جشن میلاد اور فکر و عمل کی نیرنگیاں

رشید سمیع سلفی عبادات

ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی فضا رنگ و نور میں ڈوب جاتی ہے، عشق رسول کا خاموش دریا ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے، احساسات کے دروبام پر عقیدت رسول کی ایک غیر مرئی چادر دراز ہوجاتی ہے۔ گلیاں، راستے، چوراہے، بازار، مکانات کی کھڑکیاں اور دروازے روشنی میں نہا اٹھتے ہیں۔ دیو ہیکل گیٹ، رنگ برنگ محرابیں، مصنوعی گنبد خضراء و خانہ کعبہ ہرچہار جانب نصب کردیے جاتے ہیں، چند دنوں کے لیے پوری بستی بقعۂ نور بن جاتی ہے۔
ایک ایسی نام نہاد عید کی سرخوشی اعصاب پر سوار ہوتی ہے جس کی ولادت ہی عہد خیرالقرون کے بعد ہوئی، یہ پورا ہنگامۂ شور وشر نبی رحمت کی ولادت کے نام پر ہوتا ہے۔

سامان عیش و نشاط
ربیع الأول کیا آتا ہے کہ بریلویت کے دن پھر جاتے ہیں، لذت کام و دہن بھی ہوتا ہے، رقص و سرود کی محفلیں بھی منعقد ہوتی ہیں، میوزک اور گانے تو دل کی دھڑکنوں کے ساتھ چلتے ہیں، میلادی واعظوں کے وجود میں تو جیسے بالی ووڈ کی روح سما جاتی ہے، اسٹیجوں پر بھنگڑے اور دھمال تو لطف کو دوبالا کردیتے ہیں، قوالیوں اور مشرکانہ نعتوں کا دور دورہ ہوتا ہے، اکسپرٹ میلادی مولوی ایک ایک شب میں یکے بعد دیگرے کئی اسٹیج کور کرتا ہے، نذرانوں اور ہدیوں کے مال غنیمت سے لدا پھندا گھر پہنچتا ہے، اگر ایک صرف میلاد اٹھالی جائے تو میلادی اصحاب جبہ و دستار اور قبوری تجارت کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ یوں سمجھیے کہ مفادات کی چھتر چھایا میں کاروبار میلاد پھل پھول رہا ہے، رگ غیرت جب پھڑکتی ہے تو وہابیوں پر نزلہ بھی گرالیا جاتا ہے کیونکہ یہ بھی عشق رسول کا لازمی تقاضا ہوتا ہے۔

گمشدہ محبت
محبت رسول یقینا جزو ایمان ہے، تقاضائے دین ہے، لیکن یہ کون سا معیار محبت ہے جہاں تک یار غار کی بھی رسائی نہ ہوسکی، یہ حب رسول کی کون سی گمشدہ ادا تھی جس کا سراغ پورے خیر القرون میں نہیں لگایا جاسکا۔ غور کیجیے صدیقی دور خلافت میں دو دفعہ، فاروقی دور خلافت میں گیارہ مرتبہ، عثمانی دور خلافت میں بارہ مرتبہ اور علوی دور خلافت میں پانچ مرتبہ یہ دن آیا، اموی دور خلافت میں بیس دفعہ اور آخری صحابی حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ کی وفات تک نہ معلوم کتنی دفعہ یہ دن آیا، لیکن کسی ایک صحابی کے وہم و گمان میں بھی جشن میلاد نہیں گذرا۔ اسی طرح ائمہ اربعہ رحمہم اللہ علیہم اجمعین نے اپنے دور میں جشن میلاد النبی کا کبھی بھی اہتمام نہیں فرمایا، ماہ و سال کی گردشیں مستقبل کا سفر طے کرتی رہیں اور عید میلاد کسی دور وادی میں محو خواب رہی، ساتویں صدی ہجری میں قبوری روح نے ایک جھرجھری لی اور کچھ کر گذرنے کا عزم کیا، پھر تاریخ کی اس طویل خلا کی بھرپائی جشن میلاد کی شکل میں کی گئی، صدیوں کی کوتاہی کا کفارہ ادا ہوگیا۔ بریلوی مکتب فکر کا یہ کارنامہ امت کو کتنی بلندیوں تک پہنچا چکا ہے؟ یہ بتانےکی ضرورت نہیں، کم سے کم اب ہم ان تمام قوموں سے شرمندہ تو نہیں ہیں جو اپنے پیغمبروں کا جنم دن مناتے ہیں،وکیا خوب نیرنگئ فکروعمل ہے جس نے خیر و شر کے درمیان کی دوئی کو ختم کیا ہے۔ اب ہم بھی ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کمال فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا، تمھارے پاس اگر کرسمس ہے تو ہمارے پاس عید میلاد النبی ہے، تمھارے پاس اگر میلاد مسیح کے نام پر جام و سبو اور رقص و سرود ہے تو ہمارے پاس بھی محبت رسول کے نام پر ہنگامۂ لہو و لعب ہے۔

محبت کے نام‌ پر
محبت رسول کے نام پر شریعت محمدیہ کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں، جشن میلاد کے تمام گورکھ دھندے اور اعمال و افعال اسلامی تعلیمات کا منہ چڑھاتے ہیں، یقین نہ آئے تو اس پورے منظرنامہ پر ایک سرسری نظر ڈال لیجیے۔
12ربیع الاول کا جلوس اور جھنڈیاں، یارسول اللہ اور یا نبی اللہ کے نعرے، آلات میوزک اور موسیقی، مردوزن کا اختلاط، مال کا بے جا اسراف، نماز چھوڑ کر جلوس اور جلسوں میں مصروف ہونا، غیراللہ سے استمداد، خانۂ کعبہ اور مسجد نبوی کی شبیہ بنا کر اسے گلی کوچے میں نصب کرنا اور تبرک حاصل کرنا، نبی کی حاضری کا عقیدہ، خودساختہ درود و سلام، موضوع و من گھڑت روایات۔۔۔۔اور نہ جانے کتنی خرافات سے ربیع الاول کو بار کردیا گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ قبوریوں کی ہوس بدعت اور مہم جوئی انھیں کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتی، نئی دنیاؤں کی تلاش انھیں کہاں تک لے جائے گی؟ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، تاریخ گواہ ہے کہ صاف ستھری شریعت انھیں کبھی راس نہیں آئی، اسی لیے ان کی بھٹکتی ہوئی روح صرف بزرگوں کی قبروں پر نہیں بلکہ حیوانات کے آستانوں پر بھی سجدہ ریز ہوئی ہے۔
منزل پہ جب نہ ہو سکی تسکین جستجو
گمراہیوں کو حاصل ایماں سمجھ لیا

عقل و ذہن کی نارسائی
نبی کی ولادت باسعادت یقینا ایک پر مسرت موقع تھی لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم آپ صلی اللہ کی بعثت تھی، یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جابجا آپ کی بعثت کو اجاگر کیا ہے،
اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن میں کہیں بھی نبی کی پیدائش کو بطور احسان نہیں ذکر کیا بلکہ آپ کی بعثت و نبوت کو بطور احسان ذکر کیا ہے، سچ بھی یہی ہے کہ انسانیت کو دین اسلام کی جو نعمت ملی وہ نبی کی بعثت سے ملی، کائنات میں ایمان و توحید کی جو باد بہاری آئی آپ کی بعثت و نبوت کے نتیجے میں آئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿سورة آل عمران ۱۶۴﴾

ترجمہ: بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالٰی کا بڑا احسان ہے کہ انہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سُناتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سِکھاتا ہے، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھُلی گُمراہی میں تھے۔
یہ واضح اور کھلی ہوئی حقیقت نگاہوں سے اوجھل ہے، لیکن بریلوی خورد بین جب اپنے باطل عقائد کے ثبوت کے لیے دلائل کی تلاش میں نکلتی ہے تو ایسی نکتہ آفرینیاں کرتی ہے کہ اچھے بھلے چکرا جائیں، ایسی موشگافیاں چھیڑتی ہے کہ عقل و منطق کے ماتھے پر پسینہ آجائے، مگر اپنے عقائد کا واضح رد ان کور چشموں کو قرآن و سنت کے طول و عرض میں کہیں دکھائی نہیں دیتا، بس تاویلات و تحریفات کے سہاروں اور ضعاف موضوعات کے کناروں سے لگے بیٹھے ہیں۔
ہم کریں بات دلیلوں سےتو رد ہوتی ہے
ان کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے

عید میلاد یہودی فکر کا شاخسانہ
اسلام کے اعلان تکمیل کے بعد تو اسلام‌ میں کسی ادنی عمل کی بھی گنجائش نہیں تھی لیکن بریلویوں کے ہاتھوں اسلام کے لیے ایک ایسی عید مقدر تھی جو اپنے جلو میں خرافات کا ایک جنگل لے کر آرہی تھی، اس فتنۃ عظیمہ کا مشق ستم نبی کی ولادت کو بننا تھا، اگر نبی کی ولادت کسی عید کی متقاضی تھی تو اسلامی تاریخ میں ایسے شاندار حوالوں کی کمی نہ تھی جن سے دین میں عیدوں کی ایک قطار لگ جاتی۔
تفسیر کی کتابوں میں منقول ہے کہ ایک یہودی نے فاروق اعظم سے کہا: عمر! قرآن میں ایک ایسی آیت ہے کہ وہ اگر توریت میں ہوتی تو ہم اس کے یوم‌ نزول کو عید کا دن بنا لیتے، فاروق اعظم نے پوچھا کون سی آیت؟ اس نے کہا:

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ ﴿سورة المائدة ۳﴾

ترجمه: آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمھارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ (مائدہ: آیت 3)

غور کیجیے، عیدسازی یہودی ذہن کی اپج تھی جس کا اظہار فاروق اعظم سے کیا گیا تھا لیکن سلف کی نگاہ دوررس فتنوں کی آہٹ کو محسوس کرلیا کرتی تھی، فرمایا: اللہ کی قسم! میں اُس دن کو خوب جانتا ہوں جس میں یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، جس گھڑی میں وہ نازل ہوئی، اُسے بھی جانتا ہوں۔ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جمعہ کے دن یوم عرفہ کو نازل ہوئی، لہذا وہ جگہ بھی افضل تھی اور وہ دن بھی افضل تھا۔
وہ تو یہودی تھا جو شریعت کی منشا کو سمجھ گیا اور جان گیا کہ وفات رسول کے بعد اب دین رسول اس کی متحمل نہیں ہوسکتی لیکن آج دلائل اور براہین کا پورا قلعہ اپنی تمام تر عظمتوں کے باوجود فرقۂ بریلویت کے سامنے بے بس ہے، ہر حوالہ پایۂ حقارت سے ٹھکرایا جارہا ہے، تنکوں کے سہارے ایسی ‘عید’ کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
محمد ایوب خان

ماشاءاللہ۔
جزاکم اللہ خیراً۔
بالکل موزون اور مبنی بر حقیقت تحریر ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ کاتب ، ناشر اور ہر پڑھنے والے کو اس سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے

محمد ریاض سلفی

ماشاءاللہ بہت خوب اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے