معلوم نہیں کتنے لفظوں کی کہانی

شمس الرب خان

 

وہ ہلکے ہلکے قدموں سے چلتا ہوا سفارت خانہ میں واقع اپنی آفس میں داخل ہوا۔ صبح کے گیارہ بج چکے تھے۔ آج صبح دس بجے ہی کلچرل ہاؤس میں پروگرام تھا۔ پروگرام میں شہر کے با اثر لوگ شریک تھے۔ اس کی تقریر تھی۔۔۔
” ہم سب پہلے مسلمان ہیں، شیعہ سنی بعد میں ہیں۔ ہمارا اللہ ایک، ہمارا رسول ایک، ہمارا کلمہ ایک، ہمارا قرآن ایک، ہمارے ہیرو ایک۔۔۔پھر ہم ایک دوسرے سے اتنے دور کیوں؟ ہمارے دلوں میں اتنی کدورتیں کیوں؟ آئیے، ہم سب یہ عہد کر دیتے ہیں کہ آج سے ہم مسلکی تعصب کو تیاگ دیں گے، اپنے دلوں سے بغض و عداوت کو کھرچ کھرچ کر نکال دیں گے اور ایک دوسرے کو خلوص و محبت کے ساتھ گلے لگالیں گے…”

پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔ وہ اپنی آفس میں پہونچ کر اپنی کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔ اس نے اپنا سر کرسی کی آرام دہ پشت پر ٹکادی اور ہولے سے اپنی آنکھیں موند لیں۔ اس کی سماعت میں تالیاں پھر سے گونجنے لگیں۔ وہ جھوم اٹھا۔ تالیوں کی آواز کا نشہ ہی عجیب ہوتا ہے۔ وہ اس میں دیر تک ڈوبا رہنا چاہتا تھا۔۔۔فون کی گھنٹی نے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ تہران سے وزیر کا فون تھا۔۔۔
” سنئے، آغا!”، وزیر اتنا سراسیمہ تھا کہ سلام کرنا بھی بھول گیا، ” یہاں صورتحال مخدوش ہوتی جا رہی ہے۔ مظاہروں کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آگ ملک کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے۔ بین الاقوامی برادری میں ہماری امیج بدتر ہو رہی ہے۔ دوست ممالک بھی سخت تشویش کے شکار ہیں۔ ہمارے ساتھ ہمدردی کے جذبات رکھنے والے حلقوں میں بھی بے اطمینانی پھیل رہی ہے۔”
وہ لمحہ بھر سانس لینے کے لئے رکا، پھر بولا: ” اس کی روک تھام کے لئے حکومت نے ایمرجنسی میں ایک منصوبہ بنایا ہے۔ ہم مختلف ممالک سے صحافیوں اور دانشوروں کو یہاں بلا رہے ہیں۔ ان کی شاندار ضیافت کا انتظام ہے۔ آپ بھی کم از کم دس ایسے صحافیوں کو بھیجیں جو ہمارے ہمدرد ہوں اور یہاں سے واپس لوٹ کر ہمارے مفادات کی ترجمانی کر سکیں۔”
وزیر نے فون رکھ دیا لیکن فون رکھتے رکھتے بولا: “یہ کام جلد از جلد کریں، جنگی سطح پر۔”
وزیر کے فون رکھتے ہی سفیر نے اپنے سکریٹری سے انٹرکام پر بات کی:
” ایک گھنٹہ کے اندر اندر مجھے دس صحافیوں کی فائلیں اپنی میز پر چاہئے۔ اپنے صحافیوں کی لسٹ تو آپ کے پاس ہے نا!”
” جی، آغا!” سکریٹری نے جواب دیا۔
ٹھیک پچپن منٹ کے بعد، سکریٹری فائلیں لے کر حاضر ہوا۔ فائلیں سفیر کے سامنے میز پر رکھ کر وہیں کھڑا ہو گیا۔
سفیر ایک کے بعد ایک کر کے فائلوں کو دیکھنے لگا۔ وہ ایک نظر پاسپورٹ پر دوڑاتا، پھر فائل پر منظوری کی مہر لگا کر دستخط کرتا جاتا۔۔۔
آخری فائل پر منظوری کی مہر لگا کر وہ دستخط کرنے ہی والا تھا کہ اس کی نظر دوبارہ پاسپورٹ پر پڑ گئی…
نام: علی عباس
باپ کا نام: محمد عمر
اس نے دستخط کرنے کے بجائے کراس کا نشان لگا دیا۔۔۔سکریٹری بوکھلا گیا:
” آغا، یہ جانے مانے صحافی ہیں۔ یہ ہمیشہ ہماری موافقت میں لکھتے رہتے ہیں۔”
سفیر غصہ سے آگ بگولہ ہو گیا۔ وہ کرسی پیچھے دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا اور فائل کو میز سے اٹھا کر سکریٹری کے منہ پر مارتے ہوئے دہاڑا:
” عمر نام سے مجھے گِھن آتی ہے۔۔۔”

آپ کے تبصرے

3000