھا، یہی تو تھا جو تمھارے ایران میں دین مجوسیت کی بساط کو الٹ رہا تھا۔ ظاہر ہے تمھارے مذہب کے قاتل کو شہید نہیں طاغوت ہی ہونا چاہیے، دور نہ جائیے، حسن رضی االلہ عنہ کی شہادت پر غور کرلیجیے، کیا وہ شہید اسلام نہیں تھے؟ اور کیا وہ جنت کے سردار نہیں تھے؟ کیا وہ آل بیت نہیں تھے؟ لیکن اس شہادت پر بھی شیعیت کے قلزم اشک میں کبھی طغیانی نہیں دیکھی گئی، پوری دنیائے شیعیت شہادت حسن پر چین کی بانسری بجا رہی ہے۔ یہ دوہرا کردار اس لیے کہ یہی لوگ تھے جنھوں نے عالم شباب میں اس نواسۂ رسول کو موت کے گھاٹ اتارا تھا، کیونکہ ان کی معاویہ سے صلح نے شیعیت کے نظام فکر کی چولیں ہلا دی تھیں، سبائی فتنہ کے تار و پود بکھیر دیے تھے۔ اگر اس صلح کے مطابق حالات اور واقعات چل پڑتے تو رفض و تشیع کو فرضی شریعت کی عمارت کھڑی کرنے کے لیے اینٹیں دستیاب نہیں ہوتیں، اسی لیے انھوں نے مستقبل میں صلح کے ہر اقدام کو سبوتاژ کردیا، یہی موت کے سوداگر تھے جنھوں نے حسین رضی اللہ کو یزید کے پاس پہنچنے سے پہلے شہید کر ڈالا تھا تاکہ حسن کی طرح یہ بھی صلح نہ کرلیں اور ہمارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے۔ حسین کا قتل ضروری ہوگیا تھا نہیں تو کوفیوں کی شامت آجاتی، بلاوجہ لڑائی چھیڑ کر نواسۂ رسول کو قتل کر ڈالا، خطوط کے ثبوت مٹانے کے لیے خیموں کو آگ لگا دی، اور آنکھوں میں مگرمچھ کے آنسو سجالیے، پھر منکرات و موضوعات کی ایسی باد صرصر چلائی کہ اصل واقعہ کہیں گم ہوکر رہ گیا، یزید بے چارہ مفت میں پھنس گیا، قتل حسین کا داغ اپنے دامن سے مٹانے کے لیے اس سے مناسب بہانہ اور کیا تھا کہ سارا کچرا اٹھا کر حاکم وقت کے سر ڈال دو، رنگ آمیزی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو، یہ یہودی ذہن کام کرگیا اور لفظی پینترے بازیاں جھوٹ کو سچ بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔

اگر یقین نہ آئے تو شہادت کے بعد کی تاریخ پڑھ ڈالیے ایک زمانے تک لوگوں نے یزید کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل مانا ہی نہیں تھا، اس بات کی سچائی کے لیے حضرت عبداللہ بن عمر کا وہ جواب ہی کافی ہے جو انھوں نے ایک کوفی کو دیا تھا، جس نے حالت احرام میں مچھر مارنے کا کفارہ پوچھا تھا۔ آپ نے فرمایا نواسہ رسول کو ماردیا تو کفارہ نہیں پوچھا اب آیا ہے مچھر مارنے کا کفارہ پوچھنے، اگر اس المیے کی اصل داستاں سامنے ہے تو یہ بھی دیکھ لیجیے گا کہ لٹا پٹا یہ قافلہ یزید ہی کے گھر پہنچتا ہے، اس قافلے کو احترام سے رکھا جاتا ہے، یزید حادثے کے بعد جشن نہیں منا رہا ہے بلکہ بار بار اظہار افسوس کررہا ہے، ایسے ہی رورہا تھا جیسے بھائی بھائی کے لیے روتا ہے، محمد بن حنفیہ حسین کے بھائی یزید کی تعریف بھی کررہے ہیں، دونوں خاندانوں میں مستقبل میں رشتہ داریاں چلی ہیں، حسین رضی اللہ عنہ کے خاندان کی یزید کے خاندان سے اور یزید کی حسین کے خاندان سے، اگر یزید حسین کا قاتل تھا تو نواسۂ رسول کے خاندان نے یہ رواداری اور قربت کیوں دکھائی، کیا وہ اتنے بے حس تھے کہ اپنوں کے قاتلوں سے یارانے بڑھاتے چلے گئے؟ ہر گز نہیں، یہاں تو پشتہا پشت سے خطرناک قسم کی خاندانی دشمنی دکھائی گئی جو نزول قرآن کے ایمان افروز دور میں بھی زیر زمین چلتی رہی، موقع پاکر اس دشمنی نے بال و پر نکالے، بالآخر حسین اس خاندانی دشمنی کی نذر ہوگئے، دھیرے دھیرے اس فسانے پر رائے عامہ ہموار کرلیا گیا اور خطرناک قسم کی اسلام دشمنی حب آل بیت کے جلو میں تخریب کا سفر طے کرتی رہی۔

کون کہتا ہے کہ یہ کربلا کا ماتم ہے، یہ شہادت کا سوگ ہے، نہیں بالکل نہیں، یہ تو جشن ہے، چراغاں ہے، یہ تو مسرتوں کا اظہار ہے، تبھی تو ڈھول اور باجوں کی فلک شگاف آوازیں ہیں، کھانے اور پینے کی تقریبات ہیں، میلے اور ٹھیلے ہیں، جلوس اور جھنڈیاں ہیں، شربت اور شیرینیاں ہیں، حلوے اور ٹھنڈے پانی کی سبیلیں ہیں، اےحب آل بیت کے متوالو! یہ‌ کیسا ماتم ہے کہ تمھارے طرز عمل پر جشن کا گماں گذرتا ہے، لذت کام و دہن کا سامان لگتا ہے، پینے پلانے کا دور چلتا ہے۔
محرم تو اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، وہ اسلامی سال جس کی بنیاد واقعہ ہجرت پر رکھی گئی تھی، جبکہ تاریخ اسلام کے بڑے بڑے واقعات موجود تھے جن کی طرف اس سن کو منسوب کیا جا سکتا تھا لیکن ہجرت کے اندر جو مضمرات تھے، یا ایثار و فداکاری کے جو شاندار جذبات تھے، وہ نظر انتخاب ادھر مبذول کررہے تھے، مقصد یہ تھا کہ جب جب اسلامی سال کا پہلا مہینہ طلوع ہوگا تو امت نبی اور صحابہ کی ہجرتیں یاد کرے گی، اسلام کے عروج کی تصویر سامنے آئے گی اور دین کے لیے جذبہ قربانی انگڑائی لےگا، لیکن
یہ امت روایات میں کھوگئی
حقیقت خرافات میں کھوگئی
اب سن ہجری کا پیغام پس منظر میں چلا گیا، اور افسانہ کربلا کی نیرنگیاں آگے بڑھ گئیں، اب غار ثور کی وہ تین راتیں کسے یاد رہ گئیں جن کے بارے میں فاروق اعظم کہا کرتے تھے ابوبکر غار کی وہ تین راتیں دے دو اور حیات عمر کی ساری نیکیاں لے لو، اب مکے اور مدینے کے راستوں میں لڑھکتا اور ٹھوکریں کھاتا ہوا وہ بھوکا پیاسا صہیب کسے یاد آئے گا جس کے بارے میں زبان حق ترجمان نے کہا تھا ربح البیع یا ابا یحییٰ، ابو یحی پورا سرمایہ حیات لٹا کر جنت کا سودا کرنا مبارک ہو۔ ام سلمہ اور ابوسلمہ کی مصیبتیں کسے یاد آئیں گی؟
اب درد ہجرت کا مارا بستر مرض پر تڑپتا ہوا بلال کسے یاد آئے گا جو مدینے میں مکہ کے پہاڑوں اور چشموں کو یاد کرکے روتا تھا اور کہتا تھا۔
ألا ليت شعري هل أبيتن ليلة     بواد وحولي إذخر وجليل 
وهل أردن يوما مياه مجنة     وهل تبدون لي شامةوطفيل

کاش! میں ایک رات مکہ کی وادی میں گزار سکتا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل گھاس ہوتیں۔ 
کاش! ایک دن میں مجنہ کے چشمے پر پہنچتا اور کاش! میں شامہ اور طفیل پہاڑوں کو دیکھ سکتا۔ ​

سچ تو یہ ہے کہ واقعہ ہجرت بہ تمام و کمال اپنے دامن میں مصائب و آلام کے ایسے ایسے ہزاروں طوفان سموئے ہوئے ہے کہ کربلا کا شور کسی دور جزیرے سے آتا محسوس ہوگا، لیکن منہج سلف نے افراط و تفریط سے روکا تھا اور عدل کی باگ نے ہمارے قلم کو پکڑا تھا، اس لیے ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے جذبات کے خاموش سمندر میں کبھی سنامی اٹھانے کی کوشش نہیں کی، ایمان کی تازگی اور جذبہ عمل کی تحریک کے لیے بیان واقعات ہی پر اکتفا کرتے رہ گئے۔

ماہ محرم کی شیعی گورکھ دھندوں میں بریلویت شیعوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہے، یہ وہی بریلویت ہے جس نے شرک کے چوپٹ دروازے امت پر کھول رکھے ہیں، شریعت محمدیہ کو قبروں اور مزاروں کے رحم و کرم پر رکھ چھوڑا ہے۔ یہ اگر شیعیت کی ذہنی غلام نہ بنتی تو کیا کرتی؟ دونوں کی سرشت قبوری افتاد طبع کی خوگر ہے، بزرگوں کی ہڈیوں کی تجارت کرنے والے یہ مردہ فروش تھے، ایک نہ دن یہ یکسانیت انھیں تشیع کی بارگاہ میں سجدہ ریز کرنے ہی والی تھی، سو بریلویت کی دیرینہ آرزو بر آئی۔

اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا کیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا

بریلویت کہاں کہاں شیعیت سے بغل گیر ہوئی ہے؟ یہ سلسلہ دراز ہے، شیعی قربت کی گرمجوشی نے عظمت صحابہ پر بھی پتھر اچھالے ہیں، امیر معاویہ، عمرو بن عاص مروان وغیرہم تو معتوب تھے ہی لیکن مرور ایام کے ساتھ فہرست طویل ہوتی جارہی ہے، وہ دن دور نہیں جب شوخ اور تلون مزاج بریلوی روافض کی خوشنودی کے لیے اکابرین صحابہ پر بھی حملہ آور ہوجائیں گے، شیخین پر بھی ایسے ہی زبان درازی کریں گے جیسے شیعہ کرتے ہیں، پھر دیکھنا محرم کے پرجوش نوحہ ماتم میں تبرا کے سارے ریکارڈ ٹوٹیں گے، حب آل بیت کی ساری شیعی جنوں خیزیاں بھی بریلوی قلابازیوں کے سامنے شرماجائیں گی۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Khairullah salafi

مضامین بہت اچھے ہوتے ہیں