“یوتھ کویک‘‘ یعنی ’’زلزلہ عالم شباب‘‘

شمس الرب خان

دنیا کی سب سے مشہور و معروف اور مستند ترین انگریزی ڈکشنری آکسفورڈ ڈکشنری کی روایت رہی ہے کہ وہ ه ہر سال کے اخیر میں کسی ایک لفظ کو ‘سال کا لفظ قرار دیتی ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری ‘سال کے لفظ کو منتخب کرنے کی تفصیل درج کرتے ہوئے لکھتی ہے:
’’آکسفورڈ ڈکشنری کے ذریعہ منتخب کردہ ‘سال کا لفظ ایسا لفظ یا محاورہ ہوتا ہے جس نے پچھلے بارہ مہینوں کے دوران بہت زیادہ توجہ حاصل کی ہو۔ ہر سال ہم ’سال کے لفظ‘ کے طور پر کئی امیدوارالفاظ کے سلسلے میں غور و خوض کرتے ہیں اور کسی ایسے لفظ یا محاورہ کو فاتح قرار دیتے ہیںجو اس سال کے اقدار، مزاج یا مشغولیت کا عکاس ہو اور تہذیبی اہمیت کے حامل لفظ کے طور پردیرپا امکانات سے لیس ہو۔‘‘
۲۰۱۷ کا لفظ
ہر سال کی طرح، اس سال بھی کئی امیدوار الفاظ میدان میں تھے۔ لیکن ان میں سے صرف نو الفاظ شارٹ لسٹ میں جگہ بنا پائے۔ یہ نو الفاظ تھے:
Antifa, Broflake, Gorpcore, Kompromat
Milkshake Duck, Newsjacking, Unicorn, White fragility, Youthquake
ان نو الفاظ میں سے لفظ ’Youthquake’ ‘کو فاتح قرار دیا گیا اور اس طرح سے ‘’سال کا لفظ‘کا سہرا اس کے سر پر سجایا گیا۔
لفظ کی تعریف
آکسفورڈ ڈکشنری میں اس لفظ کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:
’’ایک ایسی اہم تہذیبی، سیاسی یا معاشرتی تبدیلی جو جوانوں کے افعال یا اثر سے پیدا ہوئی ہو۔‘‘
اس لفظ کو منتخب کرنے کی وجہ
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق، اس لفظ کے استعمال میں سال۲۰۱۶ کے بالمقابل سال ۲۰۱۷ میں پانچ گنا اضافہ دیکھا گیا۔ جون میں برطانیہ کے عام انتخاب کے دوران، یہ لفظ بڑی مضبوطی کے ساتھ ابھرکر سامنے آیا۔ بعد ازاں ماہ ستمبر میں نیوزی لینڈ میں عام انتخاب کے دوران یہ لفظ پھر سے بکثرت استعمال کیا گیا۔ ان دونوں مواقع پر، سیاسی عمل میں جوانوں کی بڑھتی حصہ داری اور اثر اندازی کے اظہار کے لیے اس لفظ کا استعمال کامیابی کے ساتھ کیا گیا۔ کاسپر گراتھ وول، صدر آکسفورڈڈکشنری اس انتخاب کے اسباب اور مضمرات پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے اپنے بلاگ پر لکھتے ہیں:
’’ ہم نے ‘’یوتھ کویک‘ کا انتخاب شواہد اور لسانی دلچسپی کے باعث کیا ہے۔ لیکن میرے نزدیک اہم ترین بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ ہماری زبان پر ہمارے گہرے ہوتے اضطراب اور تھکے ماندے اعصاب کا پرتو پڑ رہا ہے، یہ ایک نایاب سیاسی لفظ ہے جو امید کا شادیانہ بجاتا ہے۔۔۔میرےخیال سے، رخصت ہو رہا یہ سال ہم سب کو ایک ایسا لفظ دے کر جا رہا ہے جس کے پیچھے ہم سب کھڑے ہوسکتے ہیں۔‘‘
لفظ کی تاریخ
اس لفظ کا استعمال پہلی بار ۱۹۶۵ میں ‘’ووگ یو ایس‘ کی مدیر ڈیانا وری لینڈ نے کیا تھا۔ انھوں نے اس لفظ کو ‘’ارتھ کویک‘ کی طرز پر بنایا تھا۔ جنوری۱۹۶۵ میں ‘’ووگ یو ایس‘ کے ایک اداریہ میں ڈیانانے لکھا:
’’سال اپنے شباب پر ہے، شباب اپنے سال میں ہے۔۔۔مزید خواب دیکھنے والے۔۔۔مزید کارنامے انجام دینے والے۔یہاں۔ ابھی۔ یہ ہے زلزلہ عالم شباب ۱۹۶۵‘‘
اس مختصر سی بحث کے بعد، یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ لفظ عمومی طور پر جوانوں کی صلاحیتوںاور خصوصی طور پر ان کی سیاسی صلاحیتوں کا لوہا مانتا ہے۔ جوانوں کی صلاحیتوں کو زلزلہ سےتشبیہ دیتے ہوئے یہ لفظ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جوانوں کے اندر بے پناہ قوتیں پنہاںہوتی ہیں جن کا استعمال معاشرے میں دور رس تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ یہ لفظ نہ صرف جوانوں کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتا ہے بلکہ انھیں مہمیز لگانے کا بھی کام کرتا ہے۔
اگر ہم اس لفظ اور اس کے مدلولات کا جائزہ مشرقی معاشرے کے پس منظر میں لیں، تو ہمیں احساس ہوگا کہ یہ لفظ اور اس کے مدلولات ہمارے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ ہمارے مذہبی اور ادبی ڈسکورس میں جوانوں کی ہمیشہ سے اہمیت رہی ہے۔ ایک طرف جہاں ان کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے، وہیں دوسری طرف انھیں مختلف طریقوں سے ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی گئی ہے اور بامقصد عمل کے لیے ابھارا گیا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کا نام اس تعلق سے بہت نمایاں ہے۔ جوانی اورجوانوں کے تعلق سے ان کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کی گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا
شاہیں تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ
تو اور بھی اس آگ کو بازو سے ہوا دے
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہٰی
آئین جواں مردی حق گوئی و بے باکی
الله کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سال ۲۰۱۷ کے لیے اس لفظ کا انتخاب ساری دنیا کے جوانوں کے لیے بطور عام اور امت مسلمہ کے جوانوں کے لیے بطور خاص ایک یاد دہانی ہے: ان کی اہمیت کی یاد دہانی، ان کی صلاحیتوں کی یاد دہانی اور سب سے بڑھ کر ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی۔۔۔! یہ لفظ ان سے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ وہ دنیا کے حقیقی قائد ہیں اور اس قیادت کی بازیافت کے ساتھ ہی دنیا کےسنہری دور کا آغاز جڑا ہوا ہے۔ آؤ اے جوانو، آؤ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنی اہمیت سمجھیں گے، اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں گے اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اپنا عہد زریں واپس لائیں گے کہ:
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی خاک ذرا ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا

آپ کے تبصرے

3000