ہمارے معاشرے میں خواتین پر ظلم کی مختلف شکلوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نکاح کے معاملہ میں لڑکی کی رضا اور اس کی پسند نا پسند کو اہمیت نہیں دی جاتی ، صورت حال یہ ہے کہ بیشتر گھرانوں میں نکاح ہوجانے تک اس کی کوئی فکر ہی نہیں ہوتی کہ لڑکی سے بھی اس کی رائے اور پسند معلوم کرلی جائے ، یاتو سرے سے لڑکی سے اس کی پسند ناپسند کے متعلق سوال ہی نہیں کیا جاتا ، یاسوال ایسے موقعے پر کیا جاتا ہے جب اس کے پاس انکار کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی ہے۔ مثلا شادی سے ایک دو دن پہلےجب شادی کی ساری تیاریاں مکمل ہوچکی ہوتی ہیں تو فارملیٹی پوری کرنے کےلیے لڑکی سے بھی اجازت لے لی جاتی ہے یا عین نکاح کی مجلس میں قاضی صاحب رجسٹر تھامے لڑکی سے نکاح قبول کرانے پہنچ جاتے ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ ایسے ماحول میں لڑکی سے ایجاب وقبول کی حیثیت محض ایک رسم کی ادائیگی سے زیادہ کی نہیں ہوتی کیونکہ کوئی شریف لڑکی ایسی حالت میں نکاح سے انکار کرنے کی ہمت نہیں کرسکتی ۔
عجیب بات یہ ہے کہ لڑکی کے نکاح کے معاملہ میں گھر کے تمام افراد کی رائے لی جاتی ہے، بھائی اور باپ سے لے کر بہنوئی تک کی پسند اور معیار کو اہمیت دی جاتی ہے ، اہمیت نہیں دی جاتی تو اس لڑکی کی رضا کو جس کو پوری زندگی اس شخص کے ساتھ بتانی ہے، گھر میں والدین یا دیگر سرپرستوں کی نظر میں ایک معیار ہوتا ہے اور سرپرستوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے طے کیے ہوئے معیارات سے لڑکی بھی راضی ہے یا نہیں ، آخر یہ ضروری تو نہیں کہ مال اور دولت اگر ماں باپ کی نظر میں معیار ہوتو لڑکی کی خواہش بھی مالدار شوہر ہی کی ہو، اگر ماں باپ کی نظر میں لڑکے کے حسین اور وجیہ ہونے کی کوئی اہمیت نہیں تو لڑکی کو بھی لڑکے کے بدصورت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، ماں باپ اگر ذات ، برادری اور علاقے کو اہمیت دینے والے ہیں تو لڑکی کی نظر میں بھی اس کی وقعت ہو، اولیاء کی نظر میں تعلیم اور دینداری کوئی معنیٰ نہ رکھتی ہوتو لڑکی کو بھی جاہل ، گنوار اور بےدین لڑکے کے ساتھ زندگی گذارنے میں کوئی دقت نہ ہو۔
شریعت نے نکاح کے معاملہ میں والد کو اور والد کی غیر موجودگی میں چچا اور بھائیوں کو لڑکی کا سرپرست بنایا ہے، سرپرست بنانے کا یہ مطلب نہیں کہ شریعت نے اولیاء کو لڑکیوں پر جبر کا اختیار دے دیاہے ، نکاح کے لیے جتنی ضروری لڑکے کی رضا ہے اتنا ہی ضروری ہے کہ لڑکی بھی اس نکاح سے راضی ہو، ولی کی رضا بلاشبہ نکاح کے صحیح ہونے کے لیے لازمی شرط ہے کیونکہ عمر کے جس مرحلہ میں لڑکی کی شادی ہوتی ہے وہ اپنے مستقبل کے بارے میں اچھے اور برے، مفید اور مضر کی تمیز کی بہت زیادہ صلاحیت نہیں رکھتی اور پردے کی پابندیوں کی وجہ سے سماج کے ساتھ اس کا انٹریکشن اتنا نہیں ہوتا کہ وہ خود اپنے لیے رشتہ تلاش کرسکے ، والد نے کیونکہ اس کو پال پوس کر بڑا کیا ہے اور دنیا میں اس کا سب سے بڑا خیرخواہ ہے اس لیے غالب گمان ہے کہ وہ نکاح کے لیے لڑکے کے انتخاب میں اپنی بچی کے مستقبل کے ساتھ ساتھ اس کی پسند نا پسند کا پورا خیال رکھے گا، لیکن اس کے باوجود نکاح میں قبول اور انکار کا اصل اختیار لڑکی کو حاصل ہے اور لڑکی کی رضا سرپرستوں کی رضا سے زیادہ اہم ہے ، اسی لیے اگر ولی نکاح کے معاملہ میں لڑکی پر جبر کرے تو وہ قاضی سے شکایت کرکے ولایت ساقط کرانے کے لیے مقدمہ دائر کرسکتی ہےلیکن اگر کوئی لڑکی کسی لڑکے سے نکاح کے لیے راضی نہ ہو تو دنیا کی کوئی عدالت اس کو نکاح کے لیےمجبور نہیں کرسکتی ، اللہ کے رسول ﷺ کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ جَارِیَۃً بِکْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صلی الله علیہ وسلم فَذَکَرَتْ لَہٗ أَنَّ أَبَاھَا زَوَّجَھَا وَھِيَ کَارِھَۃٌ ، فَخَیَّرَھَا النَّبِيُّ صلی الله علیہ وسلم.
حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح ایسے شخص سے کیا جس کو وہ پسند نہیں کرتی تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا( کہ وہ چاہے تو نکاح میں رہے یا علیٰحدہ ہوجائے ) (سنن ابن ماجہ:1875)
لڑکی کنواری ہو یا شوہر دیدہ، شریعت نے ہر حال میں اس کو یہ حق دیا ہے کہ اسکی زندگی کا ساتھی اس کی مرضی سے ہی چنا جائے گا، اس کی اجازت کے بغیر اولیاء کو اس کا نکاح کرنے کا کوئی حق نہیں :
عن ابی هريرة حدثهم ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:”لا تنكح الايم حتى تستأمر ولا تنكح البكر حتى تستاذن قالوا: يا رسول الله وكيف إذنها؟ قال: ان تسكت”.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری لڑکی کیسے اجازت دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کی اجازت سمجھی جائے گی۔(صحیح البخاری ،حدیث نمبر: 5136)
احادیث میں کنواری لڑکی کی خاموشی کو اس کی رضا کی علامت بتایا گیا ہے کیونکہ کنواری لڑکی باحیا ہوتی ہے ، اس کی حیا کھل کر اپنی پسند نا پسند کے اظہار سے اس کو روکتی ہے لیکن سرپرستوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ لڑکی کی خاموشی کا تجزیہ کریں کہ خاموشی کیا واقعتا اس کی رضا ہے یا اس کی بے بسی اور مجبوری۔
لڑکیوں پر جبر کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ گھر میں لڑکیاں جیسے ہی شادی کی عمر کو پہنچتی ہیں گھر والوں کی طرف سے اس طرح کا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ لڑکی محسوس کرنے لگتی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے سر پر ایسا بوجھ ہے جس نے ان کی کمر توڑ رکھی ہے ، رشتے کی تلاش میں پریشان والدین کے چہرے پر طاری بے بسی اور لاچاری اور ہر مرتبہ ریجیکٹ ہونے کے بعد ماں باپ کی فکرمندی لڑکی کے دل میں یہ احساس پیدا کردیتی ہے کہ کسی طرح سے اس کا بوجھ اس کے والدین کے کاندھوں سے اتر جائے پھر اس کو جس کے پلو باندھ دیا جائے گا وہ اس کے ساتھ ہی زندگی گذار لے گی، ان حالات میں اس کا سکوت نکاح سے اس کے راضی ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتا ، بلکہ اس نے خود کو حالات سے راضی کرلیا ہوتا ہے ۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر حالت میں لڑکی کی خاموشی اس کی رضا ہی کی دلیل نہیں ہوتی بلکہ بعض حالات میں اس کی خاموشی اس کی مجبوری ہوتی ہے ۔
کسی لڑکی کو جبرا ایک ایسے شخص کے ساتھ زندگی گذارنے پر مجبور کرنا جس کو وہ دل سے پسند نہ کرتی ہوخود ایک بہت بڑا ظلم اور نا انصافی ہے، بلاشبہ دین میں والدین کا مقام بہت بلند ہے ، لیکن والدین کا مقام اللہ کے مقام سے بلند نہیں، ، اللہ نے انسان کو زندگی میں آزادی اور اختیار کا حق دیا ہے ، اللہ کے دیے ہوئے اختیارات دنیا میں کوئی چھین نہیں سکتا ، والدین بھی نہیں۔
ملک میں اس وقت مسلم خواتین کے حقوق کی بازیابی اور ان پر ہورہے ظلم کے سدّباب کو عنوان بناکر شریعت میں مداخلت کی کوششیں کی جارہی ہیں ، ان کوششوں کا مقابلہ خارجی سطح پر تو ہم کو کرنا ہی ہے لیکن ضروری ہے کہ داخلی سطح پر پوری سنجیدگی سے احتساب کرکے ان امور کو اصلاح کی جائے جن میں واقعتا ہمارے سماج کی عورت مظلوم ہے ، بغیر داخلی احتساب اور اصلاح کے خواتین کا اعتماد حاصل نہیں کیا جاسکتا ، اور خواتین کے اعتماد کے بغیر تحفظ شریعت کا مقابلہ جیتا نہیں جاسکتا ۔
بےراہ روہی اور فحاشی کو آزادی کا حسین عنوان دے کر لبرل ازم قدم قدم پر مسلم خواتین کو سے بہکانے کے لیے بیٹھا ہواہے ، سیاست سے لے کر میڈیا تک ہر طاقت اس کے ہاتھ میں ہے ، مسلم خواتین کو ان کے ہاتھوں کا کھلونا بننے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام نے ان کو جو حقوق دیے ہیں ان سے خواتین کو باخبر بھی کیا جائےا ور عملا ان حقوق تک ان کی رسائی ممکن بھی بنائی جائے ۔
جبری شادی میں نقصان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر لڑکی شریف ہے تو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو جیسے تیسے برداشت بھی کرلیتی ہے ،۔ لڑکیاں اگر ماں باپ کی عزت کا خیال کرنے والی ہوتی ہیں تو اس عزت کی رعایت کرتے ہوئے شرافت کی حدوں کو توڑنے سے باز رہتی ہیں ، ورنہ ان کو جب یہ احساس ہوتا ہےکہ شادی میں ان کی مرضی اور پسند کا خیال نہیں رکھا گیا ہے تو وہ پوری زندگی ایک مکروہ شخص کے ساتھ عذاب کی طرح کاٹنے کے بجائے ماں باپ کی عزت پر داغ لگا کر اپنی پسند کے لڑکے کے ساتھ فرار ہوجانے کو ترجیح دیتی ہیں، ہمارے معاشرے میں کورٹ میریج کی طرف رجحان تیزی سے بڑھا ہے اس کے پیچھے ایک بہت بڑا سبب یہ بھی ہے کہ لڑکی کو والدین پر اعتبار نہیں ہوتا کہ وہ نکاح کے معاملے میں اس کی پسند نا پسند کا خیال رکھیں گے ۔ والدین کے مرضی کی بغیر کورٹ کے ذریعہ ہونے والی شادیوں کے جو نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ ایک الگ مضمون کے متقاضی ہیں ۔
لڑکی اگر والدین اور سماج کے دباؤ میں آکر شادی سے پہلے بغاوت نہ بھی کرے تو شادی کے بعد ایسے رشتوں میں دراڑ پڑجانے کا بہت امکان موجود ہوتا ہے ، محبت نکاح کے رشتے کی بنیاد ہوتی ہے ، اگر نکاح کی بنیاد میں محبت کی مضبوطی نہ پائی جائے تو اس کی عمارت کے منہدم ہوجانے کا قوی امکان موجود رہتا ہے۔
طلاق سے زیادہ خوف اس بات کا ہوتا ہے کہ اگر لڑکا لڑکی کے معیار اور پسند کے مطابق نہیں تو ممکن ہے کہ اس کا معیار اس کی توجہ اس کے شوہر سے ہٹاکر دوسرے مردوں کی طرف لے جائے ، ان خفیہ آشنائیوں کے لیے شادی کے بعد عورت کو ملنے والی آزادی اور سوشل میڈیا کے دور میں رابطے کی آسانی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے ، اگر شرافت کی یہ حدیں شادی کے بعد ٹوٹیں تو یہ زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں ، ایک شادی شدہ عورت کی الفت اور التفات کا رخ اپنے شوہر کے بجائے کسی پرائے مرد کی طرف ہوجائے تو اس کے مفاسدکنواری لڑکی کی بے راہ روی کی بنسبت بہت زیادہ ہوتے ہیں اس لیے شریعت نے اس کی سزا بھی کنواری لڑکی کی بنسبت بہت بڑی رکھی ہے۔
زمینی سطح پر عوام سے رابطے کی وجہ سے بہت ساری برائیاں جو معاشرے کی تہوں میں چھپی ہوتی ہیں استفتاء اور سوالات کی شکل میں ہمارے سامنے روز آتی رہتی ہیں ، آئے دن ہونے والے سوالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وفاداری کی راہ سے شادی شدہ عورتوں کے قدم ڈگمگانے کے حادثات پہلے کے بالمقابل بہت تیزی کے ساتھ رونما ہورہے ہیں ،آہستہ آہستہ یہ معاملہ ایک المیہ کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے ، شوہروں کی عدم توجہ اور میڈیا کی غلط تربیت کے ساتھ ساتھ اس المیہ کے پیچھے بہت بڑا سبب نکاح کے وقت لڑکیوں کی پسند ناپسند کو نظر انداز کرنے کا بھی ہے۔
دوسرے زاویے سے دیکھیں تو نکاح میں لڑکی پر جبر کرنا خود اس مرد کے ساتھ بھی زیادتی ہے جس کے ساتھ لڑکی کا نکاح کیا گیا ہے ، کہ وہ بغیر کسی قصور کے ایک ایسی لڑکی کو زندگی بھر اپنی بیوی بناکر رکھتا ہے دل سے اس کو پسند نہیں کرتی اور محض سماج کے دباؤ کی وجہ سے اس کے ساتھ زندگی گذار رہی ہے ، ایسے رشتے میں نکاح کی برکتیں نہیں پنپ سکتیں ، اسی لیے شریعت نے بھی فریقین کے راضی ہونے کو نکاح کے مقبول ہونے کی لازمی شرط قرار دیا ہے ۔
یاد رکھیں! شریعت نے والد کو لڑکی کا سرپرست بنایا ہے مالک نہیں اور سرپرستی والد کے ہاتھوں میں لڑکی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے لیے دی گئی ہے ، اس پر جبر اور ظلم کرنے کے لیے نہیں ۔
آپ کے تبصرے