ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال، بے روزگاری کا پھیلتا ہوا دائرہ اور دنیا میں ملک کی گرتی ہوئی ساکھ سے نظریں ہٹانے کے لیے مذہبی منافرت عام کرنے کے سارے کام کیے جارہے ہیں۔ ان میں ایک بڑا کام قومی آبادی رجسٹر کا قضیہ بھی ہے۔ حزب مخالف میں اتنا دم خم نہیں بچا ہے کہ وہ اس کے خلاف کوئی اقدام کرسکے، اسے دیش بھگتی کے رنگ میں اس قدر رنگین بنایا گیا ہے کہ جو بھی اس کے سامنے آئے گا، اس کا رنگ پھیکا پڑجائے گا۔ وزیر داخلہ کے حالیہ بیان نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اس سے صرف مسلمانوں سے ان کی شہریت کے حقوق چھینے جائیں گے، دوسری اقوام اور مذاہب کو خاص سہولتیں فراہم کرکے ان کی مشکلات دور کردی جائیں گی۔ حیرت کی بات ہے کہ ملک کے آئین کے خلاف اس غیر ذمہ دارانہ بیان پر اب تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا بلکہ بعض اصحاب جبہ و دستار حمایت اور تائید میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت حال میں کرنے کے جو کام ہیں، ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں جن حضرات کے پاس صحیح قانونی جانکاری ہے، وہ ملت کے افراد تک پہنچائیں۔
(۱)آسام میں اس عمل کو کس طرح انجام دیا گیا، کن کن چیزوں کا اعتبار کیا گیا اور کن چیزوں کو غیر معتبر ٹھہرایا گیا، غلط چیزوں کو درست کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی گئی جسے سرکاری طور پر قابل قبول قرار دیا، اس کی ساری تفصیلات آسام کے کسی ذمہ دار سے معلوم کرکے تحریر کی جائیں اور اسے عام کیا جائے۔
(۲)عام طور پر لوگوں کے پاس برتھ سرٹیفکٹ نہیں ہے، اس کا متبادل کیا ہے، مدارس کی سندوں میں درج تاریخ پیدائش قابل اعتبار ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو کس سرکاری ادارے سے کوئی برتھ سرٹیفکٹ حاصل کیا جاسکتا ہے، اس کے مراحل کیا ہوں گے، اس کی صحیح صحیح وضاحت کی جائے۔
(۳)پاسپورٹ، راشن کارڈ، پن کارڈ، ڈرائیوری لائسنس، ووٹر آئی ڈی، آدھار کارڈ وغیرہ میں سے کن کن چیزوں کو قبول کیا جاتا ہے اور کن کو رد کیا جاتا ہے، کسی قانونی ماہر سے اس کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔
(۴)مکان اور زمین کے کاغذات کی کیا قانونی اہمیت ہے، کیا اسے بھی اپنی شہریت کے ثبوت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔کاشت کی زمینوں کے لیے جو کسان بہی موجود ہے یا تحصیل سے حاصل کردہ کھتونی ہے، اس کی قانونی حیثیت کیا ہے، اس کے سلسلے میں بھی تفصیل پیش کی جائے کیوں کہ یوپی میں زیادہ مسلمانوں کے پاس کاشت کی زمین کے کاغذات موجود ہیں۔
(۵)آدھار کارڈ بنانے میں کافی مشکلات آرہی ہیں، ڈاک خانوں اور بینکوں کے سامنے لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور بہت سے لوگوں کے کاغذات رد کردیے جاتے ہیں اور انھیں اپنے آدھار کے لیے دوبارہ قطار میں لگنا پڑتا ہے، اس مشکل کو کیسے حل کیا جائے اور آدھار کے لیے کیا چیز ضروری ہے، اس کو بھی واضح کیا جائے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس سلسلے میں کچھ عجلت دکھائی جارہی ہے۔
(۶)آخری بات یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جس کی اکثریت ناخواندہ ہے، وہ یہ سمجھ ہی نہیں پارہی ہے کہ اس کے نام کی اسپیلنگ میں کیا غلطی رہ گئی ہے، محمد اور احمد کے لاحقے کی غلطی کیسے درست کی جائے اور کسی کاغذ میں کچھ ہے اور کسی میں کچھ، اب اس غلطی کو سدھارنے کی کیا صورت ہے، اس کا کیا طریقہ قابل قبول ہوسکتا ہے؟
مسلم سیاسی قیادت، مسلم وکلاء اور علمائے ملت اس مسئلہ پر اگر ضلعی سطح پر کوئی اجتماع کرلیں اور مسلمانوں کو تمام باتیں تفصیل سے سمجھادیں تو شاید پریشانیاں کم ہوجائیں، اس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔
محلہ کی سطح پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک ذمہ دار کمیٹی تشکیل دی جائے جو گھر گھر جاکر افراد خانہ کی پہچان کے کاغذات چیک کرکے انھیں صحیح مشورہ دے اور اگر ممکن ہو تو ان کی مدد کرے اور تحصیل وغیرہ میں متعلقہ افراد سے رابطہ قائم کرکے ان کی کمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے۔
بی ایل او کو ساتھ لے کر یا اس کے ساتھ تعاون کرکے اس کام میں تیزی لائی جائے، جانکار لوگ جب ان کاموں کو اپنے ہاتھ میں لیں گے تو سارے کام آسانی سے ہوسکیں گے ورنہ انفرادی طور پر ہر شخص پریشان ہوگا اور کسی کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
آپ کے تبصرے