بابری مسجد مقدمے کا فیصلہ (مضمرات واضطرابات)

رفیق احمد رئیس سلفی

آخر کار وطن عزیز کی عدالت عظمی نے 9 نومبر 2019 کو بابری مسجد کے اس مقدمے کا فیصلہ سنادیا جو برسوں سے معلق تھا اور جس نے ملک کی مذہبی رواداری اور آپسی بھائی چارہ کو متاثر کیے رکھا تھا۔ فیصلے کا خلاصہ یہ سامنے آیا کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کیا جائے گا اور مسجد کے لیے اجودھیا ہی میں الگ سے پانچ ایکڑ زمین دی جائے گی جس پر مسلمان چاہیں تو مسجد تعمیر کرلیں۔ یہ فیصلہ ملک کی عدالت عظمی کا ہے جس کا احترام کرنا ہر ایک شہری کی ذمہ داری ہے، ہمارا آئین ہمیں اسی بات کی تلقین کرتا ہے۔ اس فیصلے کے بعد ملا جلا عوامی رد عمل سامنے آرہا ہے۔ ملک سے باہر بھی اس موضوع پر گفتگو ہورہی ہے اور ملک کے اندر بھی۔ کچھ لوگ اسے ایک تاریخی فیصلہ قرار دے رہے ہیں اور عدالت عظمی کے شکر گزار ہیں کہ اس کے پانچ فاضل اور قابل احترام ججوں نے برسوں سے الجھے ایک بڑے مقدمے کا فیصلہ کرکے ملک کی عوام کو راحت دی ہے اور یہاں کی گنگا جمنی تہذیب اور مذہبی رواداری کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ سنایا ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ملک کے کئی ایک سابق جج صاحبان نے اس فیصلے پر اپنی بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ فیصلے میں ملک کے آئین اور قانون کا لحاظ کم لیکن اکثریت کے جذبات کا خیال زیادہ رکھا گیا ہے اور ملک کے اسی بڑے طبقے کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور ملت کے دوسرے قائدین اور رہنماؤں نے بھی کہا ہے کہ عدالت عظمی اور اس کے فیصلے کا ہم احترام کرتے ہیں لیکن عدالت عظمی ہی نے ہمیں یہ حق اور اختیار دیا ہے کہ کسی فیصلے سے اگر کسی فریق کو اطمینان نہ ہو تو وہ نظر ثانی کی درخواست کرسکتا ہے اور عدالت عظمی کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ بابری مسجد کے مقدمے سے راست تعلق رکھنے والوں نے کافی غور وخوض کے بعد فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کے لیے پٹیشن داخل کردی ہے۔ یہ ایک دستوری قدم ہے جو مسلم قیادت نے اٹھایا ہے۔ امید ہے کہ نظر ثانی کرنے والے محترم جج صاحبان مسلمانوں کے خدشات اور اضطرابات کا ازالہ فرمائیں گے۔

ملی مسائل میں بھانت بھانت کی آوازیں
ملت کے وہ تمام مسائل جن سے ملت کا ہر فرد متاثر ہوتا ہے اور جن سے ہر فرد کا تعلق ہے، ان کے سلسلے میں غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے اول تو اجتناب کرنا چاہیے اور اگر کچھ بولنا ہی پڑے تو سوچ سمجھ کر زبان کھولنی چاہیے۔ سوشل میڈیا پر جس طرح کی بولیاں سنائی دیتی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ نہ ہم ملک کی تاریخ کو جانتے ہیں، نہ اپنے آئین کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور نہ اس فیصلے کے دور رس اثرات ونتائج پر ہماری نظر ہے۔غیر ذمہ دارانہ باتیں ملک کی عام فضا کو متاثر کرتی ہیں اور جذبات بھڑکتے ہیں۔ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ جذبات پر قابو رکھیں، مذہبی بھائی چارہ بنائے رکھیں اور طیش میں آکر کوئی ایسی بات نہ کہیں جس سے ملک وملت کا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
فیصلہ کے تعلق سے جو خیالات سامنے آرہے ہیں، ان کو سامنے رکھا جائے تو کچھ لوگ یہ فرمارہے ہیں کہ مسلمانوں کو پانچ ایکڑ زمین لے کر اس پر تعلیمی ادارہ یا اسپتال بنادینا چاہیے تاکہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کا بھی بھلا ہو اور ملک کے لوگوں تک یہ پیغام پہنچے کہ مسلمان کتنے دور اندیش اور ملک کے خیر خواہ ہیں اور کس درجہ کی مذہبی رواداری اور فراخ دلی ان کے اندر پائی جاتی ہے۔ مسجدیں تو بہت ہیں، ان میں نماز پڑھنے والے ہی نہیں ہیں تو مزید ایک بڑی مسجد تعمیر کرنے کا حاصل کیا ہے۔
کوئی صاحب یہ فرمارہے تھے کہ اب اس ملک میں مسلمانوں کو انصاف نہیں مل سکتا۔ بابری مسجد کا مقدمہ عالمی عدالت میں لے جانا چاہیے اور وہاں کے جج صاحبان کے سامنے اپنے موقف کو مضبوطی کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس سلسلے میں ہمارے ملک کا آئین کیا کہتا ہے اور کیا ایسا کرکے ہم ملک میں بسنے والے سیکولر ذہن کو مطمئن کرپائیں گے جو آج بھی ہمارے حق کی وکالت کررہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے سے مسلمانوں کو صدمہ پہنچا ہے اور وہ دکھی ہیں۔ جمہوریت میں اس طرح کا اقدام حد درجہ نازک ہے اور ملک کی عوام کا اعتماد کھوکر ہم کچھ حاصل کرنے کے بجائے بہت کچھ کھو بھی سکتے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے ماہرین کی آراء اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کرسکتی ہیں اور اس کے نفع ونقصان کا میزانیہ سامنے آسکتا ہے۔ ملک کی عدالت عظمی ہی تو وہ ادارہ ہے جہاں سے انصاف ملتا ہے، ہمارا اعتماد اس سے کسی بھی حال میں کمزور نہیں ہونا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر اس طرح کا بیان وائرل ہورہا ہے، میں نہیں جانتا کہ اس قسم کی باتیں کرنے والے حضرات کون ہیں؟ اور کیا ملت ان پر اعتماد کرسکتی ہے؟
بعض حضرات نے مسلمانوں کو یہ نصیحت کی ہے کہ تمھارا غم اور اضطراب تمھاری اپنی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے لہذا اپنے اعمال درست کرو، اللہ کی طرف لوٹ آؤ، اپنی مسجدوں کو آباد کرو، اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور جو فیصلہ ہوگیا ہے، اسے تسلیم کرتے ہوئے صبر کرو اور زندگی میں آگے بڑھو تاکہ ملک سے فتنہ وفساد ختم ہوجائے۔ زہد وتقوی کی زندگی ہماری مشکلات کو حل کرسکتی ہے۔ یہ ایک دائمی نصیحت ہے، اس سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے لیکن اگر اس سے یہ مراد ہے کہ تمھیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تدابیر اختیار کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے، اکثریت کے درمیان رہتے ہوئے ایک اقلیت کو اس طرح کے دکھ جھیلنے ہی پڑتے ہیں، تو اس سے دین اسلام کی صحیح سمجھ رکھنے والے اتفاق نہیں کرسکتے، اسی طرح یہ طرز فکر ان لوگوں کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا جو وطن عزیز کی جمہوریت اور اس کے آئین کو بھلی بھانت جانتے ہیں۔
اسلام کے بنیادی فرائض کی تعمیل میں کسے شبہ ہوسکتا ہے اور اسی طرح ہمیں یقین ہے کہ اللہ سے تعلق مضبوط کرنے سے ایک مسلمان کو قلبی سکون میسر آتا ہے لیکن شاید ان بزرگوں کو یاد نہیں کہ نبی محترم کی دس سالہ مدنی زندگی کس حال میں گزری ہے اور ایک ایسی مقدس جماعت پر کیا کیا قیامت ٹوٹی ہے جو پوری انسانی تاریخ میں اللہ کی سب سے زیادہ عبادت کرنے والی تھی۔ مستجاب الدعوات نبی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جو جدوجہد کی ہے اور جس سیاسی بصیرت کا استعمال کیا ہے، اگر اسے ہم سمجھ لیں تو حالیہ فیصلہ کے تناظر میں اس قسم کی باتیں ہماری زبان سے کبھی نہیں نکلیں گی۔ دعا اور صبر دونوں ہی ہمت عطا کرتے ہیں، ان سے نہ دون ہمتی پیدا ہوتی ہے اور نہ حوصلے پست ہوتے ہیں۔
مسائل کو شریعت کے بتائے طریقے کے مطابق حل کرنے اور اس کے لیے مناسب تدبیر اختیار کرنے کی بجائے کرامات اور چمتکاروں کے سہارے زندگی نہیں گزاری جاسکتی اور نہ اسلام کی یہ تعلیم ہے۔ ختم قرآن، ختم بخاری اور ختم خواجگان سے اس دنیا کے مسائل حل نہیں کیے جاسکتے جس کے لیے اللہ نے ایک نظام بنادیا ہے۔ایسا کوئی جادو اور رقیہ نہیں ہے جسے پھونک دیا جائے تو روٹی کا نوالہ خود بخود منہ میں پہنچ جائے۔ اس کے لیے زمین میں ہل چلاکر گیہوں کا بیج ڈالنا ہوگا، فصل کی دیکھ بھال کرنی ہوگی، فصل پک کر تیار ہوجائے تو دانے الگ کرکے ان کو چکی میں پیس کر آٹا بنانا ہوگا۔ پھر اسے گوندھ کر روٹی بنانا ہوگی اور پھر لقمہ بناکر اسے منہ تک پہنچانا ہوگا۔ اللہ کا یہی وہ قانون ہے جسے ہم فطری قانون کہتے ہیں۔ جو قومیں اس قانون کے مطابق عمل نہیں کرپاتیں، وہ طلسمات کا سہارا لے کر اپنے دل ودماغ کو پرسکون بنانا چاہتی ہیں لیکن کیا اس طرح کی غیر شرعی اور غیر اسلامی سعی وجہد سے مسائل حیات حل کیے جاسکتے ہیں اور سکون میسر آسکتا ہے۔ نمازوں، دعاؤں اور ذکر الٰہی سے بلاشبہ دل کو تقویت ملتی ہے، لیکن تدابیر اختیار کیے اور وسائل کو کام میں لائے بغیر اللہ کی سنت کے مطابق یہاں کچھ نہیں ہوتا۔ ملک کے سیاسی منظر نامے سے جو کچھ سمجھ میں آرہا ہے، اس کے لیے مضبوط حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ انابت الی اللہ بھی جاری رہنی چاہیے۔اللہ سے مضبوط رشتہ ہمیں صحیح راستہ بھی دکھائے گا اور ہم کامیاب تدابیر بھی اختیار کرسکیں گے۔
1857 کے بعد ایسی ہی کچھ صورت حال پیدا ہوئی تھی، مایوسی کے شکار مسلمانوں نے بے چارگی کا لبادہ اوڑھ کر محض دعا کو اپنا تکیہ بنالیا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ہماری دعائیں عرش الٰہی سے ٹکرائیں گی، اللہ رب العزت کو جلال آئے گا اور حریف خاک وخون میں مل کر تباہ وبرباد ہوجائے گا۔
ہمیں معلوم ہے کہ اس نازک دور میں بعض مخلصین ملت نے افراد ملت کو مایوسی کے دلدل سے باہر نکالا اور اسلام میں دعا کے تصور کی صحیح تفہیم کرائی، اسباب و وسائل مہیا کرنے کی ترغیب دی اور وقت کے تقاضوں کے مطابق تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ کیا۔ توحید کی داعی امت کو کس طرح اندھیروں میں گم کیا گیا ہے، اس کا ایک نمونہ ہمیں مولانا محمد عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ کے مقدمہ تحفۃ الاحوذی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ طوفان میں گھری کشتی کے سوار ختم بخاری کرکے مصیبت سے نجات پاگئے اور کشتی بہ خیریت ساحل بہ کنار ہوگئی۔ طاہر القادری نے سلفی عالم مولانا مبارک پوری کے حوالے سے استدلال کیا ہے کہ جب نبی محترم کے کلام کی یہ برکت ہے تو اندازہ کیجیے کہ صاحب کلام کی ذات کی برکت کا کیا عالم ہوگا۔ موئے مبارک اور نعلین مبارک کی زیارت اور ان کی برکتوں کا ملت میں کس قدر چرچا ہے، اس کو یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب دنیا کی محبت غالب آجاتی ہے اورعیش وعشرت کی زندگی دل کو بھاجاتی ہے تو قوموں اور ملتوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج ہمارے اوپر طاری ہے۔ اسلام نہ کوئی جادو ہے اور نہ چھومنتر سے اس کا کوئی کام چلتا ہے، توحید کے صاف ستھرے اور سادہ عقیدہ کے خلاف اس قسم کے گورکھ دھندوں سے افراد ملت کو باہر نکالنا ہماری بنیادی ضرورت ہے۔

مولانا اصغر علی امام مہدی کا بیان
ڈھائی تین کروڑ اہل حدیثوں کے ترجمان اور اس کی تنظیم ”مرکزی جمعیۃ اہل حدیث ہند“ کے امیر محترم نے بابری مسجد کے مقدمے کے فیصلہ پر جو کچھ فرمایا ہے، اسے سن کر ہر شخص محوحیرت ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنے اور غیر جس طرح کے خیالات ظاہر کررہے ہیں اور جس طرح کے تبصرے کیے جارہے ہیں، ان سے اہل حدیثان ہند سخت اضطراب میں مبتلا ہیں۔ امیر محترم کا خیال ہے کہ اتنے بڑے اور پیچیدہ مقدمے کا فیصلہ کرکے ہندوستان نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ دنیا کا باپ ہے۔ یہ ارشاد اگر ذومعنی ہے تو ہم اسے تقیہ پر محمول کرسکتے ہیں لیکن اگر اس کا مفہوم وہی ہے جو الفاظ سے ظاہر ہورہا ہے تو برادر گرامی کو ذرا سوچنا چاہیے کہ انھوں نے کیا کہہ دیا اور اس سے وہ کیا بتانا چاہتے ہیں۔ اگر ان کا خیال یہ ہے کہ اس فیصلے کو مسلمانوں کے ذریعے تسلیم کرلیے جانے کے بعد اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سرگرمیاں بند ہوجائیں گی، مسلمان عزت وآبرو کے ساتھ اس ملک میں زندگی گزار سکیں گے اور آیندہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ نہیں کیا جائے گا تو یہ صحرا میں سراب کو پانی سمجھنے کے مترادف ہے۔ بہت ممکن ہے کہ امیر محترم کی نیت ٹھیک ہو اور یہی کچھ سوچ کر انھوں نے ایک ایسا تاریخی جملہ کہہ دیا ہے جو اس مقدمے کی طرح ہمیشہ کے لیے ملک کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا اور اسے اہل حدیثان ہند کا موقف قرار دیا جائے گا۔ برادر عزیز کو یہ کیوں یاد نہیں رہتا کہ اب وہ مولانا اصغر علی امام مہدی نہیں بلکہ تین کروڑ اہل حدیثوں کی تنظیم کے امیر ہیں، اپنی شوری اور عاملہ کو اعتماد میں لیے بغیر ملت کے حساس مسائل میں زبان کھولنا ایک غیر دستوری عمل ہے۔ انھیں جلد از جلد جماعت پر لگے اس داغ کو یہ بیان دے کر دھو دینا چاہیے کہ یہ موقف جماعت اہل حدیث کا نہیں بلکہ ان کا ذاتی نقطہ نظر ہے اور وہ ایک جمہوری ملک میں اظہار رائے کی آزادی کا حق رکھتے ہیں۔ اراکین عاملہ اور شوری کی ذمہ داری ہے کہ ایک متفقہ بیان جاری کرکے جماعت کی تصویر صاف کردیں اور اگر خدانخواستہ ان کا بھی یہی موقف ہے تو پھر اس کی بھی وضاحت ہوجائے تاکہ افراد جماعت کا اضطراب اور ان کی بے چینی دور ہوسکے۔

قیادت اور قائد کی کمزوریاں
قیادت اور قائد دونوں اسلام کی نظر میں حددرجہ محترم ہیں۔ برسوں کی محنت کے بعد قیادت وجود میں آتی ہے اور سالوں جدوجہد کرنے کے بعد کوئی قائد بنتا ہے۔ قائد اور قیادت دونوں کو حوصلہ ملتا ہے اپنی عوام سے۔ اگر اسے ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو کہ ہمارے ہر فیصلے پر ہزاروں اور لاکھوں عوام پشت پر موجود ہے تو وہ سمندر کا سینہ چیر سکتی ہے اور پہاڑوں سے ٹکرا سکتی ہے، اس کے برعکس اگر اسے یہ ڈر ہو کہ وہ کسی بھی فیصلہ کے بعد میدان کارزار میں تنہا کھڑی رہ جائے گی تو وہ اولا کوئی قدم ہی نہیں اٹھائے گی اور اگر اٹھائے گی بھی تو اپنے سود وزیاں کا حساب کتاب کرنے کے بعد۔ زوال یافتہ اور شکست خوردہ قومیں ہمیشہ مضبوط قیادت سے محروم رہتی ہیں، انھیں کوئی ایسا قائد میسر نہیں آتا جس کی نگاہوں میں بلندی ہو، سخن میں دل نوازی ہو اور جو جان پرسوز کی دولت سے سرفراز ہو۔ ہمارا ہر میر کارواں اس نعمت سے آج محروم دکھائی دیتا ہے۔ اس کے اسباب کا ہمیں تجزیہ کرنا چاہیے اور افراد ملت میں صالح اجتماعیت کی روح پھونکنی چاہیے تاکہ ان کے درمیان سے ایک صالح اور مضبوط قیادت ابھر سکے۔
قیادت اور قائد کو مضمحل اور کمزور بنانے والی دو چیزیں بالکل واضح ہیں۔ ایک وجہ اس کے ارد گرد مفاد پرستوں کا جمگھٹا ہے جو تملق اور چاپلوسی کی تمام حدیں پار کرکے نفس کو موٹا کرتا اور اپنے ذاتی فائدوں کے لیے ظل الٰہی کے حضور ایک درباری کا کردار ادا کرتا ہے۔ قیادت برحق اور قائد کی ذات سراپا برکت ہے، اس کے نغمے گائے جاتے ہیں اور بولنے اور چلنے کی نعمت سے محروم قیادت بھی طول طویل عرصے تک ہمارے سروں پر مسلط رہتی ہے۔ علی گڑھ میں ایک بڑی مسجد کے متولی معذور ہوکر گھر میں چارپائی پر پڑگئے، مسجد کا سارا نظام تہہ وبالا ہونے لگا، مسجد کے چند مخلص نمازیوں نے ان کے گھر جاکر درخواست کی کہ آپ مسجد کی ذمہ داری کسی دوسرے کے سپرد کردیں تو انھوں نے لمبی آہ سرد کھینچی اور فرمایا: بھائیو! اس بابرکت منصب سے مجھے کیوں محروم کررہے ہو، کیا تم مجھے زندگی کی آخری سانس تک مسجد کی خدمت کرنے کا موقع نہیں دے سکتے کہ میں بارگاہ الٰہی میں سرخرو ہوسکوں۔
یہی تصویر ہے ہماری قیادت کی اور برکت کا یہی غیر اسلامی تصور ہے جو ہمیں قیادت اور قائد کی اطاعت کی اس بڑی نعمت سے محروم کیے ہوئے ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد فرض کا درجہ دیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی جس آیت کی طرف یہاں اشارہ کیا جارہا ہے، اس میں امر کا پہلو بھی ہے اور نہی کا پہلو بھی۔ مسلکوں میں منقسم ملت کی مسلکی ضرورتوں نے اس کے نہی والے پہلو کو اس قدر ہائی لائٹ کیا ہے کہ اب امر والے پہلو کا خیال بھی نہیں آتا۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے بہت سے ہم درد اور بہی خواہ اس بات پر چراغ پا ہوکر آستین چڑھالیں گے لیکن ملت اسلامیہ ہند کی زبوں حالی، اس کی بے چارگی اور اس کو دی جانے والی ذہنی اذیت پر جب آپ رات کی تنہائی میں غور کریں گے تو شاید آپ کے دل سے بھی وہی آواز نکلے جو اس مضمون کو لکھتے ہوئے میرے دل سے نکل رہی ہے۔ یاد رکھیں: صالح اجتماعت اور مستحکم قیادت کے بغیر ہماری مشکلات دور نہیں ہوسکتی ہیں۔ خاک ڈالیے اخوانیوں اور تحریکیوں کی سیاست اور ان کے فکر وفلسفہ پر، وقت آگیا ہے کہ دنیا یہ جانے کہ منہج سلف کے پاسبان اپنے ملک اور عالمی سطح پر ابھرنے والے سیاسی مسائل کے سلسلے میں کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں اور مسلم امہ کی کمزوری اور بے چارگی کو دور کرنے کا کیا طریقہ کار زیر عمل لایا جاسکتا ہے۔ مصطفی کمال نے جس ردائے خلافت کو تار تار کردیا تھا، اس کو امت کے لیے دوبارہ کیسے سلا جاسکتا ہے کہ اس کے سایہ تلے انسانیت کو اپنے تحفظ کا احساس ہو۔ اسلام میں اگر سیاست ہے تو اس کی روپ ریکھا تیار کرنا ہماری منہجی ذمہ داری ہے تاکہ غلط فکر وعقیدہ کے حامل افراد اسلامی سیاست کے نام پر کوئی ایسا کھیل نہ کھیل سکیں جو نصوص کتاب وسنت اور سلف صالحین کے منج مستقیم سے ہٹا ہوا ہو۔
قیادت اور قائد کی کمزوری کی دوسری وجہ آلائش دنیا ہے۔ قانونی اور غیر قانونی کا فرق وامتیاز کیے بغیر جو کچھ ہم اپنے آس پاس جمع کرچکے ہوتے ہیں اور توکل کی نعمت سے خود کو محروم کرکے شیطان ہمیں جو یہ یقین دلاچکا ہوتا ہے کہ ایک حد سے اگر آگے بڑھے تو دنیا کی ان تمام ”نعمتوں“ کے بارے میں سوال کیا جاسکتا ہے۔بڑی محنت سے یہ باغ ارم سرسبز ہوا ہے اور نوع بہ نوع پھلوں سے اس کی شاخیں آج جھکی پڑی ہیں، کہیں تمھارے کسی قدم سے باد صرصر نہ چل پڑے کہ سب کچھ جل کر راکھ ہوجائے۔ شیطان طرح طرح کے اندیشے سامنے لاتا ہے، الٹی سیدھی تاویلات سجھاتا ہے اور پھر تھپکیاں دے کر خواب خرگوش میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس متن کی تشریح طویل ہوسکتی ہے لیکن شاید ارباب بصیرت کے لیے صرف یہی متن کافی ہو۔ یہ بیماری آخرت سے بے نیازی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور دنیا کو اپنی آخری منزل یقین کرلینے کے بعد یہ صورت حال سامنے آتی ہے۔ نبی محترم کی سیرت میں ہم یہ واقعہ پڑھتے ہیں کہ ایک دوپہر جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کسی ضروری کام سے نبی اکرم ﷺ سے ملنے آئے۔آپ ﷺ ننگی پشت کے ساتھ استراحت فرمارہے تھے،واسی حال میں باہر آگئے۔ پشت مبارک پر چٹائی کے نشانات دیکھ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آبدیدہ ہوگئے، نبی محترم نے وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے کہ قیصر وکسری کتنے نرم وگداز بستر کام میں لاتے ہیں، اب تو بیت المال میں فراوانی ہے، ایک نرم بستر آپ بھی اپنے لیے بنوالیں۔نبی محترم نے جواب دیا: عمر! کیا اسی دنیا میں سب کچھ حاصل کرلوں، پھر آخرت میں کیا ملے گا۔ کاش سنت نبوی اور سیرت نبوی کو مسلکی عینک سے دیکھ دیکھ کر اپنی ترجیحات کی تعیین ہم نے نہ کی ہوتی اور اتباع رسول کا صحیح اسلامی اور جامع تصور پیش کیا ہوتا تو شاید اپنی عوام کو بھی قیادت اور قائد کی منصبی ذمہ داریاں سمجھا سکتے اور بے اعتدالی کی صورت میں اس کا احتساب کرسکتے۔ امیر، امارت، قائد اور قیادت کی تفہیم نہ ہونے کے نتیجے میں جاہل عوام اور ذاتی مفادات کے غلام قیادت اور امارت کو خودسر بناکر جوہڑ میں ڈبودیتے ہیں۔ واللہ المستعان

عدالت عظمی کے فیصلے پر ایک نظر
فیصلے کی تفصیلات کا مجھے زیادہ علم نہیں ہے لیکن سوشل میڈیا سے جو باتیں سامنے آرہی ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ قانون کے کئی ایک ماہرین نے فاضل ججوں کے کئی ایک بیانات کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ مثلاً بابری مسجد کے اندر مورتیوں کا رکھا جانا ایک غیر قانونی عمل تھا، اسی طرح مسجد کی مسماری سنگین جرم کے زمرے میں آتی ہے، مسجد کی زمین کی کھدائی سے آثار قدیمہ کے جو ثبوت ہاتھ آئے ہیں، ان میں سے بعض بدھ مت کی عبادت گاہ کا پتا دیتے ہیں، کھدائی سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کسی مندر کو توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ یہ انکشافات ہمیں چونکادیتے ہیں اور ہم یہ سوچنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں کہ پھر مسلمان صدیوں پرانی اپنی مسجد سے کیوں محروم کردیے گئے؟ اگر صرف آستھا بنیاد بنی اور ملک کی اکثریت کے جذبات کی تسکین کا سامان فراہم کیا گیا تو پھر آیندہ کیا ہوگا۔ کیا اسی طرح تین ہزار مساجد کے ساتھ بھی کیا جائے گا جن کے بارے میں دعوی کیا جارہا ہے کہ وہ مندر توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ کیا اس مقدمے کا فیصلہ آیندہ کے تمام مقدمات کے لیے ایک نظیر بنے گا اور اسی طرح ملک کی اکثریت مسجدوں کو منہدم کرکے اپنا دعوی ثابت کرکے ان پر مندر تعمیر کرتی جائے گی۔ آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کے اس بیان پر کتنا بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ اب ہماری تنظیم رام مندر جیسے کسی آندولن میں حصہ نہیں لے گی۔ ہمیں یاد ہے کہ عدالت عظمی میں بھی یہ حلف نامہ داخل کیا گیا تھا کہ بابری مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا لیکن اس کے باوجود مسجد شہید کردی گئی۔
جس ملک کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہو اور جس پر کئی ایک تہذیبیں عروج وزوال سے دوچار ہوئی ہوں، اس میں جہاں بھی کوئی کھدائی کی جائے گی، کچھ نہ کچھ ضرور نکلے گا۔ پھر آزادی کے بعد ہمارے ملک کی اولین قیادت نے جو دستور بنایا، جس میں تمام مذاہب اور ان کے شعائر کا احترام کرنے کی بات کہی گئی، جس میں ملک کے ہر شہری کو مذہب اور ذات پات کی تفریق کیے بغیر یکساں حقوق دیے گئے، اس کی حفاظت ہم کیسے کرسکیں گے؟ ملک کے باشندوں کے درمیان پیدا ہونے والے تمام تنازعات آزادی کے بعد ترتیب دیے جانے والے دستور کے مطابق حل کیے جائیں گے یا دیومالائی کہانیوں اور تاریخ کے غیر مستند وغیر مصدقہ واقعات کی بنیاد پر حل کیے جائیں گے جن کا کوئی تعلق موجودہ عوام سے نہیں ہے۔
مسلمانوں کے اسی طرح کے کئی ایک خدشات اور اشکالات ہیں، جن کو دور کیے جانے کے وہ خواہش مند ہیں۔ کاش نظر ثانی کے بعد ایک ایسا فیصلہ آئے جو مسلمانوں کے ان خدشات کو دور کرسکے اور ملک میں مذہبی رواداری کی ایک ایسی فضا پیدا ہو جس میں ہم مذہب کی تفریق کیے بغیر ہر ایک کی جان، مال، عزت وآبرو کا احترام کرسکیں۔
اسی نظر ثانی سے ہمیں یہ بھی توقع ہے کہ جن لوگوں نے مسجد مسمار کی ان کو سزا بھی ملے گی۔ عدالت عظمی کا ہم احترام کرتے ہیں اور اس پر ہمیں بھرپور اعتماد ہے کہ جس طرح اس نے حالیہ فیصلہ میں انہدام مسجد کو ایک غیر قانونی عمل قرار دیا ہے، تو وہ اس کے ذمہ داروں کے تعلق سے بھی کوئی فیصلہ صادر کرے گی۔ اس سے عالمی سطح پر ایک پیغام بھی جائے گا کہ ہمارے ملک میں کسی کے ساتھ کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا جاتا اور تمام شہریوں کو ایک نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ملک دشمن عناصر ہمارے ملک کی شبیہ خراب کرنے میں کوشاں ہیں، ظاہر ہے کہ ان کو کامیابی تو نہیں ملے گی لیکن اس سلسلے میں ہماری جمہوریت کی جو ذمہ داریاں ہیں، ان کو اسے لازمی طور پر ادا کرنا ہوگا۔
جس مسلم قیادت نے بابری مسجد کا مقدمہ لڑا ہے، اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آیندہ کے کسی اقدام کا فیصلہ لے۔ ہم اپنے دیگر مسلمان بھائیوں سے یہ درخواست کرنے میں حق بہ جانب ہیں کہ ہر ایک اپنی اپنی رائے سے سوشل میڈیا کو گراں بار نہ بنائے اور اپنی غیر ذمہ دارانہ باتوں سے ملک کی فضا کو مسموم نہ کرے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس سلسلے میں جو کچھ کرنا ہے، ہماری قیادت ہی کو کرنا ہے، پھر بلاوجہ کی بیان بازی کا حاصل کیا ہے۔ اگر واقعی ہم مخلص ہیں تو اپنی قیادت کو اپنے مفید مشوروں سے نواز سکتے ہیں۔ قیادت کا احترام اور قیادت پر اعتماد ہماری دینی واخلاقی ذمہ داری ہے اور اسی میں ہماری کامیابی کا راز مضمر ہے۔ جماعت اہل حدیث کی قیادت بابری مسجد کے مقدمے میں ابتدا ہی سے ملی قیادت کے ساتھ رہی ہے اور اس قیادت کا موقف ہی جماعت اہل حدیث کا موقف رہا ہے۔ جماعت کا کوئی فرد اگر کوئی دوسرا موقف رکھتا ہے تو یہ اس کا ذاتی موقف ہوگا، ہماری تنظیم کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مرکزی تنظیم کی مجلس شوری اور مجلس عاملہ سے درخواست ہے کہ وہ اس تعلق سے اپنی دستوری ذمہ داری پوری کرے تاکہ ملک میں جماعت اہل حدیث کے تعلق سے جو باتیں کہی جارہی ہیں، ان کا سلسلہ تھم جائے اور جماعت کی پوزیشن اور اس کی تصویر حسب سابق صاف ستھری بنی رہے۔

آپ کے تبصرے

3000