دور حاضر میں الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے دل ودماغ کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اسی سے ذہن سازی کی جاتی ہے اور دوسروں کو اپنا ہم نوا اور ہم خیال بنایا جاتا ہے۔یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے مثبت اور تعمیری کام بھی لیا جاسکتا ہے اور اسی کو منفی اور تخریبی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔دنیا میں ہم دونوں طرح کے نمونے دیکھ رہے ہیں۔بڑی بڑی حکومتیں اپنے افکار ونظریات کی اشاعت کے لیے اس کو استعمال کرتی ہیں اور کمزور ممالک کو اپنے جھانسے میں لے کر ان کے وسائل کا استحصال کرتی ہیں۔جھوٹ اور پروپیگنڈے کی مہم بھی چلاتی ہیں اور غربت وجہالت میں ڈوبی قوموں کو آنکھیں بھی دکھاتی ہیں۔اسلام دشمن طاقتوں نے تو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس کے ذریعہ پوری مہم چھیڑ رکھی ہے اور مسلسل ان کی تصویر خراب کرنے میں مصروف ہیں۔ان حالات میں اگر دین رحمت کی صحیح اور سچی تصویر اسی میڈیا کے ذریعہ نہ پیش کی جائے تو بہت سے معصوم ذہن کئی طرح کی غلط فہمیوں کا شکار ہوجائیں گے اور ان کا رویہ بھی اسلام اور مسلمانوں کے تئیں شیطان صفت لوگوں کی طرح ہوجائے گا۔
اپنی اسی ضرورت کے پیش نظر مسلم ممالک اور پوری دنیا میں موجود مسلم ادارے اور تنظیمیں اپنے محدود وسائل کے باوجود الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا استعمال کرتی ہیں اور اسے دعوت وتبلیغ کا ایک مفید اور کار آمد ذریعہ خیال کرتی ہیں۔اس سے کسی نہ کسی حد تک اسلام کا موقف واضح ہوتا ہے اور مسلمانوں کی صحیح تصویر سامنے آتی ہے۔آج کے دور میں دینی صحافت کو دو محاذوں پر یکساں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ایک محاذ تو داخلی ہے اور دوسرا بیرونی۔بلکہ بیرونی محاذ ہمارے داخلی محاذ کی کمزوری اور اس کے انتشار کے سبب ہی کھلا ہے۔اگر اپنا گھر ہی فکری وعملی انحرافات کا شکار ہو تو اغیار کو مسکت جواب دینا مشکل ہوجاتا ہے۔تعلیم وتربیت،دعوت وتبلیغ کے ذریعہ ہمیں مسلمانوں کی دینی،اخلاقی،سماجی،تعلیمی اور معاشی حالت پر توجہ دینی ہوگی اور انھیں کردار وعمل کے لحاظ سے اتنا مضبوط بنانا ہوگا کہ کوئی ان کی طرف انگلی نہ اٹھا سکے۔
بحمد اللہ ملت اسلامیہ ہند کو اپنی اس ضرورت کا احساس ہے اور وہ کسی نہ کسی حد تک اپنے اس فریضہ کو انجام دے رہی ہے لیکن اتنی بڑی آبادی کومیڈیا کے ذریعہ متاثر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے،خاص طور پر پرنٹ میڈیا کے ذریعہ تو مزید مشکل ہے کیوں کہ یہاں تعلیم کی کمی ہے،پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے،غربت اور جہالت اس قدر عام ہے کہ اس کی موجودگی میں اچھے سے اچھا کام بھی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں لاپاتا۔پھر بھی ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں رہنا چاہئے اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عموماً پڑھے لکھے لوگ ہی سماج کی ذہن سازی کرتے ہیں خواہ وہ تعداد میں کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے دینی ادارے جہاں اپنے دعاۃ اور مبلغین کے ذریعہ مسلمانوں کی رہنمائی اور ان کی اصلاح وتربیت کا کار خیر انجام دیتے ہیں،وہاں وہ دینی رسائل وجرائد کی اشاعت کا بھی انتظام کرتے ہیں تاکہ تفصیل سے اسلام کی تعلیمات پیش کرسکیں اور کتاب وسنت کے دلائل بھی لوگوں کے سامنے آسکیں۔
ہماری اپنی جماعت بحمد اللہ اس میدان میں اپنی دینی ذمہ داریاں بحسن وخوبی انجام دے رہی ہے۔ہمارے ادارے اور تنظیمیں کئی ایک رسائل وجرائد شائع کررہی ہیں ،جن میں اسلام کی صاف ستھری تعلیمات کو پیش کیا جاتا ہے ۔کتابوں کے مقابلے میں ان رسائل سے لوگ زیادہ مستفید ہوتے ہیں۔ایک تو ان کے مضامین مختصر ہوتے ہیں جن کو ایک نشست میں پڑھا جاسکتاہے اور دوسرے یہ کہ ان میں حالات کے مطابق مضامین ہوتے ہیں جن کو پڑھ کر ان کی معلومات تازہ ہوجاتی ہیں۔
موجودہ دور کے حالات ہماری دینی صحافت سے تقاضا کرتے ہیں کہ اس کی آنکھیں کھلی رہیں اور وہ ہمیشہ بیدار رہے۔کہاں کس چیز کی ضرورت ہے،اس پر نظر رکھے۔جماعت اور ملت کی سرگرمیوں پر اس کی نگاہ ہو،اس کے موقف کو متانت اور سنجیدگی کے ساتھ ملک اور ملت کے سامنے پیش کرے۔اسلام کی ترجمانی کے فرائض علی وجہ البصیرت انجام دے۔ہماری نظر میں اس وقت دینی صحافت کی ترجیحات مندرجہ ذیل ہیں ،جن کو بطور خاص پیش نگاہ رکھا جانا چاہئے:
(۱)اسلام کی سادہ اور فطری تصویر
گزشتہ کئی سالوں سے ملک کے بعض شرپسند عناصر اس کے مختلف طبقات اور مذاہب کے درمیان فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں،اس میں بہت کچھ دخل دنیا کی اسلام دشمن طاقتوں کا ہے جو مسلسل اسلام جیسے پرامن مذہب کو ایک سخت گیر مذہب کی حیثیت سے پیش کررہی ہیں اور مسلمانوں پر تشدد پسندی اور دہشت گردی کا الزام عائد کرتی ہیں۔ہمارے ملک میں اس جنونی طبقے کو اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل رہا ہے اور وہ آئے دن مسلمانوں کی دل آزاری کا سامان کرتے رہتے ہیں۔برادران وطن میں جو اسلام اور مسلمانوں کو قریب سے نہیں جانتے وہ غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں اور اسی جنونی طبقہ کے ہم نوا بن جاتے ہیں۔اس تعلق سے اسلام کی وہ تعلیمات بطور خاص پیش کرنے کی ضرورت ہے جن کا تعلق مساوات،عام بھائی چارہ،خدمت خلق اور سماجی معاملات سے ہے۔ہندوستان میں مسلم دور حکومت کی جو غیر حقیقی تصویر انگریزوں نے پیش کی ہے اورجس کی جھلک نصاب کی کتابوں تک میں نظر آتی ہے،اس کی صحیح تحقیق کرنا اور حقیقی اور واقعی تصویر پیش کرنامسلم مورخین کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔بعض انصاف پسند غیر مسلم مورخین نے اس سلسلے میں کئی ایک اہم کام کیے ہیں،اس کو عام کرنا یا ان کی تحقیقات کا خلاصہ پیش کرنا بھی ہماری ضرورت ہے۔توحید ،رسالت اور آخرت کے بارے میں اسلام کے عقائد اور اس کے نظریات کو برادران وطن کے سامنے اس انداز میں لانا چاہئے کہ وہ ان کو سمجھ سکیں اور اپنی بے چین زندگی اور مضطرب دل کا علاج کرسکیں۔
(۲)مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح
یہ عجیب المیہ ہے کہ جس امت کو توحید،رسالت اور آخرت کے صاف ستھرے عقائد کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے برپا کیا گیا تھا،وہ اپنی جہالت اور بعض عجمی افکار وخیالات کے زیر اثر ان اساسی عقائد کے بارے میں کنفیوز ہوگئی ہے۔وہ زبان سے توحید کا اقرار کرنے کے باوجود کتنے غیر اللہ کو خدائی اختیارات میں شریک کیے بیٹھی ہے،وہ یہ سمجھتی ہے کہ اولیائے عظام اور بزرگان دین کی توقیر واحترام یہ ہے کہ ان کی قبروں پر قبے تعمیر کیے جائیں اور ان پر پھول اور چادر چڑھائی جائے۔حاجت روائی اور مشکل کشائی کی صفات ان کے اندر بھی تسلیم کرتی ہے چنانچہ وہ نماز روزہ کو اتنی اہمیت نہیں دیتی جتنی اہمیت کسی عرس میں حاضری اور کسی درگاہ کی زیارت کو دیتی ہے۔مسجدیں ویران ہیں اور مزارات پر دھوم دھام ہے۔عیسائیت،مجوسیت اور ہندومت کے جو اثرات مسلمانوں کے عقیدہ توحید پر پڑے ہیں اور جس طرح ان کو گمراہی کے کھڈ میں پہنچادیا گیا ہے،وہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔قرآن اور حدیث میں شرک کی مذمت میں جس قدر نصوص موجود ہیں،ان کوتاویل کے ذریعہ بت پرستی اور مجسمہ پرستی کے لیے خاص کردیا گیا ہے۔ایسے دانش ور بھی بکثرت پیدا ہوگئے ہیں جو مسلمانوں کے اندر موجود شرک کے مظاہر کو بہت ہلکے انداز میں لیتے ہیں اور ان باتوں کو ان کا پرسنل مسئلہ قرار دے کر نظر انداز کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔بھلا بتائیں کہ جس توحید خالص کی تبلیغ واشاعت کے ہم ذمہ دار بنائے گئے ہیں،اگر اسی کو ترک کردیں تو پھر بچتا ہی کیا ہے۔میرا خیال ہے کہ توحید خالص سے سمجھوتہ ہماری پہچان کھودے گا اور ہم جب اللہ کی عبادت میں کئی شریک بنا چکے ہوں گے تو پھر کس منہ سے اللہ سے فریاد کریں گے کہ وہ ہماری مدد فرمائے۔عالم اسلام کی کمزوریوںاور مسلمانوں کی محرومیوں نے ہمیں اس قدر جذباتی اور عجلت پسند بنادیا ہے کہ ہم فوراً انقلاب دیکھنے کی خواہش کربیٹھتے ہیں اور پھر اس کے لیے جہاں جہاں رکاوٹ محسوس ہوتی ہے،اسے دور کرنے کے لیے سمجھوتے کرتے ہیں۔شاید نظر وفکر کے یہ انحرافات ہی ہیں جن کی وجہ سے ملت کی جہدومساعی کو یکجہتی نہیں مل پارہی ہے۔ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور کتاب وسنت اور سلف کے منہج مستقیم کی روشنی میں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہئے۔
رسالت کے بارے میں ہمارے عقیدہ کا حال یہ ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ سے محبت کا دعوی بھی کرتے ہیں،آپ کے فضائل ومناقب کا ذکر کرکے گلی گلی مجلسیں بھی منعقد کرتے ہیں،آپ ﷺ کے خَلقی وخُلقی اوصاف حمیدہ ا ورکمالات متمیزہ کا والہانہ تذکرہ بھی کرتے ہیں لیکن جس حکم کو آپ ﷺ نے بار بار ارشاد فرمایا ہے کہ میری اتباع اور پیروی کرو،اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔رسول گرامی ﷺ نے اپنی امت کو امت واحدہ بنایا تھا لیکن ہم نے اسے چار خانوں میں تقسیم کردیا اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس پر اصرار اتنا زیادہ ہے کہ نجات اور کامیابی کے لیے ان چاروں میں سے کسی کے ساتھ رہنا ضروری ہے ورنہ سبیل المومنین سے الگ ہوکر گمراہ ہوجانے کا اندیشہ ہے۔نبی ﷺ اپنی امت پر شفیق اور مہربان تھے،دنیا اور آخرت کی تمام چیزوں سے اسے آگاہ کیااگر یہ گروہ بندی اتنی ہی ضروری تھی تو اپنی امت کو لازمی طور پر آگاہ فرماتے۔نبی اکرم ﷺ کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ نے آپ کو خطا ونسیان سے محفوظ رکھا ہے،جو شریعت آپ ہمیں دے گئے ہیں،اس میں کسی اجتہادی خطا کا بھی امکان نہیں ہے لیکن کیا یہ مقتدیٰ ائمہ دین خطا ونسیان سے محفوظ ہیں؟کیا کوئی یہ ضمانت دے سکتا ہے کہ ان سے اجتہادی خطائیں نہیں ہوئی ہیں؟دنیا میں شاید کوئی ہو جو ان کو معصوم تسلیم کرتا ہو پھر تقلید ائمہ پر اتنا اصرار کیوں ہے؟ہندوستان کے مشہور اور عبقری عالم دین شاہ محمد اسماعیل رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے اپنی معروف کتاب’’تنویر العینین فی مسئلۃ رفع الیدین‘‘میں تحریر فرمایا ہے کہ صحیح حدیث کی موجودگی میں ائمہ کے اقوال واجتہادات پر اصرار کرنا شرک فی الرسالہ ہے۔امت کو متحد رکھنے کے لیے آج بھی نسخہ کیمیا یہی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی پر اسے متحد کیا جائے۔اس سے ہٹ کر جو بھی اتحاد ہوگا وہ ناپائیدار ہوگا اور خیر وبرکت اور نصرت الٰہی سے محروم ہوگا۔
عقیدہ ٔ آخرت کا صحیح تصور مسلمانوں میں پیدا کیا جائے۔آخرت میں نجات اور کامیابی کا انحصار رحمت الٰہی اور اپنے حسن عمل پر ہے،اعمال صالحہ سے دور رہ کر جھوٹے سہاروں پر تکیہ کرلینا عقیدۂ آخرت کو غارت کردیتا ہے۔بلاشبہ نبی اکرم ﷺ کو شفاعت کبریٰ کا عالی مقام حاصل ہے لیکن وہ اذن الٰہی سے مشروط ہے اور اللہ اپنے بندوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں فرمائے گا۔عیسائیت کے باطل نظریات ہمارے یہاں در آئے ہیں اور کہیں نہ کہیں ہم بھی اس زعم باطل کا شکار ہوگئے ہیں کہ بخشوانے کے لیے ایک نبی رحمت ہمارے لیے موجود ہیں۔آج مسلمانوں میں دین سے دوری اور اعمال صالحہ سے عدم دلچسپی کا جو منظر دکھائی دیتا ہے،اس میں غیر شعوری طور پر ہم آخرت کے سلسلے میں عیسائیت کے نظریہ فلاح ونجات سے متاثر ہوئے ہیں۔قدم قدم پر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور وہ بھی حقوق ومعاملات کے باب میں،آخرت میں جواب دہی کے احساس سے بے نیازی کی دلیل ہے۔قرآن مجید میں قیامت اور جہنم کی ہولناکیوں کا تفصیلی تذکرہ اسی لیے کیا گیا ہے کہ بندۂ مومن ہمیشہ آخرت پر نگاہ رکھے۔یہی عقیدہ ہمیں برائیوں اور گناہوںسے باز رکھے گا۔
دینی صحافت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان عقائد کی تفصیلات سے واقف کراتی رہے اور ان کے جو معنوی اثرات زندگی پر پڑنے چاہئیں،ان کی نشان دہی بھی کرتی رہے۔اس میں ترغیب بھی اور ترہیب بھی،غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوتا رہے اور الٹی سیدھی تاویلات سے آگاہ بھی کیا جاتا رہے۔ایک مسلمان اپنے دین سے محبت رکھتا ہے،اسے قرآن سے والہانہ عقیدت ہے ،وہ ناموس رسالت پر جان دینے کے لیے آج بھی تیار ہے۔صدیوں کی فرقہ بندیوں نے اسے اسلام کے چشمۂ صافی سے دور کردیا ہے،کچھ بندۂ سیم وزر نے اسے یرغمال بنالیا ہے۔ان بدلیوں اور ان کی تاریکیوں کو کتاب وسنت کی روشنی سے دور کرتے رہنا ہی ایک ذمہ دار صحافی کا وظیفہ قرطاس وقلم ہونا چاہئے۔مخاطبین سے ہمدردی اور اپنائیت کا مسلسل اظہار ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ برف نہ پگھلے اور قساوت قلبی کے شکار افراد اپنے دلوں میں سوز وگداز نہ محسوس کریں۔مناظرانہ تحریر اور معیار سے فروتر زبان ہمارے مسئلہ کا حل نہیں ہے اور نہ ہمارے دکھوں کا علاج ہے۔شیطان بڑا عیارہے وہ اس پہلو سے بھی ہماری دعوت کو منفی رخ دے دیتا ہے اور پھر اپنے چیلوں کے ساتھ ہر چہار جانب سے حملہ کرتا ہے۔دعوت کے لیے قرآن مجید نے حکمت،موعظت اور جدال احسن کی تلقین کی ہے،تینوں میں جو ترتیب ہے،اس میں بھی خاص معنویت ہے۔یہ گویا تین مرحلے ہیں جو یکے بعد دیگرے آنے ہیں۔اب اگر کوئی صحافی اس کی ترتیب پلٹ دے اور فتوی کی زبان استعمال کرتے ہوئے آستین چڑھا کرمیدان میں آجائے،قابل احترام شخصیات کو نشانہ بنانے لگے،سیدھے سادے لوگوں کو جہنم رسید کرنے لگے تو وہ ایک دینی صحافی کی حیثیت سے کامیاب نہیں ہوسکے گا خواہ اس کے گردوپیش کے جھوٹے مداح اس کی کتنی ہی واہ واہ کیوں نہ کریں۔جن مسائل میں غلط فہمیاں پید کردی گئی ہیں یا جن میں نقطہائے نظر کا اختلاف ہے،ان پر قلم اٹھاتے ہوئے ہمارے صحافی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کی تحریر صرف ان کے مخاطب ہی نہیں بلکہ دوسرے غیر جانب دار حضرات بھی پڑھیں گے بلکہ غیر متعلق افراد کی تعداد زیادہ ہی ہوتی ہے اور وہ اس تحریر میں کچھ پانے کی کوشش کرتے ہیں۔اپنے زرخیز قلم سے اکثریت کو مستفید ہونے کا موقع نہ دینا کوئی نفع بخش سودا نہیں ہے۔
(۳)عصری علوم کی طرف توجہ مبذول کرانا
ایک صحافی اپنے ملک اور ملت کا دل ودماغ ہوتا ہے۔اسلام کی ترجمانی کرنے والا اور مسلمانوں کے عروج واقبال کا خواب دیکھنے والا ایک مسلمان صحافی اپنے ملک اور ملت کے مسائل سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔خالص دینی موضوعات کو لوگ قابل اعتنا نہیں سمجھتے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا تعلق عصر ی مسائل سے جوڑا نہیں جاتا ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو ہم حکیم امت کے محترم لقب سے یاد کرتے ہیں اور ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔کبھی آپ نے غور کیا کہ آخر اس کتاب میں کیا ہے،جس کی وجہ سے شاہ صاحب کو ہماری ملی تاریخ میں یہ مقام بلند ملا ہے۔اس کتاب میں شاہ صاحب نے مشکوۃ المصابیح سے احادیث لی ہیں لیکن ان کو جتنے ابواب میں تقسیم کیا ہے اور جس طرح عصری مسائل سے ان احادیث کو مربوط کیا ہے،وہ ہر درد مند اور صاحب فکرمسلمان کے دلوں کی دھڑکن بن گئی ہے۔اسلام اللہ کا محبوب ترین دین ہے،وہ انسانوں کی بھلائی اور خیر خواہی چاہتا ہے،وہ انسان کو آداب زندگی سکھاتا ہے،وہ دنیا میں امن وانصاف قائم کرنا چاہتا ہے،اس کی ساری تعلیمات ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ہمارے بس میں نہیں ہے کہ ہم دنیا کو پیچھے لے جاسکیں،عصری ترقیات اور اس کے پیدا کردہ مسائل کی تفہیم اور اسے اسلام کے سانچے میں ڈھالنا ہماری اولین ضرورت ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان عصری علوم میں کسی سے پیچھے نہ رہیں بلکہ اس میدان میں ان کو امامت کا درجہ حاصل ہونا چاہئے۔یہی میدان ہے جس میں ہم پیچھے چلے گئے ہیں۔نتیجہ سامنے ہے،غربت اور افلاس نے ہمارے گھروں میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔دنیا کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے عصری علوم کی ضرورت سے ہر کوئی واقف ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ دینی سطح پر ہم اس کی منظم تحریک نہیں چلاپاتے اور اپنے رویہ سے دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں ہے۔عصری علوم اور اس کی تحصیل کے سسٹم کی بعض خرابیوں سے کسے انکار ہوسکتا ہے لیکن اس کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور اس کی خرابیوں کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ہماری دینی صحافت کی ترجیحات میں یہ بات شامل رہنی چاہئے کہ وہ مسلمانوں کو اس کی ترغیب دے اور اس میں پیش قدمی نہ کرنے کے جو نقصانات ہیں،ان سے واقف کرائے۔
(۴)اسلام کے احکام ومسائل کی تشریح
مسلمانوں کی بد عملی اور بے عملی کی ایک بڑی وجہ ان کا اپنے دین کے احکام ومسائل سے واقف نہ ہونا ہے۔پاکی ناپاکی، وضو ، غسل،نماز،روزہ،زکوۃ،حج،نکاح، طلاق،خلع،وراثت ،ہبہ ،وصیت ،وقف ،اصول تجارت،حلال وحرام جیسے بڑے اور موٹے موٹے مسائل میں ہماری معلومات صفر کے قریب ہیں۔یہ معلومات ہمارے دینی مدارس فراہم کرتے ہیں اور ان سے فیض یافتہ حضرات عوام میں رہ کر ان کی تربیت کرتے ہیں لیکن یہ عجیب معاملہ ہے کہ ابھی تک ایک بڑی آبادی جہالت اور تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہے۔اس کی وجہ بھی ہماری دینی صحافت کو بتانی ہوگی اور اس کا تدارک بھی اسے کرنا ہوگا۔بظاہر بڑے بڑے دینی اجلاس ہوتے ہیں،دروس کی مجالس منعقد کی جاتی ہیں اور وعظ ونصیحت کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے۔پھر کیا بات ہے ،معلومات میں اضافہ کیوں نہیں ہوتا۔کیوں ہمارے بچے انبیاء اور صحابہ کے ناموں سے واقف نہیں ہوتے،کیوں انھیں سیرت نبوی کا پتا نہیں ہے۔کمی کہاں ہے،بتانے والے نہیں بتاتے یا انھیں بتانا نہیں آتا۔اس کا دائرہ محدود ہے یا اس کی کوئی اور وجہ ہے۔اس پر پوری دردمندی سے قلم اٹھانا چاہئے اور ملت کی رہنمائی کرنی چاہئے۔خود ہمارے دینی صحافی مستند علماء اور ماہرین شریعت کی طرف سے مثبت اور تعمیری انداز میںتحریر کردہ ایسے مضامین رسائل وجرائد میں شامل اشاعت کریں جواس خلا کو پر کرسکتے ہوں۔دین کے اہم مسائل اور قوانین کو کوئز کے انداز میں بھی پیش کیا جاسکتا ہے اور اسے دل چسپ پیرائے میں بھی ڈھالا جاسکتا ہے تاکہ قارئین کا شوق برقرار رہے اور ان کی معلومات بھی درست ہوجائیں۔
(۵)غیر شرعی رسوم وروایات پر تنقید اور ان کی قباحتوں کی نشان دہی
برادران وطن کی مصاحبت نے مسلمانوں کی زندگی میں بعض ایسی رسوم وروایات کو داخل کردیا ہے جن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کے عقائد وتصورات سے متعارض ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں کی بعض قوموں نے جب اسلام قبول کیا تو وہ اپنے ساتھ وہ رسمیں بھی لے کر آئیں جو ان کے مذہب میں پائی جاتی تھیں یا ان کے یہاں ان کا چلن تھا۔کوئی منظم تربیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ اپنی روایات پر عمل پیرا رہیں ۔ان رسموں میں شادی اور موت کے مواقع کی رسمیں خاص توجہ کی مستحق ہیں۔نحوست اور بدشگونی کی حقیقت نہ جاننے کی وجہ سے شادی کے موقع پر مضحکہ خیز رسمیں ادا کی جاتی ہیں اور توحید کا حامل ایک مسلمان اللہ پر توکل اور بھروسہ کرنے کی بجائے ان غیر شرعی رسومات پر کرتا ہے۔مہندی،بھات،منہ دکھائی،پلنگ بچھوائی اور جوتا چرائی وغیرہ اسی قبیل کی رسمیں ہیں۔سب سے بڑی لعنت جہیز اور منہ مانگی رقم کی ہے۔بڑی بڑی رقموں میں بیٹوں کا سودا ہوتا ہے اور بیش قیمت جہیز کی فرمائش ہوتی ہے۔ان سب کے ساتھ ساتھ بڑی بے حیائی سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ صاحب ہماری صرف ایک ہی خواہش ہے کہ ہمارے باراتیوں کی خاطر مدارات میں کوئی کمی نہ آنے پائے۔
گھر میں کسی عزیز کی وفات ہوجائے تو اس کے چھوڑے ہوئے کپڑے اور استعمال کی دیگر اشیاء کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ ان کو اپنے کام میں لانے سے کوئی پریشانی آسکتی ہے،بعض لوگ تو جنازہ کے ساتھ اس کے کپڑے میں بھی لے جاتے ہیں اور کسی گڈھے میں پھینک دیتے ہیں،حالانکہ میت کی زمین،جائیداد اور روپیہ زیور کے ساتھ یہ سلوک نہیں کرتے بلکہ دوسروں کا حق مار کر سب کچھ سمیٹ لینے کی فکر میں رہتے ہیں۔میت کے لیے ایصال ثواب کے نام پر تیجہ،دسواں اور چالیسواں کرتے ہیں اور عزیزوں دوستوں کے ساتھ مل کر قورمہ اور بریانی کا مزہ لیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ کھا ہم رہے ہیں اور ثواب مرنے والے کو مل رہا ہے۔یہ رسم اتنی غیر معقول ہے کہ غبی سے غبی انسان بھی اس کو سمجھ سکتا ہے۔بعض معصوم اور ناسمجھ مسلمان معاشرہ اور سماج کے دباؤ میں قرض لے کر اس کھانے اور کھلانے کا اہتمام کرتے ہیں حالانکہ غربت اور افلاس کی وجہ سے ان بے چاروں کو کم ہی توفیق ملی ہوگی کہ وفات پانے والے اپنے عزیزوں کو ان کی زندگی میں اس طرح کا کھانا کھلاسکیں۔
مختصر یہ کہ ان غیر شرعی رسموں نے مسلم سماج کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ہمارے صحافیوں کو حکمت اور معقولیت سے ان کو سمجھانا ہوگا کہ تمھاری زندگی کا مقصد کچھ اور ہے اور تم ان بے کار کاموں میں الجھ گئے ہو۔اسلام کی اشاعت اور اس کو سربلند دیکھنے کا جذبہ اگر پیدا ہوجائے تو ایک مسلمان ان فضولیات سے خود کو محفوظ رکھ سکے گا۔سلف صالحین سے محبت اور عقیدت کا یہی تقاضا ہے کہ خوشی اور غم کے ان مواقع پر ان کے آثار واسوہ کی اقتدا کی جائے۔
(۶)عام فہم اور موثرزبان وبیان
عام طور پر کم پڑھے لکھے اور وہ حضرات جو جدید تعلیم یافتہ ہیں،ان کی شکایت اردو دینی صحافت سے یہ ہے کہ اس میں بالعموم عربی اور فارسی آمیز مشکل زبان استعمال کی جاتی ہے۔عربی سے رات دن تعلق رکھنے والے ہمارے قابل صد احترام علما جب اردو میں کوئی تحریر تیار کرتے ہیں تو غیر شعوری طور میں اس میں عربی کی مشکل تعبیریں درآتی ہیں جن کو عام لوگوں کے لیے سمجھنا آسان نہیں ہوتا ہے۔رسائل وجرائد کے مدیران محترم کی ذمہ داری ہے کہ وہ مضامین پر تفصیلی نظر ڈالیں،اس کے بعد ہی اسے اشاعت کے لیے دیں۔زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم(میرے دوست کی زبان ترکی ہے اور مجھے ترکی زبان نہیں آتی)والی کیفیت اور صورت حال پیدا کرکے ہم کوئی خاص فائدہ سماج کو نہیں پہنچاسکتے ہیں۔مخاطب کی ذہنی سطح پر اتر کر تحریر لکھنا یا گفتگو کرنا ہی بلاغت ہے،مشکل اور موٹے موٹے دقیق لفظوں کے استعمال سے نہ کوئی تحریر فصیح ہوتی ہے اور نہ اسے معیاری ادب کا نام دیا جاسکتا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ تحریر میں مثبت رویہ اپنایا جائے،اختلافی مسائل پر لکھتے ہوئے قلم پر کچھ زیادہ ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔مقصد افہام وتفہیم ہے،اکھاڑے کا میدان تیار کرکے ہم دوسروں کو اپنا دشمن تو بناسکتے ہیں،انھیں اپنا ہم نوا نہیں بناسکتے اور نہ انھیں شکست دے سکتے ہیں۔جو مواد قارئین کے سامنے پیش کیا جائے ،وہ مدلل ہو اور حکمت اور موعظت کا پہلو لیے ہوئے ہو۔طعن وتشنیع،استہزا اور مذاق نہ دین کا تقاضا ہے اور نہ اس سے ہمارے مقاصد کی تکمیل ممکن ہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم داعی بنائے گئے ہیں،داروغہ بن کر ہم اپنے فرض منصبی سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔غیرت اور حمیت کا حیلہ کرکے جو اصحاب قلم اپنی تحریروں میں غیر داعیانہ اسلوب اپناتے ہیں،وہ اسلام کی نہیں صرف اپنی ذات کی خدمت کرتے ہیں،اس سے مسلمانوں کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔
Post Views:
1,089


آپ کے تبصرے