انڈین کمیونیٹی بطور خاص لبرلز ابھی اس حقیقت کا اعتراف کرنے سے گریزاں ہیں کہ ان کے اطراف کی ہر چیز بدل رہی ہے، پورا انڈین ڈسکورس بدل چکا ہے۔ یہ لوگ صرف بھرم پہ جی رہے ہیں اور ایک دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔
آج انڈین لبرلز کے لئے اصل امتحان مشہور کومیڈین کونال کامرہ نہیں جے این یو کا اسکالر شرجیل امام ہے۔ کونال کامرا پر کچھ ایئر لائنز اور دیگر ٹرانسپورٹ ریسورسز کی طرف سے عائد پابندی کی وجہ سے زبردست حمایت حاصل ہوئی ہے جبکہ شرجیل امام پر چونکہ بغاوت کا الزام لگایا گیا ہے اور اس کے ساتھ ایک دہشت گرد کا برتاؤ کیا جارہا ہے اس لئے اس سے کنارہ کشی کی جارہی ہے!
در حقیقت کونال کامرا – ارنب گوسوامی واقعہ اور شرجیل امام کی گرفتاری نے انڈین لبرلز اور دانشوروں کے دوغلے پن کو ظاہر کیا ہے۔ ظاہر ہے کونال کامرا کی حمایت کرنا آسان ہے کیونکہ اس کے خلاف کی جانے والی کارروائی اتنی بے بنیاد، من مانی اور مضحکہ خیز ہے کہ اس کارروائی کا دفاع کرنے کے لئے حکومت خود ہی ہمت نہیں جٹا پا رہی ہے۔ تاہم شرجیل امام کے حق میں آواز اٹھانا لبرل ازم کا اصل امتحان ہے۔ تشدد بھڑکانے اور نفرت کو ہوا دینے کے لئے اگر واقعی کسی کو گرفتار کرنے کی ضرورت ہے تو وہ کوئی اور نہیں بی جے پی کا ایم پی اور وزیر مالیات انوراگ ٹھاکر ہے، جس نے اپنے حامیوں سے ’غداروں کو گولی مارو’ کے نعرے لگوائے اور جامعہ ملیہ یونیورسٹی پر فائرنگ سے کامیابی حاصل کی۔ شرجیل امام کی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں، اس کی اسپیچ کے ذریعے کسی قسم کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
کامیڈین کونال کامرا کی حمایت میں ہندوستان کے لبرل حلقوں کی طرف سے بونڈر اٹھ کھڑا ہوا، انٹیلیکچول سے لے کر سیاستدان سبھی شامل ہوگئے۔ سی پی ایم اور کانگریس کے لیڈروں نے جمہوری حقوق، اظہار رائے کی آزادی میں واضح مداخلت اور ایک نقاد کو خاموش کرنے کی کوشش کی خوب مذمت کی۔ وہیں دوسری طرف شرجیل امام پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (UAPA) کے تحت بغاوت کرنے والے سخت گیر الزام پر حیران کن خاموشی اختیار کی گئی۔
شرجیل امام کے دفاع میں لبرلز کی ہچکچاہٹ تمام لبرل اصولوں کے ساتھ غداری ہے۔ کچھ لبرلز اس بغاوت کے الزام پر مکمل خاموش ہیں حالانکہ خاموشی بھی ایک طرح کی تائید ہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آسام جانے والی سڑکوں کو روکنے کی دھمکی دینا یا “چکّہ جام” کرنا بغاوت کے الزام کے لئے کافی ہے لیکن جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے ایک آرٹیکل میں واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ شرجیل کی تقریر میں بہت ساری باتوں سے اتفاق نہیں کرتے ہیں لیکن اس نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 19 (1) (a) کے تحت “اشتعال انگیز تقریر کی آزادی” بھی آزادئ اظہار رائے کے ذریعہ محفوظ رکھی گئی ہے جب تک وہ کسی واضح غیر قانونی اقدام کا سبب نہ بنے! گویا اس طرح خاموش رہ کر انڈین لبرلز اسٹیٹ کے سخت قوانین کے غلط استعمال میں برابر کے شریک ہیں۔
یہاں اس موڑ پہ ایک بات یہ بھی صاف ہوجاتی ہے کہ ہمارے لبرلز صرف اس فریڈم آف ایکسپریشن کے حق میں کھڑے ہوتے ہیں جس سے وہ اتفاق رکھتے ہیں۔ کسی نظریے سے اگر اختلاف ہے تو وہ اس کی نفی کرتے ہیں ۔ اگر ان کی تائید اس طرح مشروط ہے تو پھر وہ آزادانہ تقریر کے حق میں بالکل نہیں ہیں۔
آپ شرجیل امام کی تقریر یا اس کے نظریے سے متفق ہیں یا نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مسئلہ صرف اتنا ہے کہ کیا آپ کسی ایسے فرد کا دفاع کرنے کے لئے تیار ہیں جس کو اسٹیٹ کے ذریعہ اس کے چند لفظوں کے لئے شاطرانہ انداز میں اذیت دی جا رہی ہے۔
اصولوں کی آزمائش اسی وقت ہوتی ہے جب عدم اتفاق کی صورت میں بھی آپ کسی کا دفاع کر رہے ہوں ورنہ اگر آپ کونال کامرہ کا دفاع کر رہے ہیں اور شرجیل امام سے دوری برت رہے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہی ہوا کہ آپ اصولوں کے پابند نہیں بلکہ اپنی پسند اور ناپسند کے تابع ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوگا کہ آپ محض اپنے دوستوں یا ممتاز شخصیتوں کے لئے کھڑے ہو رہے ہیں، ہندوستانی آئین ودستور کے لئے ہرگز نہیں۔ سردمہری سے یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوگا کہ عدالتیں فیصلہ کریں گی کیونکہ اگر آخر میں وہ الزامات سے بری ہوجاتا ہے تو بھی وہ اپنی زندگی کے کئی اہم برسوں سے محروم ہوجائے گا۔
کچھ ہمارے باضمیر لبرلز کا کہنا ہے کہ شرجیل امام کا دفاع کرنے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی آمریت کے خلاف جنگ کو خطرہ ہے۔ عوامی رجحان کو جیتنے کی جنگ میں شرجیل ایک ہارنے والی لڑائی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شرجیل کی قربانی دے کر وہ شاہین باغ کی امیج اور حکومت مخالف سنگھرش کو تقویت دینے میں مدد کرسکتے ہیں۔ حالانکہ شرجیل امام کی مسلم شناخت اس کے پیچھے ایک دہشت گرد کی طرح سلوک کرنے کا بنیادی عنصر ہے۔ خبر ہے کہ دلی پولیس نے اس پر “انتہائی بنیاد پرست” ہونے کا الزام لگایا ہے اور وہ ہندوستان کو ایک “اسلامی ریاست” بنانا چاہتا ہے جس کے لئے شاہین باغ میں مظاہرین کو ورغلایا جا رہا ہے۔
یہاں یہ سوال اٹھا کر خاروں سے دامن بچاتے ہوئے آگے نہیں بڑھ سکتے کہ شرجیل کی حمایت دوسری طرف کے ’انتہا پسندوں‘ کی حمایت کے مترادف ہے۔ ہرگز نہیں! ریاست سے متعلق شرجیل کی فکر یا مزاحمت کے لئے اس کے مختلف انداز یہاں تک کہ مہاتما گاندھی کے بارے میں اس کے خیالات نئے نہیں ہیں۔ اروندھتی رائے اور ان کے خیالات سے سبھی واقف ہیں! ان کے علاوہ دوسرے اونچی ذات کے کئی ہندو بنیاد پرست دانشوروں کے اس طرح کے خیالات ہیں جن کا فورا بلا تردد یہی لبرل اسٹیبلشمنٹ دفاع کرتی ہے کیونکہ وہ انہیں اپنا ایک فرد سمجھتے ہیں لیکن ایک مسلمان طالب علم سے دوری بنائے رکھنا ان کی مجبوری ہے۔
اس قسم کے بہانے تراش کر ہمارے لبرلز کا یوں راہ فرار اختیار کرنا ان کے اصولوں کا کھوکھلا پن ظاہر کرتا ہے۔ آج ہندوستان کے آئین اور آئیڈیا آوف انڈیا کو بچانے کی لڑائی میں جب مسلمان مرد وعورت سب سے آگے ہیں، درجنوں کی جانیں جا چکی ہیں، ہزاروں افراد قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار ہیں اور ان کے گھر والوں کا چین وسکون غارت ہوچکا ہے، ان لبرل دانشوروں سے کم از کم اتنی توقع تو کی جاسکتی ہے کہ اگر کچھ اور نہیں تو اپنے لفظوں سے ہی ان کا دفاع کریں۔ آپ سے یہ مطالبہ ہرگز نہیں کہ آپ ان کے خیالات کا دفاع کریں لیکن غیر منصفانہ قانونی چارہ جوئی سے ضرور دفاع کریں۔ اور ہاں یاد رہے! یہ دفاع صرف ان مسلمانوں کے لئے نہیں ہونا چاہئیے جو لبرلز کے تخیل میں اچھے مسلمان کے درجے میں آتے ہیں!
آپ کے تبصرے