نازک حالات میں قیادت کوحکمت ہی نہیں حوصلے کی بھی ضرورت ہوتی ہے

ثناء اللہ صادق تیمی

جب حالات درست چل رہے ہوں ، ملت کوکسی قسم کا باضابطہ کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو ، لوگ اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہوں تو ویسی صورت میں قیادت کی اہمیت کے باوجود قیادت کی ضرورت کا احساس کم کم ہی ہوتا ہے ۔ ہم فطری طور پر اپنے سے بڑوں کو تب دیکھتے ہیں جب ہم کسی معاملے میں الجھ جاتے ہیں یا کوئی مسئلہ ہم سے حل نہیں ہورہا ہوتا ہے ۔گھر کے تمام افراد اپنی اپنی مصروفیتوں میں لگے رہتے ہیں وہ گارجین کو تب یادکرتے ہیں جب وہ کسی معاملے میں پھنس جاتے ہیں اور تب ہی در اصل گارجین کو اپنا مطلوبہ کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ کس طرح نہ صرف یہ کہ مسئلہ حل کرنا ہے بلکہ اپنے زير نگرانی جی رہے افراد کو ٹوٹنے سے بچانے کا جتن بھی کرنا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں جب کبھی گھر کا گارجین ان نازک حالات میں اپنا مطلوبہ کردار ادا نہیں کرپاتا تو افراد بکھر جاتے ہیں ، گھر ٹوٹ جاتا ہے اور حسرت کے منحوس سایے دراز ہوجاتے ہیں ۔گارجین ہونے کا مطلب بڑا ہونا تو ہوتا ہی ہے لیکن اس کا کہیں زیادہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے بڑی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی ۔ کائنات کی سنت بھی یہی ہے کہ جو جتنی بڑی ذمہ داری اداکرے گا اتنی ہی اہمیت اور مقام سے نوازاجائے گا ۔
اس تناظر میں اگر ہم ملی قائدین کو دیکھ رہے ہوں تو ہم کوئی غلطی نہیں کررہے ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مسلمان بحیثيت ایک ملت کے ایک بار پھر نازک مرحلے سےگزررہے ہيں ۔ مرکز اور زیادہ تر ریاستوں میں ایک ایسی پارٹی برسراقتدار ہے جس کےممبران بالعموم مسلم مخالف بیانات دے کر خود کو زيادہ مقبول بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایک ایسی سیاسی فکر جس میں مسلمانوں کے لیے برابر کا درجہ نہیں مانا جاتا ۔ یہ پارٹی اقتدار میں رہ کر وہ سب کچھ کررہی ہے جس سے ملت کے اندر ایک قسم کا احساس شکست پیدا ہو۔ اب وہ این آرسی کا مسئلہ ہو جس کے تعلق سے وزیر داخلہ غیر آئینی بیانات دیتے ہوں اور مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہوں یا کشمیر کا مسئلہ ہو جس کو فرقہ وارانہ خطوط پرپورے ہندوستان میں بھنانے کی کوشش کی جاتی ہو یا پھر باضابطہ منصوبہ کرکے مسلمانوں کی سیاسی قیادت کو ختم کرنے کی سازش ہو اور ان کے ملی تعلیمی ادارں کو پریشان کرنے کا معاملہ ہو ۔ٹوپی داڑھی دیکھ کر مسلمانوں کو بھیڑ کے ذریعہ ماردیے جانے کا معاملہ ہو یا پھر نفرت انگیز مسلم مخالف بیانات ہی نہيں پالیسیوں کا معاملہ ہو ان تمام کیفیات میں ملت کے عام افراد قیادت کی طرف اسی لیے دیکھتے ہيں کہ وہ ان مسائل کا حل خود تلاش نہیں کرسکتے ، ہم اگر آپ کو اپنا گارجین سمجھتے ہيں تو نازک حالات میں آپ کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھنا ہماری مجبوری بھی ہے اور ہمارا حق بھی اور آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ملت کی قیادت کا مطلب سمجھیے ۔
این آرسی کو لے کر اگر مسلمانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے ، اگر ان کے تعلیمی اداروں کو غلط سلط طریقے سے نشانہ بنایا جاتا ہے ، اگر ان کے افردا سڑکوں پر بھیڑوں کے ذریعہ آئے دن ماردیے جاتے ہیں اور آپ پھر بھی خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر حکومت کے بیانیہ کو من وعن قبول کرکے افراد ملت کو صرف صبر کی تلقین کرتے ہیں تو در اصل آپ ایک بڑی حماقت کے شکار ہیں ، وہ آپ کی تلقین کے بغیر بھی صبر کرلیں گے ۔ آپ کی ذمہ داری صبر کی تلقین کے ساتھ حکومت سے بات کرنے کی بھی ہے ، اس کا محاسبہ کرنے کی بھی ہے ، اس کی غلط پالیسیوں کی تردید اور حسب ضرورت اس کی قانونی مخالفت کی بھی ہے اور ساتھ ہی ملت کو صحیح سمت عطا کرنے کی بھی ہے ۔
قائد وہ نہیں ہوتا جو نازک وقتوں میں قوم کو صبر و شکیبائی کی تلقین کرکے سوجائے یا پھر انہیں بھڑکاکر حالات کی آندھیوں کے سپرد کردے ۔قائد وہ ہوتا ہے جو نازک وقتوں میں حوصلہ بھی دکھاتا ہے اور حکمت کا دامن بھی نہیں چھوڑتا ۔ وہ افراد ملت کی امیدٹوٹنے نہیں دیتا ، وہ ان کے ساتھ ان کے درد میں شریک ہوکر مسا‏ئل کے حل کے لیے باضابطہ تگ ودو کرتا ہے ۔ ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری قیادت عام طور سے نازک وقتوں میں اپنا مطلوبہ کردار ادا نہيں کرپاتی ۔ کبھی کبھی قائدین کی طرف سے یہ شکوہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ جب ہمیں ملت کی ضرورت پڑتی ہے تب ملت ہمارے ساتھ نہیں ہوتی لیکن اس شکوے پر صرف ہنسا جاسکتا ہے ۔ قیادت اگر اپنی اہلیت ثابت کردے ، نازک حالات میں صحیح قیادت کا فريضہ انجام دے دے تو ملت کبھی ایسی قیادت کو نہیں چھوڑے گی لیکن اگرقیادت صرف اپنا الو سیدھا کرنا چاہتی ہو تو افراد ملت کو پتہ ہوتا ہے کہ کب کس کے ساتھ کیسا رویہ اپنانا ہے ۔
یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ عوام کا حوصلہ ، اس کے جذبے اور اس کی قوت تبھی کام کرتی ہے جب قیادت ان سے کام لینے کا ہنر جانتی ہو ۔ملت اسلامیہ ہند کے اندر افراد کی سطح پر نہ حوصلے کی کمی ہے نہ جذبے کی اور نہ قوت کی لیکن قیادت میں حکمت کی جگہ مصلحت نے اور جراءت کی جگہ بزدلانہ رویے نے لی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جن معاملات میں عوام کو خائف ہونا چاہیے تھا ان معاملات میں قیادت زيادہ خوف زدہ لگ رہی ہے ۔ لکھ لیجیے کہ ایسی صورت میں ملت کے افراد دو حالات سے خالی نہیں ہوں گے یا تو وہ کچھ شعور سے کام لیں گے اور قیادت کے فریب سے نکل کر نئی قیادت تشکیل دے کر حالات کا مقابلہ کریں گے یا پھر قیادت کی سراسیمگی کا شکار ہو کر حوصلہ ہار دیں گے اور لاقدر اللہ اگر ایسا ہوا تو یہ بہت بڑے خسارے کی بات ہوگی ۔

آپ کے تبصرے

3000