شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کے مكاتيب؛ ایک مطالعہ

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کے مكاتيب؛ ایک مطالعہ

راشد حسن مبارکپوری تعارف و تبصرہ

کتاب و سنت کی دعوت کو عام کرنے کے طریقے ہر زمانے میں الگ الگ رہے ہیں، داعی زمانہ کے اعتبار سے انہیں برتتا ہے، شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نے بھی کتاب و سنت کی دعوت اور اسلامی تہذیب کی تجدید و احیاء کے لیے تالیف و تصنیف، دروس و خطبات اور معرکہ جہاد جیسے اہم وسائل اختیار کیے، عوام و خواص اور ارباب حکومت کو بذریعہ رسائل و خطوط پیغام حق سے آشنا کیا، شیخ کے کل مکاتیب کی تعداد (51) ہے ، جو جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض سے ”الرسائل الشخصیۃ“ کے نام سے (323) صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔
ترکیز کی خاطر پیش نظر مقالہ کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
(۱) مکاتیب شیخ کی توثیق و اہمیت
(۲) مکاتیب کے مشمولات
(۳) مکاتیب کا طرز واسلوب۔
مکاتیب کی توثیق و اہمیت:
ابھی گذرا کہ شیخ الاسلام کے خطوط و مکاتیب کو (الرسائل الشخصیۃ) کے نام سے ایک مستقل کتاب میں جمع کردیا گیاہے، جمع و تصحیح اور مقابلہ کا کام شیخ صالح بن فوزان الفوزان اور شیخ محمد بن صالح العلیقی نے کیا ہے، ان خطوط کا اصل مرجع شیخ حسین ابن غنام الأحسانی کی تاریخ ہے، اس کے مخطوط نسخے شیخ عبدالعزیز بن صالح المرشد کے والد کے خط سے محفوظ ہیں، اسی طرح شیخ محمد بن عبداللطیف بن عبدالرحمن بن حسن الشیخ رحمہم اللہ کے اصل نسخے کی تصویر مکتبہ سعودیہ ریاض میں ۲۹۵۔۶۸/رقم کے تحت محفوظ ہیں۔ نیز ”الدررالسنیۃ فی الأجوبۃ النجدیۃ“ جمع کردہ از عبدالرحمن بن قاسم اور” مجموعۃ الرسائل والمسائل النجدیۃ” میں بھی شیخ الاسلام کے خطوط موجود ہیں۔
گویا سارے خطوط و رسائل مخطوط و مطبوع شکل میں محفوظ ہیں، مذکورہ تصریحات سے ان کی توثیق خود بخود ہو جاتی ہے اس حوالہ سے دکتور عبداللہ العثمین کی تحریر پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔
خطوط و مکاتیب کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے، موجودہ دور میں انٹرنیٹ کی ہماہمی نے خطوط کا مزاج تو ضرور ختم کر دیا مگر اہمیت ختم نہیں ہو سکتی، خطوط سے پورے عہد کی تصویر کھنچ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جن علماء و محدثین کے مکاتیب موجود ہیں ان کے آئینہ میں اس دور کے حالات اور ماحول کا عکس بالکل شفاف نظر آتا ہے، خطوط میں چند سطروں کی بدولت وہ ساری باتیں آجاتی ہیں جو بسا اوقات پوری کتاب میں بھی نهيں آسکتیں، ماضی قریب میں شیخ البانی، شیخ ابن باز اور شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری مرحومين کے مکاتیب اس کی زندہ مثال ہیں، اور غالبا آخرالذکر کے خطوط کی ایک بڑی تعداد ہے جو مختلف لوگوں کی جانب سے شائع ہوئے ہیں۔ (راقم سطور کے پاس حضرت شیخ الحدیث مرحوم کے کچھ غیر مطبوعہ خطوط موجود ہیں جو انہوں نے مختلف مناسبتوں سے اپنے معاصر دوست مولانا حکیم بشیر احمد رحمانی مبارکپوری مرحوم کے نام ارسال کیے، مولانا حکیم بشیر احمد کا ترجمہ: ”تراجم علماء حدیث ہند“ میں دیکھیے)۔
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کے خطوط بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، صرف ان خطوط کو پڑھ کر شیخ الاسلام سے متعلقہ بیشتر معلومات مل جاتی ہیں۔ شیخ الاسلام نے کن حالات میں اپنی دعوت کا آغاز کیا، اس وقت معاشرہ کی صورت حال کس قدر بگڑ چکی تھی، آپ کی مخالفت کرنے والے کون لوگ تھے، ان کے بنیادی مقاصد کیا تھے، شیخ نے کس کس انداز سے لوگوں کو منہج سلف صالحین کی طرف بلایا، کس قدر مصیبتیں دوران دعوت پیش آئیں، ان تمام کو جھیلنے اور ختم کرنے کے لیے کیا پیش بندیاں کیں، آپ کی دعوت کے بنیادی عناصر کیا تھے، کتاب و سنت سے استدلال اور سلف صالحین سے استفادہ کا طریقہ کار کیا تھا، حکومت و جہاد کی راہ میں کیا تدبیریں ہوئیں؟ ان سارے سوالات کے جوابات ان مکاتیب میں موجود ہیں، دعوت حقہ پر افترا پردازیوں کا جواب کچھ خود شیخ کی زبانی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ بس یوں سمجھو کہ یہ خطوط علم و عرفاں کا گنجینہ گراں مایہ ہیں، جن کی تہوں میں شعور و آگہی کی بالیدگی اور فکر و فن کی رخشندگی ہے، جن میں تہذیب حراء کا سوز و خروش بھی ہے اور مقطعات اقراء کی تفسیر و تصریح بھی، حرمت ام القری کی تصویر بھی اور عظمت یثرب کی روداد بھی۔
مکاتیب کے مشمولات:
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے رسائل پانچ حصوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں؛
پہلے حصے میں ”شیخ کا عقیدہ، ان کی دعوت کی حقیقت اور شبہات کے ازالے“ پر مشتمل ہے۔
دوسرے حصے میں “توحید کی قسمیں“ بیان کی گئی ہیں۔
تیسرے حصہ میں ”لاالہ الا اللہ“ کا معنی و مفہوم اور اس کو نقص کرنے والی چیزوں مثلا “شرک فی العبادۃ” کا ذکر ہے۔
چوتھے حصہ میں ایسی چیزوں کا بیان ہے جن کا مرتکب کافر اور واجب القتل ہوتا ہے، نیز فہم حجت اور قیام حجت کے درميان فرق کی بھی تصریح ہے۔
پانچویں قسم ”عام مسلمانون کے لیے أمربالمعروف و نہی عن المنکر اور اعتقادی امور میں عمومی نصیحتوں“ پر مشتمل ہے۔
ان تمام قسموں میں موضوع کے اعتبار سے خطوط الگ کر دیے گئے ہیں، پہلی قسم میں کل (17) خطوط ہیں، جو ایک سو دس صفحات یہ پھیلے ہوئے ہیں، پہلا مکتوب جو چھ صفحات پر مشتمل ہے، اس میں اہل قصیم کے سوالوں کا جواب ہے، انہوں نے آپ سے آپ کے عقائد کی بابت استفسار کیا تھا تو آپ نے اس کا نہایت تفصیلی جواب دیا تھا، اپنے عقائد کی توضیح نہایت خوبصورت انداز میں کی تھی، اہمیت کے پیش نظر یہاں اختصار نقل کیا جارہا ہے، شیخ فرماتے ہیں:
”میرا وہی عقیدہ ہے جو فرقۂ ناجیہ اہل سنت والجماعت کا ہے، یعنی: اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، کتابوں پر ایمان، رسولوں پر ایمان، بعث بعدالموت پر ایمان اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان، اللہ پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اپنے لیے یا رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالی کے جو اوصاف بیان فرمائے ہیں انہیں بغیر تحریف و تعطیل کے تسلیم کرنا بلکہ میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالی کے مثل کوئی چیز ہے ہی نہیں، اس کے اپنے تئیں بیان کردہ اوصاف کی نہ تو نفی کرتا ہوں نہ خرد برد اور نہ ہی تمثیل و تکییف۔
میں عقیدہ رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی کے افعال کی بابت اہل سنت کا عقیدہ قدریہ اور جبریہ کے مابین معتدل راہ ہے، اسی طرح وعید کے باب میں اہل سنت مرجۂ اور وعیدیہ کی افراط و تفریط کے درمیان متوسط ہیں، ایمان و دین کے باب میں حروریہ، معتزلہ، مرجۂ اور جہمیہ کے مابین ہیں، صحابہ کرام کے بارے میں بھی اہل سنت کا عقیدہ خوارج اور روافض کے درمیان ہے۔
میں عقیدہ رکھتا ہوں کہ قرآن مجید اللہ کی جانب سے نازل کردہ حقیقی کلام ہے مخلوق نہیں، جیسے اللہ تعالی نے اپنے بندہ، نبی اور امین محمد ﷺ پر نازل کیا، ہر چیز اللہ کی مشیت وارادہ کے تحت انجام پاتی ہے، کوئی چیز لوح محفوظ سے تحریر شدہ سے آگے نہیں جاتی۔
میرا عقیدہ ہے کہ مابعد الموت کی بابت نبی ﷺ نے جو کچھ بتایا وہ برحق ہے، میرا ایمان ہے کہ عذاب قبراور اس کی نعمتیں، روحوں کا جسموں میں لوٹایا جانا، لوگوں کا بروز قیامت ننگے کھڑا ہونا، بندوں کے اعمال کا وزن کیا جانا، جن کے میزان میں نیکیاں زیادہ ہوں گی اس کی کامیابی اور جن کے میزان میں برائیاں زیادہ ہوں گی ان کی ناکامی اور نیکوکاروں کے داہنے ہاتھ اور بدکاروں کے بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال دیا جانا یہ ساری چیزیں برحق ہیں اور ان سب پر میرا ایمان ہے۔ میں حوض کوثر پر بھی ایمان رکھتا ہوں، جس کاپانی دودھ سے بھی زیادہ سفید اور شہد سے بھی زیادہ میٹھا ہوگا، جو پی لے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا، پل صراط قائم ہو چکا ہے جس پر سے لوگ گزریں گے۔
میں نبی ﷺ کی شفاعت پر یقین رکھتا ہوں اور اس پر بھی کہ آپ ﷺ سب سے پہلے شفاعت کریں گے اور سب سے پہلے شخص ہوں گے جن کی شفاعت قبول کی جائے گی، آپ ﷺ کی شفاعت کو سوائے بدعتی و گمراہ کے کوئی اور انکار نہیں کر سکتا، مگر یہ شفاعت اللہ کی اجازت اور رضامندی کے بعد ہی انجام پائے گی، ارشاد باری ہے:

{وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ} [الانبیاء:۸۲]
مزید فرمایا: {مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ} [البقرۃ:۵۵۲]
اور: {فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشّٰفِعِیْنَ} [المدثر:۸۴] وغیرہ۔

میرا ایمان ہے کہ جنت اور جہنم دو مخلوق ہیں، وہ آج بھی موجود ہیں اور فنا نہیں ہوں گی، اور اہل ایمان کو بروز قیامت باری تعالی کا نہایت صاف دیدار نصیب ہوگا۔
میرا ایمان ہے کہ ہمارے نبی خاتم النبیین والمرسلین ہیں، آپ کی رسالت و نبوت پر ایمان و گواہی کے بغیر کسی بندہ کا ایمان صحیح نہیں ہو سکتا، نبی کے بعد امت کے سب سے افضل ابوبکر صدیق ہیں، پھر عمر فاروق، پھر عثمان غنی، پھر علی بن ابی طالب، پھر عشرہ مبشرہ (دس وہ صحابی جن کو دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی) پھر اہل بدر، پھر اہل بیعت رضوان، پھر جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ تمام صحابہ کی خوبیوں کاذکر کرتا ہوں، ان کے لیے استغفار کرتا ہوں، ان کی غلطیوں سے تجاوز کرتا ہوں اور ان کے درمیان ہوئے اختلافات سے خاموشی اختیار کرتا ہوں، امہات المؤمنین کے لیے اللہ سے رضامندی کی دعا کرتا ہوں، اولیاء اللہ کے کرامات و مکاشفات کو تسلیم کرتا ہوں، مگر انسانی دائرے میں، میں کسی کو جنتی یا جہنمی ہونے کی گواہی نہیں دیتا سوائے ان کے جن کی بابت رسول الله ﷺ کا ارشاد ہے، میرا نقطۂ نظر ہے کہ ہر نیک و بد امام کی قیادت میں جہاد اور نماز دونوں درست ہیں، جہاد ہمیشہ جاری رہے گا، حاکم کی سمع و اطاعت واجب ہے، خواہ وہ نیک ہو یا برا اس وقت تک جب تک اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی نہ کرے جو شخص بھی مسلمانوں کے اتفاق سے حاکم و ولی بن گیا اس کی اطاعت لازم اور بغاوت حرام ہے۔
میرا عقیدہ ہے کہ ایمان؛ زبان سے اقرار، اعضاء و جوارح سے عمل اور دل سے تصدیق کے مجموعے کا نام ہے، جو اطاعت سے زیادہ ہوتا ہے اور معصیت سے کم ہوتا ہے، ایمان کے ستر سے زائد درجات ہیں، ان میں سب سے اعلی درجہ ”لاالہ الااللہ“ کی گواہی ہے اور آخری درجہ راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بمطابق شریعت مطہرہ واجب ہے۔
یہ وہ مختصر عقیدہ ہے جسے میں نے پریشان خاطری میں تحریر کر دیا ہے تاکہ آپ میرے عقیدہ سے باخبر ہو جائیں۔ واللہ علی مانقول وکیل“۔ [الرسائل الشخصیۃ“، ص:۷۔۳۱، الدرر السنیۃ“، ج۱، ص:۸۲۔۱۳]
یہ عقیدہ بیان کرنے کے بعد شیخ نے ”سلیمان بن سحیم“ کے الزامات کا ذکر کیا اور اس کا رد کرتے ہوئے کہا کہ اس نے مجھ پر بہت سے ایسے الزامات لگائے جو میرے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھے۔
شیخ الاسلام کا یہ پورا مکتوب پڑھ جائیے،اس میں نہایت بلیغ انداز میں اپنا عقیدہ بیان کر دیا اور مخالفین پر رد بھی کیا، اگر صرف اسی ایک مکتوب کی شرح کی جائے، اس میں مذکورہ اشارات کھول دیے جائیں تو ضخیم کتاب تیار ہو جائے، ظاہر ہے اس میں جو عقیدہ بیان کیا گیا ہے وہ اہل السنۃ والجماعۃ کا ہے، امام احمد بن حنبل، ابن خزیمہ، ابن تیمیہ اور ابن القیم کا عقیدہ ہے، ابوالحسن أشعری اور ابومنصور ماتریدی کا نہیں۔
شیخ الاسلام نے اس حصہ میں جابجا اپنے اوپر لگائے گئے الزامات اور افتراپردازیون کا جواب نہایت سلجھے ہوئے انداز میں دیا ہے، جس پر خصوصی زور دیا ہے وہ یہ کہ خالص کتاب و سنت کی اتباع کی جائے، وہ شام کے دینی خطے کے گورنر کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

” أني أذكِّر لمن خالفني: أنَّ الواجبَ على الناسِ: اتباعُ مَا وصَّى به النبيُّ صلَّى الله عليه وسلمَّ أمتَه، وأقولُ لهم: الكتبُ عندكمْ، انظروا فيها، ولا تأخُذوا مِنْ كلامي شيئاً، لكنْ إذا عرفتُم كلامَ رسولِ الله صلى الله عليه وسلم الذي في كتبِكم؛ فاتَّبعُوه ولو خالفَه أكثرُ الناسِ. “. [الرسائل الشخصیۃ، ص:۷۳]

میں اپنے مخالفین کو یاد دلاتا ہوں کہ نبی ﷺ نے اپنی امت کو جو وصیت کی ہے اس کی اتباع واجب ہے اور میں ان سے کہتا ہوں: تمہارے پاس کتابیں ہیں، اس میں دیکھو، میری کوئی بات نہ لو، لیکن تمہاری اپنی کتابوں میں جو رسول ﷺ کا کلام ہے اسے جب سمجھ لو تو اس کی پیروی کرو، اگرچہ اکثر لوگ اس کی مخالفت کریں۔
اس کے بعد بتایا کہ جب میں نے لوگوں کو شرک سے ڈرایا توحید کی طرف بلایا، دنیا کی بے حیثیتی کو واضح کیا، شفاعت کا مطلب بتایا، صالحین کی قبروں سے استمداد کو حرام قرار دیا تو لوگ بدک گئے، محبتیں نفرت میں بدل گئیں، حالانکہ شام اور حرمین کے علماء نے اسے صحیح سمجھا.
شیخ الاسلام کے زمانہ میں امت میں یہ روگ بہت تیزی سے پل رہا تھا کہ قبروں کی زیارت کی جائے، وہی نفع و نقصان کے مالک، چنانچہ شیخ الاسلام نے ان تمام مزارات اور قبروں کو منہدم کرادیا، تاکہ شرک و بدعات کا خاتمہ ہو، کہ یہ چیزیں توحید کی راہ میں سم قاتل ہیں، اس حوالہ سے ایک خطہ میں علماء سوء کے کردار کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فلما أظهرنا هذه المسألةَ مع ما ذكرنا من هَدمِ البُنيانِ على القبور، كبر على العامة جداً، وعاضدهم بعضُ من يدَّعيْ العلم، لأسباب أخر التي لا تخفى على مثلكم؛ أعظمُها: اتباعُ هوى العوامِّ، مع أسباب أخر. فأشاعوا عنا أنَّا نسُبُّ الصالحين، وأنَّا على غيـرِ جادّةِ العلماء، ورفعوا الأمر إلى المشرق والمغرب، وذكروا عنا أشياء، يستحي العاقلُ من ذكرها. [الرسائل الشخصیۃ، ص:40].

جب ہم نے اس مسئلہ کے ساتھ قبروں پر عمارتوں کے انہدام کا ذکر چھیڑا تو یہ چیز عام لوگوں پر بہت گراں گزری اور ان کی پشت پناہی بعض محرکات جن سے آپ واقف ہیں کی وجہ سے بعض دعویداران علم نے بھی کی، ان اسباب میں سب سے بڑی چیز بشمول دوسری چیزوں کے عامۃ الناس کی خواہشات کی غلامی ہے، لہٰذا انہوں نے ہمارے خلاف یہ باتیں پھیلا دیں کہ ہم بزرگوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور ہم علماء کے صحیح راستہ سے ہٹے ہیں۔ اس معاملہ کو ان علماء سوء نے مشرق و مغرب میں پہونچایا اور ہمارے بارے میں ایسی ایسی باتیں کہیں کہ ایک عقل مند آدمی جنہیں بیان کرنے سے شرماتا ہے۔
شیخ الاسلام نے متعدد خطوط میں اپنے اوپر کیے گئے اعتراضات کا جائزہ لیا ہے اور مختلف جگہوں پر اس کا رد بھی کیا ہے، وہ کہتے ہیں:
لوگ مجھے الزام دیتے ہیں: میں مذاہب اربعہ کی کتابوں کو باطل قرار دیتا ہوں، میں تقلید سے خارج ہوں، اختلاف امت عذاب ہے، صالحین سے وسیلہ مانگنے والوں کو کافر کہتا ہوں، بوصیری کو اس کے شعر (یا أکرم الخلق) کی وجہ سے کافر کہتا ہوں، اگر رسول کے قبہ کو ڈھانے کی قدرت رکھتا تو ضرور ڈھا دیتا، قبر مبارک اور والدین کی قبر کی زیارت کو حرام کہتا ہوں، غیر اللہ کی قسم کھانے والوں کو کافر سمجھتا ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام اعتراضات کے جواب میں میں کہتا ہوں ”سبحانک ھذا بھتان عظیم“ یہ تو بہتان عظیم ہے، ویسے اس سے قبل نبی ﷺ پر بہتان باندھا گیا تھا کہ عیسی اور دیگر صالحین کو برا بھلا کہتے ہیں;

{إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّـهِ ۖ } [سورةالنحل:105]،

اسی طرح کی بات (ص:40) پر بھی ہے.
خطوط میں متعدد بار اس معنی کی باتیں آئی ہیں کہ میں جو دعوت تمہیں پیش کر رہا ہوں تم اس پر غور کرو، اگر بات میری ہو تو اسے رد کردو لیکن اگر بات کتاب و سنت اور فہم سلف کے مطابق ہو تو ایک مومن شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ محض لوگوں کے دباؤ میں اسے تسلیم نہ کرے، مسئلہ تکفیر پر بھی کئی جگہوں پر گفتگو کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ ہم یوں ہی کسی کی تکفیر کو درست نہیں سمجھتے، اس مسئلہ کی بابت لکھتے ہیں:

ولكن نكفر من أقر بدين الله ورسوله ثم عاداه وصد الناس عنه، وكذلك من عبد الأوثان بعد ما عرف أنها دين للمشركين وزينة للناس؛ فهذا الذي أكفِّره، وكل عالم على وجه الأرض يكفّر هؤلاء، إلا رجلاً معانداً أو جاهلاً؛ والله أعلم. والسلام. [الرسائل،:58].

لیکن ہاں ہم اس شخص کو کافر سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے دین کا اقرار کر لے، پھر اس دین سے دشمنی رکھے اور لوگوں کو اس سے روکے، اسی طرح ہم اس کو کافر گردانتے ہیں جس نے بتوں کی عبادت کی اس کے بعد کہ وہ جانتا تھا کہ یہ مشرکوں کا دین ہے اور لوگوں کی زینت کا سامان ہے، لہٰذا ایسے شخص کو ہم کافر کہتے ہیں اور ایسے شخص کو اس روئے زمین کا ہر شخص کافر ہی سمجھتا ہے، سوائے معاند اور جاہل شخص کے، اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے۔ والسلام
خطوط کی دوسری قسم توحید کے اقسام پر مشتمل ہے۔ (ص:130 /تا 142) میں ایک طویل خط عبداللہ بن سحیم کے نام ہے، یہ دراصل مولیس کے خط کا جواب ہے، جس میں تین شقوں پر گفتگو مرکوز رکھی گئی ہے۔ اسماء و صفات کا علم، توحید و شرک اور اہل علم کی اقتداء اور دلائل کی پیروی۔
شیخ الاسلام نے ان شقوں پر مکمل گفتگو کی ہے، اس میں گمراہ فرقوں کے کچھ عقائد کا تذکرہ بھی ہے اور ساتھ ہی قرآن و سنت کی روشنی میں ائمہ کی آراء بھی نقل کی گئی ہیں، جن میں امام احمد بن حنبل اور امام ابن القیم رحمہما اللہ کا خاص ذکر ہے، بلکہ فی الواقع ان دونوں شخصیات کا تذکرہ ان کے خطوط میں جا بجا ملتا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ امام احمد بن حنبل ابن تیمیہ اور ابن القیم کے مآثر پر بڑی گہری دستگاہ تھی، ان حضرات کی آراء کو کتاب و سنت سے قریب سمجھتے تھے۔ (ص:144)
ایک خط محمد بن سلطان کے نام ہے جس میں توحید ربوبیت اور توحید الوہیت پر بڑی جامع اور قدرے تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
لکھتے ہیں:
یاد رکھو اللہ تعالی تمہاری رہنمائی فرمایے، اللہ نے انبیاء کو مبعوث فرمایا، کتابیں نازل کیں ایک مسئلہ کی تبیین کے لیے وہ یہ کہ تنہا اللہ کی توحید کا اقرار کیا جائے اور طاغوت کا انکار اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے:

{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ} (النحل:۶۳).

ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا تاکہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو طاغوت اس سردار کو کہتے ہیں کہ جس کی بڑائی کی جائے، نذریں مانی جائیں اور اللہ کے علاوہ اس سے مشکلات کے خاتمہ کی دعائیں کی جائیں، یہ دو طرح سے واضح ہوگا:
(۱) توحید ربوبیت: یعنی اس بات کا اقرار کہ ایک ذات حقیقی ہے جو پیدا کرتا ہے، روز ی دیتا ہے، مارتا ہے اور جلاتا ہے، لیکن سب سے بڑے کفار جن سے اللہ کے رسول ﷺ نے قتال کیا وہ اس توحید کا اقرار کرتے تھے لیکن یہ توحید ان کو اسلام میں داخل نہ کر سکی۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

{قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ فَقُلْ اَفَلاَ تَتَّقُوْنَ} (یونس:31).

قرآن مجید سے توحید ربوبیت پر دلالت کرنے والی مختلف آیات ذکر کرنے کے بعد بہت باوثوق انداز میں داعیانہ جذبہ کے ساتھ قبرپرستوں کو تنبیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں جس کا ماحصل یہ ہے:
اگر ہمارے زمانہ کے مشرکین یہ کہیں کہ یہ آیتیں تو بتوں کے پجاریوں کی بابت نازل ہوئیں تو ان کو قطعی جواب دیا جائے گا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانہ میں بتوں کے پجاری بھی تھے اور صالحین جیسے لات و منات کی قبروں پر عقیدہ رکھنے والے بھی تھے، انہیں کی بابت اللہ تعالی نے فرمایا:

{اُولٰٓئکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّھِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ } (الاسراء:۷۵)

پس جب اللہ تعالی نے بتا دیا کہ یہ لوگ صالحین کی بابت عقیدہ رکھتے ہیں اور ان سے وسیلہ و شفاعت کی امید رکھتے ہیں، اللہ سے تقرب کا واسطہ ان کے ذریعہ ڈھونڈھتے ہیں تو واضح ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بتوں کے پجاری اور صالحین کی قبروں کے پجاریوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھا، بلکہ سب کے ساتھ قتال کیا ہے اور انکے کفرکا فیصلہ کیا ہے۔
(۲) تو حید الہیہ: جسے توحید الوہیت کہتے ہیں، یعنی جتنی بھی عبادتیں ہیں دعا، نماز، ذبح، سجدہ سب کچھ اللہ تعالی کے لیے روا رکھا جائے، اگر یہ چیز کسی نے کسی نبی ولی یا بزرگان دین کے لیے جائز ٹھہرائی تو اس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اور یہ بزرگان اس شرک سے پورے طور پر بری ہیں۔
اس کے بعد کچھ دلائل قرآن مجید سے ذکر کیے ہیں کہ جب تمہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو صرف اللہ ہی کو پکارتے ہو۔
شیخ الاسلام اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فيا سبحانَ الله! إذا كان الله يذكر عن أولئك الكفار أنهم يخلصون لله في الشدائد، لا يدعون نبياً ولا ولياً، وأنت تعلم ما في زمانك أن أكثر ما بهم الكفر والشرك ودعاء غير الله عند الشدائد، فهل بعد هذا البيان بيان؟ [الرسائل (ص:147)].

سبحان اللہ! اللہ تعالی نے کفار مکہ کی بابت فرمایا کہ جب بھی ان پر کوئی مصیبت آن پڑی ہے تو یہ کسی نبی یا ولی کے بجائے صرف اللہ کو پکارتے ہیں اور تم جانتے ہو کہ تمہارے اس زمانہ کے بیشتر لوگ کفر و شرک کرتے ہیں، مشکلات میں غیر اللہ کو پکارتے ہیں، کیا اس تصریح کے بعد کوئی اور تصریح رہ جاتی ہے۔“
گویا شیخ الاسلام کا یہ کہنا ہے کہ ہمار زمانہ کے مشرکین اور قبرپرست کفار کے شرک سے بھی آگے نکل گئے کہ وہ تو مشکلات میں اللہ کو یاد کرتے تھے اور یہ حضرات مشکلات میں قبروں پر چادریں چڑھائیں، اللہ کے نیک بندوں کے آگے اپنی حاجات کے ساتھ سجدہ ریز ہوں۔
اس خط کے بعد شیخ الاسلام نے عام مسلمانوں کے نام ایک پیغام دیا ہے، جس میں نہایت مخلصانہ انداز میں سارے مسلمانوں کو توحید پر قائم رہنے اور شرکیات سے دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے، اس خط کا لہجہ اور اسلوب بھی الگ ہے، یہ خط کل نو (۹) صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ [الرسائل: (150 ۔158)]
پہلی قسم میں لا الہ الاللہ کے معانی کیا ہیں، اس کے متصادم امور جیسے شرک فی العبادہ پر گفتگو کی گئی ہے، اسی حصہ میں کل آٹھ خطوط ہیں، ایک خط میں جو عام مسلمانوں کے نام ہے کلمہ لاالہ الااللہ“ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

فيجب على كل إنسان يخاف الله والنار، أن يتأمل كلام ربه الذي خلقه، هل يحصل لأحد من الناس أن يدين الله بغير دين النبي صلى الله عليه وسلم ؟ لقوله تعالى: {وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى} الآية [النساء:115]، ودين النبي صلى الله عليه وسلم: التوحيد، وهو معرفة لا إله إلا الله، محمد رسول الله، والعمل بمقتضاهما. [الرسائل:۲۸۱].

لہٰذا ہر وہ انسان جو اللہ تعالی سے اور جہنم کی آگ سے ڈرتا ہے اس پر اپنے رب کے کلام میں غور کرنا واجب ہے جس نے اسے پیدا فرمایا، کہ کیا کسی بھی شخص کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اللہ تعالی کی تابع داری نبی ﷺ کے دین کے بغیر کرے کیوں کہ ارشاد باری تعالی ہے:

{وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا} (النساء:115).

اور نبی ﷺ کا دین توحید ہے، اور توحید ”لا الہ الااللہ اور محمد رسول اللہ“ کی معرفت اور دونوں کے تقاضوں کے مطابق عمل کا نام ہے۔
اسی طرح ( ص:۱۹۱)، پر بھی اسی انداز کی گفتگو موجود ہے، ظاہر ہے اس موضوع پر بھی گفتگو کے دوران توحید و شرک کی بات تو آنی ضروری ہے، جابجا توحید کی فضیلت و اثبات اور شرک کی قباحت و خطرناکی کو واضح کیا ہے۔
چوتھی قسم میں ان چیزوں کا بیان ہے جو انسان کو دائرۂ کفر میں داخل کر دیتی ہیں اور اس کے ساتھ قتال واجب ہوتا ہے، اس حصہ میں شیخ الاسلام کے وہ خطوط ہیں جن میں آپ نے مسئلہ تکفیر اور اہل شرک سے قتال و جدال کے اسباب پر مدلل روشنی ڈالی ہے، نیز اسلام کے نواقض یعنی ایسی چیزیں جن سے اسلام جاتا رہتا ہے ان کا مختصراً بیان بھی ہے، ایک خط میں نواقض اسلام کا مکمل مع دلائل ذکر کیا اور بتایا کہ وہ دس ہیں یہاں مختصرا صرف نکات ذکر جاتے ہیں:
(۱)اللہ کی عبادت میں شرک کرنا۔
(۲) انسان کا اپنے اور اللہ کے درمیان واسطہ بنانا۔
(۳) مشرکین کو کافر نہ سمجھنا یا ان کے کفر میں شک کرنا یا ان کے مذہب کو صحیح کہنا۔
(۴) یہ عقیدہ رکھنا دوسروں کا دین نبی ﷺ کے دین سے زیادہ محکم ہے اور بہتر ہے جیسا کہ بعض حضرات طاغوت کی حکومت کو فوقیت دیتے ہیں۔
(۵) نبی ﷺ کی ہدایت سے باز رکھنا گوکہ وہ شخص ان ہدایات کا عامل بھی ہو۔
(۶) اللہ کے دین کا ذرا بھی مذاق اڑانا یا اس کے ثواب و عقاب کا استہزاء کرنا۔
(۷) جادو اور اس کی مختلف اشکال میں ملوث ہونا خواہ وہ شوہر اور بیوی کے درمیان محبت پیدا کرنے یا ختم کرنے کے لیے ہو یا دیگر لوگوں کے مابین۔
(۸) مشرکین کی پشت پناہی اور ان کا تعاون کرنا۔
(۹) یہ عقیدہ رکھنا کہ “نبی ﷺ کی شریعت کی پیروی کرنا ضروری نہیں بلکہ ان سے نکل سکتے ہیں جس طرح حضرت خضر کو حضرت موسی کی شریعت کی بابت رخصت تھی”۔
(۰۱) اللہ کے دین سے اعراض، خواہ وہ نہ سیکھ کر ہو یا نہ عمل کرکے۔
یہ ساری چیزیں شیخ الاسلام نے ذکر کی ہیں اور ساتھ ہی ان کے دلائل بھی ذکر کیے ہین جو شخص ان چیزوں کا شکار ہوگا وہ دائرہ اسلام سے نکل جائے گا، اسے اسلام میں رہنے کا کوئی اختیار نہ ہوگا۔ آخری قسم میں ان خطوط کو شامل کیا گیا ہے جن میں عام مسلمانوں کے لیے توجیہات و ہدایات ہیں کہ ایک مسلمان کا عقیدہ کیسا ہونا چاہیے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے مسائل اور طریقہ ہائے کار کیا ہیں، اس میں کل(15)خطوط ہیں۔
شیخ الاسلام کے سارے خطوط دیکھ جائیے ان تمام کا بنیادی موضوع توحید ہے، علماء اسلام کے خطوط کے بہت سے مجموعے موجود ہیں مگر شیخ کے خطوط کی مثال بھی الگ ہے اور پہچان بھی، ذاتی گفتگو بہت کم ہے، ایسا لگتا ہے شیخ الاسلام نے خطوط کو دعوت کے ایک نہایت موثر وسیلہ کے طور پر استعمال کیا ہے، ایک ضروری بات یہ ہے کہ شیخ الاسلام ایسے لوگوں کو دائرہ اسلام میں سمجھتے ہی نہیں جو شرک صریح میں ملوث ہیں، غیر اللہ کے لیے وہ سب کچھ کرتے ہیں جو اللہ ہی کے لیے روا ہو سکتی ہے، ان کی تکفیر کے قائل ہیں، ظاہر ہے یہاں پہونچ کر ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیخ الاسلام یہاں آکر ذرا سخت ہو گئے ہیں مگر اس وقت کے ماحول کو نظر میں رکھنا ضروری ہے بالکل ایسے ہی جیسے حضرت ابوبکر کا رد عمل مانعین زکوۃ کی مانند تھا انھوں نے زکوۃ دینے سے انکار کیا تھا اسلام سے نکلے نہیں تھے پھر بھی ان سے قتال کیا، اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی تھی کہ شیخ الاسلام کے دل میں توحید رچ بس گئی تھی، اس سے والہانہ وارفتگی تھی، ظاہر ہے اگر کسی کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے تو وہ اپنے محبوب کی بابت کوئی بھی بات برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا، ذرا سی گستاخی اگر ہو جائے تو اس کے لیے جان تک دینے میں تأمل نہیں کرتا یہ تو زمینی حقائق ہیں تو شیخ اس حقیقی محبوب کی بابت ذرہ برابر شرک کیوں کر برداشت کر سکتے تھے، شرک کی خفیف سی آہٹ کو بھی توحید کے منافی سمجھتے تھے، وحدانیت میں ذرا بھی کوتاہی دیکھتے تو بے چین ہوجاتے، ان کی یہ بے چینی اور اضطراب بجا تھا۔ یہ کیفیت ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتی، یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب محبوب سے محبت لامحدود اور بے انتہا، مزاج محبوب کے مخالف ادنی چیز بھی تڑپا جاتی ہو، وہ علماء اسلام جن کے یہاں ہم شرک و توحید کی بابت نہایت سخت توقف دیکھتے ہیں ان کا معاملہ یہی ہوتا تھا، اس بابت مصلحت کوشی کو جرم میں شرک سمجھتے تھے اور شیخ الاسلام انہیں علماء ربانین میں سے ایک تھے، آج کل جو اعتراضات اس حوالہ سے ہو رہے ہیں معترضین کو کھلے دل سے غور کرنا چاہیے، اللہ شیخ الاسلام کی تربت کو نور سے بھردے۔
اسلوب مکاتیب:
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب ایک عظیم داعی تھے، دعوت توحید ان کی زندگی کا اصلی مقصد تھا اور اسی کے لیے انہوں نے اپنی پوری زندگی قربان بھی کر دی۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا اولین موضوع توحید ہوتا تھا، شیخ الاسلام نے بھی دعوت کا آغاز توحید کے اتباع اور شرک کے ابطال سے کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کی تقریباً 26/تالیفات میں سے 13/کا موضوع توحید ہی ہے:

کتاب التوحید، کشف الشبہات، خمسون سؤالا وجوابا فی العقیدۃ، الرسالۃ المفیدۃ، معنی لاالہ الااللہ، اصول الایمان، الرسائل الشخصیۃ، الأصول الثلاثۃ، القواعد الأربع، تعلیم الصبیان التوحید، تفسیر سورۃ الفاتحہ والاخلاص المعوذتین، سائل الجاہلیۃ، الجواہر المفید،

یہ ساری کتابیں توحید پر مشتمل ہیں۔
آپ نے ہمیشہ ایک داعی کی حیثیت سے کام کیا، خواہ تصنیف و تالیف کا میدان ہو یا گفتگو و مناقشہ کا، ایک داعی کا اسلوب ہر جگہ نمایاں ہوتا، اخلاص، محنت، جفاکشی، جاذبیت، لطافت، صاف گوئی، صراحت، جذبہ صادق یہ ساری چیزیں ان کی تحریروں کا جوہر ہوا کرتی تھیں۔ آپ کے ذاتی مکاتیب و خطوط میں یہ ساری چیزیں بہت کھل کر سامنے آتی ہیں، ہاں بسا اوقات اسلوب میں کافی کرختگی نظر آتی ہے مگر بالکل اخیر میں جب مدمقابل سے بالکل مایوس ہوجاتے اور اس کی راہ یابی کی امید نہیں ہوتی، وقت کے حکمرانوں کو بھی خطوط لکھے مگر ان میں ان کی عظمت کا خیال رکھا، عام مسلمانوں کے لیے نصیحتیں تحریر فرمائیں جن میں اخلاص نیت اور جذبہ صادق کی جھلک بہت صاف دکھائی دیتی ہے۔ زبان و بیان فصیح استعمال کرتے ہیں، شاذ ہی ایسا ہوا کہ کوئی علاقائی لفظ آیا ہو۔ یہاں ایک خط بطور نمونہ نقل کرتے ہیں تاکہ آئندہ اس کی روشنی میں گفتگو کرنے اور سمجھنے میں آسانی ہو:

رسالة أرسلها إلى فاضل آل مزيد، رئيس بادية الشامن قال فيها:
بسم الله الرحمن الرحيم
من محمد بن عبد الوهاب، إلى الشيخ فاضل آل مزيد، زاده الله من الإيمان، وأعاذه من نزعات الشيطان.
أما بعد، فالسبب في المكاتبة: أن راشد بن عربان ذكر لنا عنك كلاماً حسناً سرّ الخاطر، وذكر عنك أنك طالب مني المكاتبة بسبب ما يجيك عنا من كلام العدوان، من الكذب والبهتان؛ وهذا هو الواجب من مثلك: أنه لا يقبل كلاماً إلا إذا تحققه. وأنا أذكر لك أمرين قبل أن أذكر لك صفة الدين:
الأمر الأول: أني أذكر لمن خالفني: أن الواجب على الناس: اتباع ما وصى به النبي صلى الله عليه وسلم أمته، وأقول لهم: الكتب عندكم، انظروا فيها، ولا تأخذوا من كلامي شيئاً. لكن إذا عرفتم كلام رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي في كتبكم، فاتبعوه ولو خالفه أكثر الناس.
والأمر الثاني: أن هذا الذي أنكروا عليّ، وأبغضوني وعادوني من أجله، إذا سألوا عنه كل عالم في الشام واليمن أو غيرهم، يقول: هذا هو الحق، وهو دين الله ورسوله، ولكن ما أقدر أن أظهره في مكاني، لأجل أن الدولة ما يرضون. وابن عبد الوهاب أظهره لأن الحاكم في بلده ما أنكره، بل لما عرف الحق اتبعه. هذا كلام العلماء، وأظن أنه وصلك كلامهم.
فأنت، تفكرْ في الأمر الأول، وهو قولي: لا تطيعوني، ولا تطيعوا إلا أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي في كتبكم. وتفكرْ في الأمر الثاني: أن كل عاقل مقرّ به، لكن ما يقدر أن يظهره.
وصورة الأمر الصحيح أني أقول: ما يُدعى إلا الله وحده لا شريك له، كما قال تعالى في كتابه: {فَلا تَدْعُو مَعَ اللَّهِ أَحَداً} 1، وقال في حق النبي صلى الله عليه وسلم: {قُلْ إِنِّي لا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرّاً وَلا رَشَداً} 2. فهذا كلام الله، والذي ذكره لنا رسول الله ووصانا به، ونهى الناس أن لا يدعوه. فلما ذكرت لهم أن هذه المقامات التي في الشام والحرمين وغيرهم، أنها على خلاف أمر الله ورسوله، وأن دعوة الصالحين والتعلق بهم هو الشرك بالله الذي قال الله فيه: {إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ} 3، فلما أظهرت هذا أنكروه وكبر عليهم، وقالوا: أجعلتنا مشركين، وهذا ليس إشراكاً؟
هذا كلامهم، وهذا كلامي، أسنده عن الله ورسوله. وهذا هو الذي بيني وبينكم؛ فإن ذكر عني شيء غير هذا فهو كذب وبهتان. والذي يصدق كلامي هذا أن العالم ما يقدر أن يظهره، حتى من علماء الشام من يقول: هذا هو الحق، ولكن لا يظهره إلا من يحارب الدولة، وأنت ولله الحمد ما تخاف إلا الله. نسأل الله أن يهدينا وإياكم إلى دين الله ورسوله، والله أعلم. [رسائل (ص: 33)].

عمومی ساخت:
شیخ الاسلام کے خطوط کا عمومی انداز یہ ہے کہ جب وہ خط شروع کرتے ہیں تو اس طرح مثلاً:

من محمد بن عبدالوہاب الی الأخ محمد بن عباد وفقہ اللہ لما یحبہ و یرضاہ، سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد۔

یعنی از طرف محمد بن عبدالوہاب بخدمت برادرم محمد بن عباد، اس کے بعد دعائیہ جملے پھر سلام عرض کرتے ہیں، اس کے بعد کچھ ضروری باتیں خطوط کے تبادلے سے متعلق پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔
اگر خط کسی کا جواب یا کسی مسئلہ کے حل پر مشتمل ہے تو اس میں یہ سلسلہ وار ایک ایک کرکے مرکز گفتگو کرتے ہیں، مثلاً، اولا، ثانیا….. قس علی ھذا۔
عمومی خطوط کافی طویل ہوتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ خطوط دراصل عام خطوط کی طرح نہیں ہوتے بلکہ اگر ہر خط کو الگ شائع کر دیا جائے تو وہ ایک رسالہ ہو جائے گا۔ مخاطب شخص کو قائل کرنے یا تذکیر کرنے میں کتاب و سنت سے استدلال اور پھر ائمہ اربعہ اور خصوصا ابن تیمیہ، ابن القیم اور ابن کثیر کے اقوال کا ذکر ان کی ترجیحی موقف، مسئلہ کا بھر پور مناقشہ، یہ ساری چیزیں ایک ہی خط میں ذکر کرنے کی وجہ سے خط قدرے طویل ہو جاتا ہے۔ خاص طور سے اپنا عقیدہ بیان کرتے وقت نہایت مفصل گفتگو فرماتے ہیں اور اخیر میں تمام اعتراضات کے ذکر کے ساتھ ان کا بھرپور جائزہ بھی لیتے ہیں، لیکن کبھی کبھی نہایت مختصر خط بھی لکھتے ہیں جب خیر خیریت یا آدھ مسائل کی طرف توجہ مبذول کرانا مقصود ہو۔
داعیانہ رنگ و آہنگ:
ایک داعی کی سب سے نمایاں خوبی جو ہو سکتی ہے وہ نرم خوئی اور خنک مزاجی، وہ ”وجادلھم بالتی ھی أحسن“ کا خوبصورت مرقع ہو۔ شیخ الاسلام کے خطوط میں یہ چیز بہت واضح ہے، مخاطب کو سمجھاتے وقت لہجہ نہایت نرم رکھتے ہیں، خصوصا ایسے شخص کے حق میں جس کا دل قبول حق کے لیے کھلا ہو۔
ایک جگہ لکھتے ہیں:

وصلنا أوراق في التوحيد، بها كلام من أحسن الكلام، وفقك الله للصواب، وتذكر فيه أن ودّك نبين لك إن كان فيها شيء غاترك؛ فاعلم، أرشدك الله، أن فيها مسائل غلط. [الرسائل الشخصیۃ، ص:16].

توحید کی بابت کچھ اوراق موصول ہوئے جس میں توحید پر بہت ہی اچھے انداز میں گفتگو کی گئی ہے، اللہ تمہیں درستگی کی توفیق سے نوازے۔اس خط میں تم نے اپنی اس چاہت کا ذکر کیا ہے کہ اگر اس میں کچھ چیزیں مخفی رہ گئی ہوں تو اسے واضح کر دیں، تو دیکھو، اللہ تمہاری رہنمائی فرمایے، اس میں کچھ مسائل غلط ہیں۔
اس خط میں دیکھیے کہ تخاطب کا انداز کس قدر پیارا ہے، اس میں ایک بات اور دعوت فکر دے رہی ہے کہ شیخ الاسلام کی شخصیت کوئی معمولی نہ تھی مگر ایک عام شخص توحید کی بابت کچھ استفسار کر رہا ہے اور آپ مصروفیات کے باوجود اس کا مفصل جواب دے رہے ہیں، اس میں ہمارے ان علماء کے لیے بھی پیغام ہے جو مصروفیات کا بہانہ بنا کر پیغام کے جواب سے کتراتے ہیں، سر دست ایک بات اور کہ اس خط میں ایک علاقائی لفظ ”غاترک“ آیا ہوا ہے، سیاق سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا معنی ”غیر واضح“ ہوتا ہے، شیخ الاسلام کے خطوط میں یہی ایک آدھ جگہیں ہیں جہاں دیہاتی لفظ استعمال ہوا ہے۔
ص: 20/پر لکھتے ہیں:

” ولكن تقول: أخشى الناس، فالله أحق أن تخشاه. ولا تظن أن كلامي هذا معاتبة وكلام عليك، فوالله الذي لا إله إلا هو، إنه نصيحة “.

اگر تم یہ تمام چیزیں جاننے کے باوجود کہتے ہو کہ میں لوگوں سے ڈرتا ہوں، تو یاد رکھو اللہ تعالی اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔ میری ان باتوں سے تم یہ نہ سمجھنا کہ میں تم پر سرزنش یا قدح کر رہا ہوں، قسم اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں یہ تو صرف ایک نصیحت ہے۔
ص: 32/پر لکھتے ہیں:

”…. فالسبب في المكاتبة: أن راشد بن عربان ذكر لنا عنك كلاماً حسناً سرّ الخاطر، وذكر عنك أنك طالب مني المكاتبة بسبب ما يجيك عنا من كلام العدوان، من الكذب والبهتان؛ وهذا هو الواجب من مثلك: أنه لا يقبل كلاماً إلا إذا تحققه. “.

آپ سے خط و کتابت کی وجہ یہ ہے کہ راشد بن عربان نے آپ کی بابت بہت اچھی بات بتائی جس نے دل خوش کر دیا اور یہ بھی بتایا کہ آپ مجھ سے خط و کتابت کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ ہماری بابت آپ تک جھوٹ، بہتان اور سرکشی کی بات پہونچی ہے اور یہی چیز آپ جیسے لوگوں کے لیے ضروری بھی ہے کہ کسی بھی بات کو قبول کرنے سے پہلے اس کی حقیقت جان لیں۔
یہی جذبۂ اصلاح و دعوت ایک جگہ اور زیادہ موثر انداز میں دیکھیے، ص 32،۳۳/پر لکھتے ہیں:

”… وأظن أنه وصلك كلامهم، فأنت، تفكرْ في الأمر الأول، وهو قولي: لا تطيعوني، ولا تطيعوا إلا أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي في كتبكم. وتفكرْ في الأمر الثاني: أن كل عاقل مقرّ به، لكن ما يقدر أن يظهره، فقدّمْ لنفسك ما ينجيك عند الله. واعلم أنه لا ينجيك إلا اتباع رسول الله صلى الله عليه وسلم. والدنيا زائلة. والجنة والنار ما ينبغي للعاقل أن ينساهما“.

میرا خیال ہے آپ تک ان کی بات پہونچی، لہٰذا آپ پہلے معاملہ کے بارے میں سوچ رہے ہیں وہ یہ کہ میری پیروی نہ کرکے صرف اللہ کے رسولﷺ کی پیروی کی جائے جو کہ خود تمہاری کتابوں میں موجود ہے اور دوسرے معاملہ کے بارے میں سوچ رہے ہو وہ یہ کہ ہر شخص اس حق کا اقرار تو کرتا ہے مگر جرأت اظہار نہیں، تم اپنے آپ کے لیے ایسی چیز پیش کرو جو تمہیں اللہ کے حضور بچا سکے اور یاد رکھو تمہیں صرف اور صرف نبی ﷺ کی پیروی ہی بچا سکتی ہے، یہ دنیا چند روزہ ہے، کسی بھی ہوش مند شخص کے لیے جنت اور دوزخ کو فراموش کرنا مناسب نہیں۔“
گذشتہ اقتباسات میں دیکھیے تو شیخ الاسلام کا لہجہ کس قدر ہمدردانہ اور مشفقانہ ہے، وہ اپنے سامنے کسی کی عاقبت کو خراب نہیں دیکھنا چاہتے، اسے مطمئن کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرتے ہیں، کبھی اس کے فہم کی تعریف کرکے، کبھی اسے ترغیب دے کر اور کبھی ترہیب سے۔ لاریب یہ اسلوب داعیانہ بھی اور مصلحانہ بھی، مخلصانہ بھی ہے اور بے باکانہ بھی۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں اس کتاب ”الرسائل الشخصیۃ“ میں موجود ہیں، تفصیل مزید کے لیے اس کتاب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
فصاحت اسلوب:
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کی زبان صاف ستھری اور خالص ہے، لہجہ حد درجہ عالمانہ ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم کی زبان و بیان اور حسن ادا پر کافی گہری چھاپ ہے، بہت زیادہ خوشہ چینی سے یہ چیز خود بخود پیدا ہو جاتی ہے، عموما تو سجع بندی سے احتراز اور معانی پر توجہ زیادہ ہے مگر مخاطب کے حال کے اعتبار سے کہیں سجع بند جملے فی البدیہ آگئے ہیں، جن میں تکلف سے زیادہ سادگی ہے، ایک خط کا آغاز وہ یوں کرتے ہیں:

الحمد لله الذي نزل الحق في الكتاب، وجعله تذكرة لأولي الألباب، ووفق مَنْ مَنَّ عليه من عباده للصواب، لعنوان الجواب، وصلى الله وسلم وبارك على نبيه ورسوله، وخيرته من خلقه، محمد وعلى آله وشيعته وجميع الأصحاب، ما طلع نجم وغاب، وانهل وابل من سحاب.
من عبد العزيز بن محمد بن سعود ومحمد بن عبد الوهاب، إلى الأخ في الله: أحمد بن محمد العديلي البكبلي، سلمه الله من جميع الآفات، واستعمله بالباقيات الصالحات، وحفظه من جميع البليات، وضاعف له الحسنات، ومحا عنه السيئات [الرسائل ص:۴۹].

غور کیجیے اس اقتباس کا ہر جملہ الف ب یا الف تا پر ختم ہوتا ہے، جو سجع بندی کی طرف اشارہ ہے، یہ چیز کہیں نظر آتی ہے ورنہ عموما زبان ایسی ہوتی ہے کہ ہر عربی زبان جاننے والا سمجھ لیتا ہے، کبھی بدوی الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں مگر بہت ہی شاذ۔
شیخ الاسلام نے ان مکاتیب کو بقدر ضرورت اہل علم کے اقوال سے بھی مزین کیا ہے، اسی طرح کبھی اشعار بھی نقل کرتے ہیں خصوصا امام ابن القیم کے، جن سے کلام میں مزید زور اور حسن پیدا ہو جاتا ہے، چنانچہ ایمان میں اضافہ و کمی ہوتی ہے اس مسئلہ کے اثبات میں کتاب و سنت کے دو بدو امام شیبانی کا یہ شعر بھی نقل کیا ہے:

وإيمانُنا قولٌ وفعلٌ ونيـةٌ … ويزدادُ بالتقوی وينقُص بالردیَ

ہمارا ایمان تو قول، عمل اور نیت کا مجموعہ ہے اور تقوی شعاری سے بڑھتا اور برائی سے کم ہوتا ہے۔
امام ابن القیم کے یہ چند اشعار بھی ص/208 پر نقل کیے ہیں:

يافرقةٌ جهِلتْ نصوصَ نبيِّهم

ومرادَه وحقيقةَ الإيمانِ


فسطوا على أتباعه وجنوده

بالبغي والعدوان والبهتانِ


لله حقٌّ لايکون لغيـره

ولعبده حقٌ هما حقانِ


لا تجعلوا الحقَّين حقًا واحدًا

من غير تمييز ولا فرقانِ

اے وہ ٹولی! جس نے اپنے نبی کے نصوص اور ایمان کے حقائق سے نادانی برتی، چنانچہ اس ٹولی نے نبی کے پیروان اور ان کے لشکر پر فساد، سرکشی اور تکفیر کے ساتھ حملہ کیا اللہ تعالی کا حق متعین ہے وہ دوسروں کے لیے نہیں ہو سکتا، اسی طرح بندہ کا بھی حق متعین ہے، دونوں الگ حقوق ہیں، دونوں حقوق کو ایک نہ کرو بلا کسی تمیز اور فرق کے۔
شیخ الاسلام کے یہ مکاتیب مختلف ناحیوں سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں، یہاں ان تمام کا تفصیلی جائزہ لیا جانا مشکل ہے، البتہ ایک ہلکی سی جھلک دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، اگر ان خطوط کو افادہ عام کی غرض سے اردو قالب میں ڈھال دیا جائے تو بلا شبہ یہ ایک بہت بڑی خدمت ہوگی، ان خطوط کی روشنی میں شیخ الاسلام کی دعوت، منہج، طریقہ کار، عقیدہ اس وقت کے حالات اور اس دعوت کے مخالفین جیسی ساری چیزوں کی بابت تفصیلی علم ہوجائے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اہل علم اس جانب ضرور توجہ فرمائیں گے۔ اللہ تعالی حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

آپ کے تبصرے

3000