عام طور سے لفظ صوفی کا تصور آتے ہی ہم ایسے شخص کا خیال دل میں لاتے ہیںجو دین دار،بااخلاق اور صلح جو ہو۔بر صغیر میں سیدھے سادے دین دار لوگوں کو عوام الناس صوفی کہہ کر پکارتی ہے ۔لیکن حال ہی میں پے در پے چند واقعات ایسے ہوئے جن سے صوفی ازم کی صلح جوئی اور شرافت خاک میں مل گئی ۔اب چاہے وہ واقعہ انڈیا میں سید اشرف علی کچھوچھوی کا ہوجس نےدہلی میں صوفی کانفرنس کراکے مسلمانوں سے غداری کی ہے ،چاہے وہ روس کے صدر پوتن اور چیچنیا کے سابق صدر رمضان قادروف کا گروزنی میں صوفی کا نفرنس کا انعقاد ہو۔اور چاہے وہ ترکی میں فتح گولن کی صوفی تحریک کے ذریعے رجب طیب اردوگان کی حکومت کا تختہ پلٹنےکی ناکا م سازش ہو۔الغرض یہ نام نہاد سادہ فطرت صوفیاء ملت کے آستین کا سانپ بنے ہوئے ہیںاور میر جعفر اور میر صادق بن کر ہر جگہ غداری پر تلے ہوئے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں یہ صوفیاء آخر ہیں کون اور چاہتے کیا ہیں۔
تصوف :
صوف سے مشتق ہے ۔جس کے معنی اون کے ہیں۔چونکہ اکثر صوفیاء اون کا لباس پہنتے تھے اس لیے لوگ ان کو صوفی کہنے لگے۔ (تاریخ تصوف: صفحہ99 پروفیسر سلیم چشتی ) بہت سے لوگ اسلامی اور غیر اسلامی تصوف میں فرق کرتے ہیں اور اسلامی تصوف کو تزکیہ و احسان کے معنی میں دیکھتے ہیں۔ممکن ہے شروع میں ان کی نیت تزکیہ و احسان کی رہی ہو ،زہد وعبادت ان کا مقصد ہو لیکن بعد میں انھوں نے جو عقائد اختیار کیے وہ صریح کفراور شرک کے درجے تک پہنچے ہوئے ہیں چنانچہ جب ہم ابن عربی اور منصور حلاج وغیرہ کے عقائد کو دیکھتے ہیں تو ہمارا یہ دعوی مزید پختہ ہوجاتا ہے۔در حقیقت اسلام میں تصوف نام کی کوئی چیز ہے اور نہ ہی ظاہر وباطن کا کوئی فرق ہے۔ اسی طرح شریعت اور طریقت نام کی کوئی تفریق بھی نہیں پائی جاتی ۔
صوفیاء کے عقائد :
ابلیس سب سےبڑا موحد ہے کیونکہ اس نے اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ نہیں کیا ۔فرعون صاحب ایمان تھا اور جب اس نے کہا ’’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘تو اس نے عین حقیقت بیان کیا ۔کیونکہ صوفیوں کے معروف عقیدے وحدۃ الوجود کے مطابق ہر مخلوق میں اللہ ہے ۔جہنمیوں کو جہنم میں آگ سے لذت ملے گی وغیرہ وغیرہ ۔اسی طرح یہ عقیدہ اتحاد کے بھی قائل ہیں یعنی بندہ مر کر اللہ کی ذات میں مل جاتا ہے۔غالب کا ایک شعر ہے :
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا
اور ان کا ایک اور عقیدہ حلول بھی ہے یعنی رب کبھی کبھی کسی مخلوق کے اندر اتر آتا ہے ۔چنانچہ جب حلاج نے کہا ’’انا الحق‘‘تو یہ حلاج نہیں بلکہ اس کے اندر سے اللہ بول رہا تھا ۔یہ عقیدہ ہندؤوں کے عقیدہ اوتار کے مشابہ ہے۔
صوفیاء دین کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟
مشائخ صوفیاء کا خیال ہے کہ وہ اپنا دین براہ راست ،کشف ،الہام اور خواب کے ذریعے اللہ سے حاصل کرتے ہیں۔اسی طرح براہ راست رسول اکرم ﷺ سے لیتے ہیں۔فرشتے ان کی مجالس میں آتے ہیں اور وہ اپنا دین فرشتوں سے لیتے ہیں،جنوں سے لیتے ہیں جس کو یہ لوگ روحانی کہتےہیں۔اور کشف سے لیتے ہیں جس کے متعلق ان کا خیال ہے کہ ولی کے دل پرساری باتیں منکشف ہوجاتی ہیں۔اور وہ زمین وآسمان کی ساری چیزیں اور گذشتہ و آیندہ کی ساری باتیں ان کے لیے برابر ہیں (نعوذ باللہ ) (اہل تصوف کی کارستانیاں : ص 50 تا 53 مؤلف : عبدالرحمن عبد الخالق ،ترجمہ : صفی الرحمن مبارکپوری )
اب آتے ہیں اصل معاملے کی طرف ،کہا جاتا ہے کہ تصوف ترک دنیا کا نام ہے ،تزکیہ واحسان اس کا طرہ امتیاز ہے ،حکومت وسلطنت سے ان کا دور کا واسطہ نہیں ۔لیکن یہ ایسے ہی ہے جیسے بدھسٹوں کا تشدد سے کوئی لینا دینانہیں۔وہ شاید گوتم بدھ کے قریب کے ادوار کے لوگ تھے جن کا سیاست اور تشدد سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔آج ایک پورے ملک برما کی سیاست ان ہی کے گرد گھومتی ہے ۔اور ظلم و تشدد و نسل کشی میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔اسی طرح سری لنکا میں بھی بعض علاقوں میں مسلمانوں کی زندگی ان ہی نے اجیرن کررکھی ہے۔
بالکل اسی طرح صوفی ازم بھی سیاست زدہ ہوچکا ہے ۔اور اس کے ہاتھ اپنے ہی ہم مذہبوں کے خلاف سازشوں اور خونریزی سے رنگے ہوئے ہیں ۔اس کی تازہ ترین مثال فتح اللہ گولن کے ذریعے امریکہ کی گود میں بیٹھ کر ترکی کی حکومت کا تختہ پلٹ کرنے کی ناکام کوشش کرناہے ۔آج عالم یہ ہےکہ اپنوں کے خلاف غیروں کا آلہ کار بننے میں ان کو ذرا بھی شرم نہیں آتی ۔اور مسلمان دشمن لیڈروں کے ساتھ مل کر یہ کانفرنسیں کرتے ہیں۔جیساکہ انھوں نے اپنوں کے خلاف سازش کرتے ہوئے دہلی میں صوفی کانفرنس کا انعقاد کیا ۔اور اب گروزنی صوفی کانفرنس میں تو انھوں نے حد ہی کردی۔اسلام کے علمبرداروں،اصلی اہل سنت والجماعت (سلفیوں ) کو ایسے الزام لگا کر اہل سنت والجماعت سے خارج کرنے کی کوشش کی جو ان پر چسپاں ہی نہیں ہوتا۔
گروزنی: بہت سے علاقے جو روس کے زیر تسلط تھےآ زاد ہوچکے ہیں لیکن چیچنیا وہ بدنصیب ریاست ہے جو ابھی بھی روس کے قبضے میں ہے۔ اس کا دار الحکومت گروزنی ہے ، دریا سنرہار کے کنارے ، پہاڑوں کےبیچ نہایت خوبصورت جگہ ہے ، چیچنیا کی دار الحکومت گروزنی میں گزشتہ دنوں ایک کانفرنس ہوئی ،اس کانفرنس کے محرکات کیا تھے ،وہ تو اس کے منتظمین ہی بتا سکتے ہیں۔لیکن بادی النظر میں جو دکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے:-
1- دین کے نام پر کھلواڑ کرنے اور مشرک و بدعقیدہ اور زانی، شرابی لوگوں کو باطنیت کے نام پر کیش کرانے اور عوام میں ان کو مقدس بنا کر پیش کرنے کا دھندا عرصہ ہوا کہ سلفی تحریک کی برکتوں سے چوپٹ ہورہا ہے ۔اور ہزار کوششوں کےبا وجود عوام ایسے لوگوں سے بدظن ہوتی جارہی ہے۔اور مسلم دنیاعلم اور حقائق سے وابستہ ہورہی ہے جس سے ان کی دکان کومکمل طور سے بند ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔اسی لیے اسے بقا کی جنگ قرار دیتے ہوئے مخالف کے خلاف ہر جائز اور ناجائز ہتھیا ر آزمایا جارہا ہے۔
2- بدقسمتی سے ہمارے اس دور میں ملک شام وعراق میں خوارج کا ایک فتنہ نمودار ہو اہے جسے لوگ داعش کہتے ہیں ۔ان کے ظہور کے اسباب وہاں کے اپنے حالات ہیں۔ہر چند کہ سلفی علماء نے اس کی ہر ممکن اسٹیج سے تردید کی ہے۔اور اس کی قیادت سے بھی کسی ایسے عمل کا ہرگز صدور نہیں ہوا جس سے سلفیوں کےساتھ دوستی ظاہر ہو۔پھر بھی سلفی تحریک کے دشمنوں کےلیے عالمی رائے عامہ کو ان کے خلاف بھڑکانے کا اس سے بہترکوئی موقع نہیں مل سکتا تھا، سو انھوں نےاس فرصت کوغنیمت جانا۔
3- حد تو یہ ہے کہ وہ علماء جن کی وفات کو صدیا ں گزر یں ان کو بھی داعشی فتنے کا سرپرست اور فکر ی غذا فراہم کرنے والا بتایا گیا ۔علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسے مخلص عالم دین کو نشانہ بنایا گیا۔امام محمد بن عبد الوہاب جیسے مصلح کو متہم کیا گیا ۔شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ان علماء نے نام نہاد صوفیاء کی پول کھولی تھی ۔ اسلام کے نام پر غلط نظریات کی بیخ کنی کی تھی۔ اور ان مصلحین کا اثر پبلک آج بھی قبول کررہی ہے جس سے ان کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
یہ عقل کے اندھے نہیں سمجھتے کہ ہم کیا کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ۔اگر داعش کی نسبت سلفیت کی طرف ہوسکتی ہےتو کنعان کی نسبت نوح علیہ السلام کی طرف بھی ہو سکتی ہے ۔اور یہ کہنا بھی جائز ہوسکتا ہے کہ حروری خوارج کے خروج کے ذمہ دار حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔
کانفرنس کی روداد: گروزنی میں روسی حکومت کے تعاون سے چیچن حکومت کے زیر انتظام 21 ذو القعدہ 1437 ھجری مطابق 25 اگست 2016عیسوی کو ایک تین روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں تقریبا 200 زعماء وعلماء کو دنیا بھر سے دعوت دی گئی۔ اس کا عنوان تھا:
’’اہل السنۃ والجماعۃ کو ن ہیں ؟‘‘
تین دنوں میں مختلف علماء نےمقالات پیش کیے ، مقالات کے عناوین پر ایک نظر ڈالی جائے تو کانفرنس کے انعقاد کی وجہ معلوم ہوجاتی ہے اور روس جیسے اسلام اور مسلم دشمن ملک کی اس کانفرنس سے محبت اور سرپرستی کا سبب کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔
کانفرنس کے عناوین :
عناوین یہ ہیں :
(1) اہل السنۃ کی تعریف ، یعنی اہل سنت کون ہیں۔
(2) مذاہب اربعہ کو ماننے والے ہی اہل سنت ہیں ۔
(3) اشعری اور ماتریدی مسلک کو ماننے والے ہی سواد اعظم ہیں ۔
(4) مذہبیت کی اہمیت اور زمینی زندگی پر لامذہبیت کی بدنظمی کا اثر ۔
(5) پوری تاریخ میں صوفیاء ہی اہل سنت والجماعت رہے ہیں ۔
(6) تصوف کی ماہیت اور سلسلوں کے حاملین کی خصوصیات ۔
(7) محدثین کرام کے مذاہب اور ان کا تصوف سے تعلق ۔
(8) اہل سنت سے بغاوت اور معاشرے پر اس کے اثرات ۔
(9) معاشرے پر اہل سنت وجماعت کے اصلی منہج سے بغاوت کے آثار ۔
اس کانفرنس میں اہل سنت والجماعت کی یہ تعریف بیان کی گئی کہ اہل السنۃ والجماعۃ اعتقادی یعنی کلامی مسائل میں اَشاعرہ (جو امام ابوالحسن الاشعری کی طرف منسوب ہیں)،ماتُریدیہ (جو امام ابومنصور ماتریدی کی طرف منسوب ہیں)اور ”اَھْلُ الْحَدِیْثِ الْمُفَوِّضَہ‘‘شامل ہیں (یعنی وہ اہل حدیث جو اعتقادی مسائل میں صفاتِ الٰہی سے متعلق آیاتِ متشابہات پر ایمان لاتے ہیں اور اُن کے مرادی یا حقیقی معنی کو اللہ تعالیٰ کے علم کی طرف تفویض کردیتے ہیں،یعنی وہ ان الفاظ کے ظاہری معنی مراد نہیں لیتے۔ان آیاتِ متشابہات میں اللہ تعالیٰ کے لیے ”یَدْ۔وَجْہ۔ساق۔ نفس۔ عَین اور جہت وغیرہا‘‘ کلمات آئے ہیں ۔
اسی طرح فقہی لحاظ سے ائمہ اربعہ کےماننے والے ،نیز تزکیہ واحسان اور تہذیب اخلاق میں تصوف کے علمبردار خصوصاً جنید بغدادی کے متبعین ہیں۔ان کے علاوہ باقی لوگ اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں۔
یہ الزام خاص طور سےلگایا گیا کہ جن اہل حدیث نے اِن کلمات کو اعضاء وجوارح (Organs)کے معنی میں لیا ہے، اس کانفرنس کی قرارداد کی رُو سے انھیں ”اہلُ السُّنَّۃ والجماعۃ‘‘ سے خارج قرار دیا گیا ہے، اس فکر کے حاملین کو علما ءعلم الکلام نے ”مُجَسِّمین‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
اختتامی بیان میں یہ بھی ذکر ہوا کہ ’’ سلفیت امت اسلامی کے تفرقے اور اسلام کی بدنامی کا سبب بنی ہوئی ہے‘‘۔
’’اہل سنت والجماعت کے مفہوم کو خطرے اور انحراف سے بچانا سب سے اہم اور ضروری مسئلہ ہے، ایسا مفہوم جسے انتہا پسند اس مقدس عنوان کو چرا کر اپنے لیے محدود و مخصوص کرنے کے درپے ہیں۔‘‘
حالانکہ سلفیہ کا جو موقف ہے، وہی صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین اور ائمہ اربعہ کا ہے البتہ چوتھی صدی ہجری میں جا کر امام ماتریدی رحمہ اللہ نے ان مسائل میں اپنے سلف کے موقف سے اختلاف کیا اور حنفیہ نے عقیدے میں ان کے موقف کو اختیار کر لیا اور ماتریدی کہلائے۔ صفات متشابہات میں سلف صالحین اور ائمہ اربعہ کا موقف تفویض نہیں بلکہ معلوم المعنی اور متشابہ الکیفیہ ہے اور یہی مذہب صحابہ وتابعین و ائمہ مجتہدین ومحدثین وفقہا واُصولیین محققین کاہے۔
اصل میں معنی کے مکمل ادراک کے لیےان د ونوں پہلو وں کا علم شرط ہے :
1- معنی متعین اور معلوم ہو۔
2- معنی کی کیفیت متعین اور معلوم ہو۔
سلفیہ معنی کو کلی طور پر جاننے کا دعوی نہیں کرتے ،بلکہ جزئی طور پر جاننے کا دعوی کرتے ہیں۔اس لیے کہ معنی معلوم ہے اور کیفیت نامعلوم ۔یعنی یہ معلوم المعنی اور متشابہ الکیفیہ ہو ا۔اس طرح سے جانکاری صرف ایک پہلو کی حاصل ہے اور وہ ہے معنی ۔جبکہ دوسرے پہلو کی کوئی جانکار ی نہیں اور وہ ہے کیفیت۔
ان صفات کے معانی کی تفویض اس لیے جائز نہیں کیونکہ ان کا معنی معلوم ہے۔تشبیہ اور تجسیم کا الزام اس لیے غلط ہے کیونکہ سلفیہ کیفیت کی نفی کرتے ہیں اور جب تک متشابہ الکیفیہ کی قید لگی رہے گی تجسیم لازم نہیں آئے گی۔
مثال کے طور پر ہمارےنزدیک ’’وجہ‘‘ کا حقیقی معنی چہرہ ثابت ہے اور یہی اس کا مرادی معنی ہے۔’’وجہ‘‘ اپنے حقیقی معنی میں نص ہے کہ متشابہ المعنی قرار دے کراس کی تفویض نہیں ہو سکتی کیونکہ ’’وجہ‘‘سے کم ازکم ’’ساق‘‘ مراد نہیں ہے یعنی یہ ایک دوسری ہی صفت ہو گئی ۔ اب اس سے معنی کی تحدید تو ہو ہی گئی ۔ پھر جب معنی کی تحدید ہوگئی تو تفویض کیسی؟ آخر کو لفظ اپنے معنی پر دلالت کرنے لیے ہی بولے جاتے ہیں۔لیکن کیفیت کی تحدید نہیں ہوئی۔کیونکہ اس باب میں مثلیت کی نفی کی گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر ہمارے مثل نہیں تب کس طرح؟ ۔ جواب یہ ہے کہ یہ ہمیں نہیں بتایا گیااس لیے کیفیت نامعلوم ہے۔
اور جو یہ اعتراض ہے کہ وجہ ،ید ،ساق وغیرہ مان لینے سے عضو کامان لینا لازم آتا ہے۔اس کے لیے عرض ہے کہ آپ لوگ جو سات یا آٹھ صفات ذاتیہ (حیات ،قدرت ،علم ،ارادہ ،کلام ،سمع ،بصر ) اور (تکوین ) تسلیم کرتے ہیں اور باقی کی تاویل تو ان کو بھی اپنے حقیقی معنی میں ماننے سے تشبیہ اور تجسیم لازم آتی ہے کیونکہ یہ چیزیں مخلوق کے پاس بھی ہوتی ہیں۔اور جب آپ کہیں گے کہ ہم اسے ویسا نہیں مانتے جیسا کہ مخلوق کے پاس ہے۔تو جواب یہ ہوگا کہ جس طرح سے آپ یہاں کیفیت کی نفی کرتے ہیں اور پھر معنی کو تسلیم کرتے ہیں اسی طرح سلفی تمام صفات میں کیفیت کی نفی کرتے ہیں پھرمعنی کو تسلیم کرتے ہیں ۔ایسا کرنے سے اگر آپ مجسمہ نہیں ہوئے تو وہ مجسمہ کیسے ہوگئے۔
تمھارے زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں ہے
خلاصہ یہ کہ اس باب میں سلفیوں کا وہی عقیدہ ہے جو اہل سنت والجماعت کا ہے۔
گواہی نمبر ایک :
كکتاب الوجيز في عقيدة أهل السنة والجماعة میں ہے :
وأَهل السُّنَة والجماعة: يثبتون لله سمعا، وبصرا، وعلما، وقدرة، وقوة، وعزا، وكلاما، وحياة، وقدما وساقا، ويدا، ومعية. . وغيرها من صفاته – عزَّ وجل- التي وصف بها نفسه في كتابه العزيز، وعلى لسان نبيه- صلى الله عليه وعلى اٰله وسلم- بكيفية يعلمها الله ولا نعلمها؛ لأنَه تعالى لم يخبرنا عن الكيفية
اہل سنت والجماعت اللہ کےلیے کان ،آنکھ ،علم ،قدرت ، قوت ،عزت، کلام،حیات ،قدم ،پنڈلی،ہاتھ اور معیت وغیرہ وہ تمام صفات ثابت کرتے ہیں جن سے اللہ نے اپنی ذات کو اپنی کتاب میں متصف کیا ہے ۔
(1)قال تعالی: {إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى} [طہ: 46]
(یقیناً میں تمھارے ساتھ ہوں دیکھ اور سن رہا ہوں)
اس آیت سے معیت ثابت ہوتی ہے ۔
(2)وقال: {وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ} [التحريم: 2]
(اور وہ جاننے والا حکمت والا ہے)
اس آیت سے اللہ کےلیے علم اور حکمت کا ثبوت ملتا ہے۔
(3){وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا} [النساء: 164]
(اور اللہ نے موسی علیہ السلام سے کلام کیا)
اس آیت سے اللہ کا کلام کرنا معلوم ہوتا ہے۔
(4){وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ} [الرحمن: 27]
(اور تیرے رب کا چہرہ باقی رہے گا جو بزرگی اور عزت والا ہے)
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے چہرہ ہے۔
(5){رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ} [المائدہ: 119]
(اور اللہ ان سے راضی ہوا ا ور وہ اللہ سے راضی ہوئے)
یہ آیت اللہ کےلیے صفت رضا ثابت کرتی ہے۔
(6){يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ} [المائدہ: 54]
(اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں)
یہاں اللہ کے لیے صفت حب ثابت ہورہی ہے۔
(7){فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ} [الزخرف: 55]
( جب انھوں نے ہم کو ناراض کیا تو ہم نے ان سے بدلہ لیا)
یہاں اللہ کےناراض ہونے اور انتقام لینے کی صفت بیان کی گئی ہے۔
(8){يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ} [القلم: 42]
(جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور ان کو سجدہ کرنے کےلیے بلایا جائے گا تو وہ اس کی طاقت نہیں رکھیں گے)
یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ کے پنڈلی ہے۔
(9){اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ} [آل عمران: 2]
(وہ ) اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ،وہ ہمیشہ زندہ ہے اور تمام مخلوقات کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے)
یہاں اللہ کے لیے زندگی اور تمام چیزوں کی نگہبانی کی صفت ثابت ہورہی ہے۔
(10){وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ} [الفتح: 6]
(اور اللہ ان پر ناراض ہوا)
اس سے معلوم ہورہا ہے کہ اللہ غضبناک بھی ہوتا ہے۔
اہل سنت والجماعت ان تمام صفتوں کا اثبات کرتے ہیں۔لیکن ان صفات کے معنی کے تعلق سے یہ آیت ان کے پیش نظر ہے :
( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ) [الشوری:11 [
(اس کے جیسا کوئی نہیں اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے)
یعنی معنی کا تو اثبات کریں گے لیکن کیفیت کی نفی ۔کیونکہ کیفیت ہمیں نہیں بتلائی گئی ۔اور یہ صفتیں اس طرح نہیں ہیں جیسی مخلوق کی صفتیں ہوتی ہیں۔ یہی معنی ہے امام مالک رحمہ اللہ کے اس قول کا ،جب کسی نے استواء کی کیفیت پوچھی تو انھوں نے کہا : الإستواء معلوم والكيف مجهول والإيمان به واجب والسوال عنه بدعة ( باب مصادر الإستدلال عند أهل السنة رقم الصفحة 4 الكتاب: شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي المؤلف: أبو الأشبال حسن الزهيري ال مندوه المنصوري المصري ) یعنی استواء معلوم ہے،کیفیت مجہول ہے ،اس پر ایمان واجب ہے اور کیفیت کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔
گواہی نمبر دو :
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ بھی یہی تھا چنانچہ اس سلسلے میں ان کا قول کتاب الفقہ الاکبر میں اس طرح وارد ہے:
له يَد وَوجه وَنَفس كَمَا ذكره الله تَعَالَى فِي الْقُرْآن فَمَا ذكره الله تَعَالَى فِي الْقُرْآن من ذكر الْوَجْه وَالْيَد وَالنَّفس فَهُوَ لَهُ صِفَات بِلَا كَيفَ وَلَا يُقَال إِن يَده قدرته اَوْ نعْمَته لِأَن فِيهِ إبِطَال الصّفة وَهُوَ قَول أهل الْقدر والاعتزال وَلَكِن يَده صفته بِلَا كَيفَ وغضبه وَرضَاهُ صفتان من صِفَات الله تَعَالَى بِلَا كَيفَ .
(اور اللہ کے ہاتھ اور چہرہ اور نفس ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ تعالی نے یہ صفات قرآن میں ذکر کیا ہے۔چنانچہ یہ اللہ کی ایسی صفتیں ہے (جن کا معنی تو ہے ) لیکن اس کی کیفیت نہیں بیان کی جائے گی ۔(اور ان صفات کی تاویل بھی نہیں کی جائے گی ) اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ اللہ کا ہاتھ اس کی قدرت یا نعمت ہے۔کیونکہ ایسا کرکے ہم ان صفتوں کی تعطیل کردیں گے۔اور تعطیل ِصفات تو قدریہ اور معتزلہ کا فعل ہے (ہمارا نہیں) بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اس کا ہاتھ اس کی صفت ہے بنا کیفیت بیان کیے۔غضب اور رضا بھی اس کی صفت ہے بناکیفیت کے)
اسی طرح کا عقیدہ امام شافعی ،امام احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ سلف اور محدثین سے مروی ہے۔تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
گواہی نمبر تین :
اسی طرح سے ابن ابی العز حنفی بھی عقیدہ کی مشہور کتاب ’’شرح عقیدۃ الطحاویہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
[مذهب أهل السنة في إثبات الصفات وسط بين المعطلة والمشبهة]
وقولہ: (ومن لم يتوق النفي والتشبيه زل ولم يصب التنزيه) الناس في باب الأسماء والصفات ثلاث طوائف:……
صفات کے باب میں اہل سنت والجماعت کا مذہب معطلہ اور مشبہ کے درمیا ن ہے۔(قولہ ) جو نفی اور تشبیہ سے نہیں بچے گا وہ تنزیہ تک نہیں پہنچے گا۔
شارح فرماتے ہیں کہ اسماء وصفات کے باب میں لوگوں کے تین گروہ ہیں:
(1) معطلہ جو اسماء و صفات کی نفی کرتے ہیں۔ان کا نام جہمیہ بھی ہے۔اور ان کاپیشوا جہم بن صفوان اور اس کے متبعین ہیں۔نیز معتزلہ اور ان کے موافقین ہیں۔
(2) مشبہہ جو اللہ کو اس کی مخلوق سے تشبیہ دیتے ہیں ۔یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں۔جو( منطقی قضیہ) نقیض کے دونوں کناروں پر کھڑے ہیں۔معطلہ کا دعوی ہے کہ وہ صفات کی نفی کرکے اللہ کومخلوق کی مشابہت سے منزہ کرکے بڑا اچھا کام کررہے ہیں۔اس طرح سے انھوں نے ایک باطل چیز کو حق کی شکل میں ظاہر کیا ہے۔انھوں نے تنزیہ میں غلو کیا اور حد پار کردی ۔یہاں تک کہ الحاد اور گمراہی میں پڑ گئے۔
مشبہہ نے اللہ کی صفات کو ثابت تو کیا لیکن اس کو مخلوق کی صفات سے تشبیہ دے دیا۔ان کے کہنے والے نے کہا : اللہ کے پاس ہمارے کان کی طرح کان ہے۔اور ہماری آنکھ کی طرح آنکھ ہے۔انھوں نے صفات کے اثبات میں غلو کیا یہاں تک کہ اسےمخلوق کی صفا ت سے تشبیہ دے دی۔
اور یہ دونوں گروہ سیدھے راستے سے ہٹے ہوئےہیں۔
(3) تیسرا گروہ : یہ صراط مستقیم پر چلنے والے اہل سنت والجماعت ہیں۔یہ ہر اس بات پر ایمان رکھتے ہیں جس کی خبر اللہ نے اپنی ذات کے بارے میں دی ہے۔اور رسول اکرم ﷺ نے اللہ کے بارے میں دی ہے۔
چنانچہ یہ اللہ کو ان تمام صفات سے متصف کرتے ہیںجس سے اللہ نے خود کو متصف کیا ہے۔یا نبی کریم ﷺ نے اللہ کو متصف کیا ہے۔ بلاتحریف اور تعطیل اور بلاتکییف اور تمثیل کے۔ان کا مذہب اسماء وصفات کی تحریف ،تعطیل ،تکییف ،تمثیل سے بری ہے۔اسی لیے نعیم بن حماد رحمہ اللہ نے یہ عظیم الشان بات فرمائی: جس نے اللہ کو اس کی مخلوق سے تشبیہ دی اس نے کفر کیا۔اور جس نے ان صفات کا انکار کیا جس سے اللہ نے اپنے آپ کو متصف کیا ہے،اس نے بھی کفر کیا ۔اور جو صفات اللہ اور پھررسول ﷺنےاللہ کے لیے بیان کردیں ،اس میں تشبیہ نہیں پائی جاتی۔مخلوق سے تشبیہ دے کر صفات کا اثبات کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔بلکہ صفات کا اثبات بنا تشبیہ کے کرنا ہی توحید ہے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی دلیلیں اور شہادتیں ہیں ۔اختصار کے پیش نظر ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
اب یہ جو گروزنی کانفرنس میں شریک ہونے والے صوفیا ء ہیں ۔ یہ لوگ صفات باری تعالی کی یا تو تاویل کرتے ہیں یا تعطیل ۔پھر بھلا بتائیں ؟ یہ اہل سنت والجماعت کیسے ہوئے؟ اصلی اہل سنت والجماعت توسلفی اور اہل حدیث ہی ہیں۔
بڑا افسوس ہوتا ہے کہ جس زمانے میں مسلمانوں کے تشخص ہی نہیں بلکہ وجود پر سوالیہ نشان لگ رہا ہو۔اتحاد امت وقت کی اہم ضرورت ہو ۔مل کر تدبیر کرنا وقت کا تقاضا ہو۔ایسے میں اس طرح کے مسائل اٹھا کر ملت کو افتراق اور انتشار سے دوچار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اللہ ہمیں ہدایت دے۔
علامہ اقبال نے سچ کہا تھا ؎
طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہیں علم کلام
اللہ رب العالمین ہمیں صحیح عقیدے کو سمجھنے کی توفیق دے ۔آمین
شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ ( القواعد المثلیٰ ) صفات باری تعالی میں تاویل کرنے والوں کے شبہات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہوے کہتے ہیں- حدیث: بندوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں ” اور بندوں کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ماننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ : بندوں کے دل ان انگلیوں کو مس کر رہے ہیں ، اور اس بنا پر کہا جائے کہ اس سے (عقیدہ ) حلول کا وہم ہوتا ہے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ رب کی “حقیقی” انگلیاں ہیں- کیا کسی حدیث نبوی کے… Read more »