ہندوستانی مسلمانوں کو تنہا لڑنا ہوگا

ریاض الدین مبارک سیاسیات

مواخات یعنی بھائی چارہ جس سے آپس میں اتحاد ویکجہتی پیدا ہوتی ہے، جس سے کسی قوم کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے اور اس مواخات کی یہ قوت دیکھ کر اغیار کے دلوں پر رعب ودہشت طاری ہوجاتی ہے!
مواخات یا اخوت اسلام کا بنیادی عنصر ہے، قرآن وحدیث میں اس کی مثالیں بے شمار ہیں اور مدینے میں ہجرت کے وقت انصار ومہاجرین کے مابین مواخات کے انمٹ نقوش رہتی دنیا تک کے لئے آئینہ ہیں!
افسوس! مسلمانوں نے اخوت کا یہ درس اجتماعی طور پر ریجیکٹ کردیا ہے تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ درس نا قابل عمل تھا اور اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا ہی درست تھا! بالکل نہیں!
مسلمانوں نے نہیں اپنایا تو کیا ہوا یہودیوں نے اسے سینے سے لگایا، اخوت کی فکر کو انہوں نے عملی جامہ عطا کیا، اسرائیل جیسے عظیم ملک کو جنم دے کر اخوت ومواخات کے حقیقی معانی کا اعلی نمونہ پیش کیا اور پوری ثبات قدمی کے ساتھ اب تک وہ اس پر قائم ہیں! اسرائیل دنیا کے کسی خطے میں بسنے والے یہودی کا حامی وناصر بنا ہوا ہے اور اگر وہ اسرائیل میں اقامت کے حصول کا متمنی ہے تو اس کے لئے اپنا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھتا ہے۔
یہودیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آر ایس ایس والے ہندوؤں نے بھی اخوت کا سبق پڑھا اور اسے ازبر یاد کرلیا۔ پانچ سال قبل مسند حکم پہ بیٹھتے ہی انہوں نے مواخات کے اصلی مفہوم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کمر کس لیا ہے! پچھلے دنوں آسام میں جو کچھ ہوا وہ انہیں ایک آنکھ نہ بھایا کیونکہ اس عمل میں ان کے بھائی برادران بھی پیس دئے گئے، سو انہوں نے پوری تیاری کے ساتھ CAA یعنی شہریت ترمیم ایکٹ بنایا اور اس کے نفاذ کے لئے ایک مہم شروع کردی! ان کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے بھائی بندھووں کو آپس میں جوڑ کر ہندوتوا جیسی اخوت کی لڑی میں پرو کر رکھیں اب وہ ہندو چاہے پاکستان کا ہو افغانستان کا ہو یا بنگلادیش کا ہو یا کوئی مجہول ہو!
اس کے برعکس مسلمانوں کو اس اخوت ومواخات کے لفظ سے اتنی چڑ ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کے امراء نے تو اپنے یہاں کام کاج کے لئے بھی غیر مسلموں کو ترجیح دینا شروع کردیا ہے! خدا کی اسی دنیا میں کئی مسلم ممالک ایسے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کا قتل عام کرنے والوں کو تمغۂ امتیاز سے سرفراز کیا ہے۔ انہی قاتلوں کی جلو میں چلتے ہوئے فخر محسوس کیا ہے! یہ امیر لوگ کبھی کبھی نادار مسلمانوں کی مالی اعانت کرکے سمجھتے ہیں انہوں نے حق ادا کردیا۔ یہ محض ان کے سوچ کی گراوٹ ہے۔ آج مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کو دیکھ کر دنیا کے کئی غیر مسلم اقوام بلبلا اٹھے اور وہاں کی حکومتوں نے مذمتی بیان دے کر اپنی ناراضگی کا برملا اظہار بھی کیا۔ لیکن کسی مسلم حکمراں کے ماتھے پہ بل تک نہیں آیا گویا کچھ ہوا ہی نہیں! شرم تم کو مگر نہیں آتی!
آر ایس ایس نے اپنے پڑوسی ممالک کے تمام ہندوؤں کو خوش آمدید کہا اور ان کی خاطر اپنے ہی دیس باسیوں سے دشمنی مول لے لی لیکن 57 مسلم ممالک اور لکژری ڈنر پر ہڈیاں نوچنے والی اسلامی تنظیم OIC نے مسلمانوں کے تئیں لب تک نہیں کھولا۔ ایک مذمتی بیان کی حد تک بھی سولیڈرٹی نہیں ظاہر کی! پھر بھی دعوی ہے مسلمانی کا! اقبال نے کہا تھا:
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہے سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
اقبال نے قوم مسلم کا یہ شکوہ تقریبا سو سال پیشتر کیا تھا لیکن یہ مسئلہ آج بھی تر وتازہ اور جوں کا توں باقی ہے۔
انگریزی عہد سے لے کر ماضی قریب تک اپنی تمامتر بے بضاعتی کے باوجود ہندی مسلمانوں نے اسلامی سولیڈرٹی اور مواخات کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ ترکی کی خلافت برقرار رکھنے اور اسے پائمال ہونے سے بچانے کے لئے اسی ممبئی شہر میں آج سے ٹھیک سو سال پہلے مسلمانان ہند نے آل انڈیا خلافت کمیٹی قائم کی! سعودی حکومت کے قیام کے وقت ہندی مسلمانوں نے حتی المقدور امداد فراہم کی اور بہت سارے ملی مسائل میں پورا تعاون کیا۔ مگر آج مصیبت کی گھڑی میں یہاں کے مسلمان گُہار لگا رہے ہیں اور سننے والا کوئی نہیں! سچ ہے لا حياة لمن تنادي! جسے تم پکار رہے ہو اس میں زندگی کی رمق ہی نہیں!
ہندوستانی مسلمانوں کو دوسروں سے نگاہیں پھیر کر تنہا لڑنا ہوگا؛ اپنے وجود کے لئے، اپنی وراثت کے لئے اور اپنے وطن عزیز کے لئے! یہ حقیقت سمجھنا ضروری ہے کہ سب کا اپنا ملک ہے اور اسی ملک کے لئے جینے مرنے کا عہد کرنا لازم ہے۔ اب ہجرتوں کا وہ دور نہیں رہا جہاں کچھ لوگ مواخات کی مثال بن کر انصار کہلائے۔

5
آپ کے تبصرے

3000
5 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
5 Comment authors
newest oldest most voted
ریاض الدین شاہد

بہت خوب صحیح فر مایا آپ نے
یہ ہندی مسلمانوں نے سب کے بہت کچھ مگر آج انہیں کوئ دیکھنے والا نہیں۔

ابوالمرجان

بہت اچھا..
یہی چل رہا ہے بلکہ پورے ہندوستانی مسلمانوں کے نام پر اکگ ملک لینے والے خود کو اسرائیل کا نظریاتی جواب کہنے والے دو سال بعد ہی سرحد ہندوستانی مسلمانوں پر بند کرلیتے ہیں

جبران احمد ضمیر احمد

بھت ریاض بھائی زندہ باد

Mohammad Taiyeb WALIULLAH

ماشاءاللہ بہت عمدہ تحریر ھے اپنی صفوں میں اتحاد کی ضرورت ہے مسلمانوں کے اتحاد اور یکجہتی ھی ظالم کی تباہی ھے

اختر جاوید

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے