جی ہاں! مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے

ریاض الدین مبارک سیاسیات

پردھان منتری نریندر مودی اپنی ریلیوں میں علی الاعلان کہتے ہیں ہم دیش کا برا چاہنے والوں کو ان کے کپڑوں سے پہچان لیا کرتے ہیں! پہلی بار یہ جملہ جب کانوں سے ٹکرایا تو یقین نہیں آیا لیکن وہی جملہ بار بار اتنی شدت سے دہرایا گیا کہ بات سچی معلوم ہونے لگی اور پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال گئی کہ جمہوریہ بھارت کا وزیر اعظم یہ کیا کہہ رہا ہے! حالانکہ یہ بات ان کے منہ سے از راہ تکلف نکلی تھی ورنہ وہ تو صاف صاف کہتے ہیں:
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
مودی جی کا یہ منتر ابھی لوگوں کی زبان پر جاری تھا کہ بی جے پی کے نیشنل جنرل سیکریٹری کیلاش وجے ورگیا نے اپنی پارٹی کو باور کرادیا کہ مودی جی سے بڑا قیافہ شناس تو وہ خود ہے جو کہتا ہے: “میں کھان پان دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ یہاں باہری اور گھس پیٹھیا کون ہے! ابھی حال کا واقعہ ہے میرے گھر کی تعمیر میں کچھ مزدور کام کر رہے تھے، انہیں دیکھتے ہی میں نے بتادیا کہ وہ لوگ بنگلادیشی ہیں کیونکہ ان کے کھانے کا طور طریقہ بالکل الگ تھا وہ صرف ‘پوہا’ کھا رہے تھے!” اب ہمارے دیش میں جو لوگ “پوہا” کھاتے ہیں وہ یہاں سے کوچ کرنے کے لئے تیار ہوجائیں! آخر تکبر اور گھمنڈ کی بھی ایک حد ہوتی ہے! وہ دن ضرور آئے گا جب ان کا غرور بھی خاک آلود ہوگا!
میر حسن کہتے ہیں:
سر کو نہ پھینک اپنے فلک پر غرور سے
تو خاک سے بنا ہے ترا گھر زمین ہے

یوپی کا وزیر اعلی یوگی کہتا ہے کہ احتجاج کرتے ہوئے اگر کسی نے “آزادی” کا نعرہ لگایا تو یہ ملک سے غداری کے مترادف ہوگا اور حکومت اس کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لینے کا مجاز ہوگی! ہم اسے ایسی کٹھور سزا دیں گے کہ آنے والی پیڑھیاں یاد کریں گی!
یوگی کا یہ بیان کوئی زبانی جمع خرچ نہیں تھا اس نے بزور قوت اسے ثابت کر کے دکھایا اور دلی میں بیٹھے حکمرانوں سے داد ودہش بھی وصول کی۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت یوپی پولیس کی بربریت ہے جو پچھلے دنوں مظاہروں میں روا رکھی گئی، جہاں تقریبا دو درجن سے زائد نوجوانوں کو گولی مار کر موت کی نیند سلادیا گیا اور سینکڑوں لوگوں کو نا کردہ گناہوں کی سزا کے طور پر جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ لاکھوں کی املاک ضائع کردی، بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو بے رحم تشدد کا نشانہ بنایا، متعدد گھروں کو لوٹا اور جی بھر کر توڑ پھوڑ مچائی!
بی جے پی کے کچھ دوسرے نیتا جو منظر نامے سے دور دور تھے انہوں نے بھی موقعہ دیکھ کر بانداز دگر اپنی حاضری درج کرائی۔ چنانچہ وزیر دفاع جناب راج ناتھ سنگھ مسیحا کے طور پر انجمن آرا ہوئے اور اعلان کیا: “خبردار! مسلمانوں کو کوئی چھو بھی نہیں سکتا، ہم ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر ان کا ڈھال بن جائیں گے!”
راج ناتھ سنگھ جی اب ہندوستانی مسلمان اس قدر بھی سادہ لوح نہیں کہ وہ آپ اور آپ کی جماعت کو سمجھ نہ سکے۔ وہ جانتا ہے یہ سب منافقانہ حرکتیں ہیں اور منافقت میں یہ سب جائز ہے سو آپ کرتے رہیں!
یوپی کے مختلف شہروں میں پولیس نے مسلمانوں کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا، ان کے سروں اور سینوں پر جس انداز سے گولیاں چلائیں اور ان پر ظلم و بربریت کا قہر ڈھایا کیا وزیر موصوف اور مسلمانوں کی مسیحائی کا دم بھرنے والے راج ناتھ سنگھ کو اس کا کوئی علم نہیں؟ محترم آپ اپنا کام کیجئے مسلمانوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیجئے وہ تو خود گرفتگی کے عالم میں کہہ رہے ہیں: زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بیزار ہے!

آج ہندوستان کی فضا مکمل طور پر مسلم مخالف ہوچکی ہے، سارے مسلمان خوف وہراس کے سائے میں جینے پر مجبور ہیں! ننھے منے بچوں کے دماغوں پر خوف مسلط ہوچکا ہے، والدین کے پاس ان کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں! یوپی میں پولیس گھروں میں گھس کر لوٹ مار مچاتے ہوئے جب کہتی ہے کہ اب ان گھروں پر تمہارا کوئی حق نہیں، یہ سب ہمارا ہے اور تمہیں چھوڑ کر جانا ہے، تب یہ قہر آلود باتیں بجلی بن کر کوندتی ہیں اور مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شاید اب یہاں سے اس کا آب ودانہ ختم ہو رہا ہے جبھی تو لوگ ٹوٹے ہوئے مکانوں میں خوف سے دبک کر بیٹھ جاتے ہیں یہان تک کہ رپورٹروں سے بھی وہ اپنے ظلم کی داستان بیان کرنے سے کتراتے ہیں۔ حکومت کی ساری مشنریاں مسلمانوں کو یا تو تنگ کر رہی ہیں یا انہیں دلاسے دے رہی ہیں! ہرش مندر اور رام چندر گوہا جیسے دانشور اور سماجی کارکن جب بلبلا کر کہنے لگتے ہیں کہ ہندوستان میں جمہوری قدریں پامال ہورہی ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اپنایا جا رہا ہے تو اس کا مطلب صاف ہوجاتا ہے کہ یہ تجزیہ نگار اور جدید عہد کے مورخ اپنی دوربین نگاہوں سے ہندوستان کا مستقبل دیکھ رہے ہیں۔ انہیں دور تک تاریکی نظر آرہی ہے اسی لئے روشنی کی جوت جگانے کے لئے وہ آواز اٹھا رہے ہیں۔ نصیرالدین شاہ جیسا لبرل جب یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ مجھے غصہ اس لئے ہے کہ ہم مسلمانوں پر امتیازی قانون تھوپا جا رہا ہے۔

آخر مسلمانوں کو آج ادھو ٹھاکرے اور کچھ دوسری ریاستوں کے لوگ یہ اطمینان دلانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں کہ ان کی اپنی ریاستوں میں ان کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی؟ کوئی مانے یا نہ مانے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو دہشت میں مبتلا کر دیا گیا ہے، موب لنچنگ میں کئی جانیں تلف ہو گئیں لیکن قانون کے ہاتھ مجرموں کے گریبانوں تک نہ پہونچ سکے بلکہ انہیں کھلے عام سراہا گیا اور مختلف اعزازات سے نوازا جاتا رہا! یہ ساری باتیں اس بات کا غماز ہیں کہ مسلمانوں کا مستقبل تاریک ہی نہیں خوفناک بھی ہے!
کچھ سیاسی مبصرین اور سول سوسائٹی کے بہت سارے لوگ یہ کہہ کر خود کو تسلی دیتے ہیں اور مسلم عوام کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مودی سرکار آئے دن بڑھتی بے روزگاری، مسلسل گرتی معیشت، آسمان چھوتی مہنگائی سے نظریں پھیر کر عوام کو ان لا یعنی چیزوں میں بھٹکا رہی ہے تاکہ اسے جواب نہ دینا پڑے۔ ممکن ہے یہ بات درست ہو مگر ان کا ہدف واضح طور پر آر ایس ایس والی آئیڈیولوجی ہے جسے نافذ کرنے کے لئے ان کے پاس یہ سنہری موقعہ ہے اور وہ اس موقعے کو کسی قیمت ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتے۔ اپنے اس کاز کو پورا کرنے کے لئے یہ لوگ عالمی پیمانے پر ہو رہی بے عزتی کو بھی برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں۔
پچھلے کچھ سالوں میں مسلمانوں کی حالت ایسی بنا دی گئی کہ انہیں ہر جگہ ملک سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ دینا پڑتا ہے۔ وہ اس مذموم رویے سے تنگ آنے کے باوصف اپنی حب الوطنی کی شہادت دیتے ہوئے جئے جا رہے تھے مگر وقت اور حالات نے اب ایسی کروٹ لی ہے کہ ان کی شہریت ہی خطرے میں پڑگئی! وہ بیچارے اپنی شہادتیں دکھا دکھا کر تھک گئے اب ان کے پاس دکھانے اور بتانے کے لئے کچھ رہا ہی نہیں۔ ان تلخ حقیقتوں کے بعد مجھے یہ لکھنے سے گریز نہیں کہ ہاں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ اسی ظلم کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمان مردوں، عورتوں اور ان کے بچوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر اتر کر صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے، دھرنے دے رہی ہے اور جام شہادت بھی نوش کر رہی ہے!
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہی
اب بھی یہاں کا مسلمان مایوس نہیں ہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کا ساتھ دینے والے سیکولر ذہن لوگ ان کے ساتھ ہیں گو کہ تھوڑے ہیں لیکن باشعور اور با ہمت ہیں، حکومت سے لوہا لینے کا جگر رکھتے ہیں۔ ان سب نے مل کر “ہم بھارت کے لوگ” ایک بینر تیار کیا ہے اور اسی سلوگن کے ساتھ ملک اور اس ملک کی وراثت کو بچانے کے لئے سنگھرش شروع کیا ہے۔ حوصلہ مندوں کا یہ قافلہ ہمت واستقلال کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، نفرت اور فاشزم کو شکست دینے کے لئے جگہ جگہ مورچے بن رہے ہیں اور سب کے دلوں کی امنگ یہی ہے کہ یہ محاذ آرائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ملک کی فضاؤں سے فرقہ واریت کا زہر کافور نہ ہوجائے اور خود ساختہ خداؤں کو اپنے قدموں سے روند نہ ڈالیں!

گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں

آپ کے تبصرے

3000