شخصیتوں کا بےجا بوجھ

شمس الرب خان

 

قوموں کی زندگی میں شخصیتوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے. نئی نسل کی کردار سازی میں ان شخصیتوں کا کردار خاص طور پر انتہائی اہم ہوتا ہے. نئی نسل کے لئے ان شخصیتوں کی زندگی اور ان کے کارنامے زندہ مثال اور نمونہ عمل کی حیثیت رکھتے ہیں جو شعوری یا لاشعوری طور پر افراد سازی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں.
یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر زندہ قوم کے پاس اپنی خاص شخصیتیں ہیں جو اس کی تہذیب اور اجتماعی شعور و عزم کی آئینہ دار ہوتی ہیں. یہ شخصیتیں وہ آئیڈیل ہوتی ہیں جن کی روشنی میں قومیں اپنی نسلوں کی کردار سازی کرتی ہیں یا کرنا چاہتی ہیں. بدلتے حالات اور ترجیحات میں بھی یہ شخصیتیں برقرار رہتی ہیں، البتہ ان کی زندگی اور کارناموں کو بدلتے حالات اور ترجیحات کے تناظر میں نئے سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے.
ترقی یافتہ اور پسماندہ قومیں دونوں کے پاس اپنی شخصیتیں ہوتی ہیں. دونوں قوموں کی شخصیتوں کی مبینہ صلاحیتوں میں بھی زیادہ فرق نہیں ہوتا. لیکن یکساں صلاحیتوں کی مالک ان شخصیات سے تاثر پذیر دونوں قوموں کی نسلیں جداگانہ صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہیں. ترقی یافتہ قومیں ترقی یافتہ افراد پیدا کرتی ہیں جبکہ پسماندہ قومیں پسماندہ افراد پیدا کرتی ہیں. جب دونوں قوموں کے آئیڈیل یکساں صلاحیتوں کے حامل ہیں تو کردار سازی میں ان کے اثرات میں یہ تفاوت کیوں ہے؟
میری ذاتی رائے کے مطابق، مبینہ طور پر تقریبا یکساں صلاحیتوں کی مالک ان شخصیتوں کے جداگانہ اثر کی وجہ فی نفسہ یہ شخصیتیں نہیں ہیں بلکہ وہ طریقہ کار ہے جس کے مطابق ان شخصیتوں کو برتا اور نئی نسل کے سامنے پیش کیا جاتا ہے.
ترقی یافتہ قومیں اپنی شخصیتوں کو اپنی نئی نسل کے سامنے ‘لانچنگ پیڈ’ کے طور پر پیش کرتی ہیں، وہ ان شخصیتوں کے ذریعہ نئی نسلوں کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ وہ ان شخصیتوں کی زندگی کو بطور مثال لیں، ان کی خوبیوں کو اپنے اندر جذب کریں، ان کے کارناموں سے واقفیت حاصل کریں اور ان سے بہتر کریں. ان سے بہتر کرنے کا جذبہ ان کے اندر مختلف نفسیاتی طریقوں سے بڑی شدت کے ساتھ بھر دیا جاتا ہے. ان شخصیتوں کو نئی نسل کے سامنے پیش کرنے کا ان کا مقصد کبھی یہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ شخصیتیں کامیابی کی اعلی سرحدیں ہیں اور ان سے آگے بڑھنا ناممکن ہے، بلکہ ان کی تمام تر توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ نئی نسل ان سے کچھ دائمی اقدار سیکھے اور عملی زندگی میں ان سے بھی بہتر کرے. اس کا مثبت نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نئی نسل کی کامیابیاں پرانی نسل کی کامیابیوں پر مستزاد ہوتی ہیں اور یہ قومیں ترقی کے راستہ میں آگے کی طرف سفر کرتی ہیں.
زوال یافتہ قوموں کا رویہ اپنی شخصیتوں کے تئیں بالکل برعکس ہوتا ہے. ان قوموں کی شخصیتیں وہ مافوق الفطرت ہستیاں ہوتی ہیں جن سے بہتر کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی ہے. اپنی شخصیتوں کو نئی نسلوں کی پہونچ سے دور، بہت دور بنانے کے لئے یہ قومیں اپنی معمولی سے معمولی شخصیتوں کے بھی اردگرد مبینہ عظمتوں کے بلندوبالا پہاڑ کھڑا کر دیتی ہیں. ایسی حالت میں ان شخصیتوں سے قریب پہونچنے کے بارے میں سوچنا بھی جرم عظیم سمجھا جاتا ہے اور ان سے بہتر کرنے کے بارے میں سوچنا تو کفر عظیم سے کم کچھ ہو ہی نہیں سکتا. جب بہتر کرنے کی سوچ ہی نہیں پیدا ہوگی تو بہتر ہوگا کیسے؟ ان سب کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر آنے والی نسل کی کامیابیاں اور کارنامے سمٹتے چلے جاتے ہیں اور قوم خود فریبیوں کے ایک ایسے دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہی جو ہر حرکت کے ساتھ گہری ہوتی چلی جاتی ہے. ترقی کی راہ میں ایسی قوموں کا سفر آگے نہیں بلکہ پیچھے کی طرف ہوتا ہے.
کئی سالوں پہلے پڑھا ہوا ایک انگریزی لطیفہ یاد آگیا. لطیفہ کا مفہوم ملاحظہ فرمائیں:
امریکی باپ(کام چور بیٹے سے): ابراہم لنکن جب تمہاری عمر کا تھا تو اپنے کپڑے خود سی لیا کرتا تھا، اپنے جوتوں کی مرمت خود کر لیا کرتا تھا اور اپنا کھانا خود تیار کرتا تھا. کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم ابراہم لنکن سے بھی زیادہ عظیم ہو؟
بیٹا: کسے خبر ہے؟ وقت بتائے گا.
ایک لمحہ کے لئے اگر ہم سیاق کو بھول کر اس لطیفہ میں مخفی شخصیتوں کو برتنے کے طریقہ پر نظر ڈالیِں، تو ترقی یافتہ اور زوال یافتہ قوموں کے طریقہ کار میں اختلاف بخوبی واضح ہو جائے گا. ایک کام چور امریکی لڑکا بھی ابراہم لنکن کو کوئی مافوق الفطرت ہستی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے. وہ یہ واضح کردیتا ہے کہ ابراہم لنکن عظیم سہی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس جیسا یا اس سے زیادہ عظیم نہیں بن سکتا ہے. ابراہم لنکن نے اپنی زندگی جی لی اور عظیم کہلایا، مجھے بھی اپنی کوشش کرنے دیجئے اور اپنی زندگی جی لینے دیجئے، پھر فیصلہ ہوگا کہ کون زیادہ عظیم تھا…
اس کے برعکس اگر یہی سوال کسی بھارتی بچہ سے یوں کیا جائے کہ کیا تم خود کو گاندھی جی سے زیادہ عظیم سمجھتے ہو؟ زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ یا تو بچہ خاموش ہو جائے گا یا ہکلاتے ہوئے اگر کچھ بول بھی پائے گا تو شاید کہے گا کہ نہیں، میں تو ان کے چرنوں کے گرد کو بھی نہیں پہونچ سکتا. اس پر شاید اس کی پیٹھ تھپتھپائی جاتی اور شاباشی دی جاتی. عجیب لوگ ہیں قدم بڑھانے سے پہلے خود ہی اپنے قدم کاٹ لیتے ہیں، پھر بلبلاتے ہیں کہ چلا ہی نہیں جاتا.
پیغام بالکل واضح ہے. اگر زوال یافتہ قومیں ترقی کے راستہ پر گامزن ہونا چاہتی ہیں تو انہیں شخصیتوں کے اس بے جا طلسم کو توڑنا پڑے گا. انہیں یہ سیکھنا پڑے گا کہ شخصیتیں آگے کی طرف بڑھنا سکھاتی ہیں، پیچھے کی طرف دوڑنا نہیں. انہیں آنے والی نسلوں کو یہ بتلانا پڑے گا کہ ان کے کامیابیوں اور کارناموں کی کوئی سرحد نہیں ہے. ان کے سامنے وسیع میدان ہے جس میں تمام لوگوں کے ساتھ اس کا دوڑ کا مقابلہ ہے. دوڑ کا مقابلہ ختم ہونے کے بعد ہی یہ فیصلہ ہوگا کہ کون پہلے مقام پر آیا اور کون آخری. اس لئے بلا اندیشہ دوڑو!
زوال یافتہ قومیں اکثر احترام شخصیات کے نام پر خلط مبحث کا شکار ہو جاتی ہیں. ان کے نزدیک احترام شخصیات کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ آپ ان سے بہتر کرنے یا ہونے کے بارے میں سوچیں بھی نہ. یہ انتہائی گمراہ کن اور ہلاکت خیز نظریہ ہے. مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ یہ کہے کہ میں سیاست کے میدان میں گاندھی جی سے بھی سے اچھا کروں گا، یا یہ کہے کہ میں سائنس کے میدان میں آئنسٹائن سے بھی بڑا بنوں گا، تو کیا اس سے ان شخصیات کے احترام میں کوئی کمی واقع ہو جائے گی؟ کیا یہ شخصیات آسمان سے ڈائریکٹ زمین پر اتری تھیں؟ کیا ان کے بارے میں کوئی نازل کردہ وحی ہے کہ کوئی ان سے اچھا کر ہی نہیں سکتا. درحقیقت یہ محض ایک ڈھکوسلہ ہے اور احترام شخصیات کا صحیح مفہوم نہ سمجھ پانے کا نتیجہ ہے. قوموں کی سوچ اور ان کا دائرہ کار جب سمٹتا ہے، تو ان کو سنگ میل ہی منزل راہ نظر آنے لگتا ہے.
اگر کسی زوال یافتہ قوم کو ترقی یافتہ قوم بننا ہے، تو اسے پہلے اپنی سوچ میں بنیادی تبدیلی لانی پڑے گی، احترام شخصیات کا صحیح مفہوم سمجھنا پڑے گا اور شخصیتوں کو بے جا بوجھ نہیں بلکہ محرک کے طور پر برتنا پڑے گا. سوچ میں یہ تبدیلی ہی ترقی کی طرف اس قوم کا پہلا قدم ہوگا.
ملاحظہ: “ترقی یافتہ” اور “زوال یافتہ” قوموں کی اصطلاحیں صرف ان مشترک مفاہیم تک محدود ہیں جو جائز طور پر “ترقی” یا “زوال” کا معیار ہیں، نیز شخصیتوں کی اس بحث سے وہ شخصیتیں مستثنی ہیں جو شرعی دلائل کے بموجب بلاشبہہ سب سے افضل ہیں ـ

آپ کے تبصرے

3000