پولیس کا تشدد کیمرے میں قید لیکن جوابدہی سے آزاد

ریاض الدین مبارک سیاسیات

15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں پولیس نے طلبہ پر جس تشدد اور بربریت کا کھلے عام مظاہرہ کیا وہ یقینی طور پر ناقابل معافی ہے۔ اب پولیس کو اگر کٹگھرے میں کھڑا کرکے ان سے پوچھ تاچھ نہیں کی جا رہی ہے تو عدالتوں کو آگے بڑھ کر اپنا فرض نبھانا چاہئیے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہونچانا چاہئیے۔ آخر ہم ایک مہذب سماج میں جی رہے ہیں جہاں قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے رکھنا عدالتوں کا ہی کام ہے۔


جامعہ میں CAA کے خلاف مظاہرین پر مشتمل طلبہ کورآرڈینیشن تنظیم کے ذریعہ جاری کردہ ویڈیوز نہ صرف طلبہ کے ثبوتوں کی تصدیق کرتی ہیں بلکہ دلی پولیس کو سیدھا سیدھا کٹگھرے میں کھڑا کرتی ہیں۔ یہ ویڈیوز رگوں میں دوڑتے خون کو منجمد کردینے والے بھیانک پیغام کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ اور وہ یہ کہ ایک پولیس فورس جو خود کو پروفیشنل کہتی ہے وہ کسی یونیورسٹی کی لائبریری میں گھس کر نہتے طلبہ پر بے شرمی کے ساتھ اندھا دھند حملہ کر سکتی ہے اور پھر وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کر سکتی ہے۔
دو مہینوں سے زیادہ دن بیت گئے لیکن یونیورسٹی اور طلبہ کے ذریعہ پولیس کے خلاف کی گئی شکایتوں پر اب تک کوئی FIR درج نہیں کی جاسکی ہے۔ اس سلسلے میں پولیس کی تمام تردید کہ وہ لائبریری میں داخل ہی نہیں ہوئی اور اسی طرح اس کے سبھی دلائل کہ وہ پتھراؤ کرنے والے فسادیوں کا تعاقب کر رہی تھی، سب کے سب انتہائی قابل اعتراض ہیں۔ دہلی پولیس کو اس بات کا جواب دینا چاہئیے کہ 15 دسمبر 2019 کی شام کو یونیورسٹی کیمپس میں فساد کے اسباب سمیت، ہیلمٹ، شیلڈ اور جیکٹس میں وردی والے افراد ایک لائبریری کا تقدس پائمال کرتے ہوئے اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کو روندتے ہوئے کیوں دکھائی دیتے ہیں؟ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ایک منصفانہ تحقیقات کی جائے اور قصورواروں کو فوری طور پر سزا دی جائے۔


بظاہر یوں لگتا ہے کہ دلی پولیس کی صریح زیادتیاں اور سزا سے کھلی چھوٹ، ایک بڑے فریم ورک کے ذریعہ اس قابل بنا دی گئی ہے کہ شہریوں کے احتجاج جیسے بنیادی حق کو شکوک وشبہات کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور مظاہرہ کرنے والوں کو anti national یعنی ملک دشمن کہہ دیا جاتا ہے۔
پچھلے کچھ دنوں میں کم از کم دو طاقتور اور موثر آوازوں نے ایسے فریم ورک کے خطرات کی نشاندہی کی ہے جو ملٹی ڈیموکریسی میں افراد کی آزادی اور وہاں کی اقلیتوں کے احترام کو درپیش ہے۔ ایک انتہائی ضروری اصلاحی کورس کی طرف پہلے قدم کے طور پر، دلی پولیس اور اس کے سیاسی آقاؤں کو یہ بات غور سے سننا اچھا ہوگا کہ مہاراشٹر کے بیڈ میں مظاہرے کی اجازت دینے کے خلاف ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے آرڈر کو بر طرف کرتے ہوئے، بامبے ہائی کورٹ کے اورنگ آباد بنچ نے کہا: “یہ عدالت اس بات کی صاف وضاحت کرتی ہے کہ ایسے افراد کو غدار یا ملک دشمن نہیں کہا جاسکتا جو ایک قانون کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تو صرف ایک احتجاجی عمل ہے اور وہ بھی فقط CAA کی وجہ سے حکومت کے خلاف ہے۔” احمد آباد میں سنیچر کے روز خطاب کرتے ہوئے جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے اس اختلاف رائے کو “جمہوریت کی حفاظت کا ضامن” قرار دیا۔ انہوں نے یہ بات کھل کر کہی کہ جمہوریت کا حقیقی امتحان یہی ہے کہ وہاں ایسی جگہوں کی تخلیق کی جائے اور اس کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے جہاں انتقامی کارروائی سے نڈر ہو کر ہر فرد اپنی رائے کا اظہار کر سکے۔ انہوں نے مزید کہا: “ایک ریاست جو قانون کی سیادت کا پابند ہے، اسے اس بات کو یقینی بنانا چاہئیے کہ ریاستی کارندے جائز اور پرامن احتجاج پر قابو پانے کے لئے کام نہیں کرتے بلکہ تبادلۂ خیالات کے لئے سازگار ماحول پیدا کرتے ہیں۔”


جامعہ ٹیپ، بامبے ہائی کورٹ کا اورنگ آباد بینچ اور سپریم کورٹ کے جج سبھوں نے ایک ہی احتیاطی نوٹ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اختلاف رائے اور مظاہرے مشورہ جاتی جمہوریت میں پولیس کریک ڈاؤن نہیں بلکہ حکومت سے غور وخوض کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ابھی پچھلے پیر کو یہ دہراتے ہوئے کہ احتجاج کا حق ‘بنیادی’ ہے، شاہین باغ میں مظاہرین سے بات چیت کرنے اور دھرنے کا مقام تبدیل کرنے پر انہیں رضامند کرنے کے لئے ایک سابق چیف انفارمیشن کمشنر کے تعاون کے ساتھ دو سینئر وکلاء کو بطور ثالث مقرر کرکے، سپریم کورٹ نے بھی احتجاج کرنے کے حق پر اپنی اجازت کی مہر لگا دی ہے۔ لہذا دلی پولیس اگر جوابدہی طے کرنے سے کتراتی ہے تو عدالتوں کو آگے بڑھ کر ان کی یقین دہانی کی بات چیت کرنی چاہئے اور نہتے طلبہ پر قہر ڈھانے والے مجرموں کو سزا بھی دلوانی چاہئیے!

آپ کے تبصرے

3000